مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ کی قراردادیں

بھارت کا یہ کہنا انتہائی قابل افسوس ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اندرونی معاملہ ہے

بھارت کا یہ کہنا انتہائی قابل افسوس ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اندرونی معاملہ ہے—فائل فوٹو

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تنازع جموں و کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے اور بھارت پر زور دے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کو ختم کرے۔

مسئلہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے، بھارت کا یہ کہنا انتہائی قابل افسوس ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اندرونی معاملہ ہے۔

بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علاوہ دوطرفہ معاہدوں کی پاسداری بھی نہیں کررہا، لیکن اس کے باوجود دنیا کے سامنے جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر اپنے بیانیے کو سہارا دے رہا ہے جب کہ پاکستان نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی منافقت کو ہمیشہ بے نقاب کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔

انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ 5اگست2019 کو بھارت نے جموں و کشمیر کے عوام کا حق سلب کرلیا تھا، حالیہ دنوں میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس ضمن میں انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ جاری کیا، جو عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

آج کشمیر تاریخ کے اہم ترین مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ وادی آج انگار وادی بنی ہوئی ہے جس کا ایک ایک پتہ خون کے آنسو رو رہا ہے، ہر سائبان لہولہان ہے جب کہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے، یہ مسئلہ صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ برصغیر پاک و ہند کے ڈیڑھ ارب عوام کا مسئلہ ہے۔ دو جنگوں میں بھارت نے جس جارحیت کا مظاہرہ کیا وہ تاریخِ عالم کا بھیانک باب ہے۔

بھارت کے گھناؤنے عزائم کھل کر سامنے آ گئے ہیں کہ بھارت اس خطے میں ہندو راج کے قیام کی سازش کر رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکی حمایت کی وجہ سے مسئلہ کشمیر تعطل کا شکار ہے۔ کشمیر میں بھارتی فوج مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے۔

کشمیر کے مظلوم عوام اقوام متحدہ کی ناکامی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کشمیریوں کی تیسری نسل دنیا سے سوال کرتی ہے کہ یہ ظلم کے اندھیرے کب ختم ہوں گے، کب ان کی زندگی میں آزادی کی بہاریں آئیں گی؟

کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کے ساتھ ساتھ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر متعدد بار اپنی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان نے اپنی روایتی امن پسندی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی اشتعال انگیزی کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔

کشمیریوں کی تیسری نسل دنیا سے سوال کررہی ہے کہ یہ ظلم کے اندھیرے کب ختم ہوں گے، کب ان کی زندگی میں آزادی کی بہاریں آئیں گی؟1948کے بعد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جموں وکشمیر کے تنازع پر ایک درجن سے زائد قراردادیں منظور کرچکی ہے۔

یکم جنوری 1948کو بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35کے تحت یہ معاملہ سلامتی کونسل میں لے گیا۔20 جنوری1948 کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر39 منظور کی جس کے تحت شکایات کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیشن قائم کیا جانا تھا۔

تاہم یہ کمیشن مئی1948تک عمل میں نہیں لایا جاسکا۔ جب تک کمیشن حقیقت میں کوئی کام کر پاتا، خطے کی سیاسی اور عسکری صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔

پاکستان اور ہندوستان کے دلائل سننے کے بعد سیکیورٹی کونسل نے21اپریل 1948کو ایک نئی قرارداد منظور کی جس کے تحت پانچ ارکان پر مشتمل ایک نیا کمیشن بنایا گیا جس کا مقصد بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی مدد کے ساتھ خطے میں امن و امان بحال کرنا اور کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے رائے شماری کی تیاری کرنا تھا لیکن یہ بھی بے سود رہا۔

پاکستانی اور ہندوستانی مندوبین کے مؤقف کی تفصیلی سماعت کے بعد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن نے5جنوری 1949کو مسئلہ کشمیر پر اپنی جامع قرارداد منظور کی جسے ہندوستان اور پاکستان نے اتفاق رائے سے قبول کیا۔


اس قرار داد کی رو سے دونوں ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے مجوزہ کمشنر رائے شماری سے تعاون کریں تاکہ ریاست میں جلد از جلد کمیشن آزادانہ رائے شماری کا انعقاد کرسکے۔

جنگ بندی کے عمل کو مانیٹر کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کی منظوری سے مبصرین تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔

قبل ازیں13اگست1948کو بھی اس مسئلے کے حوالے سے ایک قرار داد منظور کی گئی، جس میں فی الفور سیزفائر کا مطالبہ کیا گیا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر47 (1948) میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جموں و کشمیر کی آزادی یا پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ و غیر جانبدارانہ رائے شماری یعنی جمہوری طریقے سے ہو گا۔

قرارداد نمبر51 (1948) بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے تنازع کے جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ قرارداد نمبر80 (1948) جموں و کشمیر کے تنازع کا حل اور حتمی تصفیے کا جمہوری طریقے اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہونے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

قرارداد نمبر91 (1951) بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ کشمیر میں بھارت کے زیرانتظام قائم کی گئی اسمبلی کی طرف سے ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کا حل پیش کیا گیا کوئی بھی حل حتمی فیصلہ تصور نہیں ہو گا۔ قرارداد نمبر 98 (1952) کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونے والی آزادانہ و غیر جانبدارانہ رائے شماری سے ہی کیا جائے گا۔

قرارداد نمبر122(1957) میں ایک مرتبہ پھر یہ عہد دہرایا گیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے قائم کی گئی آئین ساز اسمبلی کا منظور کردہ کوئی بھی قانون یا آئین خطے کے مستقبل یا اس کی کسی ایک ملک کے ساتھ وابستگی کا تعین نہیں کرے گا۔

قرارداد نمبر1172(1998) کے تحت پاکستان اور بھارت کو تاکید کی گئی کہ وہ باہمی تنازعات کو دور کرنے، امن و امان اور سلامتی سے متعلق تمام معاملات کے دیرپا حل کے لیے آپس میں بات چیت کا دوبارہ آغاز کریں، ہندوستان کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ کشمیری خود یا پاکستان اقوام متحدہ کی ان قراردادوں سے دستبردار ہو جائے، بالخصوص شملہ معاہدے کے بعد وہ بین الاقوامی برادری کو یہی باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ مسئلہ دو طرفہ ہے اور اب یہ قراردادیں غیر متعلق ہو گئی ہیں، بہرحال کشمیری یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان قراردادوں کی روح کے مطابق ان کے حق خود ارادیت کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔

ان قراردادوں کی رو سے مسئلہ کشمیر محض زمین کا جھگڑا نہیں، بلکہ دو کروڑ کشمیریوں کے بنیادی حق کا مسئلہ ہے جسے سبوتاژ نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بات قابلِ فخر ہے کہ کشمیر میں شہید ہونے والوں کو پاکستانی قومی پرچم میں لپیٹ کر آسودہ خاک کیا جا رہا ہے۔8جولائی2020کو مجاہدکشمیر برہان وانی کے یومِ شہادت کے موقع پر بھارتی سنگینوں کے باوجود پورے کشمیر میں کشمیریوں نے پاکستانی پرچم لہرا کر اپنی وابستگی کا اظہار کر دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ اور سپرطاقتوں کو یقین کر لینا چاہیے کہ کشمیری حقِ خود ارادیت چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ انسانیت کا بے دریغ قتل دیکھتے ہوئے بھی اقوامِ متحدہ کی طرف سے مسلسل خاموشی کیوں ہے؟

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاک فوج نے بھارت کے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ 27فروری 2019 کو بھارت کے دو طیارے گرا کر پاک فضائیہ نے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو بھارت کے حوالے کرنا بھی دنیا کے سامنے ہے۔

مزید برآں2020 میں پاکستان نے کئی بھارتی جاسوسی ڈرون تباہ کر کے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔ تحریکِ آزادیِ کشمیر اب اپنے منطقی حل کی طرف گامزن ہوچکی ہے۔ اندھیری رات کا سفر کٹنے والا ہے۔ صبحِ آزادی طلوع ہونے کو ہے۔ اِن حالات میں اہلِ وطن کو اپنے ذاتی مفادات قومی مفادات کے لیے قربان کر دینے چاہئیں۔ پاکستانی عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

عالمی اداروں کو لکھے گئے خطوط میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ملکی قانون سازی اور عدالتی فیصلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے تجاوز نہیں کرسکتے اور نہ ہی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے کی حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔

سلامتی کونسل تشویش کے اظہار سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ اقوام متحدہ کی تنظیم کشیدہ صورت حال پر تشویش ظاہر کرنے یا مذمت کے اظہار کے لیے وجود میں نہیں لائی گئی۔

اس ادارے کو محض مصالحانہ کردار ادا کرنے کے بجائے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے تادیبی اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے، بصورت دیگر کشمیریوں کے لیے اس ادارے کا وجود اور عدم وجود دونوں برابر ہے۔
Load Next Story