بہتر معاشی حکمت عملی
سیاسی استحکام کسی ملک کی معیشت کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے
پاکستان کی معیشت کے لیے حالیہ دو تین ماہ خاصے اہم رہے ہیں، اس عرصے میں روپے کی قدر میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے، اسٹاک مارکیٹ کی حالت بہتر ہوئی ہے، غیرملکی سرمایہ کاری کے معاہدے اور ایم او یوز پر دستخط ہونے کے بھی معیشت پر مثبت اثرات پڑے ہیں۔پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی بتدریج کم ہورہے ہیں۔
گزشتہ روز حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پھر کمی کردی ہے ۔ پٹرول 14 روپے فی لیٹر سستا کیا گیا ہے،مٹی کے تیل کی قیمت میں فی لیٹر 10روپے 14پیسے کی کمی کی گئی ہے ،لائٹ ڈیزل آئل 11 روپے 29 پیسے جب کہ ڈیزل 13 روپے 50 پیسے فی لیٹر سستا کر دیاگیا ہے۔ قیمتیں آیندہ 15 دن تک نافذ رہیں گی۔
پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں جمعے کو بھی تیزی کا تسلسل برقرار رہا۔ یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن آف پاکستان نے ملک بھر کے تمام یوٹیلیٹی اسٹورز پر برینڈڈ چائے کی پتی کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان اور کویت نے مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے سات معاہدوں اور تین مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کیے جب کہ سعودی عرب نے پاکستان میں موجود اپنے 3 ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کردی ہے۔ اس کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کررہا ہے، آئی ایم ایف بھی پاکستان کی معاشی و مالیاتی اصلاحات و اقدامات سے مطمئن نظر آرہا ہے۔
ان عوامل نے مل کر پاکستانی معیشت کی تصویر کو بہتر کیا ہے، غیرملکی سرمایہ کاری کسی بھی ملک کی معیشت کو متحرک کرنے کا انجن ہوتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ عالمی سرمایہ کار اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے بہتر سمجھتے ہیں اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہوتا ہے۔
براہ راست غیرملکی سرمایہ کار، ایسے ممالک کو سرمائے کے ساتھ ساتھ اسکلز اور ٹیکنالوجی بھی فراہم کرتے ہیں، جس کی بدولت مقامی تعلیم یافتہ طبقے کو جدید ٹیکنالوجی سے آگاہی ہوتی ہے اور اس ملک میں ہنرمندوں کی تعداد میں خاطرخوا اضافہ ہوتا ہے۔
ناخواندہ اور غیرتربیت یافتہ مزدور طبقے کو بھی جہاں روزگار ملتا ہے وہاں انھیں فنی مہارت حاصل کرنے کا بھی موقع مل جاتاہے۔ یوں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی حکومت ملک میں کاروباری ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھایا جا سکے، اس سلسلے میں سرمایہ کار دوست اقتصادی اور مالیاتی پالیسیز کی ضرورت ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ یقین ہو کہ ان کا سرمایہ محفوظ ہے اور منافع بھی اچھا ہے۔
کم ٹیکس کی شرح یا دیگر ٹیکس مراعات، نجی املاک کے حقوق کا تحفظ، قرضوں اور فنڈنگ تک رسائی، اور بنیادی ڈھانچہ جو سرمایہ کاری کے ثمرات کو مارکیٹ تک پہنچنے کی اجازت دیتا ہے، وہ چند مراعات ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ 'معاشی بحالی منصوبہ' کے عنوان سے تیار کردہ قومی حکمت عملی کا مقصد پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی مسائل اور بحرانوں سے نجات دلانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔
منصوبے کے تحت زراعت، لائیوا سٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبوں میں پاکستان کی اصل صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا، اور ان شعبوں کے ذریعے پاکستان کی مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے جاری کیا جانے والا یہ منصوبہ درست سمت میں ایک قدم ہے ، اور اس کے دور رس اثرات معیشت پر مرتب ہوں گے ۔
پاکستان کی معیشت میں اپنا پوٹینشل موجود ہے کہ وہ موجودہ معاشی بحران پر بآسانی قابو پا سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس خطے اور ایشیا کا ایک بڑا اقتصادی کھلاڑی ہونے کے تمام مواقع موجود ہیں۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، مستحکم اقتصادی پالیسیوں سے پاکستان کی معیشت 2047 تک 2 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے ۔
پاکستان معاشی ترقی کی راہ پر چل پڑا، معاشی اعداد و شمار اور مہنگائی سے متعلق اعشاریے جاری کرنے والے گزشتہ دنوں عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ملک دنیا کے سستے ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ورلڈ اسٹیسٹکس ویب سائٹ نے نئی رینکنگ جاری کر دی جس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بنیادی ضروریات زندگی، اشیائے خورونوش، رہائش اور کرائے شہریوں کی قوت خرید میں ہیں جس کے باعث اسے سستا ملک قرار دیا تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق 23-2022 کے دوران وینز ویلا میں مہنگائی کی شرح 398 فیصد، شام میں 252 فیصد، لبنان میں 139 فیصد، ترکی 47.83 فیصد، مصر 36.5 فیصد جب کہ پاکستان میں 26.89 فیصد رہی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں آئی ٹی اور غیرملکی سرمایہ کاری سے مختلف شعبوں میں خاطر خواہ ترقی ہو رہی ہے۔
پاکستان معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ کرنسی کی قدر میں ستمبر کے اوائل سے ہی خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ روپے کی مضبوطی سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملنے کا امکان ہے۔ ملکی معیشت بارے جاری کردہ ایک رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023 میں اپنے تجارتی خسارے میں 40 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 85 فیصد تک کم کرنے میں نمایاں پیش رفت دیکھی گئی، جو ادائیگیوں کے بہتر توازن کو ظاہر کرتا ہے۔
جی ڈی پی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 27.1 فیصد اضافے کے ساتھ غیرمعمولی نمو دکھائی دی جو ملکی ترقی میں مثبت علامت ہے،اقتصادی ماہرین کے مطابق ایک مستحکم اور مستقل اقتصادی پالیسی فریم ورک کا ہونا ضروری ہے، جو سیاسی تبدیلیوں سے مشروط نہ ہو اور جو سرمایہ کاروں کو طویل مدتی منصوبہ بندی کے لیے درکار اعتماد فراہم کر سکے۔
ماہرین کے مطابق اقتصادی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے مجموعی اقتصادی ماڈل میں پائیدار اصلاحات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ برآمدات میں تنوع اور تجارت کو فروغ دینے سے پاکستان کو زرمبادلہ کمانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس ضمن میں اقتصادی پالیسیاں ایک طویل المدتی وژن کے ساتھ تیار کی جانی چاہئیں جس میں ملک کی اقتصادی صلاحیت، آبادیاتی رجحانات اور عالمی اقتصادی تبدیلیوں کو مدنظر رکھا جائے۔
اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سلسلے میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان چارٹر آف اکانومی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور شفاف اور جوابدہ طرز حکمرانی اداروں میں اعتماد پیدا کرنے اور معاشی پالیسیوں کو موثر طریقے سے لاگو کرنے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔
مبصرین کے مطابق یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ پاکستان اپنے منفرد محل وقوع کی وجہ سے خطے میں اہم جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے، جو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور چین کے سنگم پر واقع ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان CPEC میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم منصوبہ ہے اور CPEC چین کے مغربی علاقوں کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے جوڑتا ہے، جس سے چین کو بحیرہ عرب تک رسائی ملتی ہے۔
اس منظرنامے کو دیکھا جائے تو پاکستان کی حالیہ معاشی کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں، اگر ملکی معیشت اسی راستے پر چلتی رہی اور پالیسیوں کا تسلسل جاری رہا تو آنے والے ایک دو برس میں پاکستان اپنی اقتصادی مشکلات پر بآسانی قابو پا لے گا جب کہ ڈالر کی قیمت بھی مناسب حد تک مستحکم سطح پر آ جائے گی۔
سیاسی استحکام کسی ملک کی معیشت کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ پچھلے پانچ سات برس میں پاکستان میں جو سیاسی انتشار برپا رہا ہے، اس نے سب سے زیادہ معیشت کو متاثر کیا ہے۔ سیاسی انتشار، جلاؤ گھیراؤ اور آئے روز کے دھرنوں اور مارچز نے ملکی معیشت کو دیوالیہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ معاشی بحران اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔
اب جومعیشت کو استحکام مل رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ سیاسی انتشار، گھیراؤ جلاؤ، دھرنوں اور مارچز کا خاتمہ ہے۔ اب ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہیے کہ ان کی متشدد اور جارحانہ سیاست ملکی معیشت کو ہی نہیں بلکہ ملک کو بھی برباد کر سکتی ہے۔
گزشتہ روز حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پھر کمی کردی ہے ۔ پٹرول 14 روپے فی لیٹر سستا کیا گیا ہے،مٹی کے تیل کی قیمت میں فی لیٹر 10روپے 14پیسے کی کمی کی گئی ہے ،لائٹ ڈیزل آئل 11 روپے 29 پیسے جب کہ ڈیزل 13 روپے 50 پیسے فی لیٹر سستا کر دیاگیا ہے۔ قیمتیں آیندہ 15 دن تک نافذ رہیں گی۔
پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں جمعے کو بھی تیزی کا تسلسل برقرار رہا۔ یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن آف پاکستان نے ملک بھر کے تمام یوٹیلیٹی اسٹورز پر برینڈڈ چائے کی پتی کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان اور کویت نے مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے سات معاہدوں اور تین مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کیے جب کہ سعودی عرب نے پاکستان میں موجود اپنے 3 ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کردی ہے۔ اس کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کررہا ہے، آئی ایم ایف بھی پاکستان کی معاشی و مالیاتی اصلاحات و اقدامات سے مطمئن نظر آرہا ہے۔
ان عوامل نے مل کر پاکستانی معیشت کی تصویر کو بہتر کیا ہے، غیرملکی سرمایہ کاری کسی بھی ملک کی معیشت کو متحرک کرنے کا انجن ہوتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ عالمی سرمایہ کار اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے بہتر سمجھتے ہیں اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہوتا ہے۔
براہ راست غیرملکی سرمایہ کار، ایسے ممالک کو سرمائے کے ساتھ ساتھ اسکلز اور ٹیکنالوجی بھی فراہم کرتے ہیں، جس کی بدولت مقامی تعلیم یافتہ طبقے کو جدید ٹیکنالوجی سے آگاہی ہوتی ہے اور اس ملک میں ہنرمندوں کی تعداد میں خاطرخوا اضافہ ہوتا ہے۔
ناخواندہ اور غیرتربیت یافتہ مزدور طبقے کو بھی جہاں روزگار ملتا ہے وہاں انھیں فنی مہارت حاصل کرنے کا بھی موقع مل جاتاہے۔ یوں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی حکومت ملک میں کاروباری ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھایا جا سکے، اس سلسلے میں سرمایہ کار دوست اقتصادی اور مالیاتی پالیسیز کی ضرورت ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ یقین ہو کہ ان کا سرمایہ محفوظ ہے اور منافع بھی اچھا ہے۔
کم ٹیکس کی شرح یا دیگر ٹیکس مراعات، نجی املاک کے حقوق کا تحفظ، قرضوں اور فنڈنگ تک رسائی، اور بنیادی ڈھانچہ جو سرمایہ کاری کے ثمرات کو مارکیٹ تک پہنچنے کی اجازت دیتا ہے، وہ چند مراعات ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ 'معاشی بحالی منصوبہ' کے عنوان سے تیار کردہ قومی حکمت عملی کا مقصد پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی مسائل اور بحرانوں سے نجات دلانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔
منصوبے کے تحت زراعت، لائیوا سٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبوں میں پاکستان کی اصل صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا، اور ان شعبوں کے ذریعے پاکستان کی مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے جاری کیا جانے والا یہ منصوبہ درست سمت میں ایک قدم ہے ، اور اس کے دور رس اثرات معیشت پر مرتب ہوں گے ۔
پاکستان کی معیشت میں اپنا پوٹینشل موجود ہے کہ وہ موجودہ معاشی بحران پر بآسانی قابو پا سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس خطے اور ایشیا کا ایک بڑا اقتصادی کھلاڑی ہونے کے تمام مواقع موجود ہیں۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، مستحکم اقتصادی پالیسیوں سے پاکستان کی معیشت 2047 تک 2 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے ۔
پاکستان معاشی ترقی کی راہ پر چل پڑا، معاشی اعداد و شمار اور مہنگائی سے متعلق اعشاریے جاری کرنے والے گزشتہ دنوں عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ملک دنیا کے سستے ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ورلڈ اسٹیسٹکس ویب سائٹ نے نئی رینکنگ جاری کر دی جس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بنیادی ضروریات زندگی، اشیائے خورونوش، رہائش اور کرائے شہریوں کی قوت خرید میں ہیں جس کے باعث اسے سستا ملک قرار دیا تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق 23-2022 کے دوران وینز ویلا میں مہنگائی کی شرح 398 فیصد، شام میں 252 فیصد، لبنان میں 139 فیصد، ترکی 47.83 فیصد، مصر 36.5 فیصد جب کہ پاکستان میں 26.89 فیصد رہی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں آئی ٹی اور غیرملکی سرمایہ کاری سے مختلف شعبوں میں خاطر خواہ ترقی ہو رہی ہے۔
پاکستان معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ کرنسی کی قدر میں ستمبر کے اوائل سے ہی خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ روپے کی مضبوطی سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملنے کا امکان ہے۔ ملکی معیشت بارے جاری کردہ ایک رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023 میں اپنے تجارتی خسارے میں 40 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 85 فیصد تک کم کرنے میں نمایاں پیش رفت دیکھی گئی، جو ادائیگیوں کے بہتر توازن کو ظاہر کرتا ہے۔
جی ڈی پی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 27.1 فیصد اضافے کے ساتھ غیرمعمولی نمو دکھائی دی جو ملکی ترقی میں مثبت علامت ہے،اقتصادی ماہرین کے مطابق ایک مستحکم اور مستقل اقتصادی پالیسی فریم ورک کا ہونا ضروری ہے، جو سیاسی تبدیلیوں سے مشروط نہ ہو اور جو سرمایہ کاروں کو طویل مدتی منصوبہ بندی کے لیے درکار اعتماد فراہم کر سکے۔
ماہرین کے مطابق اقتصادی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے مجموعی اقتصادی ماڈل میں پائیدار اصلاحات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ برآمدات میں تنوع اور تجارت کو فروغ دینے سے پاکستان کو زرمبادلہ کمانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس ضمن میں اقتصادی پالیسیاں ایک طویل المدتی وژن کے ساتھ تیار کی جانی چاہئیں جس میں ملک کی اقتصادی صلاحیت، آبادیاتی رجحانات اور عالمی اقتصادی تبدیلیوں کو مدنظر رکھا جائے۔
اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سلسلے میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان چارٹر آف اکانومی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور شفاف اور جوابدہ طرز حکمرانی اداروں میں اعتماد پیدا کرنے اور معاشی پالیسیوں کو موثر طریقے سے لاگو کرنے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔
مبصرین کے مطابق یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ پاکستان اپنے منفرد محل وقوع کی وجہ سے خطے میں اہم جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے، جو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور چین کے سنگم پر واقع ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان CPEC میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم منصوبہ ہے اور CPEC چین کے مغربی علاقوں کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے جوڑتا ہے، جس سے چین کو بحیرہ عرب تک رسائی ملتی ہے۔
اس منظرنامے کو دیکھا جائے تو پاکستان کی حالیہ معاشی کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں، اگر ملکی معیشت اسی راستے پر چلتی رہی اور پالیسیوں کا تسلسل جاری رہا تو آنے والے ایک دو برس میں پاکستان اپنی اقتصادی مشکلات پر بآسانی قابو پا لے گا جب کہ ڈالر کی قیمت بھی مناسب حد تک مستحکم سطح پر آ جائے گی۔
سیاسی استحکام کسی ملک کی معیشت کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ پچھلے پانچ سات برس میں پاکستان میں جو سیاسی انتشار برپا رہا ہے، اس نے سب سے زیادہ معیشت کو متاثر کیا ہے۔ سیاسی انتشار، جلاؤ گھیراؤ اور آئے روز کے دھرنوں اور مارچز نے ملکی معیشت کو دیوالیہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ معاشی بحران اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔
اب جومعیشت کو استحکام مل رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ سیاسی انتشار، گھیراؤ جلاؤ، دھرنوں اور مارچز کا خاتمہ ہے۔ اب ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہیے کہ ان کی متشدد اور جارحانہ سیاست ملکی معیشت کو ہی نہیں بلکہ ملک کو بھی برباد کر سکتی ہے۔