انسان کے فرائض و حقوق
بہتر نکات داعی برحق ﷺحجۃ ٔ الوداع پر عالمی منشور کی شکل میں عطا فرما چکے تھے
اسلام نے ہر انسان پر بہ حیثیت انسان جو فرائض متعین کیے اور جو حقوق عطا کیے ہیں، ان کے بیان سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ذیل کی دوسری عالمی کوششوں کا ذکر کردیا جائے تاکہ اسلام کے مقرر کردہ فرائض و حقوق کا ٹھیک اندازہ ہوسکے۔
عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے آغاز کی پہلی کوشش لیگ آف نیشنز جمعیت اقوام کے نام سے کی گئی۔ اس کے بعد مجلس اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور دنیا کے بیشتر ممالک نے یکے بعد دیگرے اس کی رکنیت اختیار کرلی۔
اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا ایک عالمی منشور مرتب کیا، اس کی شقوں میں سرفہرست یہ تھا کہ تمام انسان برابر ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ برادرانہ سلوک ہونا چاہیے۔ کسی انسان کو اس کے خاندان، قوم، ملک، رنگ، مذہب، جنس یا سیاسی مسلک کی بنا پر اس کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ہر انسان کو زندہ رہنے اور اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا یک ساں حق حاصل ہے۔
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل حقوق انسانی کی پاس داری کی عملًا داغ بیل ڈال دی تھی۔ آپؐ نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں انسانی حقوق اور امن عالم کے عالمی منشور کا اعلان فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بلاشبہ! تم سب کا باپ ایک ہے۔
یاد رکھو! کسی عربی کو غیر عرب پر، غیر عرب کو عربی پر، اس طرح کسی سرخ کو سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو سرخ رنگت والے پر کوئی فضیلت نہیں، اگر ہے تو صرف نیکی اور پرہیز گاری کی وجہ سے ہے۔
غلاموں کا خیال رکھو جو خود کھاؤ انہیں کھلاؤ جو خود پہنو وہی انہیں پہناؤ، آج دور جاہلیت کے تمام خون ختم کیے جاتے ہیں سب سے پہلے اپنے خاندان کا خون ربیعہ کے بیٹے کا معاف کرتا ہوں۔
عورتوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈور، بے شک! تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر تاقیامت اس طرح حرام ہے جیسے آج کا دن، یہ مہینہ، اور یہ شہر قابل حرمت ہیں۔''
( بہ حوالہ: بخاری، مسلم، ابوداؤد)
حقوق انسانی کے اس عظیم منشور کا اعلان تو غلبۂ اسلام کے بعد ہوا، لیکن اس سے بہت پہلے یعنی اعلان نبوت سے تقریباً بیس سال قبل مکہ مکرمہ میں بین القبائلی معاہدۂ امن مرتب ہوا جسے حلف الفضول (صاحبان فضل کا معاہدہ) کا نام دیا گیا تھا، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی اس میں شریک ہوئے۔
اس معاہدے کے شرکاء نے ان امور پر باہم عہد و پیمان کیا کہ مکہ مکرمہ میں کسی ظالم کو نہیں رہنے دیا جائے گا، مظلوموں کی حمایت کی جائے گی، اپنی حدود میں قافلوں کی حفاظت کی جائے گی، بیوگان اور بے سہارا افراد کو سہارا دیا جائے گا، وغیرہ۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترقی کی اعلیٰ منازل طے کرنے کے بعد اقوام عالم حقوق انسانی کے جس مقام پر آج پہنچی ہیں، اس سے بہتر ابتداء اور کام یاب کوشش عملًا داعی برحق سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع پر عالمی منشور کی شکل میں عطا فرما چکے تھے۔
اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسانوں کے ضمن میں جو فرائض لازم کیے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: خدمت خلق انسانی فرائض میں سرفہرست ہے۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اﷲ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں مصروف رہتا ہے۔''
حضرت ختم المرسلؐ نے فرمایا: ''مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔'' گویا اسلام دوسروں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ وہ دوسرے انسانوں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت سے ہے کہ انہوں نے اﷲ کے نبیؐ سے سب سے افضل ایمان کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ دوسروں سے دوستی کرو تو اﷲ کے لیے، دشمنی رکھو تو اﷲ کے لیے اور اپنی زبان اﷲ کی یاد میں مشغول رکھو، دوسرے انسانوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو اور ان کے لیے وہی ناپسند کرو جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو۔
انسانوں پر رحم و کرم کرنا یا ان سے اچھے سلوک سے پیش آنے کو انسانی فرائض میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ حضرت رسالت مآبؐ نے فرمایا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ رحم کرنے والے پر اﷲ رحم فرماتا ہے، جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں خدا اُن پر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ لہٰذا جو زمین پر ہیں تو ان پر رحم کرو، آسمانوں والا تم پر رحم فرمائے گا۔ جو شخص انسانوں پر رحم نہیں کرتا اﷲ تعالیٰ اس پر رحم نہیں فرماتا۔
بنی نوع انسان کو نفع پہنچانا اپنے ثبات و دوام کی دلیل ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اﷲ کے نزدیک محبوب ترین انسان وہ ہے جو اس کنبہ کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہے۔'' مساوات ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے، مفہوم: ''اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد عورت سے پیدا کیا، تمہارے گروہ اور قبیلے صرف اس لیے بنائے کہ تمہارا تعارف ہوسکے ورنہ تم میں سب سے معزز اﷲ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ نیکو کار ہے۔'' اس حقیقت کا اعلان ختم المرسلینؐ نے حجۃٔ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں فرمایا جو اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔
حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ اس سے کریں کہ اﷲ جل شانہ اپنے حقوق تو معاف کردے گا لیکن بندوں کے حقوق معاف نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ بدلہ وصول کرلیں یا خود معاف کردیں۔ ہر انسان ایک دوسرے سے ناصرف اپنی شکل و صورت اور قد کاٹھ میں بل کہ عادات و اطوار اور پسند و ناپسند میں بھی یک سر مختلف ہے۔
اس لیے کسی وقت باہمی اختلاف پیدا ہونا کوئی انہونی بات نہیں اس سلسلے میں ارشاد نبویؐ کا مفہوم ہے کہ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز بتا دوں جو روزہ، صدقہ اور نماز سے افضل ہے۔ تو صحابہؓ نے عرض کیا یارسولؐ اﷲ ﷺ ضرور فرمائیے۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: لوگوں کے درمیان صلح کرانا۔
رسول اﷲ ﷺ نے اُمت مسلمہ کو تاکید فرمائی کہ ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو۔ درحقیقت دین اسلام ایک انسان کے فرائض و حقوق کے تحفظ کی جہاں ضمانت دیتا ہے وہاں ہر انسان سے اپنے فرائض کی بجاآوری (یعنی دوسروں کے ہر حقوق کی ادائی) پر زور دیتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے ہی حقوق کا حصول ممکن ہے۔ اگر آپ اپنے فرائض ادا نہ کریں تو دوسرے سے حقوق کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ کیوں کہ حقوق و فرائض باہم لازم و ملزوم ہیں۔
عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے آغاز کی پہلی کوشش لیگ آف نیشنز جمعیت اقوام کے نام سے کی گئی۔ اس کے بعد مجلس اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور دنیا کے بیشتر ممالک نے یکے بعد دیگرے اس کی رکنیت اختیار کرلی۔
اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا ایک عالمی منشور مرتب کیا، اس کی شقوں میں سرفہرست یہ تھا کہ تمام انسان برابر ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ برادرانہ سلوک ہونا چاہیے۔ کسی انسان کو اس کے خاندان، قوم، ملک، رنگ، مذہب، جنس یا سیاسی مسلک کی بنا پر اس کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ہر انسان کو زندہ رہنے اور اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا یک ساں حق حاصل ہے۔
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل حقوق انسانی کی پاس داری کی عملًا داغ بیل ڈال دی تھی۔ آپؐ نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں انسانی حقوق اور امن عالم کے عالمی منشور کا اعلان فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بلاشبہ! تم سب کا باپ ایک ہے۔
یاد رکھو! کسی عربی کو غیر عرب پر، غیر عرب کو عربی پر، اس طرح کسی سرخ کو سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو سرخ رنگت والے پر کوئی فضیلت نہیں، اگر ہے تو صرف نیکی اور پرہیز گاری کی وجہ سے ہے۔
غلاموں کا خیال رکھو جو خود کھاؤ انہیں کھلاؤ جو خود پہنو وہی انہیں پہناؤ، آج دور جاہلیت کے تمام خون ختم کیے جاتے ہیں سب سے پہلے اپنے خاندان کا خون ربیعہ کے بیٹے کا معاف کرتا ہوں۔
عورتوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈور، بے شک! تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر تاقیامت اس طرح حرام ہے جیسے آج کا دن، یہ مہینہ، اور یہ شہر قابل حرمت ہیں۔''
( بہ حوالہ: بخاری، مسلم، ابوداؤد)
حقوق انسانی کے اس عظیم منشور کا اعلان تو غلبۂ اسلام کے بعد ہوا، لیکن اس سے بہت پہلے یعنی اعلان نبوت سے تقریباً بیس سال قبل مکہ مکرمہ میں بین القبائلی معاہدۂ امن مرتب ہوا جسے حلف الفضول (صاحبان فضل کا معاہدہ) کا نام دیا گیا تھا، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی اس میں شریک ہوئے۔
اس معاہدے کے شرکاء نے ان امور پر باہم عہد و پیمان کیا کہ مکہ مکرمہ میں کسی ظالم کو نہیں رہنے دیا جائے گا، مظلوموں کی حمایت کی جائے گی، اپنی حدود میں قافلوں کی حفاظت کی جائے گی، بیوگان اور بے سہارا افراد کو سہارا دیا جائے گا، وغیرہ۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترقی کی اعلیٰ منازل طے کرنے کے بعد اقوام عالم حقوق انسانی کے جس مقام پر آج پہنچی ہیں، اس سے بہتر ابتداء اور کام یاب کوشش عملًا داعی برحق سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع پر عالمی منشور کی شکل میں عطا فرما چکے تھے۔
اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسانوں کے ضمن میں جو فرائض لازم کیے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: خدمت خلق انسانی فرائض میں سرفہرست ہے۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اﷲ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں مصروف رہتا ہے۔''
حضرت ختم المرسلؐ نے فرمایا: ''مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔'' گویا اسلام دوسروں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ وہ دوسرے انسانوں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت سے ہے کہ انہوں نے اﷲ کے نبیؐ سے سب سے افضل ایمان کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ دوسروں سے دوستی کرو تو اﷲ کے لیے، دشمنی رکھو تو اﷲ کے لیے اور اپنی زبان اﷲ کی یاد میں مشغول رکھو، دوسرے انسانوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو اور ان کے لیے وہی ناپسند کرو جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو۔
انسانوں پر رحم و کرم کرنا یا ان سے اچھے سلوک سے پیش آنے کو انسانی فرائض میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ حضرت رسالت مآبؐ نے فرمایا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ رحم کرنے والے پر اﷲ رحم فرماتا ہے، جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں خدا اُن پر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ لہٰذا جو زمین پر ہیں تو ان پر رحم کرو، آسمانوں والا تم پر رحم فرمائے گا۔ جو شخص انسانوں پر رحم نہیں کرتا اﷲ تعالیٰ اس پر رحم نہیں فرماتا۔
بنی نوع انسان کو نفع پہنچانا اپنے ثبات و دوام کی دلیل ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اﷲ کے نزدیک محبوب ترین انسان وہ ہے جو اس کنبہ کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہے۔'' مساوات ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے، مفہوم: ''اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد عورت سے پیدا کیا، تمہارے گروہ اور قبیلے صرف اس لیے بنائے کہ تمہارا تعارف ہوسکے ورنہ تم میں سب سے معزز اﷲ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ نیکو کار ہے۔'' اس حقیقت کا اعلان ختم المرسلینؐ نے حجۃٔ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں فرمایا جو اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔
حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ اس سے کریں کہ اﷲ جل شانہ اپنے حقوق تو معاف کردے گا لیکن بندوں کے حقوق معاف نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ بدلہ وصول کرلیں یا خود معاف کردیں۔ ہر انسان ایک دوسرے سے ناصرف اپنی شکل و صورت اور قد کاٹھ میں بل کہ عادات و اطوار اور پسند و ناپسند میں بھی یک سر مختلف ہے۔
اس لیے کسی وقت باہمی اختلاف پیدا ہونا کوئی انہونی بات نہیں اس سلسلے میں ارشاد نبویؐ کا مفہوم ہے کہ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز بتا دوں جو روزہ، صدقہ اور نماز سے افضل ہے۔ تو صحابہؓ نے عرض کیا یارسولؐ اﷲ ﷺ ضرور فرمائیے۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: لوگوں کے درمیان صلح کرانا۔
رسول اﷲ ﷺ نے اُمت مسلمہ کو تاکید فرمائی کہ ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو۔ درحقیقت دین اسلام ایک انسان کے فرائض و حقوق کے تحفظ کی جہاں ضمانت دیتا ہے وہاں ہر انسان سے اپنے فرائض کی بجاآوری (یعنی دوسروں کے ہر حقوق کی ادائی) پر زور دیتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے ہی حقوق کا حصول ممکن ہے۔ اگر آپ اپنے فرائض ادا نہ کریں تو دوسرے سے حقوق کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ کیوں کہ حقوق و فرائض باہم لازم و ملزوم ہیں۔