شہداد کوٹ کے شہری جوہڑوں کا پانی پینے پر مجبور
عام دنوں میں 60 سے 80 روپے تک فروخت کیے جانے والا پانی کا ڈرم اس وقت تقریباً 200 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔
پانی زندگی کی بقا کا ضامن ہے مگر یہ امر باعث حیرت اور قابل مذمت ہے کہ آج کے ترقی یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی شہداد کوٹ جیسے سیاسی اہمیت کے حامل شہر کے لاکھوں باشندے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔
اس زیادتی اور نا انصافی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آج تک اس اہم اور حساس مسئلے کی جانب نہ تو کبھی ارباب اقتدار نے سنجیدگی سے توجہ دی، اور نہ ہی منتخب نمایندوں نے اس ضمن میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا گوارا کیا۔
شہداد کوٹ سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کی شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کا روایتی حلقہ انتخاب رہا ہے اور ان کی شہادت کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ میڈم فریال تالپور کا حلقہ انتخاب ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اتنا مضبوط سیاسیپسمنظر رکھنے کے باوجود یہاں کے لاکھوں رہائشی آج بھی کئی مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور وہ جوہڑ کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔
شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے 3 واٹرسپلائی اسکیمیں موجود ہیں۔ جن کی دیکھ بھال کے لیے میونسپل انتظامیہ نے سنجیدگی سے کبھی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ ایک طرف تینوں اسکیمیں شہریوں کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں تو دوسری طرف ان اسکیموں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ پانی کی موٹروں کی خرابی بھی ایک مستقل مسئلہ ہے۔
اب تک انتظامیہ نے جتنی رقوم ان کی مرمت پر خرچ کی ہے اس سے شہریوں کو مؤثر طریقے سے پانی کی فراہمی کے لیے ایک بڑے منصوبے کا قیام عمل میں آسکتا تھا۔ میونسپل انتظامیہ کی شہریوں کے ساتھ اخلاص اور ہم دردی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ سوا کروڑ روپے آمدنی رکھنے کے باوجود وہ چند لاکھ روپے بجلی کا بل بھی ادا نہیں کرتی جس کی وجہ سے اکثر سیپکو انتظامیہ واٹرسپلائی اسکیموں کی بجلی منقطع کرتی رہتی ہے جس کی وجہ سے کئی دن تک شہریوں کو پانی کی فراہمی معطل رہتی ہے۔ اپریل سے مئی کے آخر تک نہر کی بھل صفائی کے نام پر محکمہ آب پاشی شہریوں کو پانی کی فراہمی بند کردیتا ہے۔
جس کی وجہ سے ان اسکیموں کے ذریعے بھی پانی کی فراہمی تقریباً معطل رہتی ہے۔ کیوںکہ پانی کی بندش سے قبل تالابوں میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے اور اکثر پانی کی عدم فراہمی کے دوران عام لوگ تو پریشان رہتے ہی ہیں، جب کہ میت کو غسل دینا بھی مسئلہ بن جاتا ہے اور اس کے لیے بھی لوگوں کو پانی خریدنا پڑتا ہے۔ مساجد سے اکثر یہ اعلانات سنائی دیتے ہیں کہ پانی نہیں ہے، لہٰذا نمازی گھروں سے وضو کر کے آئیں۔ جیسے ہی گرمیوں میں شدت آئی ہے تو ان واٹر سپلائی اسکیموں کے ذریعے شہریوں کو پانی کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔ اس صورت حال میں پانی فروخت کرنے والوں کی چاندی ہوگئی ہے۔
عام دنوں میں 60 سے 80 روپے تک فروخت کیے جانے والا پانی کا ڈرم اس وقت تقریباً 200 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بالخصوص پانی کی بندش کے عرصے میں شہری روزانہ 5 لاکھ روپے سے زاید کا پانی خریدتے اور پانی کی مد میں اضافی اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں واٹر سپلائی اسکیموں پر جو فلٹر پلانٹ نصب کیے گئے ہیں ان میں انتہائی کم گنجائش تھی اور انہیں نصب کیے ہوئے 4 برس کا طویل عرصہ بھی گزر چکا ہے، وہ شہریوں کے لیے بے سود ہیں۔ 3 واٹرسپلائی اسکیموں پر 75 ہزار گیلن پانی فلٹر کرنے والی 6 مشین نصب کی گئیں، جن کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی مشین کم آبادی والے محلوں کے لیے تو کافی ہوتی ہیں لیکن لاکھوں لوگوں کو پانی کی فراہمی کے لیے لگائے گئے یہ پلانٹ ناکافی ہیں کیوں کہ لاکھوں لوگوں کو پانی فراہم کرنا تو درکنار یہاں 8 لیٹر والے کولر کو بھرنے کے لیے بھی ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو صاف پانی کس طرح فراہم کیا جا سکتا ہے۔ تالابوں کی حالت انتہائی ناگفتہ ہے، صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت گندے جوہڑوں جیسی ہوگئی ہے، جب کہ پانی کو صاف کرنے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ یہ تمام صورت حال حکم رانوں، منتخب نمایندوں اور متعلقہ حکام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ پیپلزپارٹی جو تین عشروں سے یہاں کے عوام کے ووٹوں سے کام یاب ہوکر اقتدار حاصل کرتی رہی ہے اور سندھ میں بھی اس وقت ان کی حکومت ہے، اس مسئلے سے خود کو بری ذمہ نہ سمجھے کیوں کہ ان کا بھی یہ فرض ہے کہ انہوں نے انتخابات میں عوام سے جو وعدے کیے تھے ان کی پاس داری کرے۔
انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی قائد شہید بینظیر بھٹو نے بحیثیت وزیراعظم اپنے حلقہ کے لوگوں کو لاڑکانہ سے صاف اور میٹھا پانی فراہم کرنے کے لیے 1988 میں سروے بھی کرایا تھا اور اس کے علاوہ مختلف مقامات سے پانی کے حصول کے لیے فزیبلیٹی رپورٹس بھی تیار کی گئیں مگر ان میں سے کوئی بھی اسکیم نظر نہیں آتی۔ اس سلسلے میں تحقیق کرنے والے علاقے کے معروف ڈاکٹر سرجن عبدالستار ودھو کا کہنا ہے کہ ایسی اسکیموں سے پانی کا حصول کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے کیوں کہ 55 کلومیٹر یا اس سے کچھ کم فاصلے سے پانی لانے میں کئی دشواریاں پیدا ہوں گی اور آغاز سے اختتام تک راستے میں ان کی دیکھ بھال بھی مشکل ہوجائے گی۔ اس کا واحد حل پانی کو وافر مقدار میں جمع کرنے کے لیے بڑے تالابوں کی تعمیر ہے۔
ان میں پانی اسٹور کرنے کی اتنی گنجائش ہوکہ 3 ماہ کا ذخیرہ کیا جاسکے۔ پانی کو صاف کرنے کے لیے ہیوی فلٹر پلانٹ نصب کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تجاویز انہوں نے ماضی میں میونسپل انتظامیہ کو تحریری طور پر دینے کے ساتھ مختلف فورمز پر سیشن بھی کیے، مگر آج تک اس سلسلے میں کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔ میونسپل انتظامیہ ہو یا حکم ران اور مقامی منتخب نمائندے نجانے کیوں صاف پانی کی فراہمی میں پس و پیش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میونسپل کی واٹرسپلائی اسکیموں کی سیکڑوں ایکڑز اراضی پر تیزی سے قبضے جاری ہیں۔ اگر اس اراضی پر تالاب بنائے جائیں تو شاید پورے سال کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے مگر ایسا دور دور تک ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور میونسپل انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے جس طرح شہر کے اندر میونسپل کی اراضی اور سڑکوں پر قبضوں اور تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے۔
اس طرح واٹرسپلائی اسکیموں کی اراضی بھی قبضہ مافیا کی نظر ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں یہ اسکیمیں ٹانوری شاخ نامی نہر سے پانی حاصل کرکے شہریوں کو فراہم کرتی ہیں تاہم یہ نہر صفائی کے بہانے سال میں تین چار بار بند ہوتی ہے، جس سے پانی کی کمی کا معاملہ سر اٹھاتا رہتا ہے۔ یہ مسئلہ عارضی طور پر حل ہونے والا نہیں اس کے لیے ماہرین کی تجاویز کی روشنی میں ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اب یہ حکمرانوں، منتخب نمائندوں اور ذمہ داران کا امتحان ہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے شہریوں کو کس طرح صاف پانی مہیا کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہے۔
اس زیادتی اور نا انصافی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آج تک اس اہم اور حساس مسئلے کی جانب نہ تو کبھی ارباب اقتدار نے سنجیدگی سے توجہ دی، اور نہ ہی منتخب نمایندوں نے اس ضمن میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا گوارا کیا۔
شہداد کوٹ سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کی شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کا روایتی حلقہ انتخاب رہا ہے اور ان کی شہادت کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ میڈم فریال تالپور کا حلقہ انتخاب ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اتنا مضبوط سیاسیپسمنظر رکھنے کے باوجود یہاں کے لاکھوں رہائشی آج بھی کئی مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور وہ جوہڑ کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔
شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے 3 واٹرسپلائی اسکیمیں موجود ہیں۔ جن کی دیکھ بھال کے لیے میونسپل انتظامیہ نے سنجیدگی سے کبھی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ ایک طرف تینوں اسکیمیں شہریوں کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں تو دوسری طرف ان اسکیموں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ پانی کی موٹروں کی خرابی بھی ایک مستقل مسئلہ ہے۔
اب تک انتظامیہ نے جتنی رقوم ان کی مرمت پر خرچ کی ہے اس سے شہریوں کو مؤثر طریقے سے پانی کی فراہمی کے لیے ایک بڑے منصوبے کا قیام عمل میں آسکتا تھا۔ میونسپل انتظامیہ کی شہریوں کے ساتھ اخلاص اور ہم دردی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ سوا کروڑ روپے آمدنی رکھنے کے باوجود وہ چند لاکھ روپے بجلی کا بل بھی ادا نہیں کرتی جس کی وجہ سے اکثر سیپکو انتظامیہ واٹرسپلائی اسکیموں کی بجلی منقطع کرتی رہتی ہے جس کی وجہ سے کئی دن تک شہریوں کو پانی کی فراہمی معطل رہتی ہے۔ اپریل سے مئی کے آخر تک نہر کی بھل صفائی کے نام پر محکمہ آب پاشی شہریوں کو پانی کی فراہمی بند کردیتا ہے۔
جس کی وجہ سے ان اسکیموں کے ذریعے بھی پانی کی فراہمی تقریباً معطل رہتی ہے۔ کیوںکہ پانی کی بندش سے قبل تالابوں میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے اور اکثر پانی کی عدم فراہمی کے دوران عام لوگ تو پریشان رہتے ہی ہیں، جب کہ میت کو غسل دینا بھی مسئلہ بن جاتا ہے اور اس کے لیے بھی لوگوں کو پانی خریدنا پڑتا ہے۔ مساجد سے اکثر یہ اعلانات سنائی دیتے ہیں کہ پانی نہیں ہے، لہٰذا نمازی گھروں سے وضو کر کے آئیں۔ جیسے ہی گرمیوں میں شدت آئی ہے تو ان واٹر سپلائی اسکیموں کے ذریعے شہریوں کو پانی کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔ اس صورت حال میں پانی فروخت کرنے والوں کی چاندی ہوگئی ہے۔
عام دنوں میں 60 سے 80 روپے تک فروخت کیے جانے والا پانی کا ڈرم اس وقت تقریباً 200 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بالخصوص پانی کی بندش کے عرصے میں شہری روزانہ 5 لاکھ روپے سے زاید کا پانی خریدتے اور پانی کی مد میں اضافی اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں واٹر سپلائی اسکیموں پر جو فلٹر پلانٹ نصب کیے گئے ہیں ان میں انتہائی کم گنجائش تھی اور انہیں نصب کیے ہوئے 4 برس کا طویل عرصہ بھی گزر چکا ہے، وہ شہریوں کے لیے بے سود ہیں۔ 3 واٹرسپلائی اسکیموں پر 75 ہزار گیلن پانی فلٹر کرنے والی 6 مشین نصب کی گئیں، جن کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی مشین کم آبادی والے محلوں کے لیے تو کافی ہوتی ہیں لیکن لاکھوں لوگوں کو پانی کی فراہمی کے لیے لگائے گئے یہ پلانٹ ناکافی ہیں کیوں کہ لاکھوں لوگوں کو پانی فراہم کرنا تو درکنار یہاں 8 لیٹر والے کولر کو بھرنے کے لیے بھی ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو صاف پانی کس طرح فراہم کیا جا سکتا ہے۔ تالابوں کی حالت انتہائی ناگفتہ ہے، صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت گندے جوہڑوں جیسی ہوگئی ہے، جب کہ پانی کو صاف کرنے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ یہ تمام صورت حال حکم رانوں، منتخب نمایندوں اور متعلقہ حکام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ پیپلزپارٹی جو تین عشروں سے یہاں کے عوام کے ووٹوں سے کام یاب ہوکر اقتدار حاصل کرتی رہی ہے اور سندھ میں بھی اس وقت ان کی حکومت ہے، اس مسئلے سے خود کو بری ذمہ نہ سمجھے کیوں کہ ان کا بھی یہ فرض ہے کہ انہوں نے انتخابات میں عوام سے جو وعدے کیے تھے ان کی پاس داری کرے۔
انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی قائد شہید بینظیر بھٹو نے بحیثیت وزیراعظم اپنے حلقہ کے لوگوں کو لاڑکانہ سے صاف اور میٹھا پانی فراہم کرنے کے لیے 1988 میں سروے بھی کرایا تھا اور اس کے علاوہ مختلف مقامات سے پانی کے حصول کے لیے فزیبلیٹی رپورٹس بھی تیار کی گئیں مگر ان میں سے کوئی بھی اسکیم نظر نہیں آتی۔ اس سلسلے میں تحقیق کرنے والے علاقے کے معروف ڈاکٹر سرجن عبدالستار ودھو کا کہنا ہے کہ ایسی اسکیموں سے پانی کا حصول کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے کیوں کہ 55 کلومیٹر یا اس سے کچھ کم فاصلے سے پانی لانے میں کئی دشواریاں پیدا ہوں گی اور آغاز سے اختتام تک راستے میں ان کی دیکھ بھال بھی مشکل ہوجائے گی۔ اس کا واحد حل پانی کو وافر مقدار میں جمع کرنے کے لیے بڑے تالابوں کی تعمیر ہے۔
ان میں پانی اسٹور کرنے کی اتنی گنجائش ہوکہ 3 ماہ کا ذخیرہ کیا جاسکے۔ پانی کو صاف کرنے کے لیے ہیوی فلٹر پلانٹ نصب کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تجاویز انہوں نے ماضی میں میونسپل انتظامیہ کو تحریری طور پر دینے کے ساتھ مختلف فورمز پر سیشن بھی کیے، مگر آج تک اس سلسلے میں کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔ میونسپل انتظامیہ ہو یا حکم ران اور مقامی منتخب نمائندے نجانے کیوں صاف پانی کی فراہمی میں پس و پیش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میونسپل کی واٹرسپلائی اسکیموں کی سیکڑوں ایکڑز اراضی پر تیزی سے قبضے جاری ہیں۔ اگر اس اراضی پر تالاب بنائے جائیں تو شاید پورے سال کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے مگر ایسا دور دور تک ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور میونسپل انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے جس طرح شہر کے اندر میونسپل کی اراضی اور سڑکوں پر قبضوں اور تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے۔
اس طرح واٹرسپلائی اسکیموں کی اراضی بھی قبضہ مافیا کی نظر ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں یہ اسکیمیں ٹانوری شاخ نامی نہر سے پانی حاصل کرکے شہریوں کو فراہم کرتی ہیں تاہم یہ نہر صفائی کے بہانے سال میں تین چار بار بند ہوتی ہے، جس سے پانی کی کمی کا معاملہ سر اٹھاتا رہتا ہے۔ یہ مسئلہ عارضی طور پر حل ہونے والا نہیں اس کے لیے ماہرین کی تجاویز کی روشنی میں ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اب یہ حکمرانوں، منتخب نمائندوں اور ذمہ داران کا امتحان ہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے شہریوں کو کس طرح صاف پانی مہیا کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہے۔