ماں اور بچے کی صحت کو درپیش چیلنجز
صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے ماں کی صحت کو ترجیح دیں
ماں اور بچے کی صحت ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے مگر جب تک انسان کا وجود ہے یہ موضوع کسی نہ کسی حوالے سے زیر بحث آتا رہے گا۔
اس معاملے میں جہاں زیادہ سے زیادہ طبی رہنمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، وہاں سماجی رویوں اور ذمہ داریوں کا ذکر کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ ہسپتال میں مریضوں کے معائنے کے دوران ایک پچیس تیس سالہ عورت کمرے میں داخل ہوئی۔
ساتھ میں دو معصوم اور خوبصورت بچے بھی تھے۔ خاتون کو معدے کے السر کی شکایت تھی۔ بتایا کہ شوہر کا رویہ اچھا نہیں، وہ گھر میں مار پیٹ اور جھگڑے کرتا ہے، جس وجہ سے ان کی زندگی انتہائی پریشانی میں گزر رہی ہے۔
خاتون خانہ کی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گھر کا سکون میسر نہیں ہوتا۔ عورت چاہے امیر اور پڑھے لکھے طبقے کی ہو یا پھر غریب اور ان پڑھ طبقے کی، اکثر صورتوں میں پسنا اس کا مقدر ٹھہرتا ہے، جس کی وجہ ہمارے سماجی رویے ہیں۔
مردوں کی اکثریت چاہے پڑھی لکھی اور باشعور ہو یا پھر ان پڑھ اور گنوار، غصے میں دونوں کی کیفیت ایک سی ہوتی ہے۔ زیر عتاب عورت ہی آتی ہے۔ اس سے متعلق ہمیں اپنے سماجی رویوں کو درست کرنے اور اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔
عورت، بالخصوص ماں بہت زیادہ تکریم کی مستحق ہے۔ بیماریوں کی زیادہ تر وجوہات بھی گھریلو ٹینشن اور پریشانیوں ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے عورت خاص کر ایک حاملہ یا دودھ پلانے والی ماں ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار رہتی ہے۔ ساتھ میں بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔کیونکہ بچوں کی صحت کا دارومدار ماں کی صحت پر منحصر ہوتا ہے۔ ماں صحت مند ہوگی تو بچہ صحت مند ہوگا اور معاشرہ صحت مند ہوگا۔
ماں اور بچے کی صحت ایک ایسا سنگین اور بنیادی مسئلہ ہے جو نہ صرف تیسری دنیا بلکہ پورے اقوام عالم کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی عورتوں اور بچوں میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ شہر کے کسی بھی ہسپتال کے مریضوں کی تعداد اور شرح اموات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچے اورحاملہ خواتین شامل ہیں۔
''سیو چلڈرن'' کی ایک رپورٹ کے مطابق ماؤں میں دوران زچگی شرح اموات ایک لاکھ میں 276 ہے اور بلوچستان میں یہ شرح 700 سے اوپر ہے۔
170 میں سے ہر ایک ماں کو دوران زچگی موت کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ اس حساب سے پاکستان پوری دنیا میں 149 نمبر پر ہے۔
نومولود بچوں میں ہر ہزار میں 89 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یونیسیف کی 2016 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہزار میں سے 46 بچے، ایک ماہ سے کم عمر میں موت کے منہ میں گئے ہیں۔ مجموعی طور پر دو لاکھ 48 ہزار بچے موت کے منہ میں گئے، جو پوری دنیا کے اعداد و شمار کا 10 فیصد ہے۔
اگر وجوہات کا جائزہ لیں تو ماؤں میں یہ شرح بچوں کی پیدائش کے وقت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ دوران حمل باقاعدگی سے اپنا چیک اپ نہ کروانا بھی ہے کیونکہ دوران حمل کئی ایسی وجوہات ہوتی ہیں جو کہ پیدائش کے وقت پیچیدگیوں کا اور موت کے منہ میں لے جانے کا سبب بنتی ہیں۔ بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ کا نہ ہونا بھی ایک اہم وجہ ہے۔
اس کے علاوہ بچوں کی تعداد کا زیادہ ہونا بھی ہے جسے گرینڈ ملٹی پیرا کہتے ہیں، یعنی کہ زیادہ بار حمل کا ٹھہرنا۔ مغربی ممالک میں یہ لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب چار بار سے زیادہ حمل ٹھہرے مگر ترقی پذیر ممالک کے دیہی علاقوں کی عورتوں میں حمل کی تعداد دس سے بھی اوپر چلی جاتی ہے۔ پیدائش میں وقفہ کم ہونے کی وجہ سے ماں کی صحت تو متاثر ہوتی ہی ہے مگر ساتھ ہی باقی بچوں کی پرورش اور نگہداشت بھی متاثر ہو جاتی ہے۔
ماں اور بچے میں شرح اموات کی ایک اہم وجہ دوران زچگی صفائی کا فقدان بھی ہے۔ تیسری دنیا کے باقی ممالک کی طرح پاکستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر زچگیاں غیر تربیت یافتہ دائی کراتی ہیں جس کی وجہ سے مختلف پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر صحیح اور بروقت تشخیص کی جائے تو دوران پیدائش اور بعد کے مسائل کم ہوسکتے ہیں، ساتھ ہی ماں اور بچے کو موت کے منہ میں جانے سے یقینی طور پر بچایا جا سکتا ہے۔
بھوک، افلاس اور قحط آج تیسری دنیا کا ایک بدترین المیہ ہے۔ یہاں پر کئی ایسے ممالک ہیں جہاں پر کئی برسوں سے خشک سالی نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جیسے ایتھوپیا مگر قحط کے اس عفریت نے ایشیا کے کچھ حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔
پاکستان میں تھر اور بلوچستان کے کچھ علاقے بھی قحط سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ یہاں پر کئی برسوں سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط کے بدترین آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جس سے ماں اور بچوں کے ساتھ دوسرے لوگ بھی متاثر ہورہے ہیں اور کئی موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
خوراک میں کمی کی وجہ سے ماں اور بچے کو اہم غذائی اجزا نہیں مل پاتے جو ماں کی صحت کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا بھی باعث ہوتے ہیں۔ خوراک کی کمی دو طرح کی ہو تی ہے۔ ایک یہ کہ خوراک کی مقدار ہی کم ہو اور دوسرا یہ کہ غیر متوازن غذا جس میں اہم غذائی اجزاء میں کمی یا زیادتی ہو۔
یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب مختلف قسم کی اہم غذائیں ہم اپنی پسند و ناپسند اور عدم دستیابی کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں، جس سے قوت مدافعت کم ہوتی ہے اور بیماری لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ غذا میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا معاشرہ پدرسری ہے۔
یہاں اچھی خوراک گھر کے مرد کو پہلے دی جاتی ہے، پھر بیٹے کو اور آخر میں بیٹی اور ماں کی باری آتی ہے۔ ماں جس کے وجود سے یہ کائنات آباد ہے، متناسب اور بروقت غذا نہ ملنے کے سبب بیمار پڑ جاتی ہے۔ نتیجے میں بچوں کی صحت بھی متاثر ہو جاتی ہے۔
بچوں میں شرح اموات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں ان عوامل کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے جو موت یا عمر بھر کی معذوری کا سبب بنتے ہیں۔
بچوں کی بیماری کا براہ راست تعلق ماں کی صحت سے ہوتا ہے، جیسے بچوں کی کئی بیماریاں دوران حمل ماؤں سے منتقل ہوتی ہیں۔ دوران حمل معالج کے مشورے کے بغیر مختلف دوائیاں لینے سے بھی پیدائشی، جسمانی یا ذہنی معذوری جنم لے سکتی ہے۔ ایسے بچے پوری زندگی معذوری میں گذارتے ہیں یا پھر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
دوران حمل شروع کے تین مہینوں میں بچے کے اعضاء بنتے ہیں جسے ایمبریوجینیسس (embriogensis) کہتے ہیں، اس دوران کوئی بھی غیر ضروری دوائی ایمبریوجینیسس کے عمل میں رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ نتیجتاً کوئی نہ کوئی جسمانی کمزوری رہ جاتی ہے جو ذہنی اور جسمانی کمزوری، معذوری یا موت کا باعث ہو سکتی ہے۔
آج کل کی ماؤں میں بوتل کے دودھ کے استعمال کا رجحان بھی زیادہ ہے جو مختلف بیماریوں اور انفیکشن کا سبب بنتی ہے۔ فارمولہ دودھ میں شامل غذائی اجزا کی مقدار کو کم و بیش ماں کے دودھ کے مطابق رکھا گیا ہے، مگر بوتل کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق صاف ستھرا رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
صفائی کا فقدان انفیکشن کے بڑھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ماں کے دودھ میں قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے ایسی پروٹین قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں جو بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے میں ویکسین کا کام کرتی ہیں جب کہ ڈبے والے دودھ میں یہ خاصیت نہیں ہوتی۔
ماؤں اور بچوں میں جان لیوا بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے مختلف بیماروں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگوانا انتہائی ضروری ہے۔
مگر اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو غلط افواہوں کی وجہ سے یا پھر بنیادی صحت کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے حفاظتی ٹیکے نہیں لگواتے۔ نتیجتہً زچگی کے وقت ماں اور بچے میں تشنج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور بچے خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے معذور ہوسکتے ہیں یا موت کا شکار ہوتے ہیں۔
ان سب عوامل کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی نہایت اہم کردار ہے۔ ایک پڑھی لکھی ماں بہتر سمجھ سکتی ہے کہ حمل کے درمیان مناسب وقفہ ہونا چاہیے اور حمل کے دوران مستند معالج سے باقاعدگی سے چیک اپ ضروری ہے۔
اس دوران غیر ضروری دواؤں سے اجتناب کرنا، حفاظتی ٹیکوں کا مکمل کورس کرنا، متوازن غذا کھانا اور بچے کی پیدائش کے بعد بچے کو موذی بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگانا، اسے اپنا دودھ پلانا، اپنی اور بچے کی صفائی کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے۔ بیماری کی علامات ظاہر ہوتے ہی فوراً معالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔
پوری دنیا میں ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ اس شرح اموات کو کم کیا جائے۔ اس سلسلے میں قومی سطح پر بھی بہت سے تعمیری کام ہورہے ہیں۔
جیسے مختلف جان لیوا بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکوں کا کورس ہے۔ اگر ہم ماں اور بچے کو بیماریوں اورعمر بھر کی معذوری سے بچانا چاہتے ہیں تو ہم سب کا فرض ہے کہ حکومت، عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق متوازن غذا کا استعمال کریں، صفائی کا خیال رکھیں، نشہ آور چیزوں جیسے سگریٹ، تمباکو نوشی، یا گٹکے سے مکمل اجتناب کریں کیونکہ ماں کے ساتھ یہ بچے کے لیے بھی مہلک ہیں۔ ان اصولوں پر عمل کرکے ہی ایک صحت مندانہ زندگی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ کہ ماں گھریلو مشکلات اور پریشانیوں سے گھبرانے کے بجائے فارغ اوقات میں صحت مندانہ سرگرمیوں پر توجہ دے تاکہ ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہو۔ یہ تمام ایسی باتیں ہیں جن پر عمل کرکے ہی ماں صحت مند رہ سکتی ہے۔ جب ماں صحت مند ہوگی تو گھرانہ صحت مند ہوگا اور پھر پورا معاشرہ صحت مند ہوگا۔
اس معاملے میں جہاں زیادہ سے زیادہ طبی رہنمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، وہاں سماجی رویوں اور ذمہ داریوں کا ذکر کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ ہسپتال میں مریضوں کے معائنے کے دوران ایک پچیس تیس سالہ عورت کمرے میں داخل ہوئی۔
ساتھ میں دو معصوم اور خوبصورت بچے بھی تھے۔ خاتون کو معدے کے السر کی شکایت تھی۔ بتایا کہ شوہر کا رویہ اچھا نہیں، وہ گھر میں مار پیٹ اور جھگڑے کرتا ہے، جس وجہ سے ان کی زندگی انتہائی پریشانی میں گزر رہی ہے۔
خاتون خانہ کی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گھر کا سکون میسر نہیں ہوتا۔ عورت چاہے امیر اور پڑھے لکھے طبقے کی ہو یا پھر غریب اور ان پڑھ طبقے کی، اکثر صورتوں میں پسنا اس کا مقدر ٹھہرتا ہے، جس کی وجہ ہمارے سماجی رویے ہیں۔
مردوں کی اکثریت چاہے پڑھی لکھی اور باشعور ہو یا پھر ان پڑھ اور گنوار، غصے میں دونوں کی کیفیت ایک سی ہوتی ہے۔ زیر عتاب عورت ہی آتی ہے۔ اس سے متعلق ہمیں اپنے سماجی رویوں کو درست کرنے اور اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔
عورت، بالخصوص ماں بہت زیادہ تکریم کی مستحق ہے۔ بیماریوں کی زیادہ تر وجوہات بھی گھریلو ٹینشن اور پریشانیوں ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے عورت خاص کر ایک حاملہ یا دودھ پلانے والی ماں ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار رہتی ہے۔ ساتھ میں بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔کیونکہ بچوں کی صحت کا دارومدار ماں کی صحت پر منحصر ہوتا ہے۔ ماں صحت مند ہوگی تو بچہ صحت مند ہوگا اور معاشرہ صحت مند ہوگا۔
ماں اور بچے کی صحت ایک ایسا سنگین اور بنیادی مسئلہ ہے جو نہ صرف تیسری دنیا بلکہ پورے اقوام عالم کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی عورتوں اور بچوں میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ شہر کے کسی بھی ہسپتال کے مریضوں کی تعداد اور شرح اموات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچے اورحاملہ خواتین شامل ہیں۔
''سیو چلڈرن'' کی ایک رپورٹ کے مطابق ماؤں میں دوران زچگی شرح اموات ایک لاکھ میں 276 ہے اور بلوچستان میں یہ شرح 700 سے اوپر ہے۔
170 میں سے ہر ایک ماں کو دوران زچگی موت کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ اس حساب سے پاکستان پوری دنیا میں 149 نمبر پر ہے۔
نومولود بچوں میں ہر ہزار میں 89 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یونیسیف کی 2016 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہزار میں سے 46 بچے، ایک ماہ سے کم عمر میں موت کے منہ میں گئے ہیں۔ مجموعی طور پر دو لاکھ 48 ہزار بچے موت کے منہ میں گئے، جو پوری دنیا کے اعداد و شمار کا 10 فیصد ہے۔
اگر وجوہات کا جائزہ لیں تو ماؤں میں یہ شرح بچوں کی پیدائش کے وقت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ دوران حمل باقاعدگی سے اپنا چیک اپ نہ کروانا بھی ہے کیونکہ دوران حمل کئی ایسی وجوہات ہوتی ہیں جو کہ پیدائش کے وقت پیچیدگیوں کا اور موت کے منہ میں لے جانے کا سبب بنتی ہیں۔ بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ کا نہ ہونا بھی ایک اہم وجہ ہے۔
اس کے علاوہ بچوں کی تعداد کا زیادہ ہونا بھی ہے جسے گرینڈ ملٹی پیرا کہتے ہیں، یعنی کہ زیادہ بار حمل کا ٹھہرنا۔ مغربی ممالک میں یہ لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب چار بار سے زیادہ حمل ٹھہرے مگر ترقی پذیر ممالک کے دیہی علاقوں کی عورتوں میں حمل کی تعداد دس سے بھی اوپر چلی جاتی ہے۔ پیدائش میں وقفہ کم ہونے کی وجہ سے ماں کی صحت تو متاثر ہوتی ہی ہے مگر ساتھ ہی باقی بچوں کی پرورش اور نگہداشت بھی متاثر ہو جاتی ہے۔
ماں اور بچے میں شرح اموات کی ایک اہم وجہ دوران زچگی صفائی کا فقدان بھی ہے۔ تیسری دنیا کے باقی ممالک کی طرح پاکستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر زچگیاں غیر تربیت یافتہ دائی کراتی ہیں جس کی وجہ سے مختلف پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر صحیح اور بروقت تشخیص کی جائے تو دوران پیدائش اور بعد کے مسائل کم ہوسکتے ہیں، ساتھ ہی ماں اور بچے کو موت کے منہ میں جانے سے یقینی طور پر بچایا جا سکتا ہے۔
بھوک، افلاس اور قحط آج تیسری دنیا کا ایک بدترین المیہ ہے۔ یہاں پر کئی ایسے ممالک ہیں جہاں پر کئی برسوں سے خشک سالی نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جیسے ایتھوپیا مگر قحط کے اس عفریت نے ایشیا کے کچھ حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔
پاکستان میں تھر اور بلوچستان کے کچھ علاقے بھی قحط سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ یہاں پر کئی برسوں سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط کے بدترین آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جس سے ماں اور بچوں کے ساتھ دوسرے لوگ بھی متاثر ہورہے ہیں اور کئی موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
خوراک میں کمی کی وجہ سے ماں اور بچے کو اہم غذائی اجزا نہیں مل پاتے جو ماں کی صحت کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا بھی باعث ہوتے ہیں۔ خوراک کی کمی دو طرح کی ہو تی ہے۔ ایک یہ کہ خوراک کی مقدار ہی کم ہو اور دوسرا یہ کہ غیر متوازن غذا جس میں اہم غذائی اجزاء میں کمی یا زیادتی ہو۔
یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب مختلف قسم کی اہم غذائیں ہم اپنی پسند و ناپسند اور عدم دستیابی کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں، جس سے قوت مدافعت کم ہوتی ہے اور بیماری لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ غذا میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا معاشرہ پدرسری ہے۔
یہاں اچھی خوراک گھر کے مرد کو پہلے دی جاتی ہے، پھر بیٹے کو اور آخر میں بیٹی اور ماں کی باری آتی ہے۔ ماں جس کے وجود سے یہ کائنات آباد ہے، متناسب اور بروقت غذا نہ ملنے کے سبب بیمار پڑ جاتی ہے۔ نتیجے میں بچوں کی صحت بھی متاثر ہو جاتی ہے۔
بچوں میں شرح اموات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں ان عوامل کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے جو موت یا عمر بھر کی معذوری کا سبب بنتے ہیں۔
بچوں کی بیماری کا براہ راست تعلق ماں کی صحت سے ہوتا ہے، جیسے بچوں کی کئی بیماریاں دوران حمل ماؤں سے منتقل ہوتی ہیں۔ دوران حمل معالج کے مشورے کے بغیر مختلف دوائیاں لینے سے بھی پیدائشی، جسمانی یا ذہنی معذوری جنم لے سکتی ہے۔ ایسے بچے پوری زندگی معذوری میں گذارتے ہیں یا پھر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
دوران حمل شروع کے تین مہینوں میں بچے کے اعضاء بنتے ہیں جسے ایمبریوجینیسس (embriogensis) کہتے ہیں، اس دوران کوئی بھی غیر ضروری دوائی ایمبریوجینیسس کے عمل میں رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ نتیجتاً کوئی نہ کوئی جسمانی کمزوری رہ جاتی ہے جو ذہنی اور جسمانی کمزوری، معذوری یا موت کا باعث ہو سکتی ہے۔
آج کل کی ماؤں میں بوتل کے دودھ کے استعمال کا رجحان بھی زیادہ ہے جو مختلف بیماریوں اور انفیکشن کا سبب بنتی ہے۔ فارمولہ دودھ میں شامل غذائی اجزا کی مقدار کو کم و بیش ماں کے دودھ کے مطابق رکھا گیا ہے، مگر بوتل کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق صاف ستھرا رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
صفائی کا فقدان انفیکشن کے بڑھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ماں کے دودھ میں قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے ایسی پروٹین قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں جو بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے میں ویکسین کا کام کرتی ہیں جب کہ ڈبے والے دودھ میں یہ خاصیت نہیں ہوتی۔
ماؤں اور بچوں میں جان لیوا بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے مختلف بیماروں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگوانا انتہائی ضروری ہے۔
مگر اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو غلط افواہوں کی وجہ سے یا پھر بنیادی صحت کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے حفاظتی ٹیکے نہیں لگواتے۔ نتیجتہً زچگی کے وقت ماں اور بچے میں تشنج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور بچے خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے معذور ہوسکتے ہیں یا موت کا شکار ہوتے ہیں۔
ان سب عوامل کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی نہایت اہم کردار ہے۔ ایک پڑھی لکھی ماں بہتر سمجھ سکتی ہے کہ حمل کے درمیان مناسب وقفہ ہونا چاہیے اور حمل کے دوران مستند معالج سے باقاعدگی سے چیک اپ ضروری ہے۔
اس دوران غیر ضروری دواؤں سے اجتناب کرنا، حفاظتی ٹیکوں کا مکمل کورس کرنا، متوازن غذا کھانا اور بچے کی پیدائش کے بعد بچے کو موذی بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگانا، اسے اپنا دودھ پلانا، اپنی اور بچے کی صفائی کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے۔ بیماری کی علامات ظاہر ہوتے ہی فوراً معالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔
پوری دنیا میں ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ اس شرح اموات کو کم کیا جائے۔ اس سلسلے میں قومی سطح پر بھی بہت سے تعمیری کام ہورہے ہیں۔
جیسے مختلف جان لیوا بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکوں کا کورس ہے۔ اگر ہم ماں اور بچے کو بیماریوں اورعمر بھر کی معذوری سے بچانا چاہتے ہیں تو ہم سب کا فرض ہے کہ حکومت، عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق متوازن غذا کا استعمال کریں، صفائی کا خیال رکھیں، نشہ آور چیزوں جیسے سگریٹ، تمباکو نوشی، یا گٹکے سے مکمل اجتناب کریں کیونکہ ماں کے ساتھ یہ بچے کے لیے بھی مہلک ہیں۔ ان اصولوں پر عمل کرکے ہی ایک صحت مندانہ زندگی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ کہ ماں گھریلو مشکلات اور پریشانیوں سے گھبرانے کے بجائے فارغ اوقات میں صحت مندانہ سرگرمیوں پر توجہ دے تاکہ ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہو۔ یہ تمام ایسی باتیں ہیں جن پر عمل کرکے ہی ماں صحت مند رہ سکتی ہے۔ جب ماں صحت مند ہوگی تو گھرانہ صحت مند ہوگا اور پھر پورا معاشرہ صحت مند ہوگا۔