عظیم تر اسرائیل صہیونی منصوبہ
گریٹر اسرائیل ایک ایسے منصوبے اور خواب کا نام ہے جسے صہیونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل نے بنایا اور دیکھا تھا۔۔۔
عظیم تر اسرائیل یا پھر گریٹر اسرائیل کے جملے سے تو دنیا آشنا ہے، لیکن اس بارے میں شاید اکثریت اس بات سے آشنا نہیں ہے کہ آخر یہ گریٹر اسرائیل کیا ہے؟ گریٹر اسرائیل کہاں سے شروع ہے او ر کہاں پر ختم ، شاید کوئی نہیں جانتا لیکن دنیا کے با شعور اور سیاست دان اور حکومت دان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آخر یہ گریٹر اسرائیل کا ماجرا کیا ہے؟اور اس کے پیچھے کیا منطق کارفرما ہے۔
گریٹر اسرائیل ایک ایسے منصوبے اور خواب کا نام ہے جسے صہیونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل نے بنایا اور دیکھا تھا، اس خواب کی تعبیر کچھ اس طرح سے کی گئی تھی کہ اسرائیل کا قیام سر زمین فلسطین پر کیا جائے جس میں بظاہر صہیونی کامیاب ہوئے اور اس کامیابی میں برطانوی سامراج (بوڑھے استعمار) اور عالمی دہشت گرد امریکا اور یورپی ممالک کی سرپرستی حاصل تھی، بہر حال غاصب اسرائیل کے وجود کا تعین ہرزل نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ اسرائیل کی سرحدیں نیل کے ساحل سے فرات تک جا ملتی ہیں جسے ''گریٹر اسرائیل '' کہا جاتاہے۔
اسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ماضی میں متعدد جنگیں بھی لڑی گئیں جس کے نتیجے میں اسرائیل مصر اور سینا میں کافی حد تک علاقوں پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوا،اسی طرح شام اور لبنان پر بھی اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوا، البتہ لبنان میں اسرائیل کو 2000 میں حزب اللہ کے ہاتھوں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر لبنان سے نکل کر اسرائیل واپس اپنی حدود بندی میں چلا گیا ، لیکن آج بھی شیبا فارمز، اور گولان کی پہاڑیاں جو شام اور لبنان کا حصہ ہیں پر صہیونیوں کا تسلط قائم ہے۔
موجودہ صہیونی حکومت اور اس کے کارندے جس میں نیتن یاہو اور صہیونی افواج شامل ہیں اس کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو کس طرح کامیابی تک پہنچایا جائے اور صہیونیزم کے بانیوں کی خواہشات اور خواب کے مطابق ایک عظیم تر اسرائیل کا وجود عمل میں لایا جائے جس کی سرحدیں فلسطین سے شروع ہو کر نیل (مصر) سے ہوتے ہوئے فرات تک جا پہنچے جس میں لبنان اور شام بھی شام ہوں۔
موجودہ دور کو دیکھ کر اور گزرتے ہوئے حالات و واقعات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیل یکے بعد دیگر ے اپنی سازشوں اور حملوں کے باعث اس کوشش میں مصروف عمل ہے کہ کسی بھی طرح گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ شاید گزشتہ تین برس سے شام میں صہیونیوں کی منصوبہ بندی کے تحت چند نام نہاد اسلام کے نام لیوا گروہ شامی حکومت جو فلسطینی کاز کی حمایت دار ہے کا خاتمہ کرنے کے لیے معصوم انسانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور پوری عالمی سامراجی قوتیں اور عرب مسلم ریاستیں آپس میں مل کر اس محاذ پر آ چکی ہیں لیکن تاحال ان کو ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔
مشرق وسطیٰ بالخصوص مصر، عراق، لبنان، شام کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر واضح طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ دراصل صہیونی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے، جسے صہیونی گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تک لے جانا چاہتے ہیں۔غاصب اسرائیل نے ایک طرف صہیونی آباد کاری میں تیزی دکھانا شروع کر دی ہے اور صہیونی ریاست اسرائیل یہ چاہتی ہے کہ فلسطین میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کردیا جائے تاکہ 1948ء میں بے گھر کیے جانے والے فلسطینیوں کی فلسطین واپسی کا جواز ہی ختم ہو جائے ، اسی طرح ایک طرف اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے تو دوسری طرف مغربی کنارہ بھی اسرائیل کے محاصرے میں ہے جہاں انسانوں کی زندگی کو درجنوں خطرات لا حق ہیں۔
بعض محققین اور دانشوروں کاکہنا ہے کہ صہیونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل کے منصوبے کے مطابق تعمیر ہونے والے گریٹر اسرائیل مصر، سینا، وادی نیل سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اور اس میں دوسری طرف لبنان اور شام سمیت عراق اور سعودی عرب بھی شامل ہیں، یعنی گریٹر اسرائیل کا مطلب القدس سے مکہ المکرمہ تک صہیونی ریاست اسرائیل کا قیام ہے۔
Mahdi Darius Nazemroaya کی 2011 میں گلوبل ریسرچ رپورٹ میں The Yinon Plan جو کہ برطانوی کالونیوں کے لیے بنایا گیا ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ، The Yinon Plan میں واضح طور پر اسرائیل کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے وجود اور حدود کو از سر نو جائزہ لے کر خطے میں ارد گرد موجود چھوٹی عرب ریاستوں کو اپنے اندر سمیٹ لے یا پھر ان کو کمزور کرے تا کہ ان کے ساتھ جب چاہے جس طرح چاہے تعلقات سے فائدہ اٹھا سکے۔اس رپورٹ میں اسرائیل کے لیے سب سے بڑا اور اہم چیلنج عراق کو قرار دیا گیا ہے جو اسرائیل کے لیے سر کرنا انتہائی مشکل ترین کام ہو سکتا ہے،کیونکہ عراق ایک ایسا ملک ہے جو نہ صرف عربوں کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ایشیائی ممالک کو بھی اسی سہولت سے آراستہ کر تاہے۔
لہذا The Yinon Plan میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل عرا ق کو دو الگ ریاستوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو سکتاہے یعنی کردستان اور عراق میں دو عرب ریاستیں تشکیل دی جائیں جس میں ایک شیعہ مسلمانوں کے لیے جب کہ دوسری سنی مسلمانوں کے لیے، The Yinon Plan میں واضح طور پر اشارہ دیا گیا ہے کہ اسرائیل صرف اور صرف عراق کو تقسیم کرنے کے عمل سے ہی اپنے مقاصد کی تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایران پر عراق کا حملہ بھی اسی منصوبہ بندی کا ایک جز تھا جسے The Yinon Plan میں زیر بحث لایا گیا ہے۔اسی طرح 2006 میں لبنان پر اسرائیلی حملہ، 2008 میں غزہ پر اسرائیلی حملہ، پھر 2011 میں شام میں دہشت گردوں کی مدد سے اسرائیل نے شام کو عدم استحکام کا شکا ر کرنے کی کوشش کی، یہ سب کچھ صرف اور صرف گریٹر اسرائیل کے قیام کو عمل میں لانے کے لیے کیا گیا ہے۔
2008 میں The Atlantic اور 2006 میں U.S. military's Armed Forces Journal ان دونوں نے The Yinon Plan میں مشرق وسطیٰ کے نئے نقشے کو زیر بحث لاتے ہوئے اس نقشے کی تصاویر بھی شایع کی تھیں جس سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ گریٹر اسرائیل جو مصر، لبنان،شام، عراق سمیت سعودی عرب تک اپنی سرحدوں کا تعین کرتا ہے۔اس منصوبے میں عراق کی تقسیم ، لبنان کی تقسیم،مصر اور شام کی تقسیم کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے،صرف یہی نہیں بلکہ ایران، ترکی اور بالخصوص پاکستان کی تقسیم کار کے عمل کو بھی اسی منصوبے میں زیر بحث لایا گیا جس منصوبے کو ہم The Yinon Plan کہتے ہیں۔اس منصوبے میں شمالی افریقا، لیبیا اور سوڈان کو بھی معاف نہیں کیا گیاہے۔
گریٹر اسرائیل کا قیام ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ خطے کی عرب ریاستیں تقسیم ہو کر بہت ساری چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہو جائیں،اس منصوبے کا مقصد خطے میں اسرائیل کی بالا دستی اور دوسرا یہ کہ خطے کی تمام چھوٹی عرب ریاستوں پر مکمل کنٹرول۔یہ بات یاد رکھی جانی چاہیے کہ صہیونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل اور یہودی ایجنسی کے اعلیٰ عہدیدار Rabbi Fischmann نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ ، تھیوڈر ہرزل کے مطابق یہودی ریاست کی سرحدیں مصر میں نیل کے ساحل سے لے کر فرات تک ہیں، جب کہ Rabbi Fischmann کے مطابق درائے مصر(نیل) سے لے کر فرات تک ہیں اورا س میں لبنان اور شام بھی شامل ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل پوری دنیا کے لیے خطرہ بن چکا ہے اور آج دنیا بھر میں مصر، لیبیا، یمن، بحرین، شام، لبنان، عراق، شمالی افریقا، پاکستان، افغانستان سمیت ہر جگہ صہیونی ناپاک منصوبہ بندیا ں کارفرما ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے ممالک کے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں جب کہ صہیونیوںنے اپنے ناپاک گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کے لیے کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو انجام دینے کا عزم کر رکھاہے، واضح ہو چکا ہے کہ اسرائیل در اصل فلسطین ہی نہیں بلکہ پوری دنیا بلکہ پاکستان کا بھی دشمن ہے جو پاکستان کو بھی تقسیم کر کے نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔
گریٹر اسرائیل ایک ایسے منصوبے اور خواب کا نام ہے جسے صہیونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل نے بنایا اور دیکھا تھا، اس خواب کی تعبیر کچھ اس طرح سے کی گئی تھی کہ اسرائیل کا قیام سر زمین فلسطین پر کیا جائے جس میں بظاہر صہیونی کامیاب ہوئے اور اس کامیابی میں برطانوی سامراج (بوڑھے استعمار) اور عالمی دہشت گرد امریکا اور یورپی ممالک کی سرپرستی حاصل تھی، بہر حال غاصب اسرائیل کے وجود کا تعین ہرزل نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ اسرائیل کی سرحدیں نیل کے ساحل سے فرات تک جا ملتی ہیں جسے ''گریٹر اسرائیل '' کہا جاتاہے۔
اسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ماضی میں متعدد جنگیں بھی لڑی گئیں جس کے نتیجے میں اسرائیل مصر اور سینا میں کافی حد تک علاقوں پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوا،اسی طرح شام اور لبنان پر بھی اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوا، البتہ لبنان میں اسرائیل کو 2000 میں حزب اللہ کے ہاتھوں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر لبنان سے نکل کر اسرائیل واپس اپنی حدود بندی میں چلا گیا ، لیکن آج بھی شیبا فارمز، اور گولان کی پہاڑیاں جو شام اور لبنان کا حصہ ہیں پر صہیونیوں کا تسلط قائم ہے۔
موجودہ صہیونی حکومت اور اس کے کارندے جس میں نیتن یاہو اور صہیونی افواج شامل ہیں اس کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو کس طرح کامیابی تک پہنچایا جائے اور صہیونیزم کے بانیوں کی خواہشات اور خواب کے مطابق ایک عظیم تر اسرائیل کا وجود عمل میں لایا جائے جس کی سرحدیں فلسطین سے شروع ہو کر نیل (مصر) سے ہوتے ہوئے فرات تک جا پہنچے جس میں لبنان اور شام بھی شام ہوں۔
موجودہ دور کو دیکھ کر اور گزرتے ہوئے حالات و واقعات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیل یکے بعد دیگر ے اپنی سازشوں اور حملوں کے باعث اس کوشش میں مصروف عمل ہے کہ کسی بھی طرح گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ شاید گزشتہ تین برس سے شام میں صہیونیوں کی منصوبہ بندی کے تحت چند نام نہاد اسلام کے نام لیوا گروہ شامی حکومت جو فلسطینی کاز کی حمایت دار ہے کا خاتمہ کرنے کے لیے معصوم انسانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور پوری عالمی سامراجی قوتیں اور عرب مسلم ریاستیں آپس میں مل کر اس محاذ پر آ چکی ہیں لیکن تاحال ان کو ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔
مشرق وسطیٰ بالخصوص مصر، عراق، لبنان، شام کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر واضح طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ دراصل صہیونی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے، جسے صہیونی گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تک لے جانا چاہتے ہیں۔غاصب اسرائیل نے ایک طرف صہیونی آباد کاری میں تیزی دکھانا شروع کر دی ہے اور صہیونی ریاست اسرائیل یہ چاہتی ہے کہ فلسطین میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کردیا جائے تاکہ 1948ء میں بے گھر کیے جانے والے فلسطینیوں کی فلسطین واپسی کا جواز ہی ختم ہو جائے ، اسی طرح ایک طرف اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے تو دوسری طرف مغربی کنارہ بھی اسرائیل کے محاصرے میں ہے جہاں انسانوں کی زندگی کو درجنوں خطرات لا حق ہیں۔
بعض محققین اور دانشوروں کاکہنا ہے کہ صہیونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل کے منصوبے کے مطابق تعمیر ہونے والے گریٹر اسرائیل مصر، سینا، وادی نیل سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اور اس میں دوسری طرف لبنان اور شام سمیت عراق اور سعودی عرب بھی شامل ہیں، یعنی گریٹر اسرائیل کا مطلب القدس سے مکہ المکرمہ تک صہیونی ریاست اسرائیل کا قیام ہے۔
Mahdi Darius Nazemroaya کی 2011 میں گلوبل ریسرچ رپورٹ میں The Yinon Plan جو کہ برطانوی کالونیوں کے لیے بنایا گیا ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ، The Yinon Plan میں واضح طور پر اسرائیل کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے وجود اور حدود کو از سر نو جائزہ لے کر خطے میں ارد گرد موجود چھوٹی عرب ریاستوں کو اپنے اندر سمیٹ لے یا پھر ان کو کمزور کرے تا کہ ان کے ساتھ جب چاہے جس طرح چاہے تعلقات سے فائدہ اٹھا سکے۔اس رپورٹ میں اسرائیل کے لیے سب سے بڑا اور اہم چیلنج عراق کو قرار دیا گیا ہے جو اسرائیل کے لیے سر کرنا انتہائی مشکل ترین کام ہو سکتا ہے،کیونکہ عراق ایک ایسا ملک ہے جو نہ صرف عربوں کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ایشیائی ممالک کو بھی اسی سہولت سے آراستہ کر تاہے۔
لہذا The Yinon Plan میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل عرا ق کو دو الگ ریاستوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو سکتاہے یعنی کردستان اور عراق میں دو عرب ریاستیں تشکیل دی جائیں جس میں ایک شیعہ مسلمانوں کے لیے جب کہ دوسری سنی مسلمانوں کے لیے، The Yinon Plan میں واضح طور پر اشارہ دیا گیا ہے کہ اسرائیل صرف اور صرف عراق کو تقسیم کرنے کے عمل سے ہی اپنے مقاصد کی تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایران پر عراق کا حملہ بھی اسی منصوبہ بندی کا ایک جز تھا جسے The Yinon Plan میں زیر بحث لایا گیا ہے۔اسی طرح 2006 میں لبنان پر اسرائیلی حملہ، 2008 میں غزہ پر اسرائیلی حملہ، پھر 2011 میں شام میں دہشت گردوں کی مدد سے اسرائیل نے شام کو عدم استحکام کا شکا ر کرنے کی کوشش کی، یہ سب کچھ صرف اور صرف گریٹر اسرائیل کے قیام کو عمل میں لانے کے لیے کیا گیا ہے۔
2008 میں The Atlantic اور 2006 میں U.S. military's Armed Forces Journal ان دونوں نے The Yinon Plan میں مشرق وسطیٰ کے نئے نقشے کو زیر بحث لاتے ہوئے اس نقشے کی تصاویر بھی شایع کی تھیں جس سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ گریٹر اسرائیل جو مصر، لبنان،شام، عراق سمیت سعودی عرب تک اپنی سرحدوں کا تعین کرتا ہے۔اس منصوبے میں عراق کی تقسیم ، لبنان کی تقسیم،مصر اور شام کی تقسیم کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے،صرف یہی نہیں بلکہ ایران، ترکی اور بالخصوص پاکستان کی تقسیم کار کے عمل کو بھی اسی منصوبے میں زیر بحث لایا گیا جس منصوبے کو ہم The Yinon Plan کہتے ہیں۔اس منصوبے میں شمالی افریقا، لیبیا اور سوڈان کو بھی معاف نہیں کیا گیاہے۔
گریٹر اسرائیل کا قیام ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ خطے کی عرب ریاستیں تقسیم ہو کر بہت ساری چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہو جائیں،اس منصوبے کا مقصد خطے میں اسرائیل کی بالا دستی اور دوسرا یہ کہ خطے کی تمام چھوٹی عرب ریاستوں پر مکمل کنٹرول۔یہ بات یاد رکھی جانی چاہیے کہ صہیونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل اور یہودی ایجنسی کے اعلیٰ عہدیدار Rabbi Fischmann نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ ، تھیوڈر ہرزل کے مطابق یہودی ریاست کی سرحدیں مصر میں نیل کے ساحل سے لے کر فرات تک ہیں، جب کہ Rabbi Fischmann کے مطابق درائے مصر(نیل) سے لے کر فرات تک ہیں اورا س میں لبنان اور شام بھی شامل ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل پوری دنیا کے لیے خطرہ بن چکا ہے اور آج دنیا بھر میں مصر، لیبیا، یمن، بحرین، شام، لبنان، عراق، شمالی افریقا، پاکستان، افغانستان سمیت ہر جگہ صہیونی ناپاک منصوبہ بندیا ں کارفرما ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے ممالک کے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں جب کہ صہیونیوںنے اپنے ناپاک گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کے لیے کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو انجام دینے کا عزم کر رکھاہے، واضح ہو چکا ہے کہ اسرائیل در اصل فلسطین ہی نہیں بلکہ پوری دنیا بلکہ پاکستان کا بھی دشمن ہے جو پاکستان کو بھی تقسیم کر کے نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔