میرا پرامن شہر کہاں کھو گیا
کوئی بینک سے رقم لے کر نکلتے ہی لٹ جاتا ہے، کوئی بائیک پر نشانہ بن جاتا ہے، کوئی سڑکوں پہ قتل ہو جاتا ہے
اے میرے پیارے شہر! تُو پہلے تو ایسا نہ تھا۔ اب تو ہر طرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں، جگہ جگہ گٹر اُبل رہے ہیں، شہر کے لوگ اب ہر وقت ایک عذاب میں مبتلا رہتے ہیں، ہر طرف ڈاکوؤں کا راج ہے۔
کوئی بینک سے رقم لے کر نکلتے ہی لٹ جاتا ہے، کوئی بائیک پر نشانہ بن جاتا ہے، کوئی سڑکوں پہ قتل ہو جاتا ہے اور لاشیں اٹھانے والا کوئی نہیں۔ امن و امان ایک مسئلہ بن گیا ہے، پولیس والے اپنی ڈیوٹی دینے کے بجائے مجرموں کو تحفظ دیتے ہیں۔
واردات کرنے کے بعد ڈاکو جب باآسانی فرار ہو جاتے ہیں، تب کئی گھنٹے بعد پولیس آتی ہے اور سوال جواب کرکے متعلقین کو مزید پریشان کرتی ہے۔
اس لیے زیادہ تر لوگ واردات کے بعد پولیس کو اطلاع نہیں دیتے۔ میرے جاننے والوں کے گھر میں ایک بڑی واردات ہوئی۔ گھر کے لوگ رات آٹھ بجے کسی تقریب میں گئے اور رات کو ایک بجے جب وہ واپس آئے تو الماریاں کھلی ہوئی تھیں اور سارا خاندانی زیور غائب تھا، متاثرہ خاندان نے پولیس کی کارکردگی جانتے ہوئے واردات کی اطلاع نہ دی۔
یہ ہے اس بدنصیب شہر کا مقدر کہ یہاں پولیس بھی مقامی نہیں۔ باہر سے لوگ آتے ہیں اور انھیں باآسانی پولیس کی نوکری مل جاتی ہے۔ جن میں سے اکثر سیاسی بنیادوں پر آتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو پستول پکڑنا بھی نہیں آتا، بندوق تو شاید انھوں نے دیکھی بھی نہ ہو۔
اسی لیے جرائم بڑھتے جا رہے ہیں، روزانہ اخبارات کا سٹی پیج دیکھیے تو ڈاکوؤں کی وارداتوں سے بھرا ہوتا ہے۔
پولیس ان مجرموں کو سہولت دیتی ہے اور اپنا حصہ وصول کرکے انھیں جانے دیتی ہے کسی نئی واردات کرنے کے لیے۔ پولیس اپنی ڈیوٹی نبھانے کے لیے کہیں نظر نہیں آتی۔ تھانوں کا حال برا ہے، ایس ایچ او ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر خراٹے لیتا ہے۔
کوئی ایف آئی آر درج کرانے آئے تو اسے ڈرا دھمکا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ایف آئی آر صرف ان کی درج کی جاتی ہے جن کی کوئی سفارش ہو، یا پھر جو ان کی مٹھی گرم کر دے۔ عام آدمی تھانے جا کر خود کو مجرم سمجھنے لگتا ہے۔
13جون 1993 میں ہمارے خاندان میں ایک بڑا خونیں واقعہ ہوا۔ اس دن میری فرسٹ کزن کے بیٹے کا ولیمہ تھا، کافی خوشحال فیملی ہے۔ بیٹے باہر سے آئے ہوئے تھے، ولیمے کے بعد جب سب لوگ گھر پہنچے تو تھک کر سو گئے، گھر میں مہمان بھرے تھے، تمام قریبی عزیز گھر میں موجود تھے، صبح سب دیر سے اٹھے۔
ابھی سب ناشتہ کر رہے تھے، میری کزن کے شوہر جو ایک بڑے عہدے پر فائز تھے اوپر کی منزل میں بڑے بیٹے کے ساتھ ناشتہ کر رہے تھے، جو باہر سے آیا تھا، اتنی دیر میں گھر میں ڈاکو دیوار پھاند کر اندر گھس آئے۔ انھوں نے آتے ہی فائرنگ شروع کردی۔
دو ڈاکو اوپر کی منزل میں پہنچ گئے اور انھوں نے میرے بہنوئی کو نشانہ بناتے ہوئے رقم اور زیور کا مطالبہ کیا، بیٹا دیکھ رہا تھا، اس نے ایک مکا ڈاکو کی گن پر مارا اور اتنی دیر میں دوسرے ڈاکو نے فائر کھول دیا، میرے بہنوئی، ان کا بیٹا اور نچلی منزل میں میرے خالہ زاد بھائی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ ڈاکوؤں نے سب خواتین سے زیور اتروا لیا اور سلامی کے لفافوں کا تھیلا سمیٹ کر باآسانی فرار ہوگئے۔
اس دن کے تمام اخبارات اس واردات سے بھرے پڑے تھے، کئی دن تک اخبارات خبریں دیتے رہے لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ ذرا سی دیر میں تین آدمی لقمہ اجل بن گئے اور بقیہ لوگ زخمی۔ میرے خالہ زاد بھائی کی بیوی کی پسلی میں گولی لگی جو مرتے دم تک ان کے جسم میں رہی۔ جس وقت ڈاکو فائرنگ کررہے تھے پڑوسیوں نے پولیس کو فوری اطلاع دے دی لیکن پولیس اس وقت آئی جب ڈاکو فرار ہوگئے تھے۔
معاملہ بہت آگے تک گیا لیکن جب پولیس آفیسر نے میری کزن اور دیگر مہمانوں سے پوچھا کہ کیا وہ مجرموں کو شناخت کر سکتے ہیں تو میری کزن اور ان کے بھائی نے کہا کہ ہاں، ہم بالکل شناخت کر سکتے ہیں، ان کے گھر پر پولیس کا پہرہ ہونے کے باوجود ایک شخص اندر آیا اور اس نے دھمکی دی کہ اگر انھوں نے مجرموں کی شناخت کی تو کوئی نہیں بچے گا۔
ساتھ ہی اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کے گھر کی ریکی انھوں نے پولیس والوں کے ساتھ کی تھی، اسی لیے پولیس وقت پر نہیں آئی۔
ایک خاندان لٹ گیا، تین جوان مرد ایک ساتھ چلے گئے۔ میری کزن کے شوہر اور بڑا بیٹا ایک ساتھ اس دنیا سے چلے گئے۔ آج اس حادثے کو تیس سال ہوگئے لیکن پولیس کی کارکردگی پر اب بھی ہر طرف سے سوال اٹھتے ہیں۔ ڈاکوؤں کا راج ہے میرے شہر میں، ہر کوئی گھر سے نکلتے ہوئے ڈرتا ہے۔
میں نے اس شہر میں آنکھ نہیں کھولی لیکن شعور کی آنکھ اسی شہر میں کھولی۔ میرے والد 1944 سے سول ایوی ایشن کراچی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، میری والدہ، دادی اور بھائی اس شہر میں 1947 کے فسادات کے بعد آئے تھے۔
البتہ جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا تو اپنے والد اور والدہ کو یہ باتیں کرتے سنا کہ میرا شہر پہلے کتنا صاف ستھرا تھا، پارسی میئر نے اس شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے بلدیہ کے ملازمین کی ڈیوٹی لگائی تھی جو روز سڑکوں کو دھویا کرتے تھے۔
جب میں نے اسکول جانا شروع کیا تو ایک ملازم مجھے اسکول چھوڑنے اور لینے جاتا تھا، تب بھی میرا شہر امن و آشتی کا گہوارا تھا۔ واپس آتے 1956 میں میرے والد نے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں گھر بنوایا تو طارق روڈ کا نام و نشان نہ تھا۔
سوسائٹی میں صرف تین گھر تھے۔ ہم اوپر کی منزل میں کھڑے ہو کر چاروں طرف کھلے میدان اور سڑک کو دیکھتے جہاں اب طارق روڈ کے بلند و بالا شاپنگ سینٹرز آباد ہیں۔
ہمارے گھر سے نزدیک پی ای سی ایچ ایس گرلز کالج اور اسکول تھا جس میں میرے بھائی کے بچے پڑھتے تھے۔ اگر کسی دن بھابھی کو بچوں کو لانے میں دیر ہو جاتی تو مسز ایلس فیض ان کو گھر چھوڑتی ہوئی چلی جاتیں، ہمیں اس وقت فیض صاحب کی عظمت کا اندازہ نہیں تھا۔ ہم تو اسکول جانے والے بچے تھے۔
نہ کوئی بم دھماکہ نہ ڈاکوؤں کی یلغار، نہ چوری نہ ڈکیتی۔ پتا نہیں کس کمبخت کی نظر لگ گئی اس شہر کو کہ ضیا الحق جیسا آمر پہلے افغانوں کو اس شہر میں لایا پھر ہیروئن کو۔ ہمارے گھر کی چار دیواری صرف پانچ فٹ تھی، ہزار گز کے بنگلو پر چار سو گز پر خوبصورت لان تھا جس میں میری امی کی پسند کے پھول لہلہاتے تھے۔
موتیا، گلاب، ہار سنگھار، امرود، جامن اور پپیتے کے درخت میری دادی کی پسند کے تھے۔ میں گلاب کے کنج کے قریب پلنگ پر سو جاتی تھی، کوئی خطرہ نہ تھا۔ پھر اسی طارق روڈ کے قبرستان میں ایک دن میری ماں جا سوئیں۔
میں جب جی چاہتا قبرستان جا کر امی کی قبر پہ بیٹھ جاتی اور ان سے باتیں کرتی، ذرا ڈر نہ لگتا تھا۔ پھر جب کالج جانے کا وقت آیا تو میں بڑے آرام سے کراچی کالج فار ویمن چلی جاتی جہاں میں نے زندگی کا بہترین وقت گزارا۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے سوسائٹی میں بنگلوز بننے لگے، یہ سوسائٹی سرکاری ملازمین کے لیے گورنمنٹ نے بنائی تھی اور تمام پلاٹ صرف اعلیٰ سرکاری عہدیداران کو الاٹ کیے گئے تھے۔
ہمارے گھر کے پیچھے شناختی کارڈ کا سب سے پہلا آفس کھلا تھا، خیام سینما جو اب مارکیٹ بن گیا ہے نرسری پر تھا جہاں ہم سب آخری شو دیکھنے کے لیے پیدل جاتے تھے، نہ کوئی خطرہ تھا نہ آلودگی نہ ویگنوں کا شور۔ لوگ بڑے آرام سے خریداری کرتے، گھومنے جاتے۔ شادی بیاہ سے رات کو واپس آتے، ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔ بس 1980 کے بعد اس شہر بے مثال کراچی کی طرف چاروں طرف سے یلغار ہوئی، جرائم پیشہ لوگ جوق در جوق آنے لگے اور اب میرا شہر جرائم کا گڑھ بن کر رہ گیا ہے۔
سھراب گوٹھ کے پاس سپر ہائی وے پر ایک بستی میں جاؤ ان سے کرائے پر اسلحہ خریدو اور وارداتیں کرکے اسلحہ واپس کر دو۔ یہ لوگ جرائم کرتے ہیں اسلحہ کرائے پر دیتے ہیں، یہ علاق خود ایک اسلحہ کا گڑھ بن گیا ہے اور یہ سب کچھ پولیس کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔
کوئی بینک سے رقم لے کر نکلتے ہی لٹ جاتا ہے، کوئی بائیک پر نشانہ بن جاتا ہے، کوئی سڑکوں پہ قتل ہو جاتا ہے اور لاشیں اٹھانے والا کوئی نہیں۔ امن و امان ایک مسئلہ بن گیا ہے، پولیس والے اپنی ڈیوٹی دینے کے بجائے مجرموں کو تحفظ دیتے ہیں۔
واردات کرنے کے بعد ڈاکو جب باآسانی فرار ہو جاتے ہیں، تب کئی گھنٹے بعد پولیس آتی ہے اور سوال جواب کرکے متعلقین کو مزید پریشان کرتی ہے۔
اس لیے زیادہ تر لوگ واردات کے بعد پولیس کو اطلاع نہیں دیتے۔ میرے جاننے والوں کے گھر میں ایک بڑی واردات ہوئی۔ گھر کے لوگ رات آٹھ بجے کسی تقریب میں گئے اور رات کو ایک بجے جب وہ واپس آئے تو الماریاں کھلی ہوئی تھیں اور سارا خاندانی زیور غائب تھا، متاثرہ خاندان نے پولیس کی کارکردگی جانتے ہوئے واردات کی اطلاع نہ دی۔
یہ ہے اس بدنصیب شہر کا مقدر کہ یہاں پولیس بھی مقامی نہیں۔ باہر سے لوگ آتے ہیں اور انھیں باآسانی پولیس کی نوکری مل جاتی ہے۔ جن میں سے اکثر سیاسی بنیادوں پر آتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو پستول پکڑنا بھی نہیں آتا، بندوق تو شاید انھوں نے دیکھی بھی نہ ہو۔
اسی لیے جرائم بڑھتے جا رہے ہیں، روزانہ اخبارات کا سٹی پیج دیکھیے تو ڈاکوؤں کی وارداتوں سے بھرا ہوتا ہے۔
پولیس ان مجرموں کو سہولت دیتی ہے اور اپنا حصہ وصول کرکے انھیں جانے دیتی ہے کسی نئی واردات کرنے کے لیے۔ پولیس اپنی ڈیوٹی نبھانے کے لیے کہیں نظر نہیں آتی۔ تھانوں کا حال برا ہے، ایس ایچ او ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر خراٹے لیتا ہے۔
کوئی ایف آئی آر درج کرانے آئے تو اسے ڈرا دھمکا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ایف آئی آر صرف ان کی درج کی جاتی ہے جن کی کوئی سفارش ہو، یا پھر جو ان کی مٹھی گرم کر دے۔ عام آدمی تھانے جا کر خود کو مجرم سمجھنے لگتا ہے۔
13جون 1993 میں ہمارے خاندان میں ایک بڑا خونیں واقعہ ہوا۔ اس دن میری فرسٹ کزن کے بیٹے کا ولیمہ تھا، کافی خوشحال فیملی ہے۔ بیٹے باہر سے آئے ہوئے تھے، ولیمے کے بعد جب سب لوگ گھر پہنچے تو تھک کر سو گئے، گھر میں مہمان بھرے تھے، تمام قریبی عزیز گھر میں موجود تھے، صبح سب دیر سے اٹھے۔
ابھی سب ناشتہ کر رہے تھے، میری کزن کے شوہر جو ایک بڑے عہدے پر فائز تھے اوپر کی منزل میں بڑے بیٹے کے ساتھ ناشتہ کر رہے تھے، جو باہر سے آیا تھا، اتنی دیر میں گھر میں ڈاکو دیوار پھاند کر اندر گھس آئے۔ انھوں نے آتے ہی فائرنگ شروع کردی۔
دو ڈاکو اوپر کی منزل میں پہنچ گئے اور انھوں نے میرے بہنوئی کو نشانہ بناتے ہوئے رقم اور زیور کا مطالبہ کیا، بیٹا دیکھ رہا تھا، اس نے ایک مکا ڈاکو کی گن پر مارا اور اتنی دیر میں دوسرے ڈاکو نے فائر کھول دیا، میرے بہنوئی، ان کا بیٹا اور نچلی منزل میں میرے خالہ زاد بھائی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ ڈاکوؤں نے سب خواتین سے زیور اتروا لیا اور سلامی کے لفافوں کا تھیلا سمیٹ کر باآسانی فرار ہوگئے۔
اس دن کے تمام اخبارات اس واردات سے بھرے پڑے تھے، کئی دن تک اخبارات خبریں دیتے رہے لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ ذرا سی دیر میں تین آدمی لقمہ اجل بن گئے اور بقیہ لوگ زخمی۔ میرے خالہ زاد بھائی کی بیوی کی پسلی میں گولی لگی جو مرتے دم تک ان کے جسم میں رہی۔ جس وقت ڈاکو فائرنگ کررہے تھے پڑوسیوں نے پولیس کو فوری اطلاع دے دی لیکن پولیس اس وقت آئی جب ڈاکو فرار ہوگئے تھے۔
معاملہ بہت آگے تک گیا لیکن جب پولیس آفیسر نے میری کزن اور دیگر مہمانوں سے پوچھا کہ کیا وہ مجرموں کو شناخت کر سکتے ہیں تو میری کزن اور ان کے بھائی نے کہا کہ ہاں، ہم بالکل شناخت کر سکتے ہیں، ان کے گھر پر پولیس کا پہرہ ہونے کے باوجود ایک شخص اندر آیا اور اس نے دھمکی دی کہ اگر انھوں نے مجرموں کی شناخت کی تو کوئی نہیں بچے گا۔
ساتھ ہی اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کے گھر کی ریکی انھوں نے پولیس والوں کے ساتھ کی تھی، اسی لیے پولیس وقت پر نہیں آئی۔
ایک خاندان لٹ گیا، تین جوان مرد ایک ساتھ چلے گئے۔ میری کزن کے شوہر اور بڑا بیٹا ایک ساتھ اس دنیا سے چلے گئے۔ آج اس حادثے کو تیس سال ہوگئے لیکن پولیس کی کارکردگی پر اب بھی ہر طرف سے سوال اٹھتے ہیں۔ ڈاکوؤں کا راج ہے میرے شہر میں، ہر کوئی گھر سے نکلتے ہوئے ڈرتا ہے۔
میں نے اس شہر میں آنکھ نہیں کھولی لیکن شعور کی آنکھ اسی شہر میں کھولی۔ میرے والد 1944 سے سول ایوی ایشن کراچی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، میری والدہ، دادی اور بھائی اس شہر میں 1947 کے فسادات کے بعد آئے تھے۔
البتہ جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا تو اپنے والد اور والدہ کو یہ باتیں کرتے سنا کہ میرا شہر پہلے کتنا صاف ستھرا تھا، پارسی میئر نے اس شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے بلدیہ کے ملازمین کی ڈیوٹی لگائی تھی جو روز سڑکوں کو دھویا کرتے تھے۔
جب میں نے اسکول جانا شروع کیا تو ایک ملازم مجھے اسکول چھوڑنے اور لینے جاتا تھا، تب بھی میرا شہر امن و آشتی کا گہوارا تھا۔ واپس آتے 1956 میں میرے والد نے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں گھر بنوایا تو طارق روڈ کا نام و نشان نہ تھا۔
سوسائٹی میں صرف تین گھر تھے۔ ہم اوپر کی منزل میں کھڑے ہو کر چاروں طرف کھلے میدان اور سڑک کو دیکھتے جہاں اب طارق روڈ کے بلند و بالا شاپنگ سینٹرز آباد ہیں۔
ہمارے گھر سے نزدیک پی ای سی ایچ ایس گرلز کالج اور اسکول تھا جس میں میرے بھائی کے بچے پڑھتے تھے۔ اگر کسی دن بھابھی کو بچوں کو لانے میں دیر ہو جاتی تو مسز ایلس فیض ان کو گھر چھوڑتی ہوئی چلی جاتیں، ہمیں اس وقت فیض صاحب کی عظمت کا اندازہ نہیں تھا۔ ہم تو اسکول جانے والے بچے تھے۔
نہ کوئی بم دھماکہ نہ ڈاکوؤں کی یلغار، نہ چوری نہ ڈکیتی۔ پتا نہیں کس کمبخت کی نظر لگ گئی اس شہر کو کہ ضیا الحق جیسا آمر پہلے افغانوں کو اس شہر میں لایا پھر ہیروئن کو۔ ہمارے گھر کی چار دیواری صرف پانچ فٹ تھی، ہزار گز کے بنگلو پر چار سو گز پر خوبصورت لان تھا جس میں میری امی کی پسند کے پھول لہلہاتے تھے۔
موتیا، گلاب، ہار سنگھار، امرود، جامن اور پپیتے کے درخت میری دادی کی پسند کے تھے۔ میں گلاب کے کنج کے قریب پلنگ پر سو جاتی تھی، کوئی خطرہ نہ تھا۔ پھر اسی طارق روڈ کے قبرستان میں ایک دن میری ماں جا سوئیں۔
میں جب جی چاہتا قبرستان جا کر امی کی قبر پہ بیٹھ جاتی اور ان سے باتیں کرتی، ذرا ڈر نہ لگتا تھا۔ پھر جب کالج جانے کا وقت آیا تو میں بڑے آرام سے کراچی کالج فار ویمن چلی جاتی جہاں میں نے زندگی کا بہترین وقت گزارا۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے سوسائٹی میں بنگلوز بننے لگے، یہ سوسائٹی سرکاری ملازمین کے لیے گورنمنٹ نے بنائی تھی اور تمام پلاٹ صرف اعلیٰ سرکاری عہدیداران کو الاٹ کیے گئے تھے۔
ہمارے گھر کے پیچھے شناختی کارڈ کا سب سے پہلا آفس کھلا تھا، خیام سینما جو اب مارکیٹ بن گیا ہے نرسری پر تھا جہاں ہم سب آخری شو دیکھنے کے لیے پیدل جاتے تھے، نہ کوئی خطرہ تھا نہ آلودگی نہ ویگنوں کا شور۔ لوگ بڑے آرام سے خریداری کرتے، گھومنے جاتے۔ شادی بیاہ سے رات کو واپس آتے، ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔ بس 1980 کے بعد اس شہر بے مثال کراچی کی طرف چاروں طرف سے یلغار ہوئی، جرائم پیشہ لوگ جوق در جوق آنے لگے اور اب میرا شہر جرائم کا گڑھ بن کر رہ گیا ہے۔
سھراب گوٹھ کے پاس سپر ہائی وے پر ایک بستی میں جاؤ ان سے کرائے پر اسلحہ خریدو اور وارداتیں کرکے اسلحہ واپس کر دو۔ یہ لوگ جرائم کرتے ہیں اسلحہ کرائے پر دیتے ہیں، یہ علاق خود ایک اسلحہ کا گڑھ بن گیا ہے اور یہ سب کچھ پولیس کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔