بلوچ دھرنا کی آواز سُنی جانی چاہیے
ہماری ہر حکومت اور ہمارے ہر حکمران نے اِس ضمن میں ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے کام لیا ہے
کسی کو معلوم نہیں کہ ان کی صحیح تعداد کتنی ہے ، لیکن اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب (NPC) کے سامنے معمولی سے کیمپ میں دھرنا دیے بلوچستان سے آئے ہوئے ان مظاہرین کی نوجوان لیڈرکہتی ہے کہ ان کی تعداد تین سو سے زائد ہے ۔
یہ لوگ، حالیہ مبینہ ''پولیس مقابلے'' میں ایک نوجوان بالاچ کی موت کے بعد، بلوچستان کے علاقے ''تربت'' سے پیدل 2ہزار کلو میٹر کا طویل فاصلہ طے کرکے وفاقی دارالحکومت پہنچے ہیں ۔ اسلام آباد میں داخلے کے وقت مبینہ طور پر ، مقامی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے، ان احتجاجی مرد و خواتین سے مناسب سلوک نہیں کیا گیا ۔
اِن میں سے کئی لوگ کئی بار پہلے بھی بلوچستان سے احتجاج کرنے کے لیے اسلام آباد آ چکے ہیں ۔ اِس بار بھی وہ احتجاج اور مطالبات منوانے کے لیے اسلام آباد آئے ہیں اور انھوں نے ''بلوچ یکجہتی کمیٹی'' (BYC)کا پرچم بھی اُٹھا رکھا ہے ۔
ان احتجاجی پرچم برداروں کی متفقہ لیڈر ایک خاتون ڈاکٹر مہرنگ ہیں ۔ تیس سالہ ڈاکٹر صاحبہ کا اپنا دل اور رُوح بھی مجروح اور دریدہ ہیں کہ مبینہ طور پر اُن کے والد ، عبدالغفار لانگو، کئی برس قبل ''لاپتہ '' ہوئے' پھر قتل کر دیے گئے۔
اسلام آباد دھرنا کو آج ایک مہینہ ہو رہا ہے، وہ 6نکاتی مطالبات پیش کر رہے ہیں۔ ''بلوچ یکجہتی کمیٹی'' کے بینر تلے دھرنا دیے زیادہ تر افراد وہ ہیں جن کے پیارے مبینہ طور پر برسوں سے لاپتہ ہو چکے یا ماورائے عدالت قتل کر دیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر مہرنگ اور BYCکے یہ احتجاجی شرکا، ریاستِ پاکستان اور طاقتوروں سے اِسی سوال کا جواب مانگنے اور مطالبہ منوانے کے لیے آئے ہیں :ہمارے لاپتہ پیارے کہاں ہیں؟ بلوچستان میں مزاحمت' سکیورٹی فورسز پر حملوں اور احتجاج کا سلسلہ گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ فریقین تشدد کی طرف زیادہ مائل ہُوئے ہیں۔
غداری اور سازشوں کے القابات میں بھی اضافہ ہُوا ہے ۔ فریقین میں عدم اعتماد کی فضا کو بڑھاوا ملا ہے۔ خونریزی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہُوا ہے۔ غیر ملکی مداخلتیں بھی بڑھی ہیں۔ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف غیر ملکی سازشیں بروئے کار ہیں۔
بھارتی سازشوں اور وارداتوں کے انسداد اور تدارک کے لیے پاکستان کے سکیورٹی ادارے اِس ضمن میں غافل نہیں ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر پاکستان کے سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی بلوچستان کے طُول و عرض پر گہری اور مسلسل نظریں گڑی نہ رہتیں تو خاکم بدہن آج بلوچستان کا منظر نامہ شائد مختلف ہوتا ۔
اگلے روز لاہور میں نگران وزیر اعظم ، کاکڑ صاحب، نے اسلام آباد میں بلوچ احتجاجی دھرنے اور اُن کے ہمدردوں کے بارے میں سخت بیان دیا ہے ۔
ممکن ہے نگران وزیر اعظم اپنے تئیں بالکل درست ہی ہوں مگر بلوچ احتجاجیوں بارے اُن کے بیان بارے کئی اطراف سے ردِ عمل بھی آیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اگلے روز کہا ہے کہ لاپتہ افراد بارے کیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔
بلوچستان کے وسیع علاقوں میں معاندینِ پاکستان کی ریشہ دوانیاں تھمی ہیں نہ سازشیں ۔ لیکن دوسری جانب یہ حقیقت بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ بلوچستان کے ناراض عوام ، ناراض قبائل اور ناراض سیاستدانوں و ناراض دانشوروں کو دل سے لگا کر اُن کے شکوے دُور کرنے کی کبھی مسلسل اور مستحکم کوشش نہیں کی گئی ہے۔
ہماری ہر حکومت اور ہمارے ہر حکمران نے اِس ضمن میں ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے کام لیا ہے ؛ چنانچہ بلوچستان کے حالات روز بروز سنبھلنے اور سلجھنے کی بجائے بگڑتے چلے گئے ہیں ۔ وفاق کے حصے میں نیک نامیاں کم کم آئی ہیں۔اِن کم کم نیک نامیوں کا تفصیلی احوال ہمیں اُن رسالوں، مضامین اور کتابوں میں ملتا ہے جو بلوچستان کی ناراضیوںاور محرومیوں پر لکھی گئی ہیں ۔
اِس موضوع پر لکھی گئی کئی کتابیں میری ذاتی لائبریری میں بھی ہیں اور راقم اِن میں زیادہ کی ورق گردانی بھی کر چکا ہے۔ بلوچستان پر لکھی غیروں اور اپنوں نے جو کتابیں قلمبند کی ہیں، اِن میں وفاقِ پاکستان اور یکجہتی ِ پاکستان کے لیے ٹھنڈی ہوا کم کم آتی ہے۔ زیادہ تر اشتعال انگیز، یکطرفہ اور محرومیوں کی سینہ کوبی پر مشتمل ہیں ۔
نہیں کہا جا سکتا کہ ہماری ایجنسیاں، ہمارے طاقتور ادارے اور ہمارے حکمران بلوچستان پر لکھے اِس بھاری بھر کم لٹریچر سے آگاہ نہیں ہوں گے ۔ اور اگر آگاہ ہیں تو انبار لگے اِس لٹریچر کو سامنے رکھ کرناراض بلوچ ذہنوں کو مخاطب کرنے کی سرکاری کوششیں بروئے کار کیوں نہیں آتیں ؟ تشدد کی بجائے محبت اور اپنائیت کا ''ہتھیار'' بروئے کار کیوں نہیں آتا؟
ناراضی اور مرکزِ گریز خواہشوں پر تحریر کردہ مذکورہ لٹریچر کو ہماری سرکاروں کی جانب سے سنجیدہ نہ لینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حالیہ ایام میں بلوچستان سے سیکڑوں نوجوانوں پر مشتمل جو احتجاجی قافلہ (BYC)تربت (بلوچستان ) سے پیدل اسلام آباد پہنچا ہے، اِس کی حمائتی بازگشت غیر ممالک کے میڈیا میں بھی سنائی دی گئی ہے۔
زیادہ رپورٹوں کا جھکاؤ ''بلوچ یکجہتی کمیٹی'' (BYC) کی جانب ہے ۔ ''الجزیرہ''، ''نیویارک ٹائمز'' اور ''وال اسٹریٹ جرنل'' تو حد ہی کر رہے ہیں ۔
وطنِ عزیزکے انگریزی معاصر بھی ایسی تفصیلی رپورٹیں شائع کررہے ہیں جو BYCکے مقاصد ، اہداف اور مطالبات سے ہم آہنگ ہیں۔ مثال کے طور پر 28دسمبر2023 کو پاکستان کے ایک انگریزی معاصر میں پورے صفحے پر شائع ہونے والی سمّی دین محمد کی اشکبار کتھا ۔سمّی دین محمد کی عمر24سال ہے اور وہ دسمبر2023ء کو تربت سے پیدل اسلام آباد پہنچنے والے BYCقافلے کی ایک شرکت کنندہ ہیں ۔
دکھوں کی ماری ہماری اِس بیٹی سمّی دین محمد کے والدبلوچستان میں ایک سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر تھے ۔ اُنہیں 14سال قبل (28جون2009 کو)اُس وقت اسپتال سے لاپتہ کر دیا گیا جب وہ خضدار کے ''اورناچ'' اسپتال میں مریض دیکھ رہے تھے ۔
تب سمّی دین محمد کی عمر دس سال بھی نہیں تھی ۔ پچھلے14سال سے یہ ننھی بلوچ بیٹی اپنے لاپتہ والد کی تصویر اُٹھائے متعدد احتجاجی قافلوں کے ہمراہ اسلام آباد آ چکی ہیں اور حکمرانوں سے پوچھ رہی ہیں: میرے والد صاحب کہاں ہیں؟ کوئی ایسا سنگدل ہوگا جو سمّی دین محمد کی یہ کتھا پڑھ کر آبدیدہ نہ ہُوا ہو ۔
سمّی دین محمد کی طرح بہت سی بلوچ بچیاں اور خواتین اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے بے یارومددگاری کے ماحول میں یہی ایک سوال پوچھ رہی ہیں: لاپتہ ہمارے والد، ہمارے بھائی اور ہمارے شوہر کہاں ہیں؟ مگر طاقتور اِن کمزور احتجاجیوں کے اِس ایک سوال کا جواب دینے اور سامنا کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔ اُن کی بات سُنی جانی چاہیے ۔
شائد اِس کے باطن سے کوئی قومی خیر برآمد ہو جائے ۔ ہمیں اپنے دشمنوں کو یہ موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بلوچ احتجاجیوں کے غصے کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایکسپلائٹ کر سکیں!
یہ لوگ، حالیہ مبینہ ''پولیس مقابلے'' میں ایک نوجوان بالاچ کی موت کے بعد، بلوچستان کے علاقے ''تربت'' سے پیدل 2ہزار کلو میٹر کا طویل فاصلہ طے کرکے وفاقی دارالحکومت پہنچے ہیں ۔ اسلام آباد میں داخلے کے وقت مبینہ طور پر ، مقامی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے، ان احتجاجی مرد و خواتین سے مناسب سلوک نہیں کیا گیا ۔
اِن میں سے کئی لوگ کئی بار پہلے بھی بلوچستان سے احتجاج کرنے کے لیے اسلام آباد آ چکے ہیں ۔ اِس بار بھی وہ احتجاج اور مطالبات منوانے کے لیے اسلام آباد آئے ہیں اور انھوں نے ''بلوچ یکجہتی کمیٹی'' (BYC)کا پرچم بھی اُٹھا رکھا ہے ۔
ان احتجاجی پرچم برداروں کی متفقہ لیڈر ایک خاتون ڈاکٹر مہرنگ ہیں ۔ تیس سالہ ڈاکٹر صاحبہ کا اپنا دل اور رُوح بھی مجروح اور دریدہ ہیں کہ مبینہ طور پر اُن کے والد ، عبدالغفار لانگو، کئی برس قبل ''لاپتہ '' ہوئے' پھر قتل کر دیے گئے۔
اسلام آباد دھرنا کو آج ایک مہینہ ہو رہا ہے، وہ 6نکاتی مطالبات پیش کر رہے ہیں۔ ''بلوچ یکجہتی کمیٹی'' کے بینر تلے دھرنا دیے زیادہ تر افراد وہ ہیں جن کے پیارے مبینہ طور پر برسوں سے لاپتہ ہو چکے یا ماورائے عدالت قتل کر دیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر مہرنگ اور BYCکے یہ احتجاجی شرکا، ریاستِ پاکستان اور طاقتوروں سے اِسی سوال کا جواب مانگنے اور مطالبہ منوانے کے لیے آئے ہیں :ہمارے لاپتہ پیارے کہاں ہیں؟ بلوچستان میں مزاحمت' سکیورٹی فورسز پر حملوں اور احتجاج کا سلسلہ گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ فریقین تشدد کی طرف زیادہ مائل ہُوئے ہیں۔
غداری اور سازشوں کے القابات میں بھی اضافہ ہُوا ہے ۔ فریقین میں عدم اعتماد کی فضا کو بڑھاوا ملا ہے۔ خونریزی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہُوا ہے۔ غیر ملکی مداخلتیں بھی بڑھی ہیں۔ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف غیر ملکی سازشیں بروئے کار ہیں۔
بھارتی سازشوں اور وارداتوں کے انسداد اور تدارک کے لیے پاکستان کے سکیورٹی ادارے اِس ضمن میں غافل نہیں ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر پاکستان کے سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی بلوچستان کے طُول و عرض پر گہری اور مسلسل نظریں گڑی نہ رہتیں تو خاکم بدہن آج بلوچستان کا منظر نامہ شائد مختلف ہوتا ۔
اگلے روز لاہور میں نگران وزیر اعظم ، کاکڑ صاحب، نے اسلام آباد میں بلوچ احتجاجی دھرنے اور اُن کے ہمدردوں کے بارے میں سخت بیان دیا ہے ۔
ممکن ہے نگران وزیر اعظم اپنے تئیں بالکل درست ہی ہوں مگر بلوچ احتجاجیوں بارے اُن کے بیان بارے کئی اطراف سے ردِ عمل بھی آیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اگلے روز کہا ہے کہ لاپتہ افراد بارے کیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔
بلوچستان کے وسیع علاقوں میں معاندینِ پاکستان کی ریشہ دوانیاں تھمی ہیں نہ سازشیں ۔ لیکن دوسری جانب یہ حقیقت بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ بلوچستان کے ناراض عوام ، ناراض قبائل اور ناراض سیاستدانوں و ناراض دانشوروں کو دل سے لگا کر اُن کے شکوے دُور کرنے کی کبھی مسلسل اور مستحکم کوشش نہیں کی گئی ہے۔
ہماری ہر حکومت اور ہمارے ہر حکمران نے اِس ضمن میں ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے کام لیا ہے ؛ چنانچہ بلوچستان کے حالات روز بروز سنبھلنے اور سلجھنے کی بجائے بگڑتے چلے گئے ہیں ۔ وفاق کے حصے میں نیک نامیاں کم کم آئی ہیں۔اِن کم کم نیک نامیوں کا تفصیلی احوال ہمیں اُن رسالوں، مضامین اور کتابوں میں ملتا ہے جو بلوچستان کی ناراضیوںاور محرومیوں پر لکھی گئی ہیں ۔
اِس موضوع پر لکھی گئی کئی کتابیں میری ذاتی لائبریری میں بھی ہیں اور راقم اِن میں زیادہ کی ورق گردانی بھی کر چکا ہے۔ بلوچستان پر لکھی غیروں اور اپنوں نے جو کتابیں قلمبند کی ہیں، اِن میں وفاقِ پاکستان اور یکجہتی ِ پاکستان کے لیے ٹھنڈی ہوا کم کم آتی ہے۔ زیادہ تر اشتعال انگیز، یکطرفہ اور محرومیوں کی سینہ کوبی پر مشتمل ہیں ۔
نہیں کہا جا سکتا کہ ہماری ایجنسیاں، ہمارے طاقتور ادارے اور ہمارے حکمران بلوچستان پر لکھے اِس بھاری بھر کم لٹریچر سے آگاہ نہیں ہوں گے ۔ اور اگر آگاہ ہیں تو انبار لگے اِس لٹریچر کو سامنے رکھ کرناراض بلوچ ذہنوں کو مخاطب کرنے کی سرکاری کوششیں بروئے کار کیوں نہیں آتیں ؟ تشدد کی بجائے محبت اور اپنائیت کا ''ہتھیار'' بروئے کار کیوں نہیں آتا؟
ناراضی اور مرکزِ گریز خواہشوں پر تحریر کردہ مذکورہ لٹریچر کو ہماری سرکاروں کی جانب سے سنجیدہ نہ لینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حالیہ ایام میں بلوچستان سے سیکڑوں نوجوانوں پر مشتمل جو احتجاجی قافلہ (BYC)تربت (بلوچستان ) سے پیدل اسلام آباد پہنچا ہے، اِس کی حمائتی بازگشت غیر ممالک کے میڈیا میں بھی سنائی دی گئی ہے۔
زیادہ رپورٹوں کا جھکاؤ ''بلوچ یکجہتی کمیٹی'' (BYC) کی جانب ہے ۔ ''الجزیرہ''، ''نیویارک ٹائمز'' اور ''وال اسٹریٹ جرنل'' تو حد ہی کر رہے ہیں ۔
وطنِ عزیزکے انگریزی معاصر بھی ایسی تفصیلی رپورٹیں شائع کررہے ہیں جو BYCکے مقاصد ، اہداف اور مطالبات سے ہم آہنگ ہیں۔ مثال کے طور پر 28دسمبر2023 کو پاکستان کے ایک انگریزی معاصر میں پورے صفحے پر شائع ہونے والی سمّی دین محمد کی اشکبار کتھا ۔سمّی دین محمد کی عمر24سال ہے اور وہ دسمبر2023ء کو تربت سے پیدل اسلام آباد پہنچنے والے BYCقافلے کی ایک شرکت کنندہ ہیں ۔
دکھوں کی ماری ہماری اِس بیٹی سمّی دین محمد کے والدبلوچستان میں ایک سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر تھے ۔ اُنہیں 14سال قبل (28جون2009 کو)اُس وقت اسپتال سے لاپتہ کر دیا گیا جب وہ خضدار کے ''اورناچ'' اسپتال میں مریض دیکھ رہے تھے ۔
تب سمّی دین محمد کی عمر دس سال بھی نہیں تھی ۔ پچھلے14سال سے یہ ننھی بلوچ بیٹی اپنے لاپتہ والد کی تصویر اُٹھائے متعدد احتجاجی قافلوں کے ہمراہ اسلام آباد آ چکی ہیں اور حکمرانوں سے پوچھ رہی ہیں: میرے والد صاحب کہاں ہیں؟ کوئی ایسا سنگدل ہوگا جو سمّی دین محمد کی یہ کتھا پڑھ کر آبدیدہ نہ ہُوا ہو ۔
سمّی دین محمد کی طرح بہت سی بلوچ بچیاں اور خواتین اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے بے یارومددگاری کے ماحول میں یہی ایک سوال پوچھ رہی ہیں: لاپتہ ہمارے والد، ہمارے بھائی اور ہمارے شوہر کہاں ہیں؟ مگر طاقتور اِن کمزور احتجاجیوں کے اِس ایک سوال کا جواب دینے اور سامنا کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔ اُن کی بات سُنی جانی چاہیے ۔
شائد اِس کے باطن سے کوئی قومی خیر برآمد ہو جائے ۔ ہمیں اپنے دشمنوں کو یہ موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بلوچ احتجاجیوں کے غصے کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایکسپلائٹ کر سکیں!