علمی آزادی کا تحفظ
علمی آزادی کی بناء پر یونیورسٹیاں دیگر سماجی اور سیاسی اداروں کی رہبری کا فریضہ انجام دیتی ہیں
علمی آزادی کا حقیقی مطلب سوال کی آزادی اور معلومات کو پرکھنا ہے مگر علمی آزادی کا ادارہ روز بروز مخدوش ہورہا ہے۔ کراچی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ZABIST وہ یونیورسٹی ہے جہاں علمی اور فلسفیانہ امور پرکھل کر بحث ہوتی ہے۔
زیبسٹ کی سربراہ شہناز وزیر علی ایک کھلے ذہن کے ساتھ علمی موضوعات پر بحث و مباحثہ کی میزبانی کرتی ہیں۔ زیبسٹ کے کلیہ سوشل سائنس کے ڈین اور معروف دانشور ڈاکٹر ریاض شیخ ان سارے دانشوروں اور اساتذہ کو جمع کرنے میں مہارت رکھتے ہیں جو سماج اور ریاست کے بارے میں عوام دوست رویہ رکھتے ہیں۔ یوں زیبسٹ میں ڈاکٹر ریاض کی کوششوں سے تاریخ فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے ساتھ مل کر علمی آزادی کے موضوع پر ایک پر مغز کانفرنس منعقد ہوئی۔
اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں تاریخ کے استاد، تاریخ فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے سربراہ اور رسالہ '' تاریخ'' کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر مبارک علی، برطانیہ کی لندن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر سارہ ڈی بروج انصاری، بھارت کے معروف محقق اور تاریخ کے سینئر استاد ڈاکٹر ہربنس موکھیا نے اپنے افتتاحی مقالے افتتاحی سیشن میں پیش کیے۔
کانفرنس کے دوسرے سیشن میں راقم الحروف کے علاوہ قائد اعظم یونیورسٹی، شعبہ تاریخ کے سابق سربراہ ڈاکٹر وقارعلی شاہ اور مارکسٹ استاد ڈاکٹر ناظر محمود نے علمی آزادی کے مختلف موضوعات پر مقالے پیش کیے۔ جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈیز کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد نے اس سیشن کی صدارت کی۔ علمی آزادی کی اس کانفرنس کے تیسرے سیشن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اورنگ زیب علی زئی اور پشاور کے ڈاکٹر راشد حسین مغل نے شرکت کی۔
آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر فرید پنجوانی نے صدارتی کلمات ادا کیے۔ معروف مؤرخ پروفیسر ڈاکٹر مبارک علی جو ہمیشہ زیرِ عتاب رہے نے علمی آزادی کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ علمی آزادی ایک جدید تصور ہے اور قرونِ وسطیٰ میں بھی علمی آزادی کا تصور ممکن نہ تھا۔
ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ قدیم یورپ میں ریاست اور چرچ نے یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر یرغمال بنایا ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ارسطو جیسے فلسفی کو مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور سقراط کو بھی اپنے علم کی سچائی کے لیے زہر کا پیالہ پینا پڑگیا تھا۔ یونیورسٹیوں کے خود مختار ہونے اور اساتذہ اور طلبہ کو علمی آزادی کے حق کو استعمال کرنے کا موقع ملا۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ عوامی مؤرخوں نے قدیم دور میں نوجوانوں کو اپنے لیکچر اور تحریروں کے ذریعہ سے علم سے آگاہ کیا۔ بھارت کے معروف دانشور پروفیسر مکھیا نے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں علمی آزادی کا ادارہ شدید ریاستی دباؤکا شکار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخ کو مسخ کرنا اور تاریخ کے نصاب میں رجعت پسندانہ مواد شامل ہونے سے علمی آزادی پر براہِ راست ضرب ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایک شعوری اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یونیورسٹیوں کی آزادی پر قدغن لگائی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل اور قدیم فرسودہ سزائے موت نے ہمارے معاشرے کو شدید نقصان پہنچایا ہے مگر ان تمام کوششوں کے باوجود جدید ٹیکنالوجی کے عام ہونے سے معاشرہ میں پھیلنے والے شعور کو اب روکنا ناممکن ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہر باشعور فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ سوال کے ادارہ کو مضبوط کرے تاکہ علمی آزادی کے ادارہ کو تقویت ملے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی تاریخ کی استاد ڈاکٹر سارہ انصاری نے کہا کہ پوری دنیا میں علمی آزادی کا ادارہ مخدوش حالت میں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یورپی ممالک نے استعماریت کے دور میں جنوبی ایشیائی ممالک میں علمی آزادی کو سخت نقصان پہنچایا۔ قرونِ وسطیٰ کے مختلف ادوار میں کتابوں پر بندشیں لگائی گئیں اور یونیورسٹیوں کی آزادی کو کبھی محدود کیا گیا تو کبھی مکمل ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔
ڈاکٹر سارا نے کہا کہ برطانیہ کے علاوہ امریکا میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ پر نئی نئی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ امریکا کی ایک یونیورسٹی کے صدر کو محض اس بناء پر مستعفی ہونے پر مجبورکیا گیا کہ انھوں نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے لیے احتجاج کرنیوالے طلبہ کے خلاف کارروائی سے انکار کیا تھا۔
سیاسیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد نے پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد مارشل لاء لگنے سے پہلے تک اساتذہ اور طلبہ کو خاصی آزادی حاصل تھی۔ کئی نامور اساتذہ کو اگر یونیورسٹیوں میں اس کا موقع نہیں ملا تو وہ ملک بھر کے معروف کالجوں میں علم کی شمع روشن کرتے رہے، مگر پھر جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا تو علمی آزادی کے ادارے پر بہت سی پابندیاں عائد ہوگئیں۔
دوسرے سیشن میں قائد اعظم یونیورسٹی کے تاریخ کے سابق استاد پروفیسر ڈاکٹر وقار علی شاہ نے اپنے مقالے میں کہا کہ ملک کے قیام کے بعد سے تاریخ کو مسخ کرنے کا منظم سلسلہ شروع ہوا۔ تاریخ میں جو بادشاہ ظالم ہے انھیں مظلوم اور جرات مند بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ ڈاکٹر وقار علی شاہ کا یہ بیانیہ تھا کہ آزادی کی تحریک میں جن لوگوں نے قربانیاں دیں، انھیں بعد میں غدار قرار دیا گیا۔
ڈاکٹر وقار علی شاہ کو 2019ء میں شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور میں ہونے والی تاریخ کانفرنس میں سندھ میں آزادی کی تحریک میں قربانیاں دینے والے رہنماؤں اور عوام کے حقوق کے لیے آوازیں بلند کرنے والے ہیروز کی تاریخ بیان کرنے پر عتاب کا نشانہ بنایا گیا تھا اور سزا کے طور پر ڈاکٹر وقار علی شاہ کو قائد اعظم یونیورسٹی کے تاریخ پر تحقیق کے انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر شپ سے ہٹا دیا گیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ وہ ایک سچے استاد کی طرح حقیقی تاریخ بیان کرنے اور لکھنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
معروف مصنف ڈاکٹر ناظر محمود نے ملک میں علمی آزادی پر عائد قدغنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملتان کے پروفیسر جنید حفیظ اور بنوں کے پروفیسر شیر علی اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ راقم الحروف نے ملک کی 76 سالہ تاریخ میں ریاستی جبرکا شکار ہونے والے اساتذہ کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈالی۔
تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سرکاری یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی ملازمت کے لیے وفاقی خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو سے کلیئرنس لازمی قرار دیدی گئی تھی، یوں بہت سے ترقی پسند اساتذہ کو یونیورسٹیوں میں تدریس سے روک دیا گیا۔ ایک منصوبے کے تحت ملک بھر کے عظیم شاعر فیض احمد فیض، پروفیسر ایرک سپرین، پروفیسر امین مغل، پروفیسر کرار حسین ، پروفیسر ممتاز حسین، پروفیسر مجتبیٰ حسین اور ڈاکٹر م ر حسان جیسے اساتذہ کو یونیورسٹیوں میں ملازمتیں نہ مل سکیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں اساتذہ کو گرفتار کر کے لاہور کے شاہی قلعہ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی اساتذہ کو جن میں ڈاکٹر ظفر عارف اور پروفیسر جمیل عمر شامل ہیں کو فوجی عدالتوں نے طویل مدت کی سزائیں دیں۔ ریاستی پابندیوں اور مارشل لاء کے نفاذ کے خلاف آواز بلند کرنے والے اساتذہ کو یونیورسٹیوں کی ملازمتوں سے نکال دیا گیا، مگر المیہ تو یہ ہے کہ صورتحال تو گزشتہ صدی میں سرد جنگ کے زمانے کی تھی مگر اب بھی ملک میں کئی اساتذہ اور محققین زیرِ عتاب ہیں۔
علمی آزادی کی بناء پر یونیورسٹیاں دیگر سماجی اور سیاسی اداروں کی رہبری کا فریضہ انجام دیتی ہیں، اگر یہ ادارہ کمزور ہوتا ہے تو معاشرے سے صرف تخلیق کا عمل ہی ختم نہیں ہوگا بلکہ سوال کا ادارہ ہی ختم ہوجائے گا، یوں جمہوری کلچر باقی نہیں رہے گا۔ دیگر شہری آزادیوں کے ساتھ علمی آزادی کا تحفظ بھی انتہائی ضروری ہے۔
زیبسٹ کی سربراہ شہناز وزیر علی ایک کھلے ذہن کے ساتھ علمی موضوعات پر بحث و مباحثہ کی میزبانی کرتی ہیں۔ زیبسٹ کے کلیہ سوشل سائنس کے ڈین اور معروف دانشور ڈاکٹر ریاض شیخ ان سارے دانشوروں اور اساتذہ کو جمع کرنے میں مہارت رکھتے ہیں جو سماج اور ریاست کے بارے میں عوام دوست رویہ رکھتے ہیں۔ یوں زیبسٹ میں ڈاکٹر ریاض کی کوششوں سے تاریخ فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے ساتھ مل کر علمی آزادی کے موضوع پر ایک پر مغز کانفرنس منعقد ہوئی۔
اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں تاریخ کے استاد، تاریخ فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے سربراہ اور رسالہ '' تاریخ'' کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر مبارک علی، برطانیہ کی لندن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر سارہ ڈی بروج انصاری، بھارت کے معروف محقق اور تاریخ کے سینئر استاد ڈاکٹر ہربنس موکھیا نے اپنے افتتاحی مقالے افتتاحی سیشن میں پیش کیے۔
کانفرنس کے دوسرے سیشن میں راقم الحروف کے علاوہ قائد اعظم یونیورسٹی، شعبہ تاریخ کے سابق سربراہ ڈاکٹر وقارعلی شاہ اور مارکسٹ استاد ڈاکٹر ناظر محمود نے علمی آزادی کے مختلف موضوعات پر مقالے پیش کیے۔ جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈیز کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد نے اس سیشن کی صدارت کی۔ علمی آزادی کی اس کانفرنس کے تیسرے سیشن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اورنگ زیب علی زئی اور پشاور کے ڈاکٹر راشد حسین مغل نے شرکت کی۔
آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر فرید پنجوانی نے صدارتی کلمات ادا کیے۔ معروف مؤرخ پروفیسر ڈاکٹر مبارک علی جو ہمیشہ زیرِ عتاب رہے نے علمی آزادی کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ علمی آزادی ایک جدید تصور ہے اور قرونِ وسطیٰ میں بھی علمی آزادی کا تصور ممکن نہ تھا۔
ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ قدیم یورپ میں ریاست اور چرچ نے یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر یرغمال بنایا ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ارسطو جیسے فلسفی کو مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور سقراط کو بھی اپنے علم کی سچائی کے لیے زہر کا پیالہ پینا پڑگیا تھا۔ یونیورسٹیوں کے خود مختار ہونے اور اساتذہ اور طلبہ کو علمی آزادی کے حق کو استعمال کرنے کا موقع ملا۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ عوامی مؤرخوں نے قدیم دور میں نوجوانوں کو اپنے لیکچر اور تحریروں کے ذریعہ سے علم سے آگاہ کیا۔ بھارت کے معروف دانشور پروفیسر مکھیا نے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں علمی آزادی کا ادارہ شدید ریاستی دباؤکا شکار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخ کو مسخ کرنا اور تاریخ کے نصاب میں رجعت پسندانہ مواد شامل ہونے سے علمی آزادی پر براہِ راست ضرب ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایک شعوری اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یونیورسٹیوں کی آزادی پر قدغن لگائی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل اور قدیم فرسودہ سزائے موت نے ہمارے معاشرے کو شدید نقصان پہنچایا ہے مگر ان تمام کوششوں کے باوجود جدید ٹیکنالوجی کے عام ہونے سے معاشرہ میں پھیلنے والے شعور کو اب روکنا ناممکن ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہر باشعور فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ سوال کے ادارہ کو مضبوط کرے تاکہ علمی آزادی کے ادارہ کو تقویت ملے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی تاریخ کی استاد ڈاکٹر سارہ انصاری نے کہا کہ پوری دنیا میں علمی آزادی کا ادارہ مخدوش حالت میں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یورپی ممالک نے استعماریت کے دور میں جنوبی ایشیائی ممالک میں علمی آزادی کو سخت نقصان پہنچایا۔ قرونِ وسطیٰ کے مختلف ادوار میں کتابوں پر بندشیں لگائی گئیں اور یونیورسٹیوں کی آزادی کو کبھی محدود کیا گیا تو کبھی مکمل ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔
ڈاکٹر سارا نے کہا کہ برطانیہ کے علاوہ امریکا میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ پر نئی نئی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ امریکا کی ایک یونیورسٹی کے صدر کو محض اس بناء پر مستعفی ہونے پر مجبورکیا گیا کہ انھوں نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے لیے احتجاج کرنیوالے طلبہ کے خلاف کارروائی سے انکار کیا تھا۔
سیاسیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد نے پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد مارشل لاء لگنے سے پہلے تک اساتذہ اور طلبہ کو خاصی آزادی حاصل تھی۔ کئی نامور اساتذہ کو اگر یونیورسٹیوں میں اس کا موقع نہیں ملا تو وہ ملک بھر کے معروف کالجوں میں علم کی شمع روشن کرتے رہے، مگر پھر جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا تو علمی آزادی کے ادارے پر بہت سی پابندیاں عائد ہوگئیں۔
دوسرے سیشن میں قائد اعظم یونیورسٹی کے تاریخ کے سابق استاد پروفیسر ڈاکٹر وقار علی شاہ نے اپنے مقالے میں کہا کہ ملک کے قیام کے بعد سے تاریخ کو مسخ کرنے کا منظم سلسلہ شروع ہوا۔ تاریخ میں جو بادشاہ ظالم ہے انھیں مظلوم اور جرات مند بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ ڈاکٹر وقار علی شاہ کا یہ بیانیہ تھا کہ آزادی کی تحریک میں جن لوگوں نے قربانیاں دیں، انھیں بعد میں غدار قرار دیا گیا۔
ڈاکٹر وقار علی شاہ کو 2019ء میں شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور میں ہونے والی تاریخ کانفرنس میں سندھ میں آزادی کی تحریک میں قربانیاں دینے والے رہنماؤں اور عوام کے حقوق کے لیے آوازیں بلند کرنے والے ہیروز کی تاریخ بیان کرنے پر عتاب کا نشانہ بنایا گیا تھا اور سزا کے طور پر ڈاکٹر وقار علی شاہ کو قائد اعظم یونیورسٹی کے تاریخ پر تحقیق کے انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر شپ سے ہٹا دیا گیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ وہ ایک سچے استاد کی طرح حقیقی تاریخ بیان کرنے اور لکھنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
معروف مصنف ڈاکٹر ناظر محمود نے ملک میں علمی آزادی پر عائد قدغنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملتان کے پروفیسر جنید حفیظ اور بنوں کے پروفیسر شیر علی اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ راقم الحروف نے ملک کی 76 سالہ تاریخ میں ریاستی جبرکا شکار ہونے والے اساتذہ کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈالی۔
تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سرکاری یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی ملازمت کے لیے وفاقی خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو سے کلیئرنس لازمی قرار دیدی گئی تھی، یوں بہت سے ترقی پسند اساتذہ کو یونیورسٹیوں میں تدریس سے روک دیا گیا۔ ایک منصوبے کے تحت ملک بھر کے عظیم شاعر فیض احمد فیض، پروفیسر ایرک سپرین، پروفیسر امین مغل، پروفیسر کرار حسین ، پروفیسر ممتاز حسین، پروفیسر مجتبیٰ حسین اور ڈاکٹر م ر حسان جیسے اساتذہ کو یونیورسٹیوں میں ملازمتیں نہ مل سکیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں اساتذہ کو گرفتار کر کے لاہور کے شاہی قلعہ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی اساتذہ کو جن میں ڈاکٹر ظفر عارف اور پروفیسر جمیل عمر شامل ہیں کو فوجی عدالتوں نے طویل مدت کی سزائیں دیں۔ ریاستی پابندیوں اور مارشل لاء کے نفاذ کے خلاف آواز بلند کرنے والے اساتذہ کو یونیورسٹیوں کی ملازمتوں سے نکال دیا گیا، مگر المیہ تو یہ ہے کہ صورتحال تو گزشتہ صدی میں سرد جنگ کے زمانے کی تھی مگر اب بھی ملک میں کئی اساتذہ اور محققین زیرِ عتاب ہیں۔
علمی آزادی کی بناء پر یونیورسٹیاں دیگر سماجی اور سیاسی اداروں کی رہبری کا فریضہ انجام دیتی ہیں، اگر یہ ادارہ کمزور ہوتا ہے تو معاشرے سے صرف تخلیق کا عمل ہی ختم نہیں ہوگا بلکہ سوال کا ادارہ ہی ختم ہوجائے گا، یوں جمہوری کلچر باقی نہیں رہے گا۔ دیگر شہری آزادیوں کے ساتھ علمی آزادی کا تحفظ بھی انتہائی ضروری ہے۔