لاپتہ افراد کیس حساس ادارے ہمیشہ لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں ریکارڈ مانگ لیں گے پشاور ہائیکورٹ

وزارت دفاع اورداخلہ کو بتایا جائے کہ لاپتہ افرادکے لواحقین عدالتوں میں روتے ہیں، چیف جسٹس

وزارت دفاع اورداخلہ کو بتایا جائے کہ لاپتہ افرادکے لواحقین عدالتوں میں روتے ہیں، چیف جسٹس، سیکریٹری داخلہ خیبر پختونخوا کوشوکاز نوٹس فوٹو: فائل

پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مظہر عالم نے کہا ہے کہ حساس اداروں کی جانب سے ہر سماعت پر لاپتہ افراد سے متعلق یہی جواب ملتا ہے کہ لاپتہ افراد ان کی حراست میں نہیں۔

لیکن بعد ازاں یہ لوگ انٹرمنٹ سینٹر منتقل کر دیے جاتے ہیں، عدالت نے تاحال اس کا ریکارڈ طلب نہیں کیا، تاہم ضرورت پڑنے پر یہ بھی مانگا جا سکتا ہے، ایک ہی پروفارما پر نام بدل کے بھجوا دیا جاتا ہے، وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو یہ بتایا جائے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین عدالتوں میں روتے ہیں، انھوں نے یہ ریمارکس لاپتہ افراد کے بارے میں 25 رٹ درخواستوں کی سماعت کے دوران دیے۔


دو رکنی بنچ چیف جسٹس مظہر عالم اور جسٹس ملک منظور حسین پر مشتمل تھا، بنچ نے طلب کیے جانے کے باوجود عدالت میں پیش نہ ہونے پر سیکریٹری داخلہ خیبر پختونخوا کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صوبائی حکومت لاپتہ افراد کے بارے میں درخواستوں کی سماعت میں کتنی دلچسپی لے رہی ہے، عدالت نے اس موقع پر مسماۃ آمنہ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت شروع کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ مذکورہ کیس میں گراؤنڈ چیک جاری ہے۔

جبکہ اس حوالے سے وزارت داخلہ نے اپنا جواب پیش کر دیا ہے، جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت داخلہ کے ماتحت 14تک حساس ادارے آتے ہیں اور اگر یہ جواب ان تمام اداروں کی جانب سے ہے تو اس کی ذمہ داری بھی وزارت داخلہ پر عائد ہوتی ہے۔

 
Load Next Story