زرعی شعبے کا بجٹ میں تمام ٹیکسز ختم کرنے کا مطالبہ

زراعت پر ٹیکس ختم کرنے سے جی ڈی پی میں ایک ہزار ارب کا اضافہ ہوسکتا ہے، ماہرین

زراعت پر ٹیکس ختم کرنے سے جی ڈی پی میں ایک ہزار ارب کا اضافہ ہوسکتا ہے، ماہرین فوٹو: رائٹرز/ فائل

زرعی ماہرین نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ اگر زراعت کے شعبے پر عائد ٹیکس ختم کر دیے جائیں تو جی ڈی پی کی مجموعی مالیت میں 1ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس وقت ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 25فیصد ہے، اگر ہر سال اس میں 2 سے 3 فیصد اضافہ کر دیا جائے تو آئندہ 5 سال میں پاکستان دنیا میں زرعی اجناس ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہو گا اور بیرونی قرضے لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ان خیالات کا اظہار فارمرز ایسوسی ایٹس پاکستان کے صدر ڈاکٹر طارق بچہ، سابق صوبائی وزیر زراعت چوہدری سلطان علی اور کسان بورڈ پاکستان کے صدر سردار ظفر حسین نے اپنی بجٹ تجاویز میں کیا۔ زرعی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر آئندہ 10برس میں پانی ذخیرہ کرنے والا کوئی بڑا ڈیم نہ بنا تو نہ صرف ملکی زراعت بری طرح متاثر ہو گی بلکہ پینے کے صاف پانی کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے اور کپاس کی پیداوار کم ہو نے سے ٹیکسٹائل برآمدات میں نمایاں کمی کا خدشہ ہے لہٰذا آئندہ بجٹ میں بڑے ڈیموں کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں۔


انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے موٹروے اور میٹروبس جیسے بڑے منصوبے مکمل کر کے جہاں اتنا بڑا کریڈٹ لیا ہے وہاں کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کر کے بڑا کریڈٹ لے سکتی ہے کیونکہ کالا باغ ڈیم واحد منصوبہ ہے جو آئندہ 3 سے 4 سال میں مکمل ہو سکتا ہے جبکہ دیامیر بھاشا ڈیم سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر میں 10سے15سال لگیں گے۔ زرعی ماہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت زرعی مداخل پر سیلز ٹیکس سمیت دیگر ٹیکس عائد ہیں جس کی وجہ سے کسانوں کو مہنگی کھاد، زرعی دوائیں اور زرعی مشینری خریدنی پڑ رہی ہے جبکہ ڈیزل بھی بہت مہنگا ہو چکا ہے جس کے باعث زرعی پیداواری لاگت بہت بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے زرعی اجناس کی پیداوار کم ہو رہی ہے، کبھی ہمیں آلو، پیاز، ادرک، کپاس سمیت دیگر اشیا درآمد کرنا پڑتی ہیں، زراعت واحد شعبہ ہے جس کو ترقی دے کر ملک میں مہنگائی اور غربت کو کم کیا جا سکتا ہے ۔

زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں صنعت و تجارت کے شعبے کے ساتھ زراعت کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ زراعت کو ترقی دیے بغیر ملکی معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے کہاکہ آئندہ 10سے 15 برسوں میں غذائی بحران کا خدشہ ہے جس کے لیے پاکستان کو ابھی سے حکمت عملی اپنانا ہو گی اور کھانے پینے کی اشیا کی پیداوار کو بڑھانا ہو گا۔انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ آئندہ بجٹ میں چھوٹے کاشت کاروں کے لیے زرعی قرضے کا ہدف 700ارب روپے مختص کیاجائے اور یہ قرضے انہیں نہایت کم شرح سود پر دیے جائیں، زرعی مداخل پر سیلز ٹیکس ختم کیا جائے اور زرعی مشینری کو ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنی کیا جائے۔ زرعی ماہرین نے حکومت کو تجویز دی کہ کسانوں کو تحفظ دینے کے لیے بھارت سے واہگہ بارڈر کے راستے پھل اور سبزیوں کی درآمد پر پابندی لگائی جائے۔
Load Next Story