انسداد بدعنوانی و رشوت ستانی

ہم ان تمام معاشرتی برائیوں کو کس انداز سے ختم کر سکتے ہیں۔ ہم کرپشن کی ذمے داری حکومتوں پر بھی نہیں دے سکتے

گزشتہ کئی عشروں سے عالمی سطح پر دن منانے کی روایت چلی آرہی ہے، جیسے مستورات کا عا لمی دن، مادر و پدرکا عالمی دن، معذور اور خصوصی افرادکا عالمی دن وغیرہ۔ اسی طرح ہر سال کی 9 دسمبر کو انسداد بدعنوانی و رشوت ستانی کا دن منایا جاتا ہے۔

یہ دن اپنے اپنے انداز میں ہر سال اپنے مقررہ دن و تاریخ پر باقاعدگی سے منائے جاتے ہیں بلکہ سوشل کلچرکا ایک اہم حصہ کے طور پر شہرکی نامور سماجی، معاشرتی تنظیمیں مختلف پروگرامز، ورکشاپس، سیمینارز، مذاکرے منعقد کراتی ہیں جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مقررین اس دن کی اہمیت کو ا جاگر کرنے کے لیے اظہار خیال کرتے ہیں،گوکہ ملک میں رہنے والے ہر شخص کو ان ایام کے بارے میں پہلے سے علم نہیں ہوتا۔

ان کو اس وقت آگاہی ہوتی ہے جب وہ سوشل میڈیا، شہرکی دیواروں اور بجلی کے پولز پر اس دن کے بارے میں لٹکے ہوئے بینرز پر نظر ڈالتے ہیں۔

اس طرح ہماری نظر بھی سندھ سیکریٹریٹ اور سندھ اسمبلی کے اطراف میں نصف بجلی کے پولز پر سندھ حکومت کی جانب سے انسداد بدعنوانی، رشوت ستانی کے بڑے بڑے بینرز پر پڑی جن میں تحریر تھا Our Mission, Curruption Free Sindh، ''رشوت دینا اور لینا ایک مکروہ عمل ہے، آئیں اور بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے ہماری آواز بنیں، رشوت کے خاتمہ کے لیے سندھ اینٹی کرپشن کا ساتھ دیں،کرپشن ایک کینسر ہے جس کو جڑ سے اُکھاڑنا ہوگا، آؤ، ہم سب مل کر رشوت سے پاک معاشرہ قائم کریں۔'' ہمیں بینرز پڑھ کر ایک سکتے کی سی کیفیت طاری ہوئی اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

کرپشن کے اس مرکز میں ''انکوائریز اینڈ اینٹی کرپشن'' کے نام سے باقاعدہ ڈیپارٹمنٹ بھی قائم ہے جس کا سربراہ ظاہر ہے سیکریٹری ہی ہوگا اور اس کے ماتحت متعلقہ تنخواہ دار عملہ بھی ہوگا۔ حیرت ہے کہ جہاں اس قسم کے شعبہ جات قائم ہوں وہاں بدعنوانی، رشوت، سفارش کا راج ہو۔ میرٹ کا گلا گھونٹا جا رہا ہو۔ اس قسم کے بینرز سے ہم تو یہی کہنے پر مجبور ہونگے ''چور مچائے شور'' اب دیکھیے نا کھاناپینا اور علاج ومعالجہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اجزائے خورونوش میں مجرمانہ ملاوٹ اپنے عروج پر ہے۔ سندھ حکومت کا ادارہ خوراک اس کے روک تھام کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے بلکہ سندھ حکومت نے اس کو ایک خود مختار ادارے کی حیثیت بھی دی ہے تاکہ اس کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ ملاوٹ شدہ خوراک سے شہری مختلف مہلک جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب صحت کا شعبہ ایک نہایت ہی حساس شعبہ ہے، ایک سروے کے مطابق حکومت سندھ نے غریب ومتوسط شہریوں کے علاج معالجے کی سہولیات کو ترجیحی بنیادوں پر فوقیت دیتے ہوئے ایک خطیر رقم مختص کی ہے اور اس ضمن میں محسوس کیا گیا ہے کہ اس کے زیرانتظام اسپتالوں کی حالت کسی حد تک تسلی بخش ہے مگر ان تمام خصوصیات کے باوجود صحت کا شعبہ بھی کرپشن کی لت سے محفوظ نہیں رہ سکا۔

''ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل'' دنیا کا وہ واحد بین الاقوامی ادار ہ ہے جو دنیا کے کرپشن زدہ ممالک پرگہری نظر رکھتا ہے۔ مختلف زاویوں سے ان ممالک میں ہونے والی کرپشن کا جائزہ لینے کے بعد اور ہر سال اپنی مطالعاتی رپورٹ پیش کرتا ہے۔ اس ضمن میں کرپشن کے سدباب کے لیے ان ممالک کی حکومتوں کو تجاویز و آراء پیش کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کی کرپشن کا معیار جانچنے کے لیے یہ ادارہ دو طریقے اختیارکرتا ہے۔


اس بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ میں ممالک کے لیے ان کا انفرادی اسکور شمار کیا جاتا ہے جس کے بعد ان کی درجہ بندی مقررکی جاتی ہے۔ اسکور جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی ملک کے پبلک سیکٹر میں ہونے والی کرپشن کے بارے میں عوامی تاثر کیا ہے۔ اس کے مطابق اگر کسی ملک کا اسکور صفر ہے تو وہ انتہائی کرپٹ ملک ہے اور اگر سو ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں بدعنوانی بالکل نہیں ہے۔

اسی اسکورکی بنیاد پر ملکوں کی درجہ بندی طے کی جاتی ہے اور اگر فہرست میں ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو تو درجہ بندی تبدیل کی جا سکتی ہے چنانچہ اس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ بندی سے زیادہ کسی بھی ملک کے اسکور کی زیادہ اہمیت ہے جو کسی بھی ملک میں ہونے والی بدعنوانی میں اضافہ یا کمی کو جانچتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے گزشتہ سال کافی برا رہا ہے اور پہلی بار پاکستان کا اسکور تیس سے بھی کم ہوگیا ہے۔

دستیاب مختلف ذرایع کے مطابق یہ ادارہ اپنی رپورٹ کو مرتب کرنے کے لیے بدعنوانی جانچنے والے تیرہ مختلف سروے اورکم ازکم تین مختلف ڈیٹا ذرایع کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ معلومات اکٹھا کرنیوالے ادارے عالمی طور پر معتبر سمجھے جاتے ہیں جیسا کہ ورلڈ بینک اور ورلڈ اکنامک فورم وغیرہ۔ پاکستان کے اعداد وشمار جمع کرنے کے لیے ورلڈ بینک، ورلڈ اکنامک فورم، اکنامک انٹیلی جنس یونٹ وغیرہ جیسے اداروں کی رپورٹس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2023 کو اس ادارے کی طرف سے سالانہ رپورٹ ''Corruption Perception Index 2022'' کے نام سے شایع ہوئی جس میں پاکستان کو درجہ بندی کے لحاظ سے 180 ممالک کی فہرست میں گزشتہ سال کی طرح بدستور 140 ویں نمبر پر برقرار رکھا اور کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے تاہم اس نے حکومت کو سفارش پیش کی ہے کہ وہ تمام شعبوں میں بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے،اس کی پیش کردہ تجاویزکی روشنی میں تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنائے۔

متذکرہ انڈیکس 2022 سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کو کرپشن کے تناسب کو کم کرنے یا بالکل ختم کرنے میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 95 فیصد ممالک نے 2017 کے بعد سے بہت کم یا کوئی بہتری ظاہر نہیں کی۔

گلوبل پیس انڈیکس کی رپورٹ سے یہ بات عیاں ہے کہ پر تشدد واقعات اور بدعنوانی کے درمیان واضح فرق نظرآنا اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اب دنیا میں امن اور بھائی چارگی کے فقدان کا گراف مسلسل گرتا جا رہا ہے کیونکہ اس انڈیکس میں سب سے کم اسکورکرنے والے ممالک کرپشن انڈیکس (CPI)میں بھی بہت کم اسکور کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

پاکستان کے پڑوسی مما لک بھارت، چین اور بنگلہ دیش کی صورتحال کچھ پاکستان سے مختلف رہی۔ بھارت اور بنگلہ دیش نے گزشتہ سال کی درجہ بندی اور اسکورکو برقرار رکھا۔ چین نے کرپشن کے خلاف جنگ کو جاری رکھا ہوا ہے اورگزشتہ برس کے مقابلے میں ان کے اسکور میں اضافہ دیکھنے کو آیا ہے۔ متذکرہ رپورٹ کے مطابق چین کے اسکور اور درجہ بندی میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان تمام معاشرتی برائیوں کو کس انداز سے ختم کر سکتے ہیں۔ ہم کرپشن کی ذمے داری حکومتوں پر بھی نہیں دے سکتے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بلکہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنم کی آگ میں پھینکے جائینگے۔ دین اسلام صرف راشی کی مذمت ہی نہیں کرتا بلکہ مرتشی کو بھی دوزخ کا حق دار جانتا ہے۔

لا قانونیت کے اس دور مادیت میں ہم ہر غلط و ناجائز بعض سرکاری اہل کاروں کو کاغذی کرنسی دکھا کر کام کرنے پر راضی کر لیتے ہیں اور اس مکروہ فعل پر نادم و شرمندہ ہونے کی زحمت تک نہیں کرتے۔ یوں ہم خود بدعنوانیوں کے فعل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہر خرابی اور برائی کی جڑ ہم حکومت وقت، سیاست دانوں اور سرکاری اہل کاروں کو گردانتے ہیں۔ اس مشینری کے نٹ بولٹ ہم خود ہیں اور خود کو مستعد تصورکرتے ہیں جب کہ غلطی ہماری ہی ہے۔
Load Next Story