ہولو کاسٹ کاافسانہ دوسرا اور آخری حصہ

اس وقت دنیا کی ساری دولت کاپینٹسھ فی صد یہودیوں کے قبضے میں ہے

barq@email.com

عالمی اعداد وشمارکے مطابق اس وقت دنیا کی ساری دولت کاپینٹسھ فی صد یہودیوں کے قبضے میں ہے، ہتھیار سازی اورتمام بڑی بڑی صنعتوں کی مالک یہودی کمپنیاں ہیں، بڑے بڑے بینک ان کے ہیں، ذرایع ابلاغ کاتو پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ چھیانوے فی صد یہودی تسلط میں ہے ، دنیا کی تمام بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اسی یہودی مالی مافیا کے قبضے میں ہیں۔

دنیا کے اکثر اشاعتی ادارے ، ٹی وی ، ریڈیو اسٹیشن یاتو براہ راست یہودیوں کے قبضے میں ہیں اوریاملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں اوریہ سب اس نام نہاد ہولوکاسٹ کاشاخسانہ ہے جو امریکا اوریورپ کے ممالک کی ملی بھگت سے ''یہودیوں'' کو دنیا پر مسلط کرنے کے لیے تصنیف کیا گیا، کافی عرصے تک بلکہ کسی حد تک اب بھی ''ہولو کاسٹ'' کی حقیقت پر پابندی تھی۔

لیکن اب کچھ ممالک خاص طورپر فرانس، جرمنی وغیرہ کے کچھ مورخین نے اس ہولو کاسٹ افسانے پر تحقیق کاسلسلہ شروع کیا ہے ۔ ان حقائق کے مطابق وہ سب کچھ جھوٹ تھا جو ہٹلر اورجرمنی کے مظالم گیس چیمبروں ، عقوبت خانوں اور خونریزی پر یورپ اورامریکا یادوسرے الفاظ میں یہودی ذرایع ابلاغ نے مسلسل اورمتواتر ناولوں، افسانوں، مضامین اورکتابوں میں چھاپا ہے۔

ان قصوں کو رنگین بنانے کے لیے جرمنی کے گیس چیمبروں، بھٹیوں اورقتل گاہوں کے جو قصے بیان کیے جاتے رہے ہیں وہ سب کے سب جھوٹ ثابت ہوئے ہیں اورجو محض دنیا کو یہودیوں کے مظلوم اورقابل ہمدردی ثابت کرنے کے لیے پھیلائے جاتے رہتے ہیں اوراس کانتیجہ یہ ہوا کہ یورپ اورامریکا کی سرپرستی میں یہودی ہرلحاظ سے دنیا پر مسلط ہوچکے ہیں اور یہ گرفت اتنی مضبوط ہے کہ مسلمان ممالک اورلیڈر زبانی کلامی تو یہودیوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن عملی طورپر اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ کسی بھی یہودی پراڈکٹ کابائیکاٹ کرسکیں۔

ہمارے پاکستان میں اتنے بڑے بڑے منہ دن رات یہودیوں کے خلاف بولتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان سے کہے کہ چلیے اورکچھ نہ سہی، یہودی کمپنیوں کا تو تھوڑا سابائیکاٹ کرکے دکھائے ۔یہ سارے بیانات ، نعرے دعوے بھی اصل میں ایک طرح سے یہودیوں کی بالواسطہ تعریف میں آتے ہیں چنانچہ ان تمام بیانات کو اگر جمع کرکے دیکھا جائے تو اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہودی یااسرائیل اتنے طاقتورہیں کہ ان کاکوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔

ان سے کئی گنا زیادہ مسلمان، انھیں صرف زبانی برابھلا کہہ سکتے ہیں عملی طورپر کچھ بھی نہیں کرسکتے بلکہ اگر باریک بینی سے تحقیق کی جائے تو بظاہرپرجوش اورفنافی الاسلام اکابرین بھی دانستہ یا غیردانستہ یہودیوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اورمسلمانوں کو تباہی، باہمی خونریزیوں ، جہالت ، پس ماندگی اوربھکاری بنانے کی طرف لے جارہے ہیں صرف ان باتوں کی تلقین کررہے ہیں جو مسلمانوں کو تنزل اوریہودی مفادات کی طرف لے جا رہی ہیں ۔

خیر یہ تو ایک الگ المیہ ہے ، بات ہم ہولوکاسٹ کی کررہے ہیں ۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ اپنے اوپرہولوکاسٹ کرو، خود ان یہودیوں کی جدی پشتی عادت بلکہ پیشہ ہے، خود کو مظلوم بنا کر حکومتوں، حکمرانوں اورلوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا اورپھر انھی اپنے ''ہمدردوں'' کو بیچ کھانا۔


کسی زمانے میں جیب تراشوں نے ایک طریقہ یہ بھی ایجاد کیاہوا تھا کہ کوئی ''بڑا'' آدمی کسی بچے کو مارتا اسے دوڑاتا ، تو ڈر کے مارے وہ بچہ کسی شریف آدمی سے لپٹ پڑتا، شریف آدمی بچے کو آغوش میں لے کر ظالم بڑے سے الجھ پڑتا، بعد میں پتہ چلتا کہ وہ مظلوم بچہ اورظالم بڑا دونوں ملے ہوتے تھے اورکش مکش کے دوران وہ تربیت یافتہ اس کی جیب کتر لیتا تھا،یہی طریقہ واردات یہودیوں کا بھی ہے، یہ خود اپنے کرتوت سے کسی قوم یاحکومت کو اتنا زچ کردیتے ہیں کہ وہ اس ''ناسور'' کی جراحت پر مجبور ہوجاتاہے۔

جب یہ لوگ حضرت یوسف ؑ کی برکت سے مصر میں آباد ہوئے حالاںکہ ان میں ''دس''بھائی وہ تھے جنھوں نے اپنے اس بے گناہ بھائی کو محض حسد سے کنویں میں ڈال کر اپنی دانست میں مارڈالا لیکن اسی یوسف ؑ نے سب کچھ بھول کر ان کو مصر میں آباد کروایا، اس وقت مصر پر ہیکسوس چراہوں کی حکومت تھی جو یوسف ؑ کی وجہ سے ان پر مہربان ہوئی اوریہ مصر میں پھلے پھولے اورقوم بن گئے۔

ہیکسوس حکومت ختم ہوئی اوراصلی مصری قبیلوں نے اقتدار حاصل کیاتو انھوں نے بھی یہودیوں کومصر کی اقتصاد پر مسلط پایا اسے لیے ان پر مظالم ڈھاکر غلام بنایا، اولاد نرینہ کو قتل کرتے تھے اورلڑکیوں کو اپنی عیاشیوں کے لیے زندہ رکھتے تھے پھر خدا نے مہربان ہوکر حضرت موسی ؑ کو ان کانجات دہندہ بنا کر بھیجا تو آزادی ملتے ہی انھوں نے حضرت موسی ؑ کے ساتھ جو بے وفائیاں اورنافرمانیاں کیں وہ خود ان کی اپنی کتاب میں تفصیل سے درج ہیں۔

ایک ہزار سال کی دربدری کی پوری تفصیل بھی ان کی کتابوں میں درج ہے کہ اس احسان فراموش لوگوں نے اپنے نبیوں کے ساتھ کیا کچھ کیا۔

حضرت داؤد ؑ اورسلیمان ؑ نے ان کو ایک زمین اورمضبوط حکومت عطاکی لیکن ان کی آنکھ بند ہوتے ہی یہ پھر اپنی اصلی خوبو اورسرشت پر اتر آئے اورقبائل نے مرکزی حکومت یہودیہ سے بغاوت کرکے ایک الگ حکومت سامریہ یااسرائیلیہ کے نام سے بنائی جس کے پڑوس میں نینوا کی اشوری سلطنت تھی۔

اب انھوں نے حسب سابق اشوری حکومت کے ساتھ سازشوں اور معاہدہ شکنیوں کاسلسلہ شروع کیا تو اشوری بادشاہوں نارام سین اورٹنہلت پلاسر نے سامریہ کی حکومت کو ملیامیٹ کرکے ان کاہولوکاسٹ کیا اورکچھ عرصہ بعد بخت نصر نے ان کی دوسری حکومت یہودیہ کو پیوند خاک کیا اوران کو بابل میں اسیر کیا۔

تاریخ میں اشوری اورکلدانی حکومتوں کو تو ہٹلر کی طرح ظالم کہاگیا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں لکھی گئی ہے کہ یہودیوں نے خود اپنے اعمال کی وجہ سے ان بادشاہوں کو بھی ہٹلر کی طرح مجبورکردیا،اوراس موجودہ ہولو کاسٹ کی طرح اس وقت بھی فریاد کرکر کے ایران کی ہنجامشی حکومت کو اپنے اوپر مہربان کرلیا تھا ۔

خلاصہ اس بحث کایہ سوال ہے کہ آخر دنیا میں صرف ان یہودیوں پر مظالم کیوں ہوتے ہیں؟ الگ الگ ادوار الگ الگ اقوام آخر کیوں ان کے خلاف ہوجاتی ہیں؟
Load Next Story