پاکستان ایک نظر میں صارف بمقابلہ سرمایہ دار معرکہ جلد شروع ہونے کو ہے

اب مترفین اورمحرومین کے درمیان آخری اورفیصلہ کن معرکہ ہونا باقی ہے مگر اس معرکےمیں بپھرے ہوئےعوام کی قیادت کون کرے گا

اب مترفین اورمحرومین کے درمیان آخری اورفیصلہ کن معرکہ ہونا باقی ہے مگر اس معرکےمیں بپھرے ہوئےعوام کی قیادت کون کرے گا۔ فوٹو فائل

عصر حاضر میں کسی بھی جدید ریاست کا یہ فرض ہے کے وہ صارف کے حقوق کا تحفظ کرے اور آزاد منڈی کے علمبردار سرمایہ داروں کو بے لگام نہ ہونے دے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں معاشرہ انارکی کا شکار ہوسکتا ہے ۔ صارف کے حقوق درج ذیل ہیں۔

1۔ معیاری اشیائے صرف اور خدمات کی ارزاں نرخوں پر مسلسل فراہمی کو یقینی بنانا۔

2۔ منڈی کی قوتوں کے کسی ایسے گٹھ جوڑ کو ناممکن بنانا جو کسی بھی طرح صارف کا استحصال کرنا چاہتا ہو۔

3۔ غیر معیاری اشیائے صرف یا کسی بھی نوعیت کی غیر معیاری خدمات کی فرہمی کے انسداد کیلئے موثر اقدامات کرنا۔

4۔ صارف کیلئے ایسے ماحول کے قیام کو ممکن بنانا جہاں پر صارف آزادانہ طور سے کسی بھی نوعیت کی صنعت یا خدمات کی فراہمی کرنے والے ادارے کے خلاف اپنا موقف بلاخوف وخطر حکومت تک پہچاسکے۔

بدقسمتی سے کوئی بھی پاکستانی حکومت مذکورہ بالا ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کامیاب نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے آج نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ مختلف نوعیت کے صنعتی اورکاروباری ادارے صارفین کا استحصال کرنے کیلئے کارٹیلز تشکیل دے چکے ہیں اور کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی حکومت میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ ان سے ٹکر لے سکے ۔ اسوقت ہمارے ملک میں جس نوعیت کے کارٹیلز سرگرم عمل ہیں ان کی فہرست درج ذیل ہے۔

1۔ بینکنگ کارٹیل

2۔ شکر سازی کی صنعت کا کارٹیل

3۔ سیمنٹ کارٹیل

4۔ آٹا بنانے والے اداروں کا کارٹیل

5۔ دالیں اور دیگر غذائی اجناس کا بیوپار کرنے والوں کا کارٹیل


6۔ آٹو موبائل صنعت کا کارٹیل

7۔ دودھ فراہم کرنے والوں کا کارٹیل

8۔ نجی تعلیمی اداروں کا کارٹیل

9۔ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے ذمہ دار اداروں کا کارٹیل

10۔ پیٹرولئم مصنوعات فروخت کرنے والے اداروں کا کارٹیل

11۔ مختلف نوعیت کی طبی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا کارٹیل

12۔ ادویہ سازی کی صنعت کا کارٹیل

13۔گوشت اور مرغی کی تجارت کرنے والوں کا کارٹیل

مذکورہ بالا کارٹیلز ہی عوام الناس کے بیشتر مسائل کے براہ راست ذمہ دار ہیں مگر یہ تمام کارٹیلز اپنے وسیع سماجی اثرورسوخ اور اقتدار کی راہداریوں تک بلاروک ٹوک رسائی کے سبب کبھی بھی قانون کی گرفت میں نہیں آ پاتے اور یوں صارفین کا استحصال جاری رکھا جاتا ہے آزاد منڈی کی معیشت کے نام پر جاری رہنے والی یہ ایک ایسی منظم لوٹ کھسوٹ ہے جس کا مکمل تدارک کرنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں ہے لہذا ہر حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ عوام کی اشک شوئی کیلئے کچھ نمائشی اقدامات کرتی ہے تاکہ کچھ عرصے تک اس کی ساکھ بنی رہے اور جب اقتدار پر اس کی گرفت مضبوط ہوجاتی ہے تو پھر وہ ان تمام کارٹیلز کو من مانی کرنے کی آزادی دے دیتے ہیں تاکہ آئندہ انتخابات سے قبل ان سے مال بٹورا جاسکے یہ صورتحال پچھلے کئی عشروں سے جاری ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ملک میں صارفین اپنے حقوق کے تحفظ میں خود کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور اسی لئے صارفین کے مفادات کے تحفظ کیلئے بنا ئے جانے والے تمام ادارے غیر فعال ہوچکے ہیں اور شاید یہی اس معاشرے کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر معاملے میں جذباتیت کا مظاہرہ کرنے والوں کو ہی پزیرائی نصیب ہوتی ہے اور تعقل پسندی کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا اسی لئے مذکورہ بالا طبقات کیخلاف کبھی بھی کوئی منظم قانونی کارروائی نہیں کی جا سکی اور نہ ہی فوری کئے جانے کا امکان ہے کیونکہ صارفین متحد نہیں ہیں ۔

اب معاشرے میں صرف اور صرف مترفین اور محرومین کے درمیان آ خری اور فیصلہ کن معرکہ ہونا باقی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس معرکے میں بپھرے ہوئے عوام کی قیادت کون کرے گا۔ میرا تو خیال ہے کہ جس دن اس بد نصیب قوم کو نیلسن منڈیلا جیسا کوئی رہنما مل گیا اس دن بڑے بڑے برج الٹ جائیں گے کیونکہ اب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے عوام کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے مگر سیاسی اور عسکری اشرافیہ عوام الناس کو درپیش بنیادی مسائل سے بے نیاز ہو کر اپنے تئیں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے اور اس سراب کا شکار ہے کہ وہ آئندہ بھی نیم خواندہ عوام کو کھوکھلے نعروں اور دلفریب وعدوں کے جھانسے میں پھانس کر برسر اقتدار آسکے گی مگر اب یہ کھیل بہت دیر تک جاری نہیں رہ سکے گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story