تین سیاستدان

کیا ہمارے ملک کا آئین کلی طور پر نفاذ اور آئین کی ایک ایک شق کی پاسداری کی روشن، قابل ذکر اور مستحکم مثال موجود ہے؟

mjgoher@yahoo.com

کہتے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے جو اپنے ایک ایک فرد کا احساس کرتی اور خیال رکھتی ہے۔ اپنی رعایا کے دکھ درد، تکلیف، پریشانی، مسائل، مصائب و آلام کو دورکرنے کے لیے محبت کرنے والی شفیق ماں جیسا کردار ادا کرتی ہے۔

ملک میں رائج آئین کے دائرہ کار کے تحت ملک کے ہر ایک شہری کو تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔

ریاست کے دو اہم اور بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ اول اپنے شہریوں کو وہ تمام آئینی و قانونی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے جو ایک آسودہ حال اور مطمئن زندگی گزارنے کے لیے لازم قرار دیے گئے۔ دوم یہ کہ ملک کے تمام شہریوں کے جملہ آئینی و قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے عدل و انصاف کا ایسا نظام متعارف کرائے جہاں ہر خاص و عام کو بلاتفریق فوری اور ایک جیسا انصاف میسر آئے۔

یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ نظام انصاف کا شفاف ہونا معاشرے و سماج کے مستحکم ہونے کی ضمانت ہوتی ہے۔ اپنی رعایا کی ایک ایک حاجت پوری کرنا اور ان کی ضرورتوں اور آئینی حقوق کا تحفظ کرنا حاکم وقت کی آئینی ذمے داری ہے۔ اس ضمن میں کوئی بہانہ، کوئی عذر، کوئی دلیل،کوئی منطق اورکوئی بودا فلسفہ قابل قبول نہیں ہوتا۔

دنیا کے مہذب و باوقار جمہوری معاشروں میں آئین ہی وہ واحد مقدس دستاویز ہوتی ہے جو امور مملکت چلانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس میں ایک عام شہری سے لے کر صدر مملکت تک تمام افراد اور ریاستی اداروں کے فرائض، ذمے داریوں اور دائرہ کار کا تعین کر دیا جاتا ہے۔ آئین کی پابندی ہر ایک فرد اور ادارے پر لازم ہے۔ انحراف کرنے والا آئین شکنی کا مرتکب اور قابل تعزیر قرار پائے گا۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ملک کا آئین کلی طور پر نفاذ اور آئین کی ایک ایک شق کی پاسداری کی روشن، قابل ذکر اور مستحکم مثال موجود ہے؟

کیا ریاست کے تمام ادارے آئینی دائرہ کار کے تحت اپنے فرائض منصبی سے آگاہ ہیں؟ کیا وہ اپنی جملہ ذمے داریاں آئین میں طے کردہ اور انھیں تفویض کردہ دائرہ میں رہتے ہوئے ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے پیارے وطن میں آئین کی پاسداری کا بھرم قائم ہے؟ افسوس کہ قائد کے پاکستان میں ایسے تمام سوالوں کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔

یہاں ہر صاحب اختیار طبقے نے آئین و قانون کے ساتھ ایسے ایسے کھلواڑ کیے کہ الحفیظ الامان! اس پہ مستزاد آمریت کے ایسے تڑکے لگائے گئے کہ عشروں تک جمہوریت کا سورج طلوع ہی نہ ہو سکا اور طرہ یہ کہ گاہے گاہے ایوان عدل نے بھی اپنی ''آئینی ذمے داری'' سمجھتے ہوئے ''نظریہ ضرورت'' کے ''پاکیزہ و شفاف'' پانیوں سے آمریت کی آبیاری کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑا۔ نتیجتاً جمہوری نظام اور جمہوریت کا اصل حسن گہنا گیا۔


جب سیاسی اشرافیہ نے سیاست سے اصول اور نظریے کو نکال کر ان کی جگہ مفادات اور مراعات کو '' فٹ'' کردیا۔ غریب عوام اور ملک و قوم کی خدمت کے بجائے ذاتی، خاندانی، سیاسی اور جماعتی وفاداری کو مطمع نظر بنا لیا، لیلیٰ اقتدار کی قربت حاصل کرنے کے لیے ہر ناجائز کام کرنے کو اپنا شعار بنا لیا۔

کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے اور محبت بھی اندھی ہوتی ہے مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ پاکستان میں سیاست بھی اندھی ہوتی ہے۔ اس کا ضمیر مردہ ہوتا ہے۔

آج کے سیاستدانوں کا اپنا ذاتی کردار اور ان کی سیاست قابل رحم ہے۔ یہ اپنے فیصلے خود کرنے سے قاصر ہیں۔

ان کا المیہ یہ ہے کہ ان کو بتانا پڑتا ہے، سمجھانا پڑتا ہے اور سکھانا پڑتا ہے کہ کب، کہاں اور کیسے سیاست کرنی ہے۔ اپنی اپنی باری کے انتظار میں ہمارے سیاستدان قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلتے ہیں اور جلا وطنی کے دکھ بھی اٹھاتے ہیں اور برسوں انتظار کے کرب ناک لمحات بھی کاٹتے ہیں۔

ہم آج کی سیاسی کلاس کو تین درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک الیکٹ ایبل (Electable)، سلیکٹ ایبل (Selectable) اور سوم (Rejectable)۔ جو کھلاڑی الیکٹ ایبل ہوتے ہیں وہ '' امپائر'' کی گڈ بک میں ہوتے ہیں۔ ان پر نوازشات کی برسات ہوتی ہے۔

ایوان عدل سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آنے لگتی ہیں۔ نظریہ ضرورت کے مردہ گھوڑے میں پھر جان ڈال دی جاتی ہے۔ الیکٹ ایبل کی پشت مضبوط کرنے کے لیے سلیکٹ ایبل کی کمک تیار کی جاتی ہے۔ ''وفاداروں'' کا بازار سجایا جاتا ہے، حرص، لالچ اور طمع کے سکوں سے ضمیر کے سودے کیے جاتے ہیں۔

تیسری قسم کے سیاستدان ریجیکٹ ایبل ہوتے ہیں۔ یہ وہ مظلوم ہوتے ہیں جن کا نام امپائر کی گڈ بک سے مٹا دیا جاتا ہے، بس پھر وہیں سے ان کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔

انھیں شفاف احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انکوائریاں، مقدمات، جلاوطنی، پھانسی اور بہت کچھ ان کے مقدر میں لکھ دیا جاتا ہے۔ آج بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے اور نتائج کی کسی کو پروا نہیں ہے۔
Load Next Story