میں سرخ ہوں

عظیم گیبریل گارسیا مارکیز ناول کی پہلی سطر کو خصوصی اہمیت دیا کرتا تھا۔ ...

لاش کہلانے سے بہتر ہے کہ میں سرخ رنگ کو اپنی شناخت بنا لوں!

وضاحت کر دیں، ہم لیفٹسٹ ہونے کا اعتراف نہیں کر رہے۔ اگر کوئی ہے بھی، تو بھری محفل میں کیا تذکرہ کرنا۔ شاید بہت سی آنکھیں غصے سے سرخ ہو جائیں۔ حضرت، برداشت کا زمانہ لد گیا۔ جبر کا قہر ہے چہار سو۔ ایسے میں زبان پر مہر اچھی۔ قلم کا سر قلم ہی بھلا۔ زمانہ وہ ہے کہ صاحبِ علم خاموش ہے، جہل چنگھاڑ رہا ہے۔ اور ہم اِس چنگھاڑ پر سر دُھن رہے ہیں۔ مکالمے کی موت ہو گئی۔ طاقت مرکزی زبان ٹھہری۔ علم سے دوری۔ خرد دشمنی۔

دنیا خلا میں آگاہی کا نور پا چکی، اور ہم غور و فکر کے مضر اثرات بیان کرنے میں جُٹے ہیں، کوئی ویرانی سی ویرانی ہے!خیر، ہمارا موضوع کوئی سیاسی نظریہ، کوئی مذہبی مباحثہ نہیں، عمران خان کے پُراسرار جلسے اور میاں، مودی ملاقات بھی نہیں؛ ہم تو تذکرہ کر رہے ہیں نوبیل انعام یافتہ، ممتاز ترک ادیب، اورحان پامک کے شہرہ آفاق ناول "My Name is Red" کا۔ اِس انوکھے ادیب سے ابتدائی تعارف تو ڈاکٹر عمر میمن کے ترجمہ کردہ ناول ''سفید قلعہ'' کے وسیلے ہوا، مگر جس شخص نے حقیقی معنوں میں اورحان کو پڑھنے کی جوت جگائی، وہ تھے ممتاز ناول نگار، جناب مستنصر حسین تارڑ۔

مطالعے کے شایق ہمارے دوست، محمود الحسن نے ایکسپریس کے لیے اُن کا جو انٹرویو کیا، اُس میں "My Name is Red" کا بھی تذکرہ آیا۔ مارکیز اور ہوسے ساراماگو کے ساتھ اُنھوں نے اورحان پامک کو بھی شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ تجسس بڑھا۔ نجیب محفوظ کے بعد ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے اِس دوسرے مسلمان لکھاری کی کتابوں کی کھوج شروع ہوئی۔ پہلے "Snow" پڑھا۔ پھر "The Black Book" سے پالا پڑا۔ "My Name is Red" بھی حاصل کر لیا۔ پہلی ہی سطر نے گرفت میں لے لیا۔ تحیر کے زیر اثر آگے بڑھتے رہے۔

اچانک سب اتھل پتھل ہو گیا۔ یہ کرب ناک انکشاف ہوا کہ کتاب کے صفحات گڈمڈ ہیں۔ کاپی وہ ''پائریٹڈ'' تھی۔ دھوکا دے گئی۔ پھر دیگرمصروفیات نے گھیر لیا۔ وقت گزرتا رہا۔

2013ء کے انتخابات کے بعد، جن پر کپتان دھاندلی کا الزام عاید کر رہے ہیں، ایک روز فیس بک پر ''سرخ میرا نام'' نامی کتاب کا اشتہار دیکھا۔ خون کے سرخ خلیوں نے جوش مارا۔ مترجم ہما انور تھیں۔ ہمارے لیے یکسر اجنبی، مگر جس امر نے ترجمے کے معیار کی بابت امید دلائی، وہ تھا تارڑ صاحب کا پیش لفظ۔ ہمیں یقین تھا کہ جس ناول کو پڑھ کر اُنھیں اپنی کتابیں جلا دینے کا پُرخطر خیال آیا تھا، اُس کے ناقص ترجمے پر وہ کبھی پیش لفظ لکھنا گوارا نہیں کرتے۔


کتاب جمہوری پبلی کیشنز نے شایع کی تھی۔ قیمت بہت زیادہ نہیں، مگر کم بھی نہیں تھی۔ شوق کا کوئی مول نہیں ہے۔ کھٹ سے آرڈر دے دیا۔ شومئی قسمت، اُن دنوں لاہور میں بارشیں ہو رہی تھیں۔ کتاب کچھ تاخیر سے پہنچی۔ پیش لفظ پڑھا۔ تارڑ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں، جس کے ہم گرویدہ ہیں، اورحان سے اپنی محبت کے آغاز سے قبل اُس غصے کا ذکر کیا تھا، جو اُس وقت نازل ہوا، جب اُن کے پسندیدہ ترک ادیب، یشار کمال کے بجائے ''اورحان پامک نامی کسی شخص'' کو نوبیل سے نواز دیا گیا۔ اُس وقت تک اورحان کو پڑھا نہیں تھا۔ جب پڑھا، تو قائل ہو گئے۔ اپنے مضمون میں انھوں نے مترجم کی بھی تعریف کی۔ ہم نے ناول تیزی سے پڑھ ڈالا۔ لَلَک ہی ایسی تھی۔ اور یہ اعتراف کرنا چاہیں گے کہ جو امید باندھی تھی، ناول اُس سے زیادہ پُر اثر ثابت ہوا۔

عظیم گیبریل گارسیا مارکیز ناول کی پہلی سطر کو خصوصی اہمیت دیا کرتا تھا۔ کبھی کبھار تو ابتدائی سطر لکھنے میں کئی کئی دن لگا دیتا۔ اورحان بھی اُسی مسلک سے ہیں۔ کالم کے آغاز میں ہم نے لاش کا تذکرہ کیا تھا ناں۔ دراصل وہ ایک اشارہ تھا۔ یہ منفرد ناول ایک چونکا دینے والی سطر سے شروع ہوتا ہے۔ کچھ یوں: ''اب میں فقط ایک لاش ہوں!''

جی ہاں، پہلے باب میں کنویں کی تہ میں پڑا مقتول کہانی بیان کر رہا ہے۔ چوتھے باب میں قاتل، اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر، آپ سے ہم کلام ہو گا۔ دراصل یہ پورا ناول صیغہ واحد متکلم میں لکھا ایک شاہکار ہے۔ ہر کردار، اپنے اسلوب، اپنے انداز میں کہانی بیان کر رہا ہے۔ اورحان کے اِس تجربے نے ہر کردار کو زندہ کر دیا۔ اور اِس ناول میں فقط انسان آپ سے گفت گو نہیں کریں گے جناب۔ غیر انسانی کردار مثلاً گھوڑے اور کتے سے بھی سامنا ہو گا۔ درخت، سکہ اور قلم بھی اورحان کی دنیا میں کلام کرتے ہیں!

یہ گھڑنت دراصل سولہویں صدی کے استنبول کا تذکرہ ہے۔ عثمانی دورِ حکومت۔ مقتول اور قاتل؛ دونوں ہی منی ایچر آرٹسٹ۔ ناول میں سیاست اور سلطان بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مرکزی خیال مشرق اور مغرب کے روابط کے باعث، تبدیلی اور روایت کے درمیان جنم لینے والا تصادم ہے۔ مصنف نے مصوری اور اُسے حقیقی یا خالص بنانے والی شے سے بحث کی ہے۔ تاریخ ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اسرار بلا کا ہے۔اگر آپ فکشن کے قاری ہیں، تو آپ کو ہر صورت یہ ناول پڑھنا چاہیے۔ بہت اچھے ڈھب پر شایع کیا گیا ہے۔ اہتمام کیا ہے، جمہوری پبلی کیشنز کے کرتا دھرتا، فرخ سہیل گویندی نے۔

سیاست، ادب، مذہب اور دیگر موضوعات پر 250 کتابیں شایع کر چکے ہیں۔ پچیس برس قبل اِس میدان میں آئے۔ رجحان لیفٹ کی جانب۔ عملی سیاست کا بھی حصہ رہے۔ ترکی اور وہاں کا ادب خصوصی توجہ کا مرکز۔ یشار کمال، اورحان پامک اور عدالت آعولو کی تخلیقات کے تراجم چھاپ چکے ہیں۔ پیٹرک کنراس کی مشہور کتاب ''اتاترک'' کو بھی اردو کے قالب میں پیش کیا۔ "My Name is Red" کی مترجم، ہما انور، سنتے ہی نوجوان ہیں۔ جمہوری پبلی کیشنز میں ایڈیٹر۔ اب تک نو کتب کو اردو روپ دے چکی ہیں۔

تو عزیزو، آج بات ہوئی اورحان پامک کی۔ ایک حیران کن ناول کی۔ جلسے جلسوں میں ہونے والی دھواں دار تقریریں اور الزامات کی سیاست زیر بحث نہیں آئی؛ اچھا لگا۔ ویسے کبھی کبھی خواہش ہوتی ہے؛ کاش ہم کتابوں ہی کی باتیں کیا کریں۔ صبح جاگیں، تو وہ ناول اٹھا لیں، جسے پڑھتے پڑھتے آنکھ لگی تھی۔ دوران سفر کسی شاعر کا کلام مطالعے میں رہے۔ شام میں یار دوست اکٹھے ہوں، تو سیاست کے بجائے فن و ادب پر بات کریں۔ خبروں کے بجائے کتابوں کا تذکرہ ہو۔ لن ترانیاں کم، مطالعہ زیادہ کیا جائے۔کاش، وہ دن بھی آئے، لیکن پہلے ہمیں جذباتیت کے اُس تانگے سے اترنا ہو گا، جسے ہم نادانی میں رتھ سمجھ بیٹھے ہیں۔
Load Next Story