تحقیق اور تنقید کو ہنر سمجھتا ہوں ان کا کام مغالطے دور کرنا ہے ڈاکٹر نجیب جمال
ایٹمی دھماکوں کے بعد مصریوں کی پاکستان سے محبت دیدنی تھی، 9/11 کے بعد ہمارے یوٹرن سے پھر ناراض ہوگئے، ڈاکٹر نجیب جمال
اردو ادب کے اس استاد اور نقاد کی راہ متعین کرنے میں تین استادوں کا خاص طور سے بڑا دخل رہا جو زندگی کے مختلف مراحل میں ان کے رہبر بنے۔
اسکول میں حسرت موہانی کے دیس موہان سے تعلق رکھنے والے استاد ملے جن کی درویش صفت شاعر سے دور پرے کی رشتہ داری تو تھی مگر اصل بات ان کا کلام حسرت موہانی کا حافظ ہونا تھا، ان کی زبان سے نکلے شعر سن کر شاعری سے نجیب جمال کا تعارف ہو گیا۔ حسرت کے کئی اشعار جو اسکول کے زمانے میں ان کے وردِ زبان رہتے، ان میں سے ایک تھا:
دیکھنا بھی تو انھیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
گھر سے باہر اگر ادب کے حوالے سے موافق فضا میں سانس لے رہے تھے تو گھر میں ٹیکسٹائل انجینئر والد عبدالمجید کا ادبی ذوق و شوق بیٹے کے رجحان کو تقویت دے رہا تھا۔ اس دور میں لائل پور کاٹن ملز میں منعقدہ سالانہ مشاعرے میں برصغیر کے نامور شاعر شرکت کرتے۔
یہ اپنے والدکے ہمراہ اس محفل میں موجود ہوتے۔ یہیں انھوں نے جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی اور احسان دانش کو دیکھا۔ احمد ندیم قاسمی نے ایک مشاعرے میں نظم ''پتھر'' سنائی۔ برسوں بعد نجیب جمال ان سے ملے اور ''پتھر'' کا ذکر ہوا تو وہ نظم کے اس پرانے سامع کو دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گئے۔ ادب سے بیٹے کے شغف سے والدین کو کد تو نہیں تھی مگر وہ اسے ہر صورت ڈاکٹر یا انجینئر ہی دیکھنا چاہتے تھے۔
سائنس کی تعلیم کے سلسلے میں ایف ایس سی تک وہ گھر والوں کی بات مانتے رہے لیکن پھر بغاوت کر دی۔ اردو ادب اور فلسفہ کے مضامین رکھ کر بی اے میں داخلہ لے لیا۔ لائل پور کاٹن ملز ہائی اسکول سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے انٹرمیڈیٹ کے بعد ملتان کی راہ لی۔ اس سرزمین نے ایسے قدم پکڑے کہ آئندہ بیس بائیس برس پھر اس شہرمیں بیتے۔ اس قریے میں آنا اور اسلم انصاری جیسے جید استاد سے تعلق ان کی زندگی کا گویا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اسکول کے استاد نے پڑھنے میں دلچسپی کو ابھارا تو اسلم انصاری نے ان کے ہاں ادب کی صحیح معنوں میں جوت جگائی۔ ان کے زیراثر ہی اصولی طور پر اردو تدریس سے متعلق ہونے کا فیصلہ ہوا۔
گورنمنٹ کالج ملتان سے گریجویشن اور ایمرسن کالج سے ایم اے اردو کیا۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کا نیا نیا قیام عمل میں آیا تھا تو نوکری کے لیے ایک عرضی ادھر ڈال دی۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان بھی دے دیا۔ صادق پبلک اسکول بہاولپور بھی ملازمت کے لیے درخواست دی۔ انٹرویوز کے بعد تینوں جگہوں سے بلاوا آگیا۔ ظاہر سی بات ہے، ان کی نگاہِ انتخاب نے یونیورسٹی پر جا کر ہی ٹھہرنا تھا۔ 1976ء سے 1995ء تک وہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ شعبہ اردو کے چیئرمین کی حیثیت میں بھی ذمہ داریاں انجام دیں۔ تدریسی سفر کا اگلہ پڑاؤ بہاولپور میں تھا۔
بیچ میں ساڑھے چار برس مصر میں قیام کا عرصہ چھوڑ کر وہ 2012ء تک اسلامیہ یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ شعبہ اردو کے چیئرمین اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے طور پر کام کیا۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں کچھ عرصہ پڑھایا مگر دوبارہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے وابستہ ہو گئے۔ ان سے ہم نے کہا ''سرائیکی مٹی میں ایسا کچھ ضرور ہے جو آپ ادھر چلے آتے ہیں؟'' اس سوال پر وہ کہنے لگے ''اسلام آباد میں رہنا ہر ایک کا خواب ہوتا ہے، میرا بھی تھا۔ میں شوق سے گیا۔ دو سال بعد میں نے محسوس کیا، مجھے اسلام آباد کی ضرورت ہے، اسلام آباد کو میری ضرورت نہیں۔ مجھے لگا کہ بہاولپور کو میری زیادہ ضرورت ہے۔
ادھر سے مجھے جو کچھ ملا ہے اسے لوٹانے کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ میں ادھر نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کر سکتا ہوں۔ اس شہر میں میرے دوست ہیں۔ ان سے میرا محبت کا رشتہ ہے۔ اب کچھ عرصہ قبل میں نے بہاولپور میں انٹرنیشنل ادبی کانفرنس کرائی ہے جس سے شہرکی ثقافتی زندگی میں بڑی گہما گہمی رہی۔ سرائیکی خطے میں واپسی کا روحانی پہلو بھی ہوگا۔
ملتان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے باہر جائیں تو پردیسی بن جاتے ہیں۔ شاید یہ بات بہاولپور کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ اجتماعی لاشعور میں کہیں نہ کہیں یہ ہوگا کہ ہم پردیسی ہیں، اس لیے اپنی دھرتی کی طرف جانا ہے۔ اپنی جڑوں کی طرف مراجعت ہونی بھی چاہیے۔ تصوف ہمارا ایک طرح کا اجتماعی شعور ہے۔ اس خطے میں تصوف کی خالص شکلیں اور ماحول نظر آتا ہے۔ مجھے تصوف سے بھی لگاؤ ہے اور شاعری میں تصوف بنیادی چیز ہے اور شاعری میرا مضمون ہے، سالہا سال سے اس کا قاری ہوں اور شاعری کو پڑھا بھی رہا ہوں۔''
ڈاکٹر نجیب جمال کی ادبی زندگی کو باآسانی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے تعارف سے قبل گزرا اور دوسر ا ان کی ارادت مندی میں بیتا عرصہ۔ یوں ان کے ملنے سے قابل احترام اساتذہ کی وہ تثلیت مکمل ہوگئی جس کا ذکر ہم نے ابتدا میں کیا۔ فرمان فتح پوری سے مل کر نجیب جمال کو اپنے ہونے کا احساس ہوا۔ ان کی تحریک اور تجویز پر ہی یگانہ کی شخصیت و فن پر ڈاکٹریٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر نجیب جمال کے بقول ''آپ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک مرشد کامل نہ ہو۔ تحقیق اور تنقید ایک ہنر ہے۔ ادب کے حوالے سے میں فرمان صاحب کو مرشد کامل مانتا ہوں۔
یگانہ کا موضوع ان کا تجویز کردہ تھا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ تحقیق کی پہلی سیڑھی یہ ہے کہ تم یگانہ کی کتابوں کے سارے ایڈیشن تلاش کرو۔ جب تک اوریجنل ایڈیشن دستیاب نہیں ہوں گے تحقیق میں پہلا قدم نہیں اٹھا سکو گے۔ سارے ایڈیشن ہوں گے تو تم ترامیم اور اضافوں کا جائزہ لے سکتے ہو۔ دیباچوں سے مدد مل سکتی ہے۔ کامل استاد کا کام ہے ذہن کو ایک خاص رخ دینا۔ فرمان صاحب کا رول میرے لیے رہبر کا ہے۔
میں تحقیق کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ ان کی صحبت میں سب سیکھا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ جب تک تم اس موضوع پر کام کر رہے ہو سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے بس تم کو اس کا خیال ذہن میں رکھنا ہے۔ موضوع کے ساتھ Live کرنا ہے۔ دوسرا مشورہ ان کا یہ تھا کہ ہر باب کا ساتھ ساتھ مواد جمع کروں تاکہ لکھنے بیٹھوں تو سارا مواد ایک تسلسل میں موجود ہو۔ یہ اتنا بہترین نسخہ تھا کہ چارسال تو میں تحقیق کرتا رہا اور جب لکھنے بیٹھا تو تین ماہ میں سترہ سو صفحے لکھ ڈالے جنھیں کم کیا تو پہلے بارہ سو، پھر آٹھ سو اور آخر میں یہ مقالہ چار سو صفحوں میں کتاب کی صورت چھپا۔''
یگانہ پر کام کیا تو ان کا لکھا اور ان سے متعلق لکھے کو بڑے غور سے دیکھا پرکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یگانہ عشق و محبت اور معاملہ بندی کے شاعرہی نہیں ہیں۔ مثلاً ان کا یہ شعر دیکھیے
زمانے پر نہ سہی دل پہ اختیار رہے
دکھا وہ زور کہ دنیا میں یادگار رہے
اسی طرح
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
اور یہ شعر
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
ان کی غزل کا مزاج مختلف ہے۔ مزاحمتی رنگ غالب ہے۔ اینٹی غزل رویہ ہے لیکن اس سے مراد اس صنف کی مخالفت نہیں بلکہ روایتی طرز کا رد ہے۔ ہیئت سے باخبر ہیں۔ فنی پختگی بہت ہے۔ عروض کے معاملے میں بڑے بڑے شاعر پھنس گئے لیکن اس معاملے میں یگانہ پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ غزل کے فن کی جمالیات سے پوری طرح واقف تھے۔ جان بوجھ کر روایتی شاعری سے گریزاں رہے۔ اپنے بعد آنے والے کئی شاعروں کو یگانہ نے متاثرکیا۔ جمیل مظہری، سجاد باقر رضوی، ظفر اقبال اور عبیداللہ علیم، ان چاروں پر یگانہ کا اثر ہے۔ ان کے زمانے میں سب غالب کی تقلید کر رہے تھے۔
ان کی لفظیات اور تراکیب کو تکرار کے ساتھ برتا جا رہا تھا۔ یگانہ ان چیزوں پر حملہ آور ہوئے اور اپنا نیا ڈکشن پیدا کیا۔ ان کی شاعری میں ہندی الفاظ موجود ہیں لیکن ایسے جیسے اردو زبان کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ تجربہ فراق کی رباعیوں کے مجموعے ''روپ'' میں بھی نظر آتا ہے لیکن فراق نے اثر یگانہ سے بھی قبول کیا ہے کیونکہ ''ترانہ'' پہلے چھپی تھی۔ یگانہ ایک تو ویسے متنازع تھے، دوسرے ان کے خلاف پراپیگنڈا بھی بہت ہوا، جس سے وہ معتوب قرار پاکر نظرانداز کر دیے گئے۔ تحقیق کا بنیادی کام مغالطے دور کرنا ہے۔ میں نے یگانہ کے سلسلے میں ایسا ہی کیا ہے۔ مشفق خواجہ نے یگانہ کا جو کلام مدون کیا ہے، اس کو تدوین کے کام میں مثال کے طور پر سامنے رکھا جاسکتا ہے۔''
غالب شکن یگانہ کو تحقیق کا موضوع بنانے والے ڈاکٹر نجیب جمال، غالب کے بھی مداح ہیں مگر کلاسیکی شاعروں میں سب سے بڑھ کر میر کو مانتے ہیں۔ کلاسیکی شاعروں میں وہ سمجھتے ہیں، ابھی سودا کا ڈِسکور ہونا باقی ہے۔ ان جیسے بڑے شاعر کے نظرانداز ہونے کو اردو کے حق میں نیک فال نہیں جانتے۔
ابراہیم ذوق پر توجہ کی ضرورت بھی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے بقول ''ذوق کو محاورے کا شاعر کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ ضرورت شعری کے تحت محاورہ آرہا ہو تو عیب نہیں اگر صرف محاورے کی شاعری ہو رہی ہے تو یہ عیب ہے۔'' قرۃ العین حیدر اور غلام عباس ان کے پسندیدہ فکشن لکھنے والے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ حسن منظر جتنے اہم فکشن نگار ہیں، اتنی انھیں پذیرائی نہیں ملی۔
وہ شاعر جنھیں ان کے خیال میں نظرانداز کیا گیا اور مستقبل میں وہ ان پر لکھنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں، وہ سیف الدین سیف ہیں۔ ان کی دانست میںاسلم انصاری کو بھی ان کا جائز مرتبہ و مقام نہیں ملا۔ ان کے خیال میں ادبی مراکز سے دور رہنے کے باعث وہ کبھی لائم لائٹ میں نہ آسکے۔ ''سویرا'' میں شائع ہونے والے فرمان فتح پوری کے منیر نیازی پر تحریر کردہ مضمون کو وہ شاعر پر لکھا جانے والا بہترین مضمون قرار دیتے ہیں اور ان کے بقول، ایک بار طالب علم سے منیر نیازی پر مقالہ لکھوایا۔ وہ جب اس کے سلسلے میں منیر نیازی سے ملنے گیا تو انھوں نے اس سے کہا کہ فرمان فتح پوری کا مضمون لازمی دیکھ لینا۔ ان کے خیال میں، مجید امجد کو بھی بہتر نقاد نہیں ملا، مداح البتہ ان کے ہیں۔
اردو تنقید میں ڈاکٹر سید عبداللہ کی ''نقدمیر'' کے بہت قائل ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ان کے جتنی عمدگی سے میر کو کم ہی لوگوں نے سمجھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی ''تنقید اور احتساب'' اور ''نظم جدید کی کروٹیں'' پڑھ کر کچھ شاعروں کو پڑھنے کی طرف مائل ہوئے۔ فرمان فتح پوری کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھا اور جانا۔ محمد حسن عسکری کو وہ اردو تنقید میں پہلا آدمی قرار دیتے ہیں، جنھوں نے معاصر مغربی رویوں کو اپنی تنقید میں جگہ دی۔ ترقی پسند نقادوں میں احتشام حسین اچھے لگے۔ محمد علی صدیقی کی تنقیدی آرا کو بہت اہم جانتے ہیں۔ نئے نقادوں میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی تنقید کو سراہتے ہیں۔ ہماری جامعات میں ڈاکٹریٹ کے مقالوں میں رطب و یابس زیادہ اور ڈھنگ کا کام شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ خال خال ہی ایسے مقالے سامنے آتے ہیں جو کتابی صورت میں چھپ کر اہل نظر سے داد پاتے ہیں۔
ڈاکٹر نجیب جمال کا معاملہ مگر اور ہے۔ یگانہ پر ان کا مقالہ گذشتہ برس کتابی صورت میں چھپ کر سامنے آیا تو ممتاز ادیب انتظار حسین نے لکھ کرکے انھیں داد دی۔ چند دن قبل لاہور میں معروف نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی کو ہم نے یگانہ پر ان کے کام کی تعریف کرتے سنا۔ ڈاکٹر نجیب جمال سے ہم نے چند ایسے مقالوں کے بارے میں جاننا چاہا جن میں تحقیق وتنقید کا عمدہ معیار سامنے آیا ہو۔ اس پر انھوں نے افتخار احمد صدیقی کے ڈپٹی نذیراحمد، خواجہ محمد زکریا کے اکبر الٰہ آبادی، ڈاکٹر انوار احمد کے اردو افسانے اور ڈاکٹر نوازش علی کے فراق گورکھپوری پر تحریر کردہ مقالوں کا نام لیا۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔
کہتے ہیں، وہ پروفیشن جس کو آپ نے اپنی رضا سے چنا ہو، اس میں آپ عروج حاصل کرلیں، اس سے اچھی بات کوئی دوسری ہو نہیں سکتی۔ اس سارے ادبی سفر میں ان کو اپنی بیوی اور بیٹیوں کا بھرپور ساتھ میسر رہا جس کا اندازہ ''یگانہ: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ'' کے اس انتساب سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ ''اپنی خوش سلیقہ و خوش قدم شریک حیات ریحانہ رضوی اور اپنی خوش صورت و خوش صوت بیٹیوں عمارہ، وردہ، تشبیہ، آسمان، قرۃ العین اور نورالصباح کے نام جن کے پاؤں کی آہٹ میرے دل میں گونجتی ہے۔'' مستقبل میں ایک تو وہ یگانہ کے مضامین کو مرتب کرکے چھپوانے کا ارادہ رکھتے ہیں، دوسرے ان کی خواہش، اپنے والد کے تحریر کردہ ڈراموں کو کتابی صورت میں چھپوانے کی ہے۔
اسکول میں حسرت موہانی کے دیس موہان سے تعلق رکھنے والے استاد ملے جن کی درویش صفت شاعر سے دور پرے کی رشتہ داری تو تھی مگر اصل بات ان کا کلام حسرت موہانی کا حافظ ہونا تھا، ان کی زبان سے نکلے شعر سن کر شاعری سے نجیب جمال کا تعارف ہو گیا۔ حسرت کے کئی اشعار جو اسکول کے زمانے میں ان کے وردِ زبان رہتے، ان میں سے ایک تھا:
دیکھنا بھی تو انھیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
گھر سے باہر اگر ادب کے حوالے سے موافق فضا میں سانس لے رہے تھے تو گھر میں ٹیکسٹائل انجینئر والد عبدالمجید کا ادبی ذوق و شوق بیٹے کے رجحان کو تقویت دے رہا تھا۔ اس دور میں لائل پور کاٹن ملز میں منعقدہ سالانہ مشاعرے میں برصغیر کے نامور شاعر شرکت کرتے۔
یہ اپنے والدکے ہمراہ اس محفل میں موجود ہوتے۔ یہیں انھوں نے جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی اور احسان دانش کو دیکھا۔ احمد ندیم قاسمی نے ایک مشاعرے میں نظم ''پتھر'' سنائی۔ برسوں بعد نجیب جمال ان سے ملے اور ''پتھر'' کا ذکر ہوا تو وہ نظم کے اس پرانے سامع کو دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گئے۔ ادب سے بیٹے کے شغف سے والدین کو کد تو نہیں تھی مگر وہ اسے ہر صورت ڈاکٹر یا انجینئر ہی دیکھنا چاہتے تھے۔
سائنس کی تعلیم کے سلسلے میں ایف ایس سی تک وہ گھر والوں کی بات مانتے رہے لیکن پھر بغاوت کر دی۔ اردو ادب اور فلسفہ کے مضامین رکھ کر بی اے میں داخلہ لے لیا۔ لائل پور کاٹن ملز ہائی اسکول سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے انٹرمیڈیٹ کے بعد ملتان کی راہ لی۔ اس سرزمین نے ایسے قدم پکڑے کہ آئندہ بیس بائیس برس پھر اس شہرمیں بیتے۔ اس قریے میں آنا اور اسلم انصاری جیسے جید استاد سے تعلق ان کی زندگی کا گویا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اسکول کے استاد نے پڑھنے میں دلچسپی کو ابھارا تو اسلم انصاری نے ان کے ہاں ادب کی صحیح معنوں میں جوت جگائی۔ ان کے زیراثر ہی اصولی طور پر اردو تدریس سے متعلق ہونے کا فیصلہ ہوا۔
گورنمنٹ کالج ملتان سے گریجویشن اور ایمرسن کالج سے ایم اے اردو کیا۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کا نیا نیا قیام عمل میں آیا تھا تو نوکری کے لیے ایک عرضی ادھر ڈال دی۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان بھی دے دیا۔ صادق پبلک اسکول بہاولپور بھی ملازمت کے لیے درخواست دی۔ انٹرویوز کے بعد تینوں جگہوں سے بلاوا آگیا۔ ظاہر سی بات ہے، ان کی نگاہِ انتخاب نے یونیورسٹی پر جا کر ہی ٹھہرنا تھا۔ 1976ء سے 1995ء تک وہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ شعبہ اردو کے چیئرمین کی حیثیت میں بھی ذمہ داریاں انجام دیں۔ تدریسی سفر کا اگلہ پڑاؤ بہاولپور میں تھا۔
بیچ میں ساڑھے چار برس مصر میں قیام کا عرصہ چھوڑ کر وہ 2012ء تک اسلامیہ یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ شعبہ اردو کے چیئرمین اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے طور پر کام کیا۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں کچھ عرصہ پڑھایا مگر دوبارہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے وابستہ ہو گئے۔ ان سے ہم نے کہا ''سرائیکی مٹی میں ایسا کچھ ضرور ہے جو آپ ادھر چلے آتے ہیں؟'' اس سوال پر وہ کہنے لگے ''اسلام آباد میں رہنا ہر ایک کا خواب ہوتا ہے، میرا بھی تھا۔ میں شوق سے گیا۔ دو سال بعد میں نے محسوس کیا، مجھے اسلام آباد کی ضرورت ہے، اسلام آباد کو میری ضرورت نہیں۔ مجھے لگا کہ بہاولپور کو میری زیادہ ضرورت ہے۔
ادھر سے مجھے جو کچھ ملا ہے اسے لوٹانے کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ میں ادھر نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کر سکتا ہوں۔ اس شہر میں میرے دوست ہیں۔ ان سے میرا محبت کا رشتہ ہے۔ اب کچھ عرصہ قبل میں نے بہاولپور میں انٹرنیشنل ادبی کانفرنس کرائی ہے جس سے شہرکی ثقافتی زندگی میں بڑی گہما گہمی رہی۔ سرائیکی خطے میں واپسی کا روحانی پہلو بھی ہوگا۔
ملتان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے باہر جائیں تو پردیسی بن جاتے ہیں۔ شاید یہ بات بہاولپور کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ اجتماعی لاشعور میں کہیں نہ کہیں یہ ہوگا کہ ہم پردیسی ہیں، اس لیے اپنی دھرتی کی طرف جانا ہے۔ اپنی جڑوں کی طرف مراجعت ہونی بھی چاہیے۔ تصوف ہمارا ایک طرح کا اجتماعی شعور ہے۔ اس خطے میں تصوف کی خالص شکلیں اور ماحول نظر آتا ہے۔ مجھے تصوف سے بھی لگاؤ ہے اور شاعری میں تصوف بنیادی چیز ہے اور شاعری میرا مضمون ہے، سالہا سال سے اس کا قاری ہوں اور شاعری کو پڑھا بھی رہا ہوں۔''
ڈاکٹر نجیب جمال کی ادبی زندگی کو باآسانی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے تعارف سے قبل گزرا اور دوسر ا ان کی ارادت مندی میں بیتا عرصہ۔ یوں ان کے ملنے سے قابل احترام اساتذہ کی وہ تثلیت مکمل ہوگئی جس کا ذکر ہم نے ابتدا میں کیا۔ فرمان فتح پوری سے مل کر نجیب جمال کو اپنے ہونے کا احساس ہوا۔ ان کی تحریک اور تجویز پر ہی یگانہ کی شخصیت و فن پر ڈاکٹریٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر نجیب جمال کے بقول ''آپ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک مرشد کامل نہ ہو۔ تحقیق اور تنقید ایک ہنر ہے۔ ادب کے حوالے سے میں فرمان صاحب کو مرشد کامل مانتا ہوں۔
یگانہ کا موضوع ان کا تجویز کردہ تھا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ تحقیق کی پہلی سیڑھی یہ ہے کہ تم یگانہ کی کتابوں کے سارے ایڈیشن تلاش کرو۔ جب تک اوریجنل ایڈیشن دستیاب نہیں ہوں گے تحقیق میں پہلا قدم نہیں اٹھا سکو گے۔ سارے ایڈیشن ہوں گے تو تم ترامیم اور اضافوں کا جائزہ لے سکتے ہو۔ دیباچوں سے مدد مل سکتی ہے۔ کامل استاد کا کام ہے ذہن کو ایک خاص رخ دینا۔ فرمان صاحب کا رول میرے لیے رہبر کا ہے۔
میں تحقیق کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ ان کی صحبت میں سب سیکھا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ جب تک تم اس موضوع پر کام کر رہے ہو سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے بس تم کو اس کا خیال ذہن میں رکھنا ہے۔ موضوع کے ساتھ Live کرنا ہے۔ دوسرا مشورہ ان کا یہ تھا کہ ہر باب کا ساتھ ساتھ مواد جمع کروں تاکہ لکھنے بیٹھوں تو سارا مواد ایک تسلسل میں موجود ہو۔ یہ اتنا بہترین نسخہ تھا کہ چارسال تو میں تحقیق کرتا رہا اور جب لکھنے بیٹھا تو تین ماہ میں سترہ سو صفحے لکھ ڈالے جنھیں کم کیا تو پہلے بارہ سو، پھر آٹھ سو اور آخر میں یہ مقالہ چار سو صفحوں میں کتاب کی صورت چھپا۔''
یگانہ پر کام کیا تو ان کا لکھا اور ان سے متعلق لکھے کو بڑے غور سے دیکھا پرکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یگانہ عشق و محبت اور معاملہ بندی کے شاعرہی نہیں ہیں۔ مثلاً ان کا یہ شعر دیکھیے
زمانے پر نہ سہی دل پہ اختیار رہے
دکھا وہ زور کہ دنیا میں یادگار رہے
اسی طرح
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
اور یہ شعر
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
ان کی غزل کا مزاج مختلف ہے۔ مزاحمتی رنگ غالب ہے۔ اینٹی غزل رویہ ہے لیکن اس سے مراد اس صنف کی مخالفت نہیں بلکہ روایتی طرز کا رد ہے۔ ہیئت سے باخبر ہیں۔ فنی پختگی بہت ہے۔ عروض کے معاملے میں بڑے بڑے شاعر پھنس گئے لیکن اس معاملے میں یگانہ پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ غزل کے فن کی جمالیات سے پوری طرح واقف تھے۔ جان بوجھ کر روایتی شاعری سے گریزاں رہے۔ اپنے بعد آنے والے کئی شاعروں کو یگانہ نے متاثرکیا۔ جمیل مظہری، سجاد باقر رضوی، ظفر اقبال اور عبیداللہ علیم، ان چاروں پر یگانہ کا اثر ہے۔ ان کے زمانے میں سب غالب کی تقلید کر رہے تھے۔
ان کی لفظیات اور تراکیب کو تکرار کے ساتھ برتا جا رہا تھا۔ یگانہ ان چیزوں پر حملہ آور ہوئے اور اپنا نیا ڈکشن پیدا کیا۔ ان کی شاعری میں ہندی الفاظ موجود ہیں لیکن ایسے جیسے اردو زبان کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ تجربہ فراق کی رباعیوں کے مجموعے ''روپ'' میں بھی نظر آتا ہے لیکن فراق نے اثر یگانہ سے بھی قبول کیا ہے کیونکہ ''ترانہ'' پہلے چھپی تھی۔ یگانہ ایک تو ویسے متنازع تھے، دوسرے ان کے خلاف پراپیگنڈا بھی بہت ہوا، جس سے وہ معتوب قرار پاکر نظرانداز کر دیے گئے۔ تحقیق کا بنیادی کام مغالطے دور کرنا ہے۔ میں نے یگانہ کے سلسلے میں ایسا ہی کیا ہے۔ مشفق خواجہ نے یگانہ کا جو کلام مدون کیا ہے، اس کو تدوین کے کام میں مثال کے طور پر سامنے رکھا جاسکتا ہے۔''
غالب شکن یگانہ کو تحقیق کا موضوع بنانے والے ڈاکٹر نجیب جمال، غالب کے بھی مداح ہیں مگر کلاسیکی شاعروں میں سب سے بڑھ کر میر کو مانتے ہیں۔ کلاسیکی شاعروں میں وہ سمجھتے ہیں، ابھی سودا کا ڈِسکور ہونا باقی ہے۔ ان جیسے بڑے شاعر کے نظرانداز ہونے کو اردو کے حق میں نیک فال نہیں جانتے۔
ابراہیم ذوق پر توجہ کی ضرورت بھی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے بقول ''ذوق کو محاورے کا شاعر کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ ضرورت شعری کے تحت محاورہ آرہا ہو تو عیب نہیں اگر صرف محاورے کی شاعری ہو رہی ہے تو یہ عیب ہے۔'' قرۃ العین حیدر اور غلام عباس ان کے پسندیدہ فکشن لکھنے والے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ حسن منظر جتنے اہم فکشن نگار ہیں، اتنی انھیں پذیرائی نہیں ملی۔
وہ شاعر جنھیں ان کے خیال میں نظرانداز کیا گیا اور مستقبل میں وہ ان پر لکھنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں، وہ سیف الدین سیف ہیں۔ ان کی دانست میںاسلم انصاری کو بھی ان کا جائز مرتبہ و مقام نہیں ملا۔ ان کے خیال میں ادبی مراکز سے دور رہنے کے باعث وہ کبھی لائم لائٹ میں نہ آسکے۔ ''سویرا'' میں شائع ہونے والے فرمان فتح پوری کے منیر نیازی پر تحریر کردہ مضمون کو وہ شاعر پر لکھا جانے والا بہترین مضمون قرار دیتے ہیں اور ان کے بقول، ایک بار طالب علم سے منیر نیازی پر مقالہ لکھوایا۔ وہ جب اس کے سلسلے میں منیر نیازی سے ملنے گیا تو انھوں نے اس سے کہا کہ فرمان فتح پوری کا مضمون لازمی دیکھ لینا۔ ان کے خیال میں، مجید امجد کو بھی بہتر نقاد نہیں ملا، مداح البتہ ان کے ہیں۔
اردو تنقید میں ڈاکٹر سید عبداللہ کی ''نقدمیر'' کے بہت قائل ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ان کے جتنی عمدگی سے میر کو کم ہی لوگوں نے سمجھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی ''تنقید اور احتساب'' اور ''نظم جدید کی کروٹیں'' پڑھ کر کچھ شاعروں کو پڑھنے کی طرف مائل ہوئے۔ فرمان فتح پوری کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھا اور جانا۔ محمد حسن عسکری کو وہ اردو تنقید میں پہلا آدمی قرار دیتے ہیں، جنھوں نے معاصر مغربی رویوں کو اپنی تنقید میں جگہ دی۔ ترقی پسند نقادوں میں احتشام حسین اچھے لگے۔ محمد علی صدیقی کی تنقیدی آرا کو بہت اہم جانتے ہیں۔ نئے نقادوں میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی تنقید کو سراہتے ہیں۔ ہماری جامعات میں ڈاکٹریٹ کے مقالوں میں رطب و یابس زیادہ اور ڈھنگ کا کام شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ خال خال ہی ایسے مقالے سامنے آتے ہیں جو کتابی صورت میں چھپ کر اہل نظر سے داد پاتے ہیں۔
ڈاکٹر نجیب جمال کا معاملہ مگر اور ہے۔ یگانہ پر ان کا مقالہ گذشتہ برس کتابی صورت میں چھپ کر سامنے آیا تو ممتاز ادیب انتظار حسین نے لکھ کرکے انھیں داد دی۔ چند دن قبل لاہور میں معروف نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی کو ہم نے یگانہ پر ان کے کام کی تعریف کرتے سنا۔ ڈاکٹر نجیب جمال سے ہم نے چند ایسے مقالوں کے بارے میں جاننا چاہا جن میں تحقیق وتنقید کا عمدہ معیار سامنے آیا ہو۔ اس پر انھوں نے افتخار احمد صدیقی کے ڈپٹی نذیراحمد، خواجہ محمد زکریا کے اکبر الٰہ آبادی، ڈاکٹر انوار احمد کے اردو افسانے اور ڈاکٹر نوازش علی کے فراق گورکھپوری پر تحریر کردہ مقالوں کا نام لیا۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔
کہتے ہیں، وہ پروفیشن جس کو آپ نے اپنی رضا سے چنا ہو، اس میں آپ عروج حاصل کرلیں، اس سے اچھی بات کوئی دوسری ہو نہیں سکتی۔ اس سارے ادبی سفر میں ان کو اپنی بیوی اور بیٹیوں کا بھرپور ساتھ میسر رہا جس کا اندازہ ''یگانہ: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ'' کے اس انتساب سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ ''اپنی خوش سلیقہ و خوش قدم شریک حیات ریحانہ رضوی اور اپنی خوش صورت و خوش صوت بیٹیوں عمارہ، وردہ، تشبیہ، آسمان، قرۃ العین اور نورالصباح کے نام جن کے پاؤں کی آہٹ میرے دل میں گونجتی ہے۔'' مستقبل میں ایک تو وہ یگانہ کے مضامین کو مرتب کرکے چھپوانے کا ارادہ رکھتے ہیں، دوسرے ان کی خواہش، اپنے والد کے تحریر کردہ ڈراموں کو کتابی صورت میں چھپوانے کی ہے۔