پاکستان ایک نظر میں دشمن کو ہمیں گھورنے سے پہلے 100 بار سوچنا ہوگا

بحیثیت پاکستانی میں آج خود پر فخر محسوس کررہا ہوں کہ میرا تعلق دنیا کی طاقتور ترین ریاستوں میں سے ایک ریاست سے ہے ۔

بحیثیت پاکستانی میں آج خود پر فخر محسوس کررہا ہوں کہ میرا تعلق دنیا کی طاقتور ترین ریاستوں میں سے ایک ریاست سے ہے۔ فوٹو فائل

16 برس پہلے گیارہ اور تیرہ مئی کو بھارت کے علاقے پوکھران میں واجپائی حکومت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں نواز حکومت نے پندرہ روز بعد بلوچستان کے علاقے چاغی میں اٹھائیس اور تیس مئی کو چھ دھماکے کئے اور یوں پاکستان دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت کے طور پر ابھرجو یقینی طور پر پوری قوم کے لیے کسی فخر سے کم نہیں ہے۔لیکن اِس فخر کے ساتھ ساتھ لوگ اب یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ اس عظیم واقعہ کے بعد پاکستان کب معاشی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے گا۔

اگر پاکستان اور بھارت کی بات کی جائے تو دونوں ممالک میں ہر سو غربت کا ڈیرہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق دونوں ملکوں میں چالیس فیصد سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اب دونوں ممالک کی اولین ترجیح لوگوں کی طرز زندگی کو بہتر بنانا ہونا چاہیے ۔پاکستانیوں کی اکثریت کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایٹمی دھماکے کرنے کا پاکستانی فیصلہ درست تھا کیونکہ پاکستان کے لیے اپنی ایٹمی صلاحیت کو دنیا کے سامنے لانا بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ان دھماکوں سے پاکستان کا دفاع بہتر ہوا اور پاک بھارت تعلقات کو استحکام ملا۔ کیونکہ یہ تصور بھی ہمارے لیے محال ہے کہ اگر ہم بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکوں کا تجربہ کرنے میں ناکام ہوجائے تو بھارت ہمارے ساتھ کیا کرتا۔ اِس لیے ایٹمی طاقت یقینی طور پر پاکستان کے لیے اپنے رب کی جانب سے ایک انعام ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔اگر چہ پاکستان کو اقتصادی طور پر بہت مشکلات کاسامنا کرنا پڑا، خاص طور پرغیر ملکی سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی اور پاکستان کو اقتصادی پابندیوں کابھی سامنا کرنا پڑا لیکن جو انعام ہمیں ملا ہے اُس کے آگے یہ پریشانی کچھ بھی نہیں تھی۔

جس طرح ہر موضوع پر ہمارے معاشرے میں ہمارے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے بالکل اِسی طرح اِس موضوع میں بھی ہمارے یہاں اختلاف موجود ہے اور کچھ رجائیت پسندوں کا کہنا ہے کہ ایٹمی صلاحیت ایک خاص صورتحال میں تو فائدہ مند ہوتی ہے اور وہ صورتحال یہ ہوسکتی کہ آپ کی طرف دنیا کی کوئی بھی طاقت آنکھ اُٹھاتے ہوئے کئی بار سوچے گا۔ نیوکلیئر صلاحیت نہ تو کسی ملک کے اقتصادی مسائل حل کر سکتی ہے اور نہ ہی اس سے دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جب تک کوئی ملک اقتصادی طور پر مضبوط نہ ہو، وہ اپنی اندرونی خلفشار پر قابو نہیں پاسکتا۔

پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کا تجربہ ہندوستان سمیت شاید پوری دنیا کو پسند نہیں آیا کہ ا ایک اسلامی ریاست آخر کس طرح دنیا کی بڑی طاقتوں کی فہرست میں شامل ہوسکتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان اثاثوں کے بارے اس تشویش کا برملا اظہار بھی سامنے آتا رہتا ہے کہ کہیں یہ ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔


حالانکہ پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بہت مظبوط ہاتھوں میں ہے اس کی گواہی پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر انصر پرویز نے بھی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم عالمی معیار کے مطابق انتہائی موثر اور جامع ہے، جبکہ اس کے تحفظ کے لیے پاک فوج کے کئی جانبازوں مصروف عمل ہیں جس طرح پاک فوج اپنے ملک کے دفاع سے کسی ایک لمحے بھی غافل نہیں رہتی اسی طرح وہ اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت بھی کرنا جانتی ہے اس لئے دنیا کی یہ تشویش بالکل بے جا ہے۔

بحیثیت پاکستانی میں آج خود پر فخر محسوس کررہا ہوں کہ میرا تعلق دنیا کی طاقتور ترین ریاستوں میں سے ایک ریاست سے ہے جس کو تمام تر اختلافات کے باوجود دشمن گھورنے سے پہلے بھی کئی بار سوچتا ہے لیکن میں اپنے وطن عزیز کو مزید ترقی کی منازل کرتے دیکھنا چاہتا ہوں کیونکہ آج کی دنیا معاشی طاقت کی قدر کرتی ہے اوراِس شعبے میں ہم بدقسمتی سے تھوڑا پیچھے ہیں۔یہاں غربت بھی ہے، امن و امان کا مسئلہ بھی اور تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی بھی۔ لیکن اِس کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ معاشی مسائل میں گھرے رہیں گے۔ نہیں ہر گز نہیں۔ ۔۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جس طرح ہم طاقت کے میدان میں دنیا کی بڑی بڑی ریاستوں کے ہم پلا ہیں بالکل اِسی طرح بہت جلد معاشی میدان میں بھی اپنی اہمیت کا لوہا منوالیں گے۔ اور یہ ہرگز جذباتی باتیں نہیں کررہا ہوں بلکہ اُن پیشنگوئیوں کی بدولت کہہ رہا ہوں جن کے مطابق 2050 پاکستان دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں میںسے ایک ہوگا۔ یہ پیشنگوئی 1869 میں قیام ہونے والی ایک کنسلٹنگ کمپنی Goldman Sachs نے کی ہے۔ یہ وہی فرم ہے جس نے کچھ عرصہ قبل BRIC کی اصطلاح متعارف کروائی تھی جس کے مطابق دنیا کی چار بڑی معاشی طاقتیں امریکہ کو پیچھے چھوڑنے والی ہیں اور BRIC سے مراد برازیل، روس، بھارت اور چین ہے۔ اور اگردیکھا جائے تو BRIC کا تصور کسی نہ کسی حد تک حقیقت کا رنگ اپنا رہا ہے۔

اس لیے بحثیت ایک پاکستانی میں بالکل پُرامید ہوںکہ وہ وقت دور نہیں جب سبز حلالی پرچم دنیا بھر میں فخر کے ساتھ دیکھا جائے گا اور اِس کی قدر پوری دنیا میں کی جائے گی۔



نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story