چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں
پچھلا برس ہم عام عوام کے دل و جان پر جس طرح گزرا ہے، یہ ہم عوام کالانعام ہی جانتے ہیں
آج نئے سال،2024،کا پہلا دن ہے۔ مغربی دُنیا میں نیا سال اُدھم مچا کر، رقص و موسیقی کا رنگین جہان آباد کر کے، شبینہ کلبوں کی مزید رونق افزائی کرتے ہُوئے اور سڑکوں پر نوجوان منچلوں کی عجب حرکات سے کیا جاتا ہے۔
بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز اپنے مہنگے کپڑوں اور الیکٹرانک آلات پر50فیصد سے زائد ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں۔ ڈسکاؤنٹ کی یہ غیر معمولی عیاشی کئی روز تک جاری رہتی ہے۔ اِس اسلوب سے مغربی دنیا کے غریب اور زیریں متوسط طبقات بھی بآسانی مستفید ہوجاتے ہیں۔ راقم نے ٹورانٹو، لندن اور نیویارک میں یہ مناظر متعدد بار دیکھ رکھے ہیں۔
خصوصی طور پر نیویارک شہر کے مرکز میں واقع ، ٹائمز اسکوائر ، میں نئے سال کی آمد پر ٹھیک رات کے بارہ بجے پھلجھڑیوں کے جو خوش آمدیدی ''بم'' چلائے جاتے ہیں، یہ مناظر ششدر انگیز ہوتے ہیں ۔ لاکھوں لوگ اِس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے ٹائمز اسکوائر میں اکٹھے ہوتے ہیں کہ نئے سال کی آمد کے موقع پر نیویارک شہر کی ساری ٹرینیں بھی مفت چلائی جاتی ہیں ۔
اِس کے برعکس ہم نئے سال کی آمد پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ گزرے سال کے حوالے سے اپنے اعمال پر ایک نظر ڈالنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے ۔ کئی ایسی نیک روحیں بھی ہیں جو نئے سال کے طلوع پر شکرانے کے نوافل ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے بخیریت نیا سال دکھایا ہے، اس لیے سب کی خیر، سب کا بھلاہو۔ یہ نیک روحیں بلا استثنا اپنوں اور غیروں کی بھلائی و سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں۔ ایسی نیک رُوحوں کو سلام و سیلوٹ۔
نئے سال کی آمد پر ہمارے چند بڑے شہروں میں بعض منچلے اور بانکے سڑکوں پر ہلّا گلّا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔بعض مذہبی تنظیموں کے وابستگان مگر انھیں اِس ہلّے گلّے سے روکنے کے لیے اُن پر اپنا نظریاتی غصہ اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اب تو ویسے بھی اِس ہلّے گلّے کی گنجائش بھی نہیں رہی کہ نگران وزیر اعظم،انوارالحق کاکڑ صاحب، نے مظلوم فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کی خاطر ملک بھر میں 2024 کی آمد کے موقع پر ہر قسم کی تقریبات پر پابندیاں عائد کر دی ہیں ۔
لیکن پچھلا برس ہم عام عوام کے دل و جان پر جس طرح گزرا ہے، یہ ہم عوام کالانعام ہی جانتے ہیں۔ سارا سال یوں محسوس ہوتا رہا جیسے ہماری اشرافیہ اور انتہائی مراعات یافتہ طبقات کا ساختہ خونی بلڈوزر غریب اور بیکس عوام کو دن رات روندتا جا رہا ہے ۔ کمر شکن، بے لگام مہنگائی نے عوام کا جینا حرام بنائے رکھا۔ خود حکومت تسلیم کرتی رہی کہ مہنگائی 40فیصد کے حوصلہ شکن گراف کو چھُو رہی ہے ۔بڑے دھمّے اور زعم سے پی ٹی آئی کی جگہ پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا۔
مہنگائی کے خاتمے ، روپے کی قیمت میں اضافے ، اشیائے خورونوش کی ہلاکت خیز قیمتوں میں کمی لانے کے اپنے تئیں بڑے بڑے دعوے کیے لیکن 16مہینے اقتدار کے نشاط انگیز محل میں گزار کر ، شہباز شریف کی قیادت میں، پی ڈی ایم اقتدار سے رخصت ہُوئی تو عوام نے جانا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت نے اُن کے منہ سے رہا سہا نوالا بھی چھین لیا ہے۔ مریضوں نے جانا کہ پی ڈی ایم حکومت نے اُن سے دوائی بھی چھین لی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف بڑے فخر اور بلند اُمیدوں کے ساتھ اپنے قائد کے سمدھی ، اسحاق ڈار، کو وزیر خزانہ بنا کر لائے لیکن ہم سب نے دیکھا کہ سولہ ماہ کے بعد ڈالر بلند ترین سطح پر چلا گیا۔ پی ڈی ایم حکومت نے ہم عوام کو رونے جوگا بھی نہیں چھوڑا ۔ آج نئے سال اور نئے انتخابات کے موقع پر نون لیگ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس طرح عوام کا سامنے کرے؟
نون لیگ کا سیاسی بیانیہ تقریباً دفن ہو چکا ہے۔ اقتدار کے 16مہینوں کے دوران جو کچھ ہوا' سارا ملبہ ن لیگ پر گرا۔ آج جو سارے عوامی اور سوشل سرویز نون لیگ کے خلاف آرہے ہیں ، یہ دراصل اتحادی حکومت سولہ ماہی اقتدار میں عوام دشمن اقدامات کا نتیجہ ہے۔
پچھلا سال عوام نے جن شدید مالی، سماجی اور سیاسی پریشانیوں میں گزارا، اِس میں پی ڈی ایم حکومت کے اجتماعی فیصلوں کا بھی یکساں کردار ہے، لیکن عوام بحیثیتِ مجموعی سارا ملبہ نون لیگ اور خاص طور پر شہباز شریف پر ڈالتے ہیں۔ آج عوام کو نانِ جویں بھی میسر نہیں ہے تو اِس میں شہباز شریف کی 16ماہ کی حکومت کے اقدامات کو منہا نہیں کیا جا سکتا ۔ اگرچہ شہباز شریف بے محابہ یہ کہتے بھی سنائی دیتے ہیں: ہمیں پی ٹی آئی کی طرف سے بُری حکومت ملی تھی ۔
عالمی سطح پر ہم نے دیکھا کہ پچھلا برس جنگ و جدل اور بد امنی میں گزرا ۔ اقوامِ متحدہ کا ادارہ قیامِ امن کے لیے چیختا رہا ، لیکن کسی نے اُس کی چیخ و پکار پر کان نہ دھرا ۔ یہ دیکھ کر دل و دماغ دکھ سے بھر جاتا ہے کہ2023کا سارا گزرا سال طالبان کا افغانستان ، مسلسل، پاکستان کے لیے باعثِ آزار بنا رہا۔
افغان طالبان کے پروں تلے پناہ گیر ٹی ٹی پی نے ہماری سیکیورٹی فورسز کے سیکڑوں جوانوں اور افسروں کا خون بہا ڈالا لیکن احسان فراموش افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو لگام ڈالنے سے انکار کر دیا۔
پچھلے سال رُوس اور یوکرائن کی جنگ بھی ٹھنڈی نہ پڑ سکی۔ جنوبی سوڈان میں مقتدر افریقی مسلمان اور حزبِ اختلاف کے دھڑے بیدردی سے ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے اور روٹی کو ترستے سوڈانی عوام اِس صورتحال کو دیکھ کر ہجرت کا عذاب سہنے پر مجبور رہے۔
یمن کے'' حوثی'' سرکشی اور تباہی کا سمبل بنے رہے ۔غزہ کے حماثیوں اور اسرائیل کی سرکاری فوجوں میں تباہ کن تصادم ہُوا جو اَب تک جاری ہے ۔ اسرائیل اَب تک ''غزہ'' کے 20ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر چکا ہے اور جہنم واصل اسرائیلی فوجیوں کی تعداد صرف 2ہزار بتائی جا رہی ہے ۔ خدایا!!
نئے سال اور برہمن کی پیشگوئیوں کا ہماری شاعری میں بڑا قابلِ ذکر مقام ہے ۔ مثال کے طور پر دیکھیے اسد اللہ خاں غالب نئے سال اور برہمن کے باہمی تعلق سے کیا کہتے ہیں : ''دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض /اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔''
لیکن لگتا ہے ہمارے معروف پاکستانی شاعر،احمد فراز، کو غالب کے نئے سال کے اچھے ہونے کی توقع اچھی نہیں لگی؛چنانچہ احمد فراز پاکستان کے حالات و واقعات کے پس منظر و ذاتی تجربات و مشاہدات کے حوالے سے یوں کہتے ہیں:''نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے / کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے ؟۔'' نئے سال کے حوالے سے شاعر قتیل شفائی تو مایوسی اور بددلی میں احمد فراز سے بھی آگے چلے گئے ہیں۔
کہتے ہیں :''جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے /اُس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں۔'' مایوسیاں اتنی زیادہ اور گمبھیر ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم سب پاکستانی پچھلے برس کی مطلق لاحاصلگی کو کیسے فراموش کردیں؟ اور نئے سال کا استقبال کس دل سے کریں؟ ایسے میں ہمارے نامور شاعر جناب ظفر اقبال نئے سال کا استقبال کرنے کے لیے یوں مشورہ دیتے ہیں :
چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں
دیوار سے پرانا کلینڈر اُتار دے
بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز اپنے مہنگے کپڑوں اور الیکٹرانک آلات پر50فیصد سے زائد ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں۔ ڈسکاؤنٹ کی یہ غیر معمولی عیاشی کئی روز تک جاری رہتی ہے۔ اِس اسلوب سے مغربی دنیا کے غریب اور زیریں متوسط طبقات بھی بآسانی مستفید ہوجاتے ہیں۔ راقم نے ٹورانٹو، لندن اور نیویارک میں یہ مناظر متعدد بار دیکھ رکھے ہیں۔
خصوصی طور پر نیویارک شہر کے مرکز میں واقع ، ٹائمز اسکوائر ، میں نئے سال کی آمد پر ٹھیک رات کے بارہ بجے پھلجھڑیوں کے جو خوش آمدیدی ''بم'' چلائے جاتے ہیں، یہ مناظر ششدر انگیز ہوتے ہیں ۔ لاکھوں لوگ اِس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے ٹائمز اسکوائر میں اکٹھے ہوتے ہیں کہ نئے سال کی آمد کے موقع پر نیویارک شہر کی ساری ٹرینیں بھی مفت چلائی جاتی ہیں ۔
اِس کے برعکس ہم نئے سال کی آمد پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ گزرے سال کے حوالے سے اپنے اعمال پر ایک نظر ڈالنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے ۔ کئی ایسی نیک روحیں بھی ہیں جو نئے سال کے طلوع پر شکرانے کے نوافل ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے بخیریت نیا سال دکھایا ہے، اس لیے سب کی خیر، سب کا بھلاہو۔ یہ نیک روحیں بلا استثنا اپنوں اور غیروں کی بھلائی و سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں۔ ایسی نیک رُوحوں کو سلام و سیلوٹ۔
نئے سال کی آمد پر ہمارے چند بڑے شہروں میں بعض منچلے اور بانکے سڑکوں پر ہلّا گلّا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔بعض مذہبی تنظیموں کے وابستگان مگر انھیں اِس ہلّے گلّے سے روکنے کے لیے اُن پر اپنا نظریاتی غصہ اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اب تو ویسے بھی اِس ہلّے گلّے کی گنجائش بھی نہیں رہی کہ نگران وزیر اعظم،انوارالحق کاکڑ صاحب، نے مظلوم فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کی خاطر ملک بھر میں 2024 کی آمد کے موقع پر ہر قسم کی تقریبات پر پابندیاں عائد کر دی ہیں ۔
لیکن پچھلا برس ہم عام عوام کے دل و جان پر جس طرح گزرا ہے، یہ ہم عوام کالانعام ہی جانتے ہیں۔ سارا سال یوں محسوس ہوتا رہا جیسے ہماری اشرافیہ اور انتہائی مراعات یافتہ طبقات کا ساختہ خونی بلڈوزر غریب اور بیکس عوام کو دن رات روندتا جا رہا ہے ۔ کمر شکن، بے لگام مہنگائی نے عوام کا جینا حرام بنائے رکھا۔ خود حکومت تسلیم کرتی رہی کہ مہنگائی 40فیصد کے حوصلہ شکن گراف کو چھُو رہی ہے ۔بڑے دھمّے اور زعم سے پی ٹی آئی کی جگہ پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا۔
مہنگائی کے خاتمے ، روپے کی قیمت میں اضافے ، اشیائے خورونوش کی ہلاکت خیز قیمتوں میں کمی لانے کے اپنے تئیں بڑے بڑے دعوے کیے لیکن 16مہینے اقتدار کے نشاط انگیز محل میں گزار کر ، شہباز شریف کی قیادت میں، پی ڈی ایم اقتدار سے رخصت ہُوئی تو عوام نے جانا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت نے اُن کے منہ سے رہا سہا نوالا بھی چھین لیا ہے۔ مریضوں نے جانا کہ پی ڈی ایم حکومت نے اُن سے دوائی بھی چھین لی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف بڑے فخر اور بلند اُمیدوں کے ساتھ اپنے قائد کے سمدھی ، اسحاق ڈار، کو وزیر خزانہ بنا کر لائے لیکن ہم سب نے دیکھا کہ سولہ ماہ کے بعد ڈالر بلند ترین سطح پر چلا گیا۔ پی ڈی ایم حکومت نے ہم عوام کو رونے جوگا بھی نہیں چھوڑا ۔ آج نئے سال اور نئے انتخابات کے موقع پر نون لیگ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس طرح عوام کا سامنے کرے؟
نون لیگ کا سیاسی بیانیہ تقریباً دفن ہو چکا ہے۔ اقتدار کے 16مہینوں کے دوران جو کچھ ہوا' سارا ملبہ ن لیگ پر گرا۔ آج جو سارے عوامی اور سوشل سرویز نون لیگ کے خلاف آرہے ہیں ، یہ دراصل اتحادی حکومت سولہ ماہی اقتدار میں عوام دشمن اقدامات کا نتیجہ ہے۔
پچھلا سال عوام نے جن شدید مالی، سماجی اور سیاسی پریشانیوں میں گزارا، اِس میں پی ڈی ایم حکومت کے اجتماعی فیصلوں کا بھی یکساں کردار ہے، لیکن عوام بحیثیتِ مجموعی سارا ملبہ نون لیگ اور خاص طور پر شہباز شریف پر ڈالتے ہیں۔ آج عوام کو نانِ جویں بھی میسر نہیں ہے تو اِس میں شہباز شریف کی 16ماہ کی حکومت کے اقدامات کو منہا نہیں کیا جا سکتا ۔ اگرچہ شہباز شریف بے محابہ یہ کہتے بھی سنائی دیتے ہیں: ہمیں پی ٹی آئی کی طرف سے بُری حکومت ملی تھی ۔
عالمی سطح پر ہم نے دیکھا کہ پچھلا برس جنگ و جدل اور بد امنی میں گزرا ۔ اقوامِ متحدہ کا ادارہ قیامِ امن کے لیے چیختا رہا ، لیکن کسی نے اُس کی چیخ و پکار پر کان نہ دھرا ۔ یہ دیکھ کر دل و دماغ دکھ سے بھر جاتا ہے کہ2023کا سارا گزرا سال طالبان کا افغانستان ، مسلسل، پاکستان کے لیے باعثِ آزار بنا رہا۔
افغان طالبان کے پروں تلے پناہ گیر ٹی ٹی پی نے ہماری سیکیورٹی فورسز کے سیکڑوں جوانوں اور افسروں کا خون بہا ڈالا لیکن احسان فراموش افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو لگام ڈالنے سے انکار کر دیا۔
پچھلے سال رُوس اور یوکرائن کی جنگ بھی ٹھنڈی نہ پڑ سکی۔ جنوبی سوڈان میں مقتدر افریقی مسلمان اور حزبِ اختلاف کے دھڑے بیدردی سے ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے اور روٹی کو ترستے سوڈانی عوام اِس صورتحال کو دیکھ کر ہجرت کا عذاب سہنے پر مجبور رہے۔
یمن کے'' حوثی'' سرکشی اور تباہی کا سمبل بنے رہے ۔غزہ کے حماثیوں اور اسرائیل کی سرکاری فوجوں میں تباہ کن تصادم ہُوا جو اَب تک جاری ہے ۔ اسرائیل اَب تک ''غزہ'' کے 20ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر چکا ہے اور جہنم واصل اسرائیلی فوجیوں کی تعداد صرف 2ہزار بتائی جا رہی ہے ۔ خدایا!!
نئے سال اور برہمن کی پیشگوئیوں کا ہماری شاعری میں بڑا قابلِ ذکر مقام ہے ۔ مثال کے طور پر دیکھیے اسد اللہ خاں غالب نئے سال اور برہمن کے باہمی تعلق سے کیا کہتے ہیں : ''دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض /اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔''
لیکن لگتا ہے ہمارے معروف پاکستانی شاعر،احمد فراز، کو غالب کے نئے سال کے اچھے ہونے کی توقع اچھی نہیں لگی؛چنانچہ احمد فراز پاکستان کے حالات و واقعات کے پس منظر و ذاتی تجربات و مشاہدات کے حوالے سے یوں کہتے ہیں:''نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے / کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے ؟۔'' نئے سال کے حوالے سے شاعر قتیل شفائی تو مایوسی اور بددلی میں احمد فراز سے بھی آگے چلے گئے ہیں۔
کہتے ہیں :''جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے /اُس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں۔'' مایوسیاں اتنی زیادہ اور گمبھیر ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم سب پاکستانی پچھلے برس کی مطلق لاحاصلگی کو کیسے فراموش کردیں؟ اور نئے سال کا استقبال کس دل سے کریں؟ ایسے میں ہمارے نامور شاعر جناب ظفر اقبال نئے سال کا استقبال کرنے کے لیے یوں مشورہ دیتے ہیں :
چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں
دیوار سے پرانا کلینڈر اُتار دے