زباں فہمی نمبر199 اردو کی بہن پشتو آخری حصہ

پشاور اور اسلام آباد کی اردو، بلکہ ٹی وی چینلز پر استعمال ہونے والے بہت سے پشتو لفظ اردو کا حصہ بنتے جا رہے ہیں

زباں فہمی نمبر197؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ چہارم/ آخری) فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

گزشتہ (حصہ سوم) سے پیوستہ

آزمائش، آزمائشی،آسان،آسانی، آسرا، آسمان، آسمانی، آسودہ، آسودگی، آشنا،آشنائی، آفت، آفرین، آکسیجن، آلو،آلوبُخارا، آلوچہ، آم، آمد،آمدن، آمدنی، آوارہ،آوارگی، آواز،آہ، آئین، آئینہ،آیت،اَبّا، آبائی، ابتر، ابتری، ابجد،ابرق/ابرک۔یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ کم ازکم دواقساط مزید لکھنی پڑ جائیں گی۔دل چسپی رکھنے والے قارئین براہ راست کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔

اردو کی بہن پشتو (حصہ سوم)کی آنلائن اشاعت کے بعد میرے فاضل دوست،ممتاز لسانی محقق، فارسی داں ڈاکٹرتاج الدین تاجور،پرنسپل گورنمنٹ کالج (پشاور)، سابق لیکچرر اِسلامیہ کالج و جامعہ پشاورنے فیس بک پر یہ تبصرہ فرمایا: "ماشا ء اللہ، بہت خوب۔ تحقیق کا حق ادا کیا جا رہا ہے۔ بہت خوب۔ سہیل بھائی! یقین جانیے آپ نے بہت بڑا کام کیا ہے اور کر رہے ہیں۔

اللہ کریم آپ کے ذہن و قلب کو شاد اور قلم کو رَوان و آباد رکھے۔ برادرم! گزشتہ تیس پینتیس برسوں پشاور اور اسلام آباد کی اردو، بلکہ مختلف ٹی وی چینلز پر بھی استعمال ہونے والے بہت سے نئے پشتو لفظ بھی اردو کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہ عمل کراچی اور کویٹہ میں بھی ہو رہا ہے: مشر کشر: مشر بمعنی بڑا، کشر بمعنی چھوٹا(مشر کشر یا مشر اور کشر انسان اور رشتوں کے لیے مخصوص ہے، مثلا احمد میرا مشر ہے یا احمد میر مشر بھائی ہے)،مشران: بڑے، عمائدین،اس کے علاوہ، خالص پشتو کے نام بھی پاکستان بھر میں مقبول ہو رہے ہیں، مثلاً کشمالہ، کشمالی/کشمالو سے، ثانیث بمعنی تلسی، ریحان،پلوشہ(پل وشہ) بمعنی شعاع،مشال(عربی مشعل سے مفغن)،زرک: تیتر،زمرک: چھوٹا شیر.......... اور کئی دوسرے الفاظ۔جناب شان الحق حقی نے فرہنگ تلفظ میں پشتو لفظ خوٹا بھی درج کیا(خوٹا: مردانہ عضو تناسل)"۔

افسوس! ایسے لائق فائق محقق کی کوئی کتاب ابھی تک منصہ شہود پر نہیں آئی۔مجھے بہرحال بہت خوشی ہوتی ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ 'زباں فہمی' کے بغور مطالعے کے بعد اسے سراہنے والے احباب میں اُن جیسا ممتاز ادیب ومعلم بھی شامل ہے۔

خیرات میں دے آیاہوں،جیتی ہوئی بازی
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں

جدید لہجے کے اس منفرد شعر کے خالق کو دنیا ڈاکٹر اسحق وردگ کے نام سے جانتی ہے۔(یہ شعر سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے فیس بک ورق پر نمایاں کیا ہے)۔ہم انھیں اردو کے مقبول پشتون شاعر کے طور پر ہی نہیں، ایک کثیر لسانی معلومات کے حامل محقق کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں۔وہ مادری زبان پشتو کے علاوہ پشاور اور صوبے کی بڑی زبان ہندکو اور چترال کی بڑی زبان کھوار سے بھی بخوبی آشنا ہیں۔اُن کا اردو مجموعہ کلام 'شہر میں گاؤ ں کے پرندے' ادبی دنیا میں بھرپور پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔یہاں مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دوست کی شان خود بیان کرنے کی بجائے پروفیسر خالدسہیل ملِک صاحب کی ایک نگارش کا اقتباس پیش کروں:

"اسحاق نے بھی خیبر پختونخوا کا روایت شکن شاعر ہونے کا خواب دیکھا اور وہ جدید شاعر ہوگیا۔ اسحاق کوبچپن میں قطعاً شاعر بننے کا شوق نہیں تھا۔بچپن میں تو وہ بچوں کی کہانیاں لکھتا تھا۔ میرے خیال میں اسحاق اکتسابی شاعر ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ خاکسار کی بچپن سے طبیعت موزوں تھی۔ اس نے شاعری کے لیے تپسیا کی ہے۔

اہل زبان استاد شاعر پروفیسر محمد طہ'خان مرحوم کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا۔اس زریں دور میں حلقہء ارباب ذوق پشاور کا جائنٹ سیکرٹری بنا۔جب خاطر غزنوی،محسن احسان،یوسف رجا ء چشتی،سجاد بابر جیسے جیّد شعراء مستقل حلقے کی نشستوں کی رونق تھے۔اس جنون اور مستقل مزاجی سے وردگ نے شعر کہنا سیکھا ہے۔بلکہ یوں کہوں کہ اس نے اچھا اور نیا شعر کہنا سیکھا ہے۔کسی بھی ہنر کو سیکھنے کے لیے اس ہنر کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔

اسحاق پشاور کے ان چند ادب شناسوں میں سے ایک ہے کہ جس کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔وہ نظم و نثر کا یکساں علم رکھتا ہے۔ بلکہ شعرو ادب کے جدید رجحانات کاتو اسے اتنا علم ہے کہ مجھ جیسے ایم اے اردو کے کورس کا مطالعہ رکھنے والے اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں۔ اسحاق کو اس کو مطالعے نے اچھا شعر کہنا سکھایا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ کون سا شعر اسے داد دلوائے گا۔ یہی اسحاق کی کامیابی ہے۔اسحاق وردگ جدید دور کا شاعر ہے اور اسے یہ بھی ادراک ہے کہ جدید دور کے شعر کے کیا تقاضے ہیں۔وہ سوشل میڈیا کے سارے گتکے جانتا ہے۔ اب اسے چاہنے والے مل گئے ہیں۔جو سوشل میڈیا پر اس کے پھڑکتے ہوئے شعر لگانے کا فن جانتے ہیں"۔

پل بھر وہ چشم تر سے مجھے دیکھتا رہا
پھر اُس کے آنسوؤں سے مِری آنکھ بھرگئی

یہ شعر یادگار ہے مقبول عامر کی۔اردو کے پشتون شعراء کی فہرست میں مقبول عامر(1954ء تا 1981ء)جیسا صاحب ِ اسلوب پشتون شاعر بھی ہوگزرا ہے جسے بلامبالغہ جان کیٹس اور شکیب جلالی کی طرح اپنے عہد کے نمایندہ جواں مرگ شاعروں میں شمارکیا جاسکتا ہے۔ایک مُہلک مرض میں مبتلا اس مقبول شاعر کا انتقال دل کے دورے میں ہوا۔اُن کا مجموعہ کلا م"دئیے کی آنکھ" کے عنوان سے 1990ء میں منظرعام پر آیا جس کا پشتو ترجمہ "د ڈیوے سترگے" 2008ء میں شایع ہوا۔

اب یہاں سرسری تذکرے سے کوشش کرتاہوں کہ تمام اہم اور قابل ذکر اسمائے'پشتون'/پختون اردو اہل قلم گنواتاچلوں، پھر بھی اگر کوئی شامل نہ ہوسکے تو معذرت قبول فرمائیں۔ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار،ؔ میرے جریدے ہائیکو انٹرنیشنل میں شایع ہونے والے مساوی الاوزان پشتو ہائیکو کلام کے شاعرجنھوں نے اردو اور ہندکو کی نامور ادبی شخصیت جناب رضا ہمدانی پر پی ایچ ڈی کیا، ڈاکٹر سید زبیر شاہ (افسانوں کے دومجموعے شایع ہوچکے ہیں)،جون ایلیا پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اعجازاحمد، پروفیسر قدرت اللہ خٹک(نثرنگار، خاکہ اوررپورتاژنگار)،امجدبہزاد(شاعر)، نثار دانش (محقق :کئی کتب بشمول "اردوغزل گوشعرا: عہد بہ عہد۔ آغاز سے2020ء تک" شایع ہوچکی ہیں، موخر الذکر کاجناب ظفراقبال جیسے بزرگ معاصر نے اپنے کالم میں ذکرکیا)،پروفیسر گوہر رحمان نوید ("خیبر پختون خوا میں اردو ادب" جیسی منفرد کتاب کے مصنف،ہزارالفاظ پرمشتمل اس کتاب کے تین ایڈیشن منظرعام پر آچکے ہیں)، ڈاکٹر سبحان اللہ (مولانا ظفرعلی کی مزاحمتی شاعری پر پی ایچ ڈی کرنے والے منفرد ادیب)،ڈاکٹر محمد امتیاز(پچاس سے زائد مقالات کے مصنف)،راج محمد آفریدی (ادب اطفال میں تین چار کتب کے مصنف)،پروفیسر ضیاء اللہ خان ضیاء (صوبے میں ادب اطفال کے واحد رسالے شاہین ڈائجسٹ کے مدیر)،ڈاکٹر سلمان علی(محقق،نقاد،رپورتاژنگار،مشہور رپورتاژ"اے نشہ ظہور")،سعداللہ جان برق: بزرگ ادیب، دو ناول، آپ بیتی"یادوں کا جنازہ" شایع،روزنامہ ایکسپریس کے دیرینہ کالم نگار)،ڈاکٹر سعدیہ خلیل (جناح کالج،پشاورمیں شعبہ اردوسے منسلک معلم و محقق)،ڈاکٹر فصیح الدین ڈی آئی جی پولیس(اردو کی علمی نثر کے لیے مشہور،کالموں کے تین مجموعے اور سفرنامہ ذوق پرواز، انجمن ترقی اردو کے کلیدی عہدیدار)،سلیم راز(ؔ شاعر، پشتو اور اردو کے ناقد، محقق)،محمدارشدسلیم بن سلیم راز(ایک ناول اور ادب اطفال میں کتب)،روخان یوسف زئی(خاکہ نگار، ادبی کالم نگار)،عمران یوسف زئی (ادیبِ اطفال)،محمد جنید صدیقی(ادیبِ اطفال)،میاں شمس الحق (دو ناولٹ شایع)،حمادحسن ( نظم گو، صاحب کتاب کالم نگار)،انجینئر ڈاکٹر ذکاء اللہ خان (مدیر سہ ماہی عطا، ڈیرہ اسمٰعیل خان)، ڈاکٹرانوارالحق(محقق، نقاد، صاحب کتاب، لیکچرر شعبہ اردو)۔

یہاں یہ بات خوش آیند ہے کہ اب خیبرپختون خوا کے دیگر مقامات بشمول تیمر گرہ، دِیر،سُوات، مردان اوربنّوں سے بھی اردو کے پشتون اہل قلم سامنے آرہے ہیں۔جب ہم اردو کے پشتوسے تعلق واشتراک کی بات کرتے ہیں تو یہ بات کیسے فراموش کرسکتے ہیں کہ خیبر پختون خوا کے علاوہ، صوبہ بلوچستان کے کثیر لسانی ادب میں بھی اِن دونوں زبانوں کا بڑا حصہ ہے۔بلوچستان میں 'اردو نواز' پشتون اہل قلم کی تین قسمیں ہیں، اوّل وہاں کے مقامی پشتون، دُوَم خیبر پختون خوا سے وہاں نقل مکانی کرنے والے حضرات اورسِوم ایسے افراد جن کی موجودہ شناخت اردو ہی سے ہے مگر کبھی (صدیوں پہلے) اُن کے اجداد کی مادری وآبائی زبان پشتو تھی۔

ہرچند کہ کوئٹہ اور دیگر مقاماتِ بلوچستان کے مقامی پشتون اہل قلم میں پشتو ہی میں ادب تخلیق کرنے کا رجحان زیادہ ہے، مگر پھر بھی بقول کسے ؎
؎ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہا ں میں۔اس باب میں بہت نمایاں نام ڈاکٹرعصمت دُرّانی (ماہر ِ امرا ض اطفال)کا ہے جنھوں نے اپنی محبوب زبان اردو اور مادری زبان پشتو دونوں ہی میں چھَے چھَے مجموعہ ہائے کلام دنیائے ادب کو دیے، دونوں زبانوں میں اُن کے کُلّیات بھی شایع ہوچکے ہیں۔اُن کا تعلّق درّانی قبیلے کی پوپلزئی شاخ سے ہے۔ ڈاکٹرعصمت دُرّانی کا اردو کُلیات "دریا کوئی گیت گارہا ہے" کے نام سے کچھ عرصہ قبل شایع ہواہے۔ ڈاکٹرعصمت دُرّانی کا نمایندہ

شعر ملاحظہ فرمائیں:

گھر سے نکلوں تو مِرے صحن میں اِستادہ شجر
دور تک میری طرف ہاتھ ہِلاتا رہ جائے
اُن کی ایک ہائیکو: راہ دکھاتی ہے
تیری چاہ اندھیرے میں
دِیپ جلاتی ہے

اُردو میں ڈاکٹرعصمت دُرّانی کی نثری تحریروں کا مجموعہ"شاعری اور ناشاعری" کے نام سے2022ء میں منظر عام پرآیا، جس میں اُن کے تنقیدی مضامین،تبصرے،شذرات،برگ ریزے،تمثیلات،تقریریں، انٹرویو،نثری نظمیں اور اپنی چند پشتو نظموں کے اردو نثری تراجم شامل ہیں۔جی چاہتا ہے کہ بلوچستان کے اس اہم اُردو ادیب کی نثر کا ایک نمونہ بھی آپ کے ذوق مطالعہ کی نذرکروں،ذرا دیکھیے گا:

"شاعری میں ابہام اُس وقت در آتا ہے جب شاعر اپنے خیالات کا اظہار تو کرلے مگر اُن کے ابلاغ میں ناکام رہے۔ سوال یہ ہے کہ ابلاغ ہے کیا؟ ابلاغ یہ ہے کہ بات دل سے نکلے اور دل میں جاگُزیں ہو۔ یہ گویا'' از دِل خیزد و برَ دل ریزد ''والا مُعاملہ ہے۔ ابلاغ کے نتیجے میں ہی قاری پر وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جس کا پیدا کرنا تخلیق کار کا منشا ہو۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کسی ادب پارے کا پُوری طرح ہر شخص کی گرفت میں آجانا ضروری نہیں۔ تمام پڑھنے والے ذہنی لحاظ سے ایک سطح پر نہیں ہوتے۔ ہر شخص اپنی فہم اور ذوق کے مُطابق ادب پارے سے مطلب اخذ کرتا ہے۔ سونے کی کان سے کتنا سونا نکلتا ہے، یہ کھودنے والے کی ہمّت پر مُنحصر ہے!"

ڈاکٹر عصمت درانی نے ادب اطفال میں بھی بہت سی اردو اور پشتو منظومات کا اضافہ کیاہے، مگر ابھی انھیں یکجا کتابی صورت میں شایع کرنے کی نوبت نہیں آئی۔

خیبر پختون خوا سے بلوچستان نقل مکانی کرنے والے مشہور اہل قلم میں رب نواز مائلؔ،سعید گوہر اور دَانیال طریرکا تعلق اورکزئی قبیلے سے ہے،سرور سودائیؔ مَروَت ہیں،عمر گُل عسکرؔ بنگش ہیں،جبکہ سہیل جعفر خٹک قبیلے سے تعلّق رکھتے ہیں۔زباں فہمی نمبر199

سرطان کے مُوذی مرض میں فوت ہونے والے دانیال طریرؔ( 24فروری 1980 ء بمقام لورالائی تا 31جولائی 2015ء)بھی جواں مرگ شعراء میں ایک اہم نام ہے۔انھیں اپنے چچا محمود اَیاز (پشتو،اردو شاعر) اور تایا رَب نواز مائلؔ(ادیب، دانشور)سے کہیں زیادہ شہرت ومقبولیت نصیب ہوئی۔درس تدریس سے منسلک اس شاعر،نقاد، مدیر "مہر نامہ" نے متنوع موضوعات پر ایک درجن کتب تحریر کیں، جن میں پانچ شعری مجموعے شامل تھے، اُن کا اولین مجموعہ کلام "آدھی آتما" تھا۔ اُن کاایک شعر ملاحظہ فرمائیں:

درندے ساتھ رہنا چاہتے ہیں آدمی کے
گھنا جنگل مکانوں تک پہنچنا چاہتا ہے

سرورسودائی کو خاکسار اُردوشاعری میں بطور ِخاص ہائیکو کے تعلق سے جانتا ہے۔وہ کوئٹہ کے اردو ہائیکو گو شعراء میں نمایاں مقام کے حامل ہیں، پشتو اکادمی سے ان کا تعلق بھی بہت اہم ہے جبکہ وہ پاکستان ٹیلیوژن،کوئٹہ سے بطو ر اِسکرپٹ ایڈیٹر طویل عرصے تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔اُن کی ایک ہائیکو:


پھولوں پر شبنم
جیسے تیری یادوں میں
بارش کی چھم چھم

ہائیکو ہی کی صنف میں پروفیسر نسیم اچکزئی (اردو کے علاوہ انگریزی: پاکستان کے اولین انگریزی ہائیکو نگار جن کا مجموعہ کلام شایع ہوا) بہت نمایاں ہیں، دیگر متعدد جہات(بشمول تدریس، ڈرامانگاری، اداکاری) میں کارناموں کے علاوہ:

روتی آنکھوں سے
صبحیں سپنے بُنتی ہیں
تنہاشاموں میں

ڈاکٹر علی کمیل قِزِل باش(اب مقیم اسلام آباد) اردو شاعر سے زیادہ فارسی محقق مشہور ہوچکے ہیں، اُن کی ایک ہائیکو:

اے شاخ زیتون
تیری خاطر دیں گے ہم
ہر ہر قطرہ خون
عمر گُل عسکرؔ کی ایک ہائیکو:
ہرنی بھاگی تھی
رستہ روکا جھاڑی نے
کتنی پیاری تھی

بزرگ شاعر،ادیب عابد شاہ عابدؔ:

کون ہوا آباد
چوبی بند کِواڑوں پر
شاید تیری یاد

عین سلام بھی ایک مشہور پشتون ادبی شخصیت تھے۔ہمیں حاوی اعظم،بیرم خان غوری اورقندیل بدر کا نام بھی یادرکھنا چاہیے۔بوجوہ ان سب کا تعارف،سردست، باقاعدہ لکھنے سے معذورہوں۔بیرم غوری اردو اور ہزارگی میں ہائیکو کہتے ہیں:

مشکل مانا تھا
دل کو تیرے خوابوں سے
آگے جانا تھا

تیسری قسم (یعنی صدیوں پیچھے کے پشتون نژاد اہل قلم) میں ایک نہایت معتبر اُردو اور مقبول شاعر کے ذکر سے بات آگے بڑھاتاہوں۔

صبحدم ہاتھ میں سورج کو اُٹھالیتا ہوں
شام یہ شعلہ سمندر میں بُجھالیتا ہوں

جدید یت کے اس شاہکارشعر کے خالق، کوئٹہ (بلوچستان) میں مقیم (صدیوں قدیم پشتون نژاد)لکھنوی گھرانے کے چشم وچراغ معروف شاعر،ادیب اور بینکارجناب محسن شکیل ہیں جو پاکستان ٹیلیوژن کے مَشّاق ڈرامانگاراورمنجھے ہوئے میزبان ہونے کے ساتھ ساتھ، صوبے میں اردوہائیکو گوئی کے سَرخیل کی حیثیت سے ممتاز ہیں۔اُن کا مجموعہ کلام "آنکھ بھر حیرت" 1999ء کی بہترین کتاب کی حیثیت سے 'پروین شاکر ادبی ایوارڈ' کا مستحق قرارپایا، جبکہ اُن کی ہائیکو کا مجموعہ 'سرگوشی' 2005ء میں منصہ شہود پر آیا۔۔اُن کی ایک ہائیکو اپنے قارئین کرام کی نذر کرتاہوں:
سپنے مل پاتے
رات گئے جو ہوسکتا
ہم بھی گھر جاتے

محسن شکیل کے متعلق "سفیرِہائیکو" محترم اقبال حیدر (مرحوم) کا یہ فرمان بالکل برحق ہے کہ "محسن شکیل نے جدید اَدب کی ایسی توانا صنف کو نہ صرف پورے شرحِ صدر سے قبول کیا ہے، بلکہ ہائیکو کہتے ہوئے انھوں نے روایت کادامن بھی تھامے رکھا ہے اور عصر ِحاضر کے تقاضوں کوبھی فراموش نہیں کیا"۔

پشتو سے اردو کے تعلق کے موضوع پر یہ چاراقساط اور رُوہیل کھنڈی/رامپوری اردو کی چار اقساط یعنی آٹھ ایک منفرد ریکارڈ ہوگیا ہے، بحمداللہ!

اظہار اِمتنان: میں اپنے عزیز خُردمعاصر، فاضل محقق اور خو ش کلام شاعر ڈاکٹر اسحق وردگ صاحب کا صمیم قلب سے ممنون ہوں کہ انھوں نے بیش قیمت کتابی مواد بشکل PDF file اور بعض اہم معلومات بہم پہنچائیں۔

اپنے بزرگ معاصر جناب محسن شکیل کا شکرگزارہوں کہ انھوں نے اس باب میں رہنمائی کی اور بعض اسماء کی نشان دہی کرتے ہوئے معلومات میں اضافہ کیا نیز ڈاکٹر عصمت دُرّانی صاحب جیسے اہم ادیب، شاعر سے رابطہ کروایا جنھوں نے خاکسار کو مزید معلومات سے نوازا۔فاضل محقق ڈاکٹر تاج الدین تاجور ؔ جیسے احباب کی برمحل ستائش اور حوصلہ افزائی بھی ناقابل فراموش ہے۔

حصہ اوّل پڑھنے کے لیے کلک کیجیے ؛ زباں فہمی نمبر196؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ اول)


حصہ دوم پڑھنے کے لیے کلک کیجیے ؛ زباں فہمی نمبر197؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ دوم)

حصہ سوم پڑھنے کے لیے کلک کیجیے ؛ زباں فہمی نمبر198؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ سوم)

 
Load Next Story