انتخابی سیاست اور ٹکٹوں کی تقسیم کا کھیل
نئی نسل کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ وہ یرغمال نہیں بلکہ آزاد ووٹرز ہیں
ہمارا سیاسی اورانتخابی نظام بنیادی طور پر آج بھی ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ اصولی طور پر یہ ارتقائی عمل تسلسل کے ساتھ ایک مضبوط شکل میں آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت اور اس سے جڑے فیصلوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔
یہ ہی ہمارے سیاسی اورجمہوری نظام کی ناکامی ہے اور اس ناکامی کے نتیجہ میں ہمارے جمہوری اور سیاسی نظام کو مختلف محاذوں پر سیاسی پسپائی کا سامنا ہے۔
ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا اور خارجی یا پس پردہ طاقتوں کی مداخلت کے باعث سیاسی جماعتیں ایک مضبوط شکل اختیار نہیں کرسکیں ۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے، مگر مکمل سچ نہیں ۔کیونکہ سیاسی جماعتوں کو خود بھی جتنا موقع ملا وہ بھی کوئی اچھی سیاسی روایات کو قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
حالیہ 2024کے انتخابات کے سیاسی مناظر کو دیکھیں اور اسی تناظر میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم سمیت عورتوں کی مخصوص نشستوں پر ان کی ترجیحاتی فہرستوں کو دیکھیں تو ہمیں خاندان ، رشتہ داری، ذات برادری یا دوست پروی کی بے شمار جھلکیاں کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
ہم بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی سطح پر ٹکٹوں کی تقسیم میں پانچ بڑے مسائل دیکھ رہے ہیں ۔ اول، مضبوط سیاسی خاندان کو ہی بنیاد بنا کر ٹکٹوں کی تقسیم کی جاتی ہے ۔دوئم، یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان میں پیسے والے افرادکتنے ہیں جو نہ صرف انتخابی مہم میں بڑے پیمانے پر پیسے خرچ کرسکتے ہیں بلکہ پارٹی فنڈ کے نام پر بھی کروڑوں روپے دے سکتے ہیں ۔ سوئم، سیاسی پیرا شوٹرز اور بار بار پارٹیاں بدل کر اپنی وفاداریوں کو تبدیل کرنے والوں کو کئی سیاسی مجبوریوں کے باعث قبول کیا جاتا ہے۔
چہارم، عورتوں کی مخصوص نشستوں پر بڑے سیاسی خاندانوں کی بیگمات، بیٹیاں ، بہو، بہنوں یا بھانجیوں، بھتیجیوں کو پارٹی کی سطح پر ترجیحی فہرستوں کا حصہ بنایاجاتا ہے۔ پنجم ایسے سرکاری کار مختاروں کی پشت پناہی کی بنیاد پر بڑی سیاسی جماعتیں ٹکٹ دیتی ہیں تاکہ ان کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔
قومی اور صوبائی جنرل نشستوں پر اور بعد میں عورتوں کی مخصوص نشستوں پر ایک ہی گھرانوں کی اجارہ داری ہوتی ہے ۔ ایک ہی گھر کے افراد کو قومی، صوبائی اور مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔ اسی طرح جب مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو یہاں بھی چیرمین اور وائس چیرمین پر بھی ان ہی بڑے گھروں کی اجارہ داری دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ سیاسی خاندان اس عمل کو اپنا حق سمجھتی ہیں یہ رویہ ان تمام سیاسی کارکنوں کی تذلیل کرتا ہے جو سیاسی جماعتوں میں لمبے عرصہ تک جدوجہد کرتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں، قید ہوتے ہیں۔
ان سیاسی کارکنوں کے پاس واحد آپشن سیاسی جماعتوں میں ان ہی بڑے خاندانوں کی عملی سیاست کے ساتھ کھڑے رہنا یا ان کے ساتھ مستقل بنیادوں پر وفاداری سے جڑا ہوتا ہے۔ جو سیاسی کارکن ان بڑے خاندانوں کی سیاست کو چیلنج کرتا ہے تو اسے سیاسی جماعتوں سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جو سیاسی کارکن ٹکٹ کے حصول میں کامیاب بھی ہوتا ہے تو اس کی وجہ چاپلوسی ہوتی ہے۔
عورتوں کی نمایندگی کا موجودہ جو طریقہ کار مخصوص نشستوں کا ہے، اسے تبدیل ہونا چاہیے ۔ عورتوں کی مخصوص نشستیں ضرور ہوں لیکن ان کا انتخابات براہ راست ہونا چاہیے ۔سیاسی جماعتیں کمزور ہی اسی وجہ سے ہیں ان کے اپنے اندر داخلی جمہوریت یا میرٹ کا کوئی نظام نہیں اور جب سیاسی جماعتوں کا نظام ہی اقرباپروری کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو جمہوری کھیل او رزیادہ خراب ہوگا۔
اب تو ہمیں سیاسی جماعتوں کے اندر باقاعدہ ٹکٹوں کی خریدوفروخت کا نظام بھی دیکھنے کو مل رہا ہے او رجو امیدواروں سے پارٹی فنڈزکے نام پر لیا جاتا ہے، وہ بھی پارٹی کے اکاؤنٹس میں نہیں بلکہ کسی خاص فرد کے ذاتی اکاونٹ میں ڈالے جاتے ہیں ۔ ہماری سیاست میں یہ جو روپے پیسے کا کھیل یا اسے کارپوریٹ سیاسی کلچر کہا جائے تو اس نے نے سیاسی نظام میں بے شمار خرابیاں پیدا کردی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب کوئی فرد بھاری رقم دے کر ٹکٹ کے حصول کو یقینی بناتا ہے تو وہ منتخب ہونے کے بعد کرپشن او ربدعنوانی کی سیاست سے کیسے خود کو علیحدہ رکھ سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا سیاسی روائتی ، خاندانی اور بڑے سیاسی گھرانوں کی سیاست سے باہر نکل سکے گا او رکیا ہم واقعی سیاسی جماعتوں میں ان کے داخلی سیاسی نظام میںمضبوط جمہوری عمل دیکھ سکیں گے ۔کیونکہ اگر ہم نے اسی انداز میں سیاست اور اس سے جڑے فیصلے کرنے ہیں توہم کیسے اس نظام کی درستگی کی طرف بڑھ سکتے ہیں ۔یہ کام محض سیاسی جماعتوں نے نہیں کرنا بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر سیاسی اصلاحات اور ان میں شفافیت کا نظام پورے ریاستی اور معاشرتی نظام کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔
جو لوگ بھی انفرادی یا اجتماعی طور پر یا اداروں کی شکل میں اس نظام میں اصلاح چاہتے ہیں ان کو ہر محاذ پر اور تواتر کے ساتھ ان سیاسی مسائل پر آواز بھی اٹھانی چاہیے ا ور ایک متبادل بہتر سیاسی نظام کی تشکیل کی طرف پیش رفت آگے بڑھانی ہوگی ۔ اس میں ایک ضرب ہماری نئی نسل ہی لگاسکتی ہے کہ وہ اس روائتی سیاست کو چیلنج کرے۔
اس میں ایک بڑا کام سول سوسائٹی اور میڈیا سمیت علمای وفکری اداروں کی سطح پر منظم انداز میں ہونا چاہیے ۔ اس نقطہ پر زور دینا ہوگا کہ سیاسی جماعتیں اسی انداز میں کام کریں یا فیصلے کریں جیسے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سے توقع رکھی جاتی ہے۔کیونکہ میڈیا کا بھی ایک مجموعی مزاج یہ بن گیا ہے کہ وہ طاقت ور سیاسی گھرانوں کی سیاست کے درمیان خود کہیں پھنس کر رہ گیا ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں میں یہ گھرانے طاقت ور ہوتے ہیں تو میڈیا میں بھی ان کی مجموعی عکاسی کا غلبہ نظر آتا ہے۔
حالانکہ میڈیا کا ایک بڑا کام سیاست میں موجود خرابیوں کی حقیقی طور پر نشاندہی کرنا اور ایک متبادل آواز یا سوچ کو سامنے لاکر لوگوں کو شعور دینا ہے ۔جب کہ اس کے مقابلے میں سول سوسائٹی اور رسمی یا غیر رسمی تعلیم میں ووٹرز کے شعور کو بنیادی فوقیت دینی ہوگی ۔کیونکہ یہ جو ہمارے سیاسی مسائل ہیں ان کامحض انتظامی یا قانونی بنیاد پر حل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ہمیں شہریوں یا ووٹرز اور بالخصوص نئی نسل کے سیاسی اور سماجی شعور کو بھی اجاگر کرنا ہوگا۔
نئی نسل کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ وہ یرغمال نہیں بلکہ آزاد ووٹرز ہیں ۔ہم مضبوط سیاسی گھرانو ں کی ہم مخالفت نہیں کررہے بلکہ اس عمل کو بھی عملی طور پر سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کے تابع ہونا چاہیے ۔ یہ سوچ اور فکر کے سیاسی نظام یا سیاسی جماعتیں کمزور اور خاندان زیادہ مضبوط ہونگے اس کی نفی کرنا اور ایک متبادل سیاسی و جمہوری نظام کی طرف پیش رفت ہی ہمیں بہترمنزل کی طرف لے جاسکتا ہے۔
یہ ہی ہمارے سیاسی اورجمہوری نظام کی ناکامی ہے اور اس ناکامی کے نتیجہ میں ہمارے جمہوری اور سیاسی نظام کو مختلف محاذوں پر سیاسی پسپائی کا سامنا ہے۔
ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا اور خارجی یا پس پردہ طاقتوں کی مداخلت کے باعث سیاسی جماعتیں ایک مضبوط شکل اختیار نہیں کرسکیں ۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے، مگر مکمل سچ نہیں ۔کیونکہ سیاسی جماعتوں کو خود بھی جتنا موقع ملا وہ بھی کوئی اچھی سیاسی روایات کو قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
حالیہ 2024کے انتخابات کے سیاسی مناظر کو دیکھیں اور اسی تناظر میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم سمیت عورتوں کی مخصوص نشستوں پر ان کی ترجیحاتی فہرستوں کو دیکھیں تو ہمیں خاندان ، رشتہ داری، ذات برادری یا دوست پروی کی بے شمار جھلکیاں کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
ہم بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی سطح پر ٹکٹوں کی تقسیم میں پانچ بڑے مسائل دیکھ رہے ہیں ۔ اول، مضبوط سیاسی خاندان کو ہی بنیاد بنا کر ٹکٹوں کی تقسیم کی جاتی ہے ۔دوئم، یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان میں پیسے والے افرادکتنے ہیں جو نہ صرف انتخابی مہم میں بڑے پیمانے پر پیسے خرچ کرسکتے ہیں بلکہ پارٹی فنڈ کے نام پر بھی کروڑوں روپے دے سکتے ہیں ۔ سوئم، سیاسی پیرا شوٹرز اور بار بار پارٹیاں بدل کر اپنی وفاداریوں کو تبدیل کرنے والوں کو کئی سیاسی مجبوریوں کے باعث قبول کیا جاتا ہے۔
چہارم، عورتوں کی مخصوص نشستوں پر بڑے سیاسی خاندانوں کی بیگمات، بیٹیاں ، بہو، بہنوں یا بھانجیوں، بھتیجیوں کو پارٹی کی سطح پر ترجیحی فہرستوں کا حصہ بنایاجاتا ہے۔ پنجم ایسے سرکاری کار مختاروں کی پشت پناہی کی بنیاد پر بڑی سیاسی جماعتیں ٹکٹ دیتی ہیں تاکہ ان کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔
قومی اور صوبائی جنرل نشستوں پر اور بعد میں عورتوں کی مخصوص نشستوں پر ایک ہی گھرانوں کی اجارہ داری ہوتی ہے ۔ ایک ہی گھر کے افراد کو قومی، صوبائی اور مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔ اسی طرح جب مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو یہاں بھی چیرمین اور وائس چیرمین پر بھی ان ہی بڑے گھروں کی اجارہ داری دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ سیاسی خاندان اس عمل کو اپنا حق سمجھتی ہیں یہ رویہ ان تمام سیاسی کارکنوں کی تذلیل کرتا ہے جو سیاسی جماعتوں میں لمبے عرصہ تک جدوجہد کرتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں، قید ہوتے ہیں۔
ان سیاسی کارکنوں کے پاس واحد آپشن سیاسی جماعتوں میں ان ہی بڑے خاندانوں کی عملی سیاست کے ساتھ کھڑے رہنا یا ان کے ساتھ مستقل بنیادوں پر وفاداری سے جڑا ہوتا ہے۔ جو سیاسی کارکن ان بڑے خاندانوں کی سیاست کو چیلنج کرتا ہے تو اسے سیاسی جماعتوں سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جو سیاسی کارکن ٹکٹ کے حصول میں کامیاب بھی ہوتا ہے تو اس کی وجہ چاپلوسی ہوتی ہے۔
عورتوں کی نمایندگی کا موجودہ جو طریقہ کار مخصوص نشستوں کا ہے، اسے تبدیل ہونا چاہیے ۔ عورتوں کی مخصوص نشستیں ضرور ہوں لیکن ان کا انتخابات براہ راست ہونا چاہیے ۔سیاسی جماعتیں کمزور ہی اسی وجہ سے ہیں ان کے اپنے اندر داخلی جمہوریت یا میرٹ کا کوئی نظام نہیں اور جب سیاسی جماعتوں کا نظام ہی اقرباپروری کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو جمہوری کھیل او رزیادہ خراب ہوگا۔
اب تو ہمیں سیاسی جماعتوں کے اندر باقاعدہ ٹکٹوں کی خریدوفروخت کا نظام بھی دیکھنے کو مل رہا ہے او رجو امیدواروں سے پارٹی فنڈزکے نام پر لیا جاتا ہے، وہ بھی پارٹی کے اکاؤنٹس میں نہیں بلکہ کسی خاص فرد کے ذاتی اکاونٹ میں ڈالے جاتے ہیں ۔ ہماری سیاست میں یہ جو روپے پیسے کا کھیل یا اسے کارپوریٹ سیاسی کلچر کہا جائے تو اس نے نے سیاسی نظام میں بے شمار خرابیاں پیدا کردی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب کوئی فرد بھاری رقم دے کر ٹکٹ کے حصول کو یقینی بناتا ہے تو وہ منتخب ہونے کے بعد کرپشن او ربدعنوانی کی سیاست سے کیسے خود کو علیحدہ رکھ سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا سیاسی روائتی ، خاندانی اور بڑے سیاسی گھرانوں کی سیاست سے باہر نکل سکے گا او رکیا ہم واقعی سیاسی جماعتوں میں ان کے داخلی سیاسی نظام میںمضبوط جمہوری عمل دیکھ سکیں گے ۔کیونکہ اگر ہم نے اسی انداز میں سیاست اور اس سے جڑے فیصلے کرنے ہیں توہم کیسے اس نظام کی درستگی کی طرف بڑھ سکتے ہیں ۔یہ کام محض سیاسی جماعتوں نے نہیں کرنا بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر سیاسی اصلاحات اور ان میں شفافیت کا نظام پورے ریاستی اور معاشرتی نظام کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔
جو لوگ بھی انفرادی یا اجتماعی طور پر یا اداروں کی شکل میں اس نظام میں اصلاح چاہتے ہیں ان کو ہر محاذ پر اور تواتر کے ساتھ ان سیاسی مسائل پر آواز بھی اٹھانی چاہیے ا ور ایک متبادل بہتر سیاسی نظام کی تشکیل کی طرف پیش رفت آگے بڑھانی ہوگی ۔ اس میں ایک ضرب ہماری نئی نسل ہی لگاسکتی ہے کہ وہ اس روائتی سیاست کو چیلنج کرے۔
اس میں ایک بڑا کام سول سوسائٹی اور میڈیا سمیت علمای وفکری اداروں کی سطح پر منظم انداز میں ہونا چاہیے ۔ اس نقطہ پر زور دینا ہوگا کہ سیاسی جماعتیں اسی انداز میں کام کریں یا فیصلے کریں جیسے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سے توقع رکھی جاتی ہے۔کیونکہ میڈیا کا بھی ایک مجموعی مزاج یہ بن گیا ہے کہ وہ طاقت ور سیاسی گھرانوں کی سیاست کے درمیان خود کہیں پھنس کر رہ گیا ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں میں یہ گھرانے طاقت ور ہوتے ہیں تو میڈیا میں بھی ان کی مجموعی عکاسی کا غلبہ نظر آتا ہے۔
حالانکہ میڈیا کا ایک بڑا کام سیاست میں موجود خرابیوں کی حقیقی طور پر نشاندہی کرنا اور ایک متبادل آواز یا سوچ کو سامنے لاکر لوگوں کو شعور دینا ہے ۔جب کہ اس کے مقابلے میں سول سوسائٹی اور رسمی یا غیر رسمی تعلیم میں ووٹرز کے شعور کو بنیادی فوقیت دینی ہوگی ۔کیونکہ یہ جو ہمارے سیاسی مسائل ہیں ان کامحض انتظامی یا قانونی بنیاد پر حل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ہمیں شہریوں یا ووٹرز اور بالخصوص نئی نسل کے سیاسی اور سماجی شعور کو بھی اجاگر کرنا ہوگا۔
نئی نسل کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ وہ یرغمال نہیں بلکہ آزاد ووٹرز ہیں ۔ہم مضبوط سیاسی گھرانو ں کی ہم مخالفت نہیں کررہے بلکہ اس عمل کو بھی عملی طور پر سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کے تابع ہونا چاہیے ۔ یہ سوچ اور فکر کے سیاسی نظام یا سیاسی جماعتیں کمزور اور خاندان زیادہ مضبوط ہونگے اس کی نفی کرنا اور ایک متبادل سیاسی و جمہوری نظام کی طرف پیش رفت ہی ہمیں بہترمنزل کی طرف لے جاسکتا ہے۔