ہم سیاست کرتے ہیں یامنافقت

متعدد لوگ آج پی ٹی آئی کو چھوڑکراس سے اسطرح منحرف ہوگئے جیسے اُنہیں اس پارٹی سے کبھی لگاؤ نہیں تھا

mnoorani08@hotmail.com

مذہبی نقطہ نظر میں منافق کی مثال اس شخص کی دی جاتی ہے جو زبان پر کچھ اوراقرار کرتاہے اوردل میں کچھ اور۔کہنے کو وہ خود کو مسلمان ظاہر کرتاہے مگر من میں نفاق اوربغض کی تخم ریزی کرتارہتاہے۔ وہ سامنے کچھ اورباتیں کرتا ہے اورپیٹھ پیچھے کچھ اور۔ ایسے شخص کاٹھکانہ اللہ تعالیٰ نے جہنم قرار دیا ہے۔مگر کیا منافقت صرف اسلام کی حد تک محدود ہے۔

عام زندگی میں کوئی شخص اگر ایسی خصلتیں رکھتا ہوکیا اسے منافق نہیں کہاجاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ بیماری تیزی سے پھیلتی جارہی ہے۔

صبح سے شام تک ہمیں ہزاروں لوگ ایسے ملیں گے جو اس بیماری میں ملوث پائے جاتے ہیں جنھیں ہم شاید اس لیے برداشت کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہم خود بھی اسی مرض کاشکار ہوچکے ہیں ہے ۔خاص کرسیاست میں یہ چیز اب کوئی عیب نہیں سمجھی جاتی ہے۔

روزانہ سیاسی ماہرین کو ہم بڑی بڑی باتیں کرتے دیکھتے ہیں اوراسے جمہوریت کا حسن سمجھ کردرگذر کردیتے ہیں۔ اسے ہم اظہارِ رائے کی آزادی کانام دیکر خود کو مطمئن بھی کردیتے ہیں۔

ایک شخص آج جس پارٹی میں ہوتاہے اور وہ کسی دوسری مخالف پارٹی کی قیادت اوراس کے دیگرممبروں کے خلاف ایسی ایسی دشنام طرازیاں کرتا رہتا ہے کہ جیسے وہ پارٹی اس ملک کی سب سے خراب پارٹی ہے لیکن حیران کن طور پر چند سالوں بعد وہ نہ صرف اسی پارٹی میں شامل ہوجاتا ہے بلکہ اس کی حمایت میں زمین وآسمان کے قلابے بھی ملا نا شروع کر دیتاہے،جس پارٹی کے وہ کل تک بڑے گن گایا کرتاتھا اب اُسے برابھلاکہتے ہوئے اُسے کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتی۔

یہ منظرہم نے 9مئی کے بعد تواتر کے ساتھ دیکھا ۔ بے تحاشہ لوگ کل تک PTI کے وفادار بن کر اس کی قیادت کو اعلٰی بصیرت اورصلاحیت کا حامل قراردیکر اس کے ساتھ عہد وفا نبھانے کی قسمیں کھایا کرتے تھے آج اسے چھوڑنے میں لمحوں کی دیر نہ کی۔

2017 میں یہی لوگ دوسری پارٹیوں سے ٹوٹ کراس پارٹی سے آملے تھے اوراُس کی قیادت کواپنا دیوتا مان کرپوجا بھی کیاکرتے تھے مگر اب اسے چھوڑکرکیاکیابرائی نہیں کرتے نظر آتے ہیں،وہ جس طرح اس پارٹی میں شامل ہوئے تھے یاشامل کرائے گئے تھے بالکل اسی طرح اس سے نکلنے میں بھی دیر نہیں کی۔

کس کس کی مثال دیں ۔متعدد لوگ آج PTI کو چھوڑکراس سے اسطرح منحرف ہوگئے جیسے اُنہیں اس پارٹی سے کبھی لگاؤ نہیں تھا، وہ مجبوراً اس میں شامل رہے تھے اورموقعہ ملتے ہیں باہر نکل آئے اور آج سب پرتنقیدکرتے دکھائی دیتے ہیں۔ٹی وی چینل والے بھی اُنہیں ہرروز بلاکر اپنی من چاہی باتیں کروا لیتے ہیں۔

اینکرحضرات اُن کے منہ سے دوسروں کے خلاف باتیں سنکر اپنی وہ ساری حسرتیں پوری کرگذرتے ہیں جو وہ خود اپنی زبان سے پوری نہیں کرپاتے۔یہ وہی سیاسی لوگ ہیں جو اس وقت اپوزیشن کو اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ پالش کرنے کا طعنہ دے رہے تھے، ایک صاحب تو ٹی وی پروگرام میں فوجی بوٹ لے کر پہنچ گئے تھے لیکن اسی بوٹ کو وہ آج خود پالش کررہے ہیں۔

وہ آج کل سیاستدانوں سمیت ججوں کو اپنی ہرزہ سرائی کا نشانہ تو خوب بنارہے ہوتے ہیں لیکن اُن مقتدر شخصیات کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے سے گریزاں ہیں جن کے دباؤ پر اُن ججوں نے فیصلے تحریر کیے تھے۔


وہ خود کو تمام خامیوں اورخرابیوں سے مبرا سمجھتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی اسی پارٹی کا حصہ رہے ہیں جس نے یہ سب فساد اورنفاق پیدا کیا تھا۔

کچھ تو دہری قومیت کے ساتھ قومی اسمبلی اورسینیٹ کے ممبر بن کر کئی سال تک مراعات بھی لیتے رہے اورفوائد بھی حاصل کرتے رہے ،بعض تو اس پاداش میں پانچ سال کے لیے نااہل بھی قرار دیے گئے ۔

پارٹی بدلنے والوں کے طرز سیاست کو دیکھتے ہوئے یہ گمان کرنا کہ کوئی بعید نہیں کہ وہ ایک بار پھر اسی پارٹی کا حصہ بن جائیں جسے چھوڑ کروہ آج خود کو تمام الزامات سے بری الذمہ سمجھ رہے ہیں۔لگتا ہے وہ صرف حالات کے بدلنے کا انتظار کررہے ہیں۔

موسم بدلتے ہی وہ خان صاحب سے معافی تلافی کرواکے ایک بار پھر انھی کے گن گارہے ہونگے۔مفتاح اسماعیل اورشاہد خاقان عباسی نے بھی اپنی سیاسی پارٹی سے کنارہ اختیار کیاہوا ہے لیکن وہ اس قدر تلخ بیان بازی اوردشنام طرازی نہیں کررہے ہیں۔وہ شائستہ اورمہذبانہ اندازمیں تنقید کرتے ہیںجس سے کسی کی تذلیل یاعزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔

یہی حال کچھ مصطفی نواز کھوکھر کا ہے ۔ پیپلزپارٹی سے الگ ہوکراُنہوں نے ایک دن بھی اپنی سابقہ قیادت کے خلاف غیرذمے دارانہ گفتگونہیں کی۔ یہ فرق ہے سیاسی تربیت کا ۔ اِن لوگوں نے جس ماحول میں سیاست سیکھی ہے وہ اُنہیں ایسی گفتگو کی اجازت نہیں دیتا۔وہ چاہتے تو اپنی قیادت کے خلاف اسی طرح زہرافشانی کرسکتے تھے مگر نہیں اُنھوں نے ایسا نہیں کیا۔

پی ٹی آئی کا قصور ہی یہی ہے کہ اس نے اپنے ووٹروں اورممبروں کو صرف اورصرف دوسروں کی پگڑیاں اچھالنا سکھایا ہے۔قومی سیاست میں لاابالی اورغیرذمے دارانہ طرز تکلم کا آغاز ہی 2011 ء سے ہواہے۔

انکسار اوروضع داری سے عاری اورناملائم اوردرشت انداز سیاست نے قومی تشخص کو اس قدر بگاڑ دیا کہ جسے چشم زدن سدھارا نہیں جاسکتا ہے، اسے درست ہونے میں اب کئی سال درکار ہونگے۔ اُس دور میں اعصاب اخلاق پرایسے کلہاڑے چلائے گئے کہ سارا وجود ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوکررہ گیا۔

سیاست میں صالحیت داخل کرنے کی بجائے بد اخلاقی اوربدتمیزی کے غبارے میں ایسی ہوابھردی کہ نومئی کو بپھرے نوجوانوں نے نہ دیکھا آؤ نہ دیکھاتاؤ اپنے عسکری اداروں پرہی حملہ کردیا۔ اقتدار کی ریت مٹھی سے پھسل جانے پروہ اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ جی ایچ کیو اور کورکمانڈرہاؤس پر حملہ کر دیا۔اپنی خجالت اورآزردگی کودفاعی اداروں کے خلاف غصہ میں بدل کر آتش انتقام کو ٹھنڈا کیا۔

سیاست میں جوبگاڑ پیدا ہوچکا ہے کہ اب کسی پراعتبار بھی نہیں رہا اورآنے والے دنوں میں اس ملک کے کیاحالات ہونگے کسی کوبھی معلوم نہیں۔ کون سی جماعت الیکشن جیتے گی اورکون حکومت بناپائے گی کوئی بھی حتمی طور پرکہہ نہیں سکتا۔الیکشن کے نتائج آجانے کے بعد ہوسکتاہے اسے تسلیم نہ کرنے کی مہم شروع ہوجائے۔

غیریقینی اوربے چینی کی فضا ء ختم ہوتی ہے یا یونہی جاری رہتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اس ملک کے لیے بہت خطرناک ہوگا۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ الیکشن کے بعدیہاں امن قائم ہواوراس ملک کی تعمیر اورترقی کادور شروع ہو۔

بہت ہوچکا ،یہ ملک اب مزید بربادی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ یہاں سیاسی امن اور استحکام پیدا ہواورسارے ملکر اس ملک اور قوم کو مہنگائی اورقرضوں کے دلدل سے باہر نکالیں۔
Load Next Story