قومی یکجہتی وقت کی اہم ضرورت
وقت آچکا ہے کہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچائے جائیں اور عوام کے ریلیف کے لیے آگے بڑھا جائے
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ اسلام ہمیں امن اور دوستی کا سبق سکھاتا ہے، پاکستان کے دشمن مذہبی، نسلی اور سیاسی کمزوریوں کو استعمال کرتے ہوئے دراڑیں ڈالنے پر تلے ہیں، ہمیں ایک پرعزم اور مضبوط قوم کے طور پر ابھرنے کے لیے متحد اور یکجان ہونا پڑے گا، وہ کرائسٹ چرچ راولپنڈی میں مسیحی برادری کی کرسمس تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
بلاشبہ سپہ سالار سید عاصم منیر نے انتہائی مدبرانہ انداز میں پاکستان کے قومی اور ملی مسائل کی جانب نہ صرف توجہ مبذول کرائی ہے بلکہ ان کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ پاک فوج بطور قومی ادارہ، قومی یگانگت کو پروان چڑھانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کررہی ہے، تاہم قومی و ملی مسائل کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
کوئی بھی جمہوری ملک آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر پانی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کرسکتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پر مختلف قومیتیں آباد ہیں، وہاں پر مشترکیت تلاش کرنا مشکل کام ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے بڑی مشترکیت مذہب ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے مذہب کو بھی تقسیم کا شکار کردیا ہے، مذہبی بنیادوں پر بھی اتنی تفریق پیدا کردی گئی ہے جس نے ملک اور قوم کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔
ہمارے خطے میں دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں مسلمانوں کا بڑے پیمانہ پر جتنا قتل عام ہوا حالیہ ادوار میں غیر مسلموں کے ہاتھوں بھی نہیں ہوا۔ اس وقت ملک میں 175 سیاسی جماعتیں الیکشن کیمشن میں رجسٹرڈ ہیں، سب جماعتیں نظریاتی تقسیم کا شکار ہیں۔ بعض امریکا کو مثالیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو بعض یورپ کو۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے چین سے امیدیں جوڑ رکھی ہیں۔
پاکستان میں لسانی و نسلی اور علاقائی تعصبات کے بہت سے ساختیاتی و ثقافتی اسباب بھی ہیں، بعض شخصی واقعات کی بنیاد پر جن کا انکار کرنا ناممکن ہے۔
اقتدار میں یکساں طور پر یونٹوں ( اکائیوں علاقوں اور صوبوں ) کی عدم شمولیت، قومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، مراعات و اختیارات میں عدم توازن، جمہوری اور ارتقائی عمل کے تسلسل میں تعطل اور داخلہ و خارجہ پالیسی میں عارضی سیاسی مفادات کے تحت وسیع تر اور دیرپا قومی مفاد کو نظر انداز رکھنے، دور اندیش، مستعد، دیانت دار اور متحرک قیادت کی عدم دستیابی نے پاکستان میں تقسیم کے عمل کو مزید آگے بڑھایا اور باہمی تعاون و ترقی، سماجی انصاف کی فراہمی، قانون کی بالادستی اور جان و مال اور دیگر بنیادی حقوق کے تحفظ کے عمل کو یکسر متاثر کردیا ہے۔
تقسیم، تفریق اور برتری کی نفسیات پر مبنی سیاسی نظریہ '' تقسیم مسلسل'' کو ہی جنم دیتا ہے۔ تقسیم کے عمل کو جب تک باہمی تعاون سے بدل نہیں دیا جاتا، طاقت کے زور پر اسے دبایا نہیں جا سکتا۔
پاکستانی معاشرے کی ہولناک تقسیم کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ انگریزوں کے '' تقسیم کرو اور حکومت کرو'' کے فلسفے پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ قوم کو ''حلیف'' نہیں اپنا ''حریف'' سمجھتا ہے، وہ قوم کو اپنا ''دوست '' نہیں اپنا '' دشمن'' گردانتا ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ آقا اور غلام کی نفسیات کا شکار ہے اور آقاؤں نے کبھی غلاموں میں وحدت پیدا نہیں کی۔
باہمی تعاون، تعمیر و ترقی پر مبنی سیاسی نظریہ کی ایک ''عملی مثال'' مذہبی، لسانی، نسلی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے باہمی تفاوت، تناؤ اور اختلافات کے باوجود تقریباً اٹھائیس ممالک پر مبنی یورپی یونین دیکھ لیجیے۔ یہ ممالک تقسیم اور غلبے کی نفسیات کے تحت دو عالمی جنگوں میں حصہ لینے اور متعدد دیگر جنگیں لڑنے اور کروڑوں لوگوں کو مروانے اور بے پناہ معاشی نقصانات اٹھانے کے بعد اس نتیجے تک پہنچ گئے کہ کسی قیمت پر بھی اپنے خطے میں جنگ نہیں لڑنی۔
انھوں نے باہم تہیہ کر رکھا ہے کہ جنگ کو نہ صرف اپنی اپنی سر زمینوں سے بلکہ پورے براعظم یورپ سے دور ہی رکھنا ہے اور اس معاملے میں سب نے یکساں باہمی تعاون کرنا ہے۔
ان کے آپس میں بہت سے اختلافات و تنازعات موجود ہیں، مختلف ملکوں میں مذاہب اور مسالک مختلف ہیں، زبانوں، نسلوں، معاشی مفادات، سیاسی تعلقات پر تناؤ موجود ہے لیکن وہ ایسے تناؤ اور تنازعات کو باہمی نفرت، رقابت اور تعصبات میں بدلنے نہیں دیتے تاکہ باہمی پرتشدد خانہ جنگی اور اس سے جڑے دیگر جرائم کا سامنا نہ کرنا پڑے جن کا خمیازہ پہلے وہ بھگت چکے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں وہ مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ان کا استحکام، ترقی اور بہتر طرز حکمرانی شاید اسی میں مضمر ہے کہ انھوں نے ایک بنیادی اصول پر مکمل اتفاق کر لیا ہے کہ تشدد اور منافرت کو سماجی قبولیت اور سیاسی چھتری نہ دینے میں وہ پرعزم اور یکسو رہیں، جب کہ غریب اور پسماندہ ممالک عالمی طاقتوں کے مفادات کے حصول کی راہ ہموار کرنے میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لیے اسلحہ کی جمع بندی میں مصروف ہیں۔
ملک میں عام انتخابات کے دن قریب آچکے ہیں، سیاست دان اپنا اپنا موقف عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ جتنے بھی لوگوں نے عوامی اجتماعات میں تقاریر کی ہیں وہ عوام کو تقسیم کرنے کی بات کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔
ووٹرز کسی بھی جماعت سے سیاسی قائدین کو حریف سیاسی جماعت کے ووٹرز کو عزت کے ساتھ مخاطب کرنا چاہیے، اسی طرح حریف سیاسی جماعت کے قائدین کو بھی ان کا جائز مقام ضرور دینا چاہیے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، مخالف سیاسی جماعت کے قائدین اور ووٹرز کو نامناسب انداز میں مخاطب کیا جاتا ہے، کیا کسی کے سیاسی نظریات کی حمایت نہ کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اسے منفی انداز سے پکارنا شروع کردیا جائے۔ بنیادی طور پر یہ قوم کو تقسیم کرنے کی خطرناک مہم ہے۔
سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اگر یہ روش برقرار رکھی تو پاکستان میں نفرت بڑھے گی۔ ممکن ہے لوگوں کو سمجھنے میں کچھ وقت لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انجانے میں یا سیاسی مفادات کو حاصل کرنے میں ''رہنما '' اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ انھیں انداز ہی نہیں ہے کہ وہ قوم میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں لیکن اس ملک کے محب وطن اور وطن کی سرحدوں کی حفاظت پر تن من قربان کرنے والے کبھی نفرت پھیلانے والوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
ہمارے سیاستدان انتخابات جیتنے کے لیے منفی باتیں کرتے ہیں حالانکہ دل محبت سے جیتے جاتے ہیں، قافلے اعتماد، احساس اور محبت کے جذبات سے آگے بڑھتے ہیں۔ فیصلہ بھی سیاست دانوں نے ہی کرنا ہے کہ انھوں نے جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے کن بنیادوں پر کام کرنا ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی چاہتے ہیں تو پہلے خود کو جمہوریت پسند بنانا ہوگا اور خود کو جمہوری اقدار پر عملدرآمد کے لیے مثال بنانا ہوگا۔
سماجی حیثیت کے اعتبار سے ہماری قوم جاگیردار، سیاسی اشرافیہ، سرمایہ دار، بالائی و متوسط وغریب، افلاس زدہ کے خانوں میں بٹ گئی ہے۔ تقسیم کا رخ جب تعلیمی اداروں کی طرف بڑھا تو پہلے برطانوی و ہندوستانی، پھر انگریزی اور اسلامی، پھر انگریزی تقسیم ہو کر پبلک و پرائیوٹ سیکٹر، پھر لوگوں کی سماجی حیثیت کے لحاظ سے اشرافیہ سے لے کر غربت زدہ لوگوں کے لیے پبلک اور پرائیویٹ دونوں سیکٹرز میں الگ الگ تعلیمی نظام بنتا گیا۔ مذہبی تعلیم مسالک کی تقسیم کے حساب سے تقسیم در تقسیم ہوتی گئی، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست کے علاوہ ان مسائل پر بھی ہم بات چیت کریں اور مسائل کو حل کریں، کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا ہے جس کا کوئی حل نہ ہو، ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل تو ہوتا ہے لیکن یہ حل نکالنا، سیاست دانوں کا ہی کام ہے۔ ہمیں اس وقت ایک مضبوط منتخب حکومت کی ضرورت ہے اور جب تک کہ ایک مضبوط عوامی حکومت عوام کے مسائل حل نہیں کرتی ہے تب تک ہم مسائل سے نکل نہیں پائیں گے۔
وقت آچکا ہے کہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچائے جائیں اور عوام کے ریلیف کے لیے آگے بڑھا جائے سیاست دان ہی اس ملک کے عوام کی آخری امید ہیں۔ اس ملک کی بنیاد ایمان، ایمانداری اور خلوص کی بنیاد پر رکھی گئی ہے۔ یہاں لوگوں نے آزادی کے لیے خوشی خوشی خون دیا ہے۔ اس لیے کوئی اس قوم کو تقسیم نہیں کر سکتا۔
یہ درست ہے کہ ہمارے قومی شعور اور پاکستانیت اور اداروں کے استحکام کی وجہ سے اتنی تقسیمات کے باوجود وطن عزیز مشرق وسطیٰ کی قسم کی بڑی خانہ جنگی کی طرف نہیں بڑھا۔ مختلف قدرتی آفات اور بحرانوں کے دوران بھی قومی یکجہتی کا مظاہرہ دیکھا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمیں آئین اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیے آئین اور قانون کی بالادستی کے ذریعے ہی ملک کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے، ہمیں اس طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ سپہ سالار سید عاصم منیر نے انتہائی مدبرانہ انداز میں پاکستان کے قومی اور ملی مسائل کی جانب نہ صرف توجہ مبذول کرائی ہے بلکہ ان کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ پاک فوج بطور قومی ادارہ، قومی یگانگت کو پروان چڑھانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کررہی ہے، تاہم قومی و ملی مسائل کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
کوئی بھی جمہوری ملک آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر پانی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کرسکتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پر مختلف قومیتیں آباد ہیں، وہاں پر مشترکیت تلاش کرنا مشکل کام ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے بڑی مشترکیت مذہب ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے مذہب کو بھی تقسیم کا شکار کردیا ہے، مذہبی بنیادوں پر بھی اتنی تفریق پیدا کردی گئی ہے جس نے ملک اور قوم کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔
ہمارے خطے میں دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں مسلمانوں کا بڑے پیمانہ پر جتنا قتل عام ہوا حالیہ ادوار میں غیر مسلموں کے ہاتھوں بھی نہیں ہوا۔ اس وقت ملک میں 175 سیاسی جماعتیں الیکشن کیمشن میں رجسٹرڈ ہیں، سب جماعتیں نظریاتی تقسیم کا شکار ہیں۔ بعض امریکا کو مثالیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو بعض یورپ کو۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے چین سے امیدیں جوڑ رکھی ہیں۔
پاکستان میں لسانی و نسلی اور علاقائی تعصبات کے بہت سے ساختیاتی و ثقافتی اسباب بھی ہیں، بعض شخصی واقعات کی بنیاد پر جن کا انکار کرنا ناممکن ہے۔
اقتدار میں یکساں طور پر یونٹوں ( اکائیوں علاقوں اور صوبوں ) کی عدم شمولیت، قومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، مراعات و اختیارات میں عدم توازن، جمہوری اور ارتقائی عمل کے تسلسل میں تعطل اور داخلہ و خارجہ پالیسی میں عارضی سیاسی مفادات کے تحت وسیع تر اور دیرپا قومی مفاد کو نظر انداز رکھنے، دور اندیش، مستعد، دیانت دار اور متحرک قیادت کی عدم دستیابی نے پاکستان میں تقسیم کے عمل کو مزید آگے بڑھایا اور باہمی تعاون و ترقی، سماجی انصاف کی فراہمی، قانون کی بالادستی اور جان و مال اور دیگر بنیادی حقوق کے تحفظ کے عمل کو یکسر متاثر کردیا ہے۔
تقسیم، تفریق اور برتری کی نفسیات پر مبنی سیاسی نظریہ '' تقسیم مسلسل'' کو ہی جنم دیتا ہے۔ تقسیم کے عمل کو جب تک باہمی تعاون سے بدل نہیں دیا جاتا، طاقت کے زور پر اسے دبایا نہیں جا سکتا۔
پاکستانی معاشرے کی ہولناک تقسیم کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ انگریزوں کے '' تقسیم کرو اور حکومت کرو'' کے فلسفے پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ قوم کو ''حلیف'' نہیں اپنا ''حریف'' سمجھتا ہے، وہ قوم کو اپنا ''دوست '' نہیں اپنا '' دشمن'' گردانتا ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ آقا اور غلام کی نفسیات کا شکار ہے اور آقاؤں نے کبھی غلاموں میں وحدت پیدا نہیں کی۔
باہمی تعاون، تعمیر و ترقی پر مبنی سیاسی نظریہ کی ایک ''عملی مثال'' مذہبی، لسانی، نسلی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے باہمی تفاوت، تناؤ اور اختلافات کے باوجود تقریباً اٹھائیس ممالک پر مبنی یورپی یونین دیکھ لیجیے۔ یہ ممالک تقسیم اور غلبے کی نفسیات کے تحت دو عالمی جنگوں میں حصہ لینے اور متعدد دیگر جنگیں لڑنے اور کروڑوں لوگوں کو مروانے اور بے پناہ معاشی نقصانات اٹھانے کے بعد اس نتیجے تک پہنچ گئے کہ کسی قیمت پر بھی اپنے خطے میں جنگ نہیں لڑنی۔
انھوں نے باہم تہیہ کر رکھا ہے کہ جنگ کو نہ صرف اپنی اپنی سر زمینوں سے بلکہ پورے براعظم یورپ سے دور ہی رکھنا ہے اور اس معاملے میں سب نے یکساں باہمی تعاون کرنا ہے۔
ان کے آپس میں بہت سے اختلافات و تنازعات موجود ہیں، مختلف ملکوں میں مذاہب اور مسالک مختلف ہیں، زبانوں، نسلوں، معاشی مفادات، سیاسی تعلقات پر تناؤ موجود ہے لیکن وہ ایسے تناؤ اور تنازعات کو باہمی نفرت، رقابت اور تعصبات میں بدلنے نہیں دیتے تاکہ باہمی پرتشدد خانہ جنگی اور اس سے جڑے دیگر جرائم کا سامنا نہ کرنا پڑے جن کا خمیازہ پہلے وہ بھگت چکے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں وہ مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ان کا استحکام، ترقی اور بہتر طرز حکمرانی شاید اسی میں مضمر ہے کہ انھوں نے ایک بنیادی اصول پر مکمل اتفاق کر لیا ہے کہ تشدد اور منافرت کو سماجی قبولیت اور سیاسی چھتری نہ دینے میں وہ پرعزم اور یکسو رہیں، جب کہ غریب اور پسماندہ ممالک عالمی طاقتوں کے مفادات کے حصول کی راہ ہموار کرنے میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لیے اسلحہ کی جمع بندی میں مصروف ہیں۔
ملک میں عام انتخابات کے دن قریب آچکے ہیں، سیاست دان اپنا اپنا موقف عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ جتنے بھی لوگوں نے عوامی اجتماعات میں تقاریر کی ہیں وہ عوام کو تقسیم کرنے کی بات کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔
ووٹرز کسی بھی جماعت سے سیاسی قائدین کو حریف سیاسی جماعت کے ووٹرز کو عزت کے ساتھ مخاطب کرنا چاہیے، اسی طرح حریف سیاسی جماعت کے قائدین کو بھی ان کا جائز مقام ضرور دینا چاہیے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، مخالف سیاسی جماعت کے قائدین اور ووٹرز کو نامناسب انداز میں مخاطب کیا جاتا ہے، کیا کسی کے سیاسی نظریات کی حمایت نہ کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اسے منفی انداز سے پکارنا شروع کردیا جائے۔ بنیادی طور پر یہ قوم کو تقسیم کرنے کی خطرناک مہم ہے۔
سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اگر یہ روش برقرار رکھی تو پاکستان میں نفرت بڑھے گی۔ ممکن ہے لوگوں کو سمجھنے میں کچھ وقت لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انجانے میں یا سیاسی مفادات کو حاصل کرنے میں ''رہنما '' اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ انھیں انداز ہی نہیں ہے کہ وہ قوم میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں لیکن اس ملک کے محب وطن اور وطن کی سرحدوں کی حفاظت پر تن من قربان کرنے والے کبھی نفرت پھیلانے والوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
ہمارے سیاستدان انتخابات جیتنے کے لیے منفی باتیں کرتے ہیں حالانکہ دل محبت سے جیتے جاتے ہیں، قافلے اعتماد، احساس اور محبت کے جذبات سے آگے بڑھتے ہیں۔ فیصلہ بھی سیاست دانوں نے ہی کرنا ہے کہ انھوں نے جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے کن بنیادوں پر کام کرنا ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی چاہتے ہیں تو پہلے خود کو جمہوریت پسند بنانا ہوگا اور خود کو جمہوری اقدار پر عملدرآمد کے لیے مثال بنانا ہوگا۔
سماجی حیثیت کے اعتبار سے ہماری قوم جاگیردار، سیاسی اشرافیہ، سرمایہ دار، بالائی و متوسط وغریب، افلاس زدہ کے خانوں میں بٹ گئی ہے۔ تقسیم کا رخ جب تعلیمی اداروں کی طرف بڑھا تو پہلے برطانوی و ہندوستانی، پھر انگریزی اور اسلامی، پھر انگریزی تقسیم ہو کر پبلک و پرائیوٹ سیکٹر، پھر لوگوں کی سماجی حیثیت کے لحاظ سے اشرافیہ سے لے کر غربت زدہ لوگوں کے لیے پبلک اور پرائیویٹ دونوں سیکٹرز میں الگ الگ تعلیمی نظام بنتا گیا۔ مذہبی تعلیم مسالک کی تقسیم کے حساب سے تقسیم در تقسیم ہوتی گئی، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست کے علاوہ ان مسائل پر بھی ہم بات چیت کریں اور مسائل کو حل کریں، کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا ہے جس کا کوئی حل نہ ہو، ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل تو ہوتا ہے لیکن یہ حل نکالنا، سیاست دانوں کا ہی کام ہے۔ ہمیں اس وقت ایک مضبوط منتخب حکومت کی ضرورت ہے اور جب تک کہ ایک مضبوط عوامی حکومت عوام کے مسائل حل نہیں کرتی ہے تب تک ہم مسائل سے نکل نہیں پائیں گے۔
وقت آچکا ہے کہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچائے جائیں اور عوام کے ریلیف کے لیے آگے بڑھا جائے سیاست دان ہی اس ملک کے عوام کی آخری امید ہیں۔ اس ملک کی بنیاد ایمان، ایمانداری اور خلوص کی بنیاد پر رکھی گئی ہے۔ یہاں لوگوں نے آزادی کے لیے خوشی خوشی خون دیا ہے۔ اس لیے کوئی اس قوم کو تقسیم نہیں کر سکتا۔
یہ درست ہے کہ ہمارے قومی شعور اور پاکستانیت اور اداروں کے استحکام کی وجہ سے اتنی تقسیمات کے باوجود وطن عزیز مشرق وسطیٰ کی قسم کی بڑی خانہ جنگی کی طرف نہیں بڑھا۔ مختلف قدرتی آفات اور بحرانوں کے دوران بھی قومی یکجہتی کا مظاہرہ دیکھا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمیں آئین اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیے آئین اور قانون کی بالادستی کے ذریعے ہی ملک کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے، ہمیں اس طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔