سلیکشن کمیٹی کے معاملات میں مداخلت کل بھی تھی آج بھی ہورہی ہے احتشام الدین
پاکستان کے لیے زیادہ عرصہ کھیلنا قسمت میں نہیں تھا، میں نہیں سمجھتا میرے ساتھ ناانصافی ہوئی، احتشام الدین
پاکستان میں بہت سے ایسے کرکٹرز گزرے ہیں،جن کا ستارہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں خوب چمکا مگربین الاقوامی کرکٹ میں اپنے جوہر دکھانے کے انھیں مناسب مواقع نہ مل سکے۔
قومی ٹیم میں سلیکشن کے معاملات میں گڑبڑ آج بھی ہوتی ہے، جب توانا میڈیا موجود ہے، اس وقت کا اندازہ خود ہی کر لیں جب الیکٹرانک میڈیا کا وجود نہ ہونے کے برابر اور پرنٹ میڈیابھی اب کی طرح پھیلاؤ نہیں رکھتا تھا۔ بات کی وضاحت کے لیے شعیب ملک کی مثال سامنے کی ہے جن کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شمولیت کا عقدہ وسیم اکرم اور وقاریونس جیسے چوٹی کے ماہرین پر بھی نہیں کھل سکا۔
ہمارے ہاں سلیکشن کے معاملات میں ناانصافی کا شکارکرکٹروں کی فہرست جب بھی بنی، اس میں فاسٹ میڈیم بولر احتشام الدین کا نام کہیں بہت اوپرہوگا ، جنھوں نے 20.65 کی بہترین اوسط سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں507 بیٹسمینوں کو آؤٹ کیا مگرٹیسٹ صرف پانچ ہی کھیل سکے۔ انھیں ملک کی نمائندگی کا اعزازاس وقت ملا جب وہ اپنا بہترین وقت گزارچکے تھے اوران کا کیرئیرچڑھاؤ کے بجائے اتارکی طرف تھا۔ان سے ملنے سے قبل ہمارا گمان تھا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پرگلے شکووں کا انبارلگادیں گے لیکن معاملہ اس کے الٹ ہی رہا۔دیرسے چانس ملنے کا معاملہ ہویا وقت بے وقت ٹیم میں ان اورآؤٹ ہونے کی قضیہ ،اس کا معقول جوازان کے پاس ہے۔
ان کی دانست میں لوگ بعض اوقات ادھوری معلومات کی بنیاد پر رائے قائم کرلیتے ہیں ، جس سے تصویرکا پورا رخ سامنے نہیں آتا۔ دس سال فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود ٹیم میں جگہ نہ پانے کا ذکر ہم نے کیا تواس کی وجوہات انھوں نے ہم کو گنوادیں۔ان کا موقف ہے کہ197 1ء کے دورۂ انگلینڈ کے لیے اگر منتخب نہ ہوئے تواس کی وجہ یہ بنی کہ سلیم الطاف اور آصف مسعود بہترین فارم میں تھے۔ ہاں!اس ٹورکے بعد دورۂ سری لنکا کے لیے انھیں ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ ڈھاکا جانے کے لیے وہ کراچی پہنچے توپاک بھارت جنگ چھڑ گئی اور دورہ منسوخ ہوگیا ۔
احتشام الدین کے بقول''اس دورے کا منسوخ ہونا میرے لیے دھچکاتھا۔اس ٹورپرمیں چلا جاتا تو شاید میں پاکستان کے لیے زیادہ عرصہ کھیل جاتا۔''احتشام الدین جب بھی ٹیم میں شامل ہوئے، اس میں کسی نہ کسی مجبوری کا دخل رہا ۔اورجب نکالا گیاتواس کا بھی بامعنی جواز نہیں تھا۔یہ مگرا س طرح سے نہیں سوچتے۔ ان کے ڈراپ ہونے کا اورکسی کے پاس جواز ہونہ ہوان کے پاس ضرور ہے۔ مثلاً1979ء میں ہندوستان کے خلاف کان پورٹیسٹ میںاننگزمیں پانچ وکٹیں لینے کے بعد اگلے ٹیسٹ میںانھیں ٹیم سے باہرکردیا گیا، جس کووہ زیادتی قرارنہیں دیتے۔
ان کا موقف ہے کہ عمران خان کے فٹ ہونے کے بعد کسی بولرنے ہی ڈراپ ہونا تھا، سکندربخت بھی بہترین فارم میں تھا، تو انھی کی جگہ وہ ٹیم میں آسکتے تھے، خواہ انھوں نے جتنے بھی آؤٹ کئے ہوں۔ کان پور میںاحتشام الدین کے ٹیسٹ کھیلنے کامعاملہ بھی عجب ہے۔ وہ اعلان کردہ تیرہ کھلاڑیوں میں بھی نہ تھے اورلیفٹ آرم اسپنرعبدالرقیب کو ٹیسٹ کیپ ملنے جارہی تھی، لیکن میچ سے کچھ ہی دیرقبل وکٹ کو فاسٹ بولنگ کے موافق پاکران کی جگہ احتشام الدین کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ ستم یہ ہے کہ بیچارے عبدالرقیب قومی ٹیم کی نمائندگی کا فخرحاصل کرنے کے اس قدر قریب آئے اورناکام رہے ، اور آئندہ کبھی ٹیسٹ کھیلنے کا بھی انھیں موقع نہ مل سکا۔
کلکتہ ٹیسٹ میں احتشام کوپھرموقع دیا گیاتوانھوں نے پہلی اننگز میں چار،دوسری میں دووکٹیں حاصل کرکے اپنا انتخاب درست ثابت کردیا۔اس ٹیسٹ کا ذکرہوا تو ہم نے پوچھا''سنا ہے، اس ٹیسٹ میں آصف اقبال جب ٹاس کرنے گئے توسکے پر نظر ڈالے بغیرہی انھوں نے وشواناتھ کو ٹاس جیتنے کی مبارکباد دے ڈالی تھی؟ '' اس وقت ہم ایسی کسی بھی بات سے لاعلم تھے۔یہ توہم نے بعد میں سنا کہ ٹاس پرفکسنگ ہوئی تھی۔اس دور میں میچ ریفری تو ہوتے نہیں تھے، اور دونوں کپتان ہی ٹاس کرنے جاتے۔''
ہندوستان کے دورے میں آخرکار بنگلور میں وہ ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز کرنے میں کامیاب ہوگئے، اس دورے پر لے جانا ایک طرح سے مجبوری بن گیاتھا وگرنہ سات برس سے ریزرو کھلاڑیوں ہی میں شامل ہوتے چلے آرہے تھے۔ ہندوستان جانے سے قبل ایک تو یہ ہوا کہ انھوں نے قذافی اسٹیڈیم میں پی آئی اے کی مضبوط ٹیم کے خلاف ایک اننگز میں آٹھ وکٹیں لیں تو سلیکٹروں کے لیے ان کے انتخاب کومزید ٹالنا دشوار ہو گیا۔ یہ کارنامہ اپنی جگہ لیکن ان کے انتخاب کی راہ اس لیے بھی ہموارہوئی کہ کپتان آصف اقبال، سرفراز نواز کو کسی صورت ہندوستان کے خلاف کھلانے کے حق میں نہیں تھے۔
احتشام الدین کا البتہ یہ یقین ہے کہ سرفرازچلے جاتے تب بھی وہ اسکواڈ کا حصہ بنتے۔ اس دورے کی کوئی ایسی یادتازہ کرنے پراصرار کیا جس کو وہ کبھی نہ بھلا سکے ہوں تو بولے''اس دورے میں ایک پاکستانی کھلاڑی نے لاعلمی میں گنڈاپاوشواناتھ کی بیوی سے جوسنیل گواسکرکی بہن بھی تھیں، لائن مارنی شروع کردی۔اس کھلاڑی کو علم ہی نہیں تھا کہ خاتون کا دونوں انڈین کرکٹروں سے کتنا قریبی رشتہ ہے۔ اس لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے اس کے خلاف ''سازش'' کی ، جس میں وشواناتھ ، ان کی بیوی اور گواسکربھی شامل ہو گئے۔
اس کھلاڑی کو اب خاتون نے ہوٹل میں مدعو کرلیا تو وہ ادھر تیار ہوکرپہنچ گئے، ہم بھی عین وقت بھی ادھر آگئے تو وہ کرکٹرہمیں دیکھ کربھونچکا رہ گیا۔اس پرجب یہ کھلا کہ اس کے ساتھ مذاق ہوا ہے تواسے بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ''آدمی وضع دارہیں، اس لیے ہمیں آف دی ریکارڈ بھی اس مذکورہ کھلاڑی کا نام نہ بتایا۔ ان کے خیال میں 1978ء کے دورے میں جب عمران خان بھی ٹیم کے ساتھ نہیں تھے، انھیں انگلینڈ کے خلاف موقع نہ دے کران سے واقعی زیادتی کی گئی۔ ہندوستان سے واپسی کے بعد اگلی سیریز آسٹریلیا سے تھی۔حریف کو زیرکرنے کے لیے اسپنرز سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ فیصل آباد میں انھیں موقع مل گیا لیکن اس سست وکٹ پروہ ایک ہی وکٹ لے سکے۔ ڈینس للی کے حصے میں کوئی وکٹ نہیں آئی اور وہ یہ کہنے پرمجبورہوئے کہ مرنے کے بعد اس وکٹ پران کی قبربنادی جائے۔
1982ء میں لیڈز میں وہ آخری ٹیسٹ کھیلے۔ انگلینڈ جانے والی ٹیم کا حصہ نہیں تھے، ادھرموجود مگرتھے۔ لیڈز ٹیسٹ میں عمران خان نے ان کوٹیم میںشامل کرلیا جب کہ وہ ذہنی طور پر یہ میچ کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھے اور نہ ہی ان کی فٹنس پانچ روزہ میچ کھیلنے کی اجازت دیتی تھی۔ اپنی معروضات منیجر انتخاب عالم کو پیش کیں تو انھوں نے بتایا کہ عمران خان مُصر ہیں کہ وہ یہ میچ کھیلیں۔ خیر یہ میچ کھیلے لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ فٹنس برقرار نہ رکھ سکے اورٹیم کے کسی کام نہ آئے۔
ہم نے ان سے پوچھا '' آپ اپنے وزن کو کنٹرول کرنے میں کیوں ناکام رہے؟'' ''لیگ کرکٹ کے سلسلے میں زیادہ وقت انگلینڈ میں گزرتا تو وہاں میرا وزن بڑھ گیا، ہر چیز ادھر خالص۔ صاف ستھرا ماحول۔ یہ وقت اگر میں پاکستان میں گزارتا تو میرا وزن اتنا نہ بڑھتا۔''
''ہمارے ہاں عمران خان سے پہلے فاسٹ بولرفٹنس کی پرواہ بھی کب کرتے تھے؟'' ''یہ بات درست ہے کہ عمران خان پہلے فاسٹ بولرتھے جنھوں نے فٹنس پرصحیح معنوں میں توجہ دی، نہیں تو بولرتوایک آدھ چکراور ہلکی پھلکی ایکسرسائزکو ہی کافی جانتے تھے۔''
سررچرڈ ہیڈلی اور وسیم اکرم ان کے پسندیدہ فاسٹ بولرز ہیں، جو ان کے خیال میں جب بھی گیند کرنے دوڑتے، لگتاکہ آؤٹ کردیں گے۔ڈینس للی اورمائیکل ہولڈنگ کے بھی مداح ہیں۔عمران خان کی کرکٹ میںہی مختلف حیثیتوں میں عظمت کے قائل نہیں،ان کی شخصیت سے بھی بہت متاثر ہیں۔
ہم نے ان سے جاننا چاہا''طویل عرصہ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے دوران کوئی ایسے کرکٹرز جو باصلاحیت ہونے کے باوجود قومی ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے ہوں؟''
''بشیر حیدر بہت اچھے بولرتھے۔ان کے مقابلے میں میرے ساتھ کچھ بھی زیادتی نہیں ہوئی۔ٹیلنٹ کے ساتھ اپنے کھیل سے بھی بہت مخلص تھے۔ صاف ستھرے آدمی تھے۔ ریلوے کے ہی رائٹ آرم لیگ اسپنراحد خان کو بھی میرے خیال میں پاکستان کے لیے ضرور کھیلنا چاہیے تھا۔ بیٹسمینوں میں سلیم پرویز کا لوہا مانتا ہوں۔ نہایت عمدہ بیٹسمین تھے۔اس طرح ارشاد مرزا کا نام لیا جاسکتا ہے۔ آفتاب بلوچ ٹیسٹ کھیل تو گئے لیکن انھیں زیادہ مواقع نہیں ملے۔ ''
''کرکٹ میں ان کی شناخت کا دوسرا حوالہ قومی سلیکٹرکی حیثیت سے ان کام ہے۔سلیکٹروں کے کام کو وہ بہت مشکل جانتے ہیں، جس میں ان کا خیال ہے دباؤ بہت ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کے معاملات میں مداخلت کل بھی ہوتی تھی اور آج بھی ہورہی ہے۔ احتشام الدین بتاتے ہیں کہ انھوں نے بورڈ کے جن چار پانچ چیئرمینوں کے ساتھ بطور سلیکٹر کام کیا، ان میں شہریارخان ہی وہ واحد شخص تھے، جنھوں نے کبھی سلیکشن کمیٹی کے معاملات میں دخل نہیں دیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شہریارخان جیسا چیئرمین ان سے پہلے ہی گزرا اور نہ اب تک آیا ہے۔ان کے بقول، وہ مالیوں اور چپڑاسیوں سے بھی بڑی محبت سے پیش آتے اوران کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے۔
ہم نے ان سے کہا ''کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کا خیال ہے کہ عاصم کمال کے ساتھ سلیکشن کے معاملے میں انصاف نہیں ہوا۔کچھ کا خیال ہے، انضمام انھیں پسند نہیں کرتے تھے تو کچھ سمجھتے ہیں وہ باب وولمرکی گڈ بک میں نہیں تھے۔اس دور میں آپ سلیکٹرر ہے، توکیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس بیٹسمین کے ساتھ زیادتی ہوئی ؟
''کھلاڑی کا اندرسے مضبوط ہونا ضروری ہے۔ 2007ء کے دورۂ جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں عاصم کمال کو کھلانے کا فیصلہ کیا۔پہلے دو ٹیسٹ میچ وہ نہیں کھیلاتھا۔میں سلیکٹرکی حیثیت سے وہاں موجود تھا۔عاصم کمال میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ احتشام بھائی دوٹیسٹ تو ہوگئے ہیں، میں اگر یہ بھی نہ ہی کھیلوں تواچھا ہے۔وہ جانتا تھا کہ تیسرے ٹیسٹ میں مقابلہ سخت ہوگا، اس لیے وہ بچنا چاہ رہا تھا۔ مطلب یہ کہ وہ اتنا دلیرنہیں تھا، اندرسے مضبوط نہیں تھا۔
میں عمران خان کی اس بات کا قائل ہوں کہ جو ہاراور ناکامی سے گھبراتے ہیں، وہ کبھی جیت نہیں سکتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگرصورتحال مشکل ہے تو آپ کو چیلنج قبول کرنا چاہیے اورایسا کچھ کرکے دکھانا چاہیے کہ آپ کو پھرکوئی باہرنہ کرسکے۔ عاصم کمال اچھا پلیئرتھا، اپروچ تھوڑی منفی تھی، جو آدمی چھپنے کی کوشش کرے گا وہ کبھی باہرنہیں آسکے گا۔عاصم کمال کو ٹیسٹ میں چانس دیا جارہا ہے اور وہ گھبرا رہا ہے، تواس بات کا کپتان انضمام اور کوچ وولمر کو بھی پتا لگا تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کا انھوں نے اچھا تاثرتو نہیں لیا ہوگا۔''
قومی ٹیم میں سلیکشن کے معاملات میں گڑبڑ آج بھی ہوتی ہے، جب توانا میڈیا موجود ہے، اس وقت کا اندازہ خود ہی کر لیں جب الیکٹرانک میڈیا کا وجود نہ ہونے کے برابر اور پرنٹ میڈیابھی اب کی طرح پھیلاؤ نہیں رکھتا تھا۔ بات کی وضاحت کے لیے شعیب ملک کی مثال سامنے کی ہے جن کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شمولیت کا عقدہ وسیم اکرم اور وقاریونس جیسے چوٹی کے ماہرین پر بھی نہیں کھل سکا۔
ہمارے ہاں سلیکشن کے معاملات میں ناانصافی کا شکارکرکٹروں کی فہرست جب بھی بنی، اس میں فاسٹ میڈیم بولر احتشام الدین کا نام کہیں بہت اوپرہوگا ، جنھوں نے 20.65 کی بہترین اوسط سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں507 بیٹسمینوں کو آؤٹ کیا مگرٹیسٹ صرف پانچ ہی کھیل سکے۔ انھیں ملک کی نمائندگی کا اعزازاس وقت ملا جب وہ اپنا بہترین وقت گزارچکے تھے اوران کا کیرئیرچڑھاؤ کے بجائے اتارکی طرف تھا۔ان سے ملنے سے قبل ہمارا گمان تھا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پرگلے شکووں کا انبارلگادیں گے لیکن معاملہ اس کے الٹ ہی رہا۔دیرسے چانس ملنے کا معاملہ ہویا وقت بے وقت ٹیم میں ان اورآؤٹ ہونے کی قضیہ ،اس کا معقول جوازان کے پاس ہے۔
ان کی دانست میں لوگ بعض اوقات ادھوری معلومات کی بنیاد پر رائے قائم کرلیتے ہیں ، جس سے تصویرکا پورا رخ سامنے نہیں آتا۔ دس سال فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود ٹیم میں جگہ نہ پانے کا ذکر ہم نے کیا تواس کی وجوہات انھوں نے ہم کو گنوادیں۔ان کا موقف ہے کہ197 1ء کے دورۂ انگلینڈ کے لیے اگر منتخب نہ ہوئے تواس کی وجہ یہ بنی کہ سلیم الطاف اور آصف مسعود بہترین فارم میں تھے۔ ہاں!اس ٹورکے بعد دورۂ سری لنکا کے لیے انھیں ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ ڈھاکا جانے کے لیے وہ کراچی پہنچے توپاک بھارت جنگ چھڑ گئی اور دورہ منسوخ ہوگیا ۔
احتشام الدین کے بقول''اس دورے کا منسوخ ہونا میرے لیے دھچکاتھا۔اس ٹورپرمیں چلا جاتا تو شاید میں پاکستان کے لیے زیادہ عرصہ کھیل جاتا۔''احتشام الدین جب بھی ٹیم میں شامل ہوئے، اس میں کسی نہ کسی مجبوری کا دخل رہا ۔اورجب نکالا گیاتواس کا بھی بامعنی جواز نہیں تھا۔یہ مگرا س طرح سے نہیں سوچتے۔ ان کے ڈراپ ہونے کا اورکسی کے پاس جواز ہونہ ہوان کے پاس ضرور ہے۔ مثلاً1979ء میں ہندوستان کے خلاف کان پورٹیسٹ میںاننگزمیں پانچ وکٹیں لینے کے بعد اگلے ٹیسٹ میںانھیں ٹیم سے باہرکردیا گیا، جس کووہ زیادتی قرارنہیں دیتے۔
ان کا موقف ہے کہ عمران خان کے فٹ ہونے کے بعد کسی بولرنے ہی ڈراپ ہونا تھا، سکندربخت بھی بہترین فارم میں تھا، تو انھی کی جگہ وہ ٹیم میں آسکتے تھے، خواہ انھوں نے جتنے بھی آؤٹ کئے ہوں۔ کان پور میںاحتشام الدین کے ٹیسٹ کھیلنے کامعاملہ بھی عجب ہے۔ وہ اعلان کردہ تیرہ کھلاڑیوں میں بھی نہ تھے اورلیفٹ آرم اسپنرعبدالرقیب کو ٹیسٹ کیپ ملنے جارہی تھی، لیکن میچ سے کچھ ہی دیرقبل وکٹ کو فاسٹ بولنگ کے موافق پاکران کی جگہ احتشام الدین کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ ستم یہ ہے کہ بیچارے عبدالرقیب قومی ٹیم کی نمائندگی کا فخرحاصل کرنے کے اس قدر قریب آئے اورناکام رہے ، اور آئندہ کبھی ٹیسٹ کھیلنے کا بھی انھیں موقع نہ مل سکا۔
کلکتہ ٹیسٹ میں احتشام کوپھرموقع دیا گیاتوانھوں نے پہلی اننگز میں چار،دوسری میں دووکٹیں حاصل کرکے اپنا انتخاب درست ثابت کردیا۔اس ٹیسٹ کا ذکرہوا تو ہم نے پوچھا''سنا ہے، اس ٹیسٹ میں آصف اقبال جب ٹاس کرنے گئے توسکے پر نظر ڈالے بغیرہی انھوں نے وشواناتھ کو ٹاس جیتنے کی مبارکباد دے ڈالی تھی؟ '' اس وقت ہم ایسی کسی بھی بات سے لاعلم تھے۔یہ توہم نے بعد میں سنا کہ ٹاس پرفکسنگ ہوئی تھی۔اس دور میں میچ ریفری تو ہوتے نہیں تھے، اور دونوں کپتان ہی ٹاس کرنے جاتے۔''
ہندوستان کے دورے میں آخرکار بنگلور میں وہ ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز کرنے میں کامیاب ہوگئے، اس دورے پر لے جانا ایک طرح سے مجبوری بن گیاتھا وگرنہ سات برس سے ریزرو کھلاڑیوں ہی میں شامل ہوتے چلے آرہے تھے۔ ہندوستان جانے سے قبل ایک تو یہ ہوا کہ انھوں نے قذافی اسٹیڈیم میں پی آئی اے کی مضبوط ٹیم کے خلاف ایک اننگز میں آٹھ وکٹیں لیں تو سلیکٹروں کے لیے ان کے انتخاب کومزید ٹالنا دشوار ہو گیا۔ یہ کارنامہ اپنی جگہ لیکن ان کے انتخاب کی راہ اس لیے بھی ہموارہوئی کہ کپتان آصف اقبال، سرفراز نواز کو کسی صورت ہندوستان کے خلاف کھلانے کے حق میں نہیں تھے۔
احتشام الدین کا البتہ یہ یقین ہے کہ سرفرازچلے جاتے تب بھی وہ اسکواڈ کا حصہ بنتے۔ اس دورے کی کوئی ایسی یادتازہ کرنے پراصرار کیا جس کو وہ کبھی نہ بھلا سکے ہوں تو بولے''اس دورے میں ایک پاکستانی کھلاڑی نے لاعلمی میں گنڈاپاوشواناتھ کی بیوی سے جوسنیل گواسکرکی بہن بھی تھیں، لائن مارنی شروع کردی۔اس کھلاڑی کو علم ہی نہیں تھا کہ خاتون کا دونوں انڈین کرکٹروں سے کتنا قریبی رشتہ ہے۔ اس لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے اس کے خلاف ''سازش'' کی ، جس میں وشواناتھ ، ان کی بیوی اور گواسکربھی شامل ہو گئے۔
اس کھلاڑی کو اب خاتون نے ہوٹل میں مدعو کرلیا تو وہ ادھر تیار ہوکرپہنچ گئے، ہم بھی عین وقت بھی ادھر آگئے تو وہ کرکٹرہمیں دیکھ کربھونچکا رہ گیا۔اس پرجب یہ کھلا کہ اس کے ساتھ مذاق ہوا ہے تواسے بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ''آدمی وضع دارہیں، اس لیے ہمیں آف دی ریکارڈ بھی اس مذکورہ کھلاڑی کا نام نہ بتایا۔ ان کے خیال میں 1978ء کے دورے میں جب عمران خان بھی ٹیم کے ساتھ نہیں تھے، انھیں انگلینڈ کے خلاف موقع نہ دے کران سے واقعی زیادتی کی گئی۔ ہندوستان سے واپسی کے بعد اگلی سیریز آسٹریلیا سے تھی۔حریف کو زیرکرنے کے لیے اسپنرز سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ فیصل آباد میں انھیں موقع مل گیا لیکن اس سست وکٹ پروہ ایک ہی وکٹ لے سکے۔ ڈینس للی کے حصے میں کوئی وکٹ نہیں آئی اور وہ یہ کہنے پرمجبورہوئے کہ مرنے کے بعد اس وکٹ پران کی قبربنادی جائے۔
1982ء میں لیڈز میں وہ آخری ٹیسٹ کھیلے۔ انگلینڈ جانے والی ٹیم کا حصہ نہیں تھے، ادھرموجود مگرتھے۔ لیڈز ٹیسٹ میں عمران خان نے ان کوٹیم میںشامل کرلیا جب کہ وہ ذہنی طور پر یہ میچ کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھے اور نہ ہی ان کی فٹنس پانچ روزہ میچ کھیلنے کی اجازت دیتی تھی۔ اپنی معروضات منیجر انتخاب عالم کو پیش کیں تو انھوں نے بتایا کہ عمران خان مُصر ہیں کہ وہ یہ میچ کھیلیں۔ خیر یہ میچ کھیلے لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ فٹنس برقرار نہ رکھ سکے اورٹیم کے کسی کام نہ آئے۔
ہم نے ان سے پوچھا '' آپ اپنے وزن کو کنٹرول کرنے میں کیوں ناکام رہے؟'' ''لیگ کرکٹ کے سلسلے میں زیادہ وقت انگلینڈ میں گزرتا تو وہاں میرا وزن بڑھ گیا، ہر چیز ادھر خالص۔ صاف ستھرا ماحول۔ یہ وقت اگر میں پاکستان میں گزارتا تو میرا وزن اتنا نہ بڑھتا۔''
''ہمارے ہاں عمران خان سے پہلے فاسٹ بولرفٹنس کی پرواہ بھی کب کرتے تھے؟'' ''یہ بات درست ہے کہ عمران خان پہلے فاسٹ بولرتھے جنھوں نے فٹنس پرصحیح معنوں میں توجہ دی، نہیں تو بولرتوایک آدھ چکراور ہلکی پھلکی ایکسرسائزکو ہی کافی جانتے تھے۔''
سررچرڈ ہیڈلی اور وسیم اکرم ان کے پسندیدہ فاسٹ بولرز ہیں، جو ان کے خیال میں جب بھی گیند کرنے دوڑتے، لگتاکہ آؤٹ کردیں گے۔ڈینس للی اورمائیکل ہولڈنگ کے بھی مداح ہیں۔عمران خان کی کرکٹ میںہی مختلف حیثیتوں میں عظمت کے قائل نہیں،ان کی شخصیت سے بھی بہت متاثر ہیں۔
ہم نے ان سے جاننا چاہا''طویل عرصہ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے دوران کوئی ایسے کرکٹرز جو باصلاحیت ہونے کے باوجود قومی ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے ہوں؟''
''بشیر حیدر بہت اچھے بولرتھے۔ان کے مقابلے میں میرے ساتھ کچھ بھی زیادتی نہیں ہوئی۔ٹیلنٹ کے ساتھ اپنے کھیل سے بھی بہت مخلص تھے۔ صاف ستھرے آدمی تھے۔ ریلوے کے ہی رائٹ آرم لیگ اسپنراحد خان کو بھی میرے خیال میں پاکستان کے لیے ضرور کھیلنا چاہیے تھا۔ بیٹسمینوں میں سلیم پرویز کا لوہا مانتا ہوں۔ نہایت عمدہ بیٹسمین تھے۔اس طرح ارشاد مرزا کا نام لیا جاسکتا ہے۔ آفتاب بلوچ ٹیسٹ کھیل تو گئے لیکن انھیں زیادہ مواقع نہیں ملے۔ ''
''کرکٹ میں ان کی شناخت کا دوسرا حوالہ قومی سلیکٹرکی حیثیت سے ان کام ہے۔سلیکٹروں کے کام کو وہ بہت مشکل جانتے ہیں، جس میں ان کا خیال ہے دباؤ بہت ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کے معاملات میں مداخلت کل بھی ہوتی تھی اور آج بھی ہورہی ہے۔ احتشام الدین بتاتے ہیں کہ انھوں نے بورڈ کے جن چار پانچ چیئرمینوں کے ساتھ بطور سلیکٹر کام کیا، ان میں شہریارخان ہی وہ واحد شخص تھے، جنھوں نے کبھی سلیکشن کمیٹی کے معاملات میں دخل نہیں دیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شہریارخان جیسا چیئرمین ان سے پہلے ہی گزرا اور نہ اب تک آیا ہے۔ان کے بقول، وہ مالیوں اور چپڑاسیوں سے بھی بڑی محبت سے پیش آتے اوران کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے۔
ہم نے ان سے کہا ''کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کا خیال ہے کہ عاصم کمال کے ساتھ سلیکشن کے معاملے میں انصاف نہیں ہوا۔کچھ کا خیال ہے، انضمام انھیں پسند نہیں کرتے تھے تو کچھ سمجھتے ہیں وہ باب وولمرکی گڈ بک میں نہیں تھے۔اس دور میں آپ سلیکٹرر ہے، توکیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس بیٹسمین کے ساتھ زیادتی ہوئی ؟
''کھلاڑی کا اندرسے مضبوط ہونا ضروری ہے۔ 2007ء کے دورۂ جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں عاصم کمال کو کھلانے کا فیصلہ کیا۔پہلے دو ٹیسٹ میچ وہ نہیں کھیلاتھا۔میں سلیکٹرکی حیثیت سے وہاں موجود تھا۔عاصم کمال میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ احتشام بھائی دوٹیسٹ تو ہوگئے ہیں، میں اگر یہ بھی نہ ہی کھیلوں تواچھا ہے۔وہ جانتا تھا کہ تیسرے ٹیسٹ میں مقابلہ سخت ہوگا، اس لیے وہ بچنا چاہ رہا تھا۔ مطلب یہ کہ وہ اتنا دلیرنہیں تھا، اندرسے مضبوط نہیں تھا۔
میں عمران خان کی اس بات کا قائل ہوں کہ جو ہاراور ناکامی سے گھبراتے ہیں، وہ کبھی جیت نہیں سکتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگرصورتحال مشکل ہے تو آپ کو چیلنج قبول کرنا چاہیے اورایسا کچھ کرکے دکھانا چاہیے کہ آپ کو پھرکوئی باہرنہ کرسکے۔ عاصم کمال اچھا پلیئرتھا، اپروچ تھوڑی منفی تھی، جو آدمی چھپنے کی کوشش کرے گا وہ کبھی باہرنہیں آسکے گا۔عاصم کمال کو ٹیسٹ میں چانس دیا جارہا ہے اور وہ گھبرا رہا ہے، تواس بات کا کپتان انضمام اور کوچ وولمر کو بھی پتا لگا تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کا انھوں نے اچھا تاثرتو نہیں لیا ہوگا۔''