سپریم کورٹ نے اپنے متعلق جنگ دی نیوز کی غلط رپورٹنگ کا نوٹس لے لیا
ایسے ریمارکس چھاپے جوجسٹس جواد نے دیے ہی نہیں تھے
عدالت عظمٰی نے جنگ اور دی نیوزکی غلط رپورٹنگ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آزادیِ صحافت کا قطعاً یہ مطلب نہیںکہ یہ آزادی غیرذمے دارانہ استعمال ہو۔
گزشتہ روز عدلیہ کے بارے میں بینرز لگانے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے آبزرویشن دی کہ جنگ اور دی نیوز نے پچھلے روز (منگل)کی عدالتی کارروائی کے بارے میں جو رپورٹنگ کی اور جسٹس جواد سے منسوب جو ریمارکس چھاپے نہ تو ایسا کوئی ریمارک عدالت کی طرف سے دیا گیا اور نہ ہی کسی اور اخبار نے شائع کیا۔وزارت داخلہ نے عدلیہ کے بارے میں بینرز لگانے کے بارے میں رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ 3 افرادکو حراست میں لے لیا گیا ہے، مزید تفتیش جاری ہے۔عدالت نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی میر شکیل الرحمان سے رشتے داری کے حوالے سے اسلام آبادکے ریڈ زون میں پوسٹر اور بینر آویزاں کر نے کے کیس کی سماعت 10جون تک ملتوی کرتے ہوئے مزید تفتیش کیلیے مہلت دیدی ہے۔
عدالت نے جنگ اور دی نیوز میں جسٹس جواد سے منسوب خبروںکا نوٹس لیتے ہوئے اپنے حکمنامے میں کہا کہ گزشتہ روز عدالت اٹارنی جنرل کے علم میں یہ بات لائی تھی کہ کچھ میڈیا اس بات کے درپے ہے کہ ملک و قوم کے ادارے اپنا صحیح کام نہ کر سکیں اور وہ اداروں سے غلط بیانات منسوب کرتے ہیں۔اس حوالے سے ہم نے27 مئی 2014 کو اٹارنی جنرل کو ایک اقتباس ٹی وی پروگرام میں سے دیا تھا اورکہا تھا کہ وہ چھان بین کریں کہ اس طرح کے بیانات کیوں اورکیسے کھلے عام دیے جا رہے ہیں۔ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں پڑا تھا کہ جنگ اور دی نیوز میں جسٹس جواد ایس خواجہ سے ایک بیان منسوب کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ نہ تو ایسا کوئی ریمارکس عدالت کی طرف سے دیا گیا اور نہ ہی کسی اور اخبار نے شائع کیا۔
عدالت نے میڈیا کیلیے ضابطہ اخلاق ترتیب دینے کے حوالے سے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ یہ معاملہ حکومت کے نوٹس میں لائیں اور قواعد و ضوابط بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں۔اٹارنی جنرل نے سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی آئی بی کی رپورٹیں جمع کروائیں ۔سیکریٹری داخلہ کی رپورٹ میں بتایا گیاکہ شفیق بٹ نامی شخص اور اس کے دو معاونین محمد نذر اور محمد وقارکو حراست میں لیا گیا ہے اور تفتیش جاری ہے، اس حوالے سے ایک ایف آئی آر نمبر 234/14 بھی درج کی گئی ہے ۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کچھ مزید وقت دیا جائے تا کہ تفتیش مکمل ہو سکے اورکچھ دیگر ملزمان جن کی بابت معلومات سامنے آئی ہیں اُن کو حراست میں لیا جا سکے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاآپ غیر جانبدار تفتیش کر یں اورکسی بے گناہ کو نہ پکڑیں، جس نے جرم کیا ہواس سے رعایت نہ برتی جائے ،کوئی ریڈ زون کے اندر آکر بینر لگا گیا ہے جس نے میر ے خلاف ایک پروگرام کرنا ہے وہ بے شک پچاس کرے ،میں یہاں بیھٹا ہوں لیکن پتہ کر یںکہ ریڈ زون میںکون بینر لگا گیا اورکسی کو خبر نہیں ،اگر میں نے کوئی گھنائونا کام کیا ہو تو مجھ کو یہاں نہیں بیھٹنا چاہیے، ہر چیزکو سامنے لایا جائے ۔دوران سماعت جب دی نیوز اور جنگ میں شائع خبروں کا نوٹس لیا گیا توعدالت نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صدر خدا یار موہلہ کو طلب کر لیا ۔خدا یار موہلہ نے عدالت میں پیش ہوکر کہا کہ پریس ایسوسی ایشن نے رپورٹنگ کے حوالے سے ضابطہِ اخلاق کا مسودہ تمام پریس ایسوسی ایشن کے ممبران میں تقسیم کر دیا ہے، ان کی رائے کے بعد اس کو حتمی شکل دی جائے گی۔
ایسوسی ایشن کے ایک اور ممبر مطیع اللہ جان نے کہا کہ تمام متعلقہ افرادکو سُنے بغیرکوئی ضابطہ اخلاق تیار نہ کیا جائے اورتمام متعلقہ افراد اور اداروںکو ضابطہ اخلاق ترتیب دینے کیلیے مشاورت میں شامل کیا جائے۔ صحافی قیوم صدیقی نے کہا کہ میڈیا کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ عدالت کی ریکارڈنگ تک ان کی رسائی ہو تاکہ غلط رپورٹنگ نہ ہو، عدالت نے ان کی اس استدعا کو مستردکر دیا۔عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا پر مزید سماعت10جون تک ملتوی کر دی ۔
گزشتہ روز عدلیہ کے بارے میں بینرز لگانے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے آبزرویشن دی کہ جنگ اور دی نیوز نے پچھلے روز (منگل)کی عدالتی کارروائی کے بارے میں جو رپورٹنگ کی اور جسٹس جواد سے منسوب جو ریمارکس چھاپے نہ تو ایسا کوئی ریمارک عدالت کی طرف سے دیا گیا اور نہ ہی کسی اور اخبار نے شائع کیا۔وزارت داخلہ نے عدلیہ کے بارے میں بینرز لگانے کے بارے میں رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ 3 افرادکو حراست میں لے لیا گیا ہے، مزید تفتیش جاری ہے۔عدالت نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی میر شکیل الرحمان سے رشتے داری کے حوالے سے اسلام آبادکے ریڈ زون میں پوسٹر اور بینر آویزاں کر نے کے کیس کی سماعت 10جون تک ملتوی کرتے ہوئے مزید تفتیش کیلیے مہلت دیدی ہے۔
عدالت نے جنگ اور دی نیوز میں جسٹس جواد سے منسوب خبروںکا نوٹس لیتے ہوئے اپنے حکمنامے میں کہا کہ گزشتہ روز عدالت اٹارنی جنرل کے علم میں یہ بات لائی تھی کہ کچھ میڈیا اس بات کے درپے ہے کہ ملک و قوم کے ادارے اپنا صحیح کام نہ کر سکیں اور وہ اداروں سے غلط بیانات منسوب کرتے ہیں۔اس حوالے سے ہم نے27 مئی 2014 کو اٹارنی جنرل کو ایک اقتباس ٹی وی پروگرام میں سے دیا تھا اورکہا تھا کہ وہ چھان بین کریں کہ اس طرح کے بیانات کیوں اورکیسے کھلے عام دیے جا رہے ہیں۔ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں پڑا تھا کہ جنگ اور دی نیوز میں جسٹس جواد ایس خواجہ سے ایک بیان منسوب کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ نہ تو ایسا کوئی ریمارکس عدالت کی طرف سے دیا گیا اور نہ ہی کسی اور اخبار نے شائع کیا۔
عدالت نے میڈیا کیلیے ضابطہ اخلاق ترتیب دینے کے حوالے سے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ یہ معاملہ حکومت کے نوٹس میں لائیں اور قواعد و ضوابط بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں۔اٹارنی جنرل نے سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی آئی بی کی رپورٹیں جمع کروائیں ۔سیکریٹری داخلہ کی رپورٹ میں بتایا گیاکہ شفیق بٹ نامی شخص اور اس کے دو معاونین محمد نذر اور محمد وقارکو حراست میں لیا گیا ہے اور تفتیش جاری ہے، اس حوالے سے ایک ایف آئی آر نمبر 234/14 بھی درج کی گئی ہے ۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کچھ مزید وقت دیا جائے تا کہ تفتیش مکمل ہو سکے اورکچھ دیگر ملزمان جن کی بابت معلومات سامنے آئی ہیں اُن کو حراست میں لیا جا سکے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاآپ غیر جانبدار تفتیش کر یں اورکسی بے گناہ کو نہ پکڑیں، جس نے جرم کیا ہواس سے رعایت نہ برتی جائے ،کوئی ریڈ زون کے اندر آکر بینر لگا گیا ہے جس نے میر ے خلاف ایک پروگرام کرنا ہے وہ بے شک پچاس کرے ،میں یہاں بیھٹا ہوں لیکن پتہ کر یںکہ ریڈ زون میںکون بینر لگا گیا اورکسی کو خبر نہیں ،اگر میں نے کوئی گھنائونا کام کیا ہو تو مجھ کو یہاں نہیں بیھٹنا چاہیے، ہر چیزکو سامنے لایا جائے ۔دوران سماعت جب دی نیوز اور جنگ میں شائع خبروں کا نوٹس لیا گیا توعدالت نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صدر خدا یار موہلہ کو طلب کر لیا ۔خدا یار موہلہ نے عدالت میں پیش ہوکر کہا کہ پریس ایسوسی ایشن نے رپورٹنگ کے حوالے سے ضابطہِ اخلاق کا مسودہ تمام پریس ایسوسی ایشن کے ممبران میں تقسیم کر دیا ہے، ان کی رائے کے بعد اس کو حتمی شکل دی جائے گی۔
ایسوسی ایشن کے ایک اور ممبر مطیع اللہ جان نے کہا کہ تمام متعلقہ افرادکو سُنے بغیرکوئی ضابطہ اخلاق تیار نہ کیا جائے اورتمام متعلقہ افراد اور اداروںکو ضابطہ اخلاق ترتیب دینے کیلیے مشاورت میں شامل کیا جائے۔ صحافی قیوم صدیقی نے کہا کہ میڈیا کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ عدالت کی ریکارڈنگ تک ان کی رسائی ہو تاکہ غلط رپورٹنگ نہ ہو، عدالت نے ان کی اس استدعا کو مستردکر دیا۔عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا پر مزید سماعت10جون تک ملتوی کر دی ۔