سقوط ڈھاکا اور بنگلہ دیش کی ترقی

پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کی تجارت میں ٹاپ ٹوئنٹی ملکوں کی فہرست میں بنگلہ دیش کا نام بھی آتا ہے

آج 16دسمبر ہے، 14 اگست 1947 کو براعظم ایشیا میں واقع برصغیرکے دو حصے آزاد ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک جوکہ خلیج بنگال کے کنارے واقع تھا، اسے مشرقی پاکستان کا نام دیا گیا اور دوسرا حصہ جوکہ بحر ہند میں واقع بحیرہ عرب کے کنارے آباد تھا اسے مغربی پاکستان کا نام دیا گیا۔

بھارت 15اگست کو آزاد ہوا تھا۔ دونوں حصے مذہبی رشتوں کی بنیاد پر باہمی اخوت و محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر نوزائیدہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے مصروف عمل تھے اور ابھی 24 برس گزرے ہی تھے کہ یکایک 16دسمبر 1971 آ پہنچا اور سقوط ڈھاکا برپا کرنے کے لیے بھارت کئی سالوں سے تیاری کر رہا تھا لیکن مشرقی بازو کے عوام اس کے لیے تیار نہ تھے۔

ابھی ایک برس ہی گزرا تھا کہ دسمبر 1970 میں دونوں حصوں کے انتخابات ہوئے جس میں مشرقی پاکستان کی 162 قومی اسمبلی کی سیٹوں میں سے 160 پر عوامی لیگ براجمان ہوگئی اور انتقال اقتدارکا مطالبہ کیا جانے لگا جو بالآخر بنگلہ دیش بننے تک جا پہنچا۔

آج کے کالم میں بنگلہ دیش سے آنے والے کئی افراد سے کی گئی گفتگو کے حوالے سے ان کی کچھ یادیں قید تحریر میں لانا مقصود ہے۔ واضح رہے کہ ان دونوں حصوں کے درمیان باہمی تجارت بھی زوروں پر تھی۔ مغربی پاکستان سے اربوں روپے مالیت کا سامان مشرقی پاکستان بذریعہ بحری جہاز اور تھوڑا بہت بذریعہ ہوائی جہاز بھیجا جاتا تھا۔

اسی طرح مشرقی پاکستان سے وہاں کے پھل مثلاً کٹھل، لیچی، انناس، ناریل اور پٹ سن کی مصنوعات، گھریلو دستکاریوں کا سامان، کچھ جڑی بوٹیاں، پان، چائے کی پتی اور دیگر کئی اشیا کی تجارت ہوتی تھی اور یہ سلسلہ نومبر 1971 تک چلتا رہا۔ سقوط ڈھاکا کے کچھ عرصے کے بعد بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔

اس وقت اگر اسی تجارتی سلسلے کو بدستور دوبارہ شروع کر لیا جاتا تو امید تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان بھائی چارے کی فضا دوبارہ قائم ہو سکتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ عوامی لیگ کی الیکشن مہم بہت جارحانہ تھی، لیکن انتخابات کے بعد مارچ 1971تک عوامی لیگ تشدد اور سول نافرمانی پر اتر آئی تھی۔

ان تمام باتوں کے باوجود مجموعی طور پر بنگلہ دیش کے اصل باسی 1970 میں پاکستان سے علیحدگی کے حق میں نہ تھے۔ وہاں سے آنے والے ایک شخص عطا کا کہنا تھا کہ انھیں یاد ہے کہ 1967 سے 1969 تک لال ڈگی میدان چٹاگانگ میں 14 اگست والے روز یوم آزادی کے سلسلے میں میلا لگتا تھا جس میں مشرقی پاکستان کے عوام کی بھرپور شرکت ہوتی تھی۔

احمد اور ان کے بھائی اسماعیل اسلامیہ ماڈل اسکول میں کلاس تھری اور فور میں زیر تعلیم تھے۔ 1968 اور 1969 میں ان کی کلاس کے دیگر طلبا جس میں ٹی کمپنی کے نام سے گروپ میں احتشام، صداقت، شمعون، عبدالاحد، شمیم اور دیگر طلبا میں کسی بھی قسم کا کوئی تعصب تک موجود نہیں تھا۔

1967 میں انھوں نے دیکھا کہ صدر ایوب خان کھلی جیپ میں گورنر مشرقی پاکستان نعیم خان کے ساتھ چالیس کوارٹر پہاڑ تلی کی سڑک سے گزرے اور بنگالی عوام والہانہ طور پر ان کا استقبال کر رہے تھے۔


اسی محلے 40 کوارٹر کی تالاب کے سامنے بیٹھ کر عبدالرزاق کے صاحبزادے عبدالحنان، عبدالمنان، عبدالصمد اور دیگر بنگالی طلبا مارچ 1969 میں شیخ مجیب کی تقریر پر تبصرہ کر رہے تھے لیکن اس میں علیحدگی کا کوئی شائبہ تک نہ تھا اور عوام کی ایسی سوچ تک نہ تھی، لیکن مارچ 1971 کے بعد مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ہوا۔ جس کے نتیجے میں بالآخر بنگالی عوام کو اس بات کا احساس ہوا کہ اب انھیں انتقال اقتدار نہیں دیا جائے گا۔

دلوں میں نفرت بڑھتی رہی اور بالآخر 16دسمبر کو سقوط ڈھاکا رونما ہوا۔ 24 برس ایک ساتھ رہنے والے آپس میں محبت و یگانگت کا ثبوت دینے والے، اسلام کے رشتے میں بندھے ہوئے افراد کے دونوں حصوں کو علیحدہ ہونا تھا یا علیحدہ کرنا تھا تو اس کے بہت سے سیاسی حل تلاش کیے جا سکتے تھے، لیکن عالمی قوتوں اور بھارت کے اثر و رسوخ نے بلکہ براہ راست مداخلت کے باعث شاید ایسا نہ ہو سکا۔

سقوط ڈھاکا کے کئی سال بعد حالات قدرے بہتر ہوئے توکئی تاجر کارخانے دار جوکہ اپنا کاروبار اور کارخانے بنگلہ دیش چھوڑ کر آئے تھے ان میں کئی وہاں دوبارہ گئے۔

دیانت دین گروپ چکوال کے کئی افراد جوکہ لاہور میں مقیم ہیں ان میں سے کئی لوگوں نے بنگلہ دیش واپس جا کر اپنے کاروبار کا کچھ نہ کچھ حصہ فروخت بھی کیا۔

اس کے علاوہ پاکستان میں بجلی بحران کے باعث کئی صنعتکاروں نے بنگلہ دیش کا رخ کیا اور وہاں چھوٹے بڑے ٹیکسٹائل یونٹس لگائے۔ جس کی بدولت گزشتہ 25 سے 30 برسوں میں بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برآمدات پاکستان سے بڑھ کر دگنی ہو چکی ہیں۔

پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کی تجارت میں ٹاپ ٹوئنٹی ملکوں کی فہرست میں بنگلہ دیش کا نام بھی آتا ہے۔ بنگلہ دیش بڑی مقدار میں کاٹن یارن، کپاس اور دیگر کئی اشیا درآمد کرتا ہے۔

پاکستان چائے کی پتی، پٹ سن سے متعلقہ مصنوعات اور کئی اقسام کے پھل اور دیگر کئی اشیا بنگلہ دیش سے درآمد کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کو باآسانی بڑھایا جاسکتا ہے۔

پاکستان دیگر ممالک کے ساتھ اپنی تجارت بڑھانے کا خواہاں ہے لیکن ان تمام تر تجارتی اعداد و شمار اور تجارتی اشیا سے متعلق بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج بھی ہم دونوں ممالک اسی طرح تجارتی سلسلے کو دوبارہ شروع کر سکتے ہیں جوکہ سقوط ڈھاکا کے باعث منقطع ہو چکا تھا۔ 1971 سے قبل زیادہ تر تجارت اور باہمی آمد و رفت بذریعہ بحری جہاز ہوا کرتی تھی۔ چٹا گانگ کی بندرگاہ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی تجارتی بندرگاہ ہے۔

بنگلہ دیش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں زمین کی قیمت نہیں بڑھی، بجلی، گیس پانی کی قیمت نہیں بڑھی، حکومت کارخانہ داروں کو ہر طرح کی سہولت دے رہی ہے لہٰذا وہاں کارخانے لگ رہے ہیں اور پاکستان میں زمین کی قیمت میں سیکڑوں گنا اضافہ ہوا، بجلی، گیس، پانی کی قیمت بڑھنے کا ہوش ربا سلسلہ جاری ہے لہٰذا یہاں اب نئے کارخانے نہیں لگتے۔ کیا ہم اپنی ترقی کے لیے بنگلہ دیش سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟
Load Next Story