’’پروفیسر ہارون الرشید‘ حیات و خدمات‘‘ پر ایک نظر

کتاب کے مصنف اور مولف ساجد رشید اعلیٰ تعلیم یافتہ اور علمی و تحقیقی بصیرت سے مالا مال ہیں

nasim.anjum27@gmail.com

پروفیسر ہارون الرشید کی حیات اور علمی و ادبی خدمات کا جائزہ لینے والے ان کے فرزند رشید، ساجد رشید ہیں، ساجد رشید ، ہارون الرشید کے صاحبزادے اور ممتاز قلم کار اور پبلشر زاہد رشید کے چھوٹے بھائی ہیں۔

ساجد رشید نے حق فرزندگی کو کچھ اس طرح سنبھالا کہ اپنے والد محترم کے ادبی امور کو یکجا کیا اور اسے کتابی شکل میں لانے کے لیے شب و روز محنت کی۔ ہارون الرشید صاحب کا کام معیار اور مقدار کے اعتبار سے وزنی اور قابل ذکر ہے۔

تیس چالیس کتابوں کو ابواب کے ذیل میں ترتیب دینا اور ان کی زندگی کے بارے میں لکھنا آسان کام ہرگز نہ تھا، لیکن جب محبت اور عقیدت کے جذبات تروتازہ ہوں تب کام کرنے کی لگن بڑھ جاتی ہے اور پھر رشتہ بھی خون کا جس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی جا سکتی ہے۔

ساجد رشید کی تحریر پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ان کا اسلوبِ بیان سادہ اور دلنشیںہے۔ تحریر کی روانی نے پروفیسر ہارون الرشید کی تحریروں کو مزید موثر بنا دیا ہے۔

پروفیسر صاحب کی پوری زندگی جہدِ مسلسل کی داستاں ہے، لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، وہ تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انھوں نے ایک خاص مقصد کو مد ِنظر رکھتے ہوئے جم کر لکھا اور وہ مقصد تھا، اصلاح معاشرہ اور اسلامی افکار کی ترجمانی۔ وہ وطن ِ عزیز کی ترقی اور استحکام کے خواہاں تھے۔

میری نگاہ سے ان کی کئی کتابیںگذریں جنھیں پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ درویش صفت انسان ہیں متقی پرہیزگار، جس طرح مزاج میں درویشی اور سادگی ہے اس ہی طرزِ فکر سے ان کی تحریریں مرصع ہیں۔

کتاب کے پہلے باب کو چھ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصہ اول میں ہارون الرشید صاحب کا تعارف اور ذاتی معلومات شامل ہیں۔ ان کی تاریخ پیدائش تین جولائی 1937 ہے جب کہ جنم بھومی کلکتہ مغربی بنگال اور وطن غازی پور یوپی انڈیا ہے۔


قسمت کی بدنصیبی کہیں یا رب کی آزمائش کے انھیں دو ہجرتوں کا کرب سہنا پڑا، بے شمار مسائل کا سامنا کیا جس میں سب سے زیادہ فکرمعاش اور سَر چھپانے کی جگہ اور عدم تحفظ نے دوسرے مہاجرین کی طرح پروفیسر ہارون الرشید کو بھی کٹھنائیوں سے گزارا لیکن صبروشکر ان کی گھٹی میں شامل تھا، عبادت و ریاضت نے ان کی فطرت میں تقوی اور قناعت کو شامل کر دیا۔

زندگی کا دوسرا دور ان کی عسرت، بیماری اور تعلیمی مدارج کے مشکلات اور محنت و مشقت کی عکاسی کرتا ہے انھوں نے اپنی اہلیہ کی کفایت شعاری، سلیقہ مندی اور گھر گرہستی کی توصیف اور قدر کی ہے، چونکہ گھر کی خوشی اور سکون عورت کے ہی دم سے وجود میں آتا ہے لیکن اچھے، برے حالات میں مرد کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے پروفیسر صاحب صابر اور قانع تھے لہٰذا اچھے طریقے اورعزت کے ساتھ گھر کی گاڑی چلتی رہی۔

تیسرے دور کو شاندار اور کامیاب کہنا بجاہے یہ وہ زمانہ تھا جس میں ان کا ایک ناول بعنوان'' اپنے لہو کی آگ میں'' شایع ہوا ،جسے ناقدین اور قارئین نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ان دنوں گھریلو مسائل بھی کافی حد تک حل ہو گئے تھے،چوتھا اور پانچواں دور بھی مزید کامیابیوں سے مزین ہے ذاتی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوئے2012 تک بیس کتابیں منظر عام پر آ چکی تھی ،چھٹادور بھی گزشتہ ادوار کی طرح کامیابیوں سے مزین نظر آتا ہے، تصنیف و تالیف کا کام اس قدر کیا کہ پندرہ کتابوں نے اشاعت کے مرحلے میں قدم رکھ دیا۔

اس طرح تیس سے زیادہ کتابیں لکھ کر انھوں نے ثابت کیا کہ مثبت سوچ اور تعمیری فکر اچھے اور نیک کاموں کو جنم دیتی ہے اب چاہے وہ امور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھتے ہوں یا زندگی کے دوسرے شعبوں سے، کام اور کام کرتے رہنا چاہیے ۔ان کی تمام تحریریں اسلامی رنگ سے مزین ہیں، نے ان کے چند کتابوں کے عنوانات سپردِ قلم کر رہی ہوں۔ منقبت صحابہ کرامؓ ، اردو کا دینی ادب ،دین و دانش( اس کتاب میں بیس کتابوں کا تجزیاتی مطالعہ شامل ہے۔)

ساجد رشید کی ترتیب کردہ کتاب اپنے والد پروفیسر ہارون الرشید سے بے پناہ محبت کی مظہر ہے، ایک بیٹے نے اپنے والد صاحب کو نذرانۂ عقیدت اس طرز ِفکر سے پیش کیا ہے ان کے تمام اوصاف، قابلیت اور علمیت نے صفحہ ٔ قرطاس پر اپنی جگہ بنا لی ہے۔ ہارون الرشید صاحب نے اپنی پوری زندگی شارع اسلام پر چلنے کی کوشش کی ہے وہ ایک اسلامی معاشرے کی تکمیل کے دل سے خواہاں تھے، اپنی کتاب''نوائے فقیر'' کے باب''نظام بدل دو'' میں لکھتے ہیں :

''پاکستان کس لیے بنا تھا؟ اس لیے نہیں بنا تھا کہ یہ و ڈیروں، سرمایہ داروں اور جرائم پیشہ لوگوں کی چراگاہ بن جائے۔ پاکستان اس لیے بنا تھا کہ یہاں الٰہی احکام جاری ہوں، اسلام کا فلاحی نظام قائم ہو جو حکومت اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہے۔''

کتاب کے مصنف اور مولف ساجد رشید اعلیٰ تعلیم یافتہ اور علمی و تحقیقی بصیرت سے مالا مال ہیں اس ہی خوبی کی بنیاد پرانھوں نے پروفیسر صاحب کی مکمل زندگی اور ان کی ادبی و تدریسی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے۔

26 جنوری 2022 کوعلم و ادب کے افق پر چمکنے والا سورج آخر کارغروب ہو گیا۔ حق مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا ۔
Load Next Story