کپاس کی پیداوار اور برآمدات
گزشتہ ماہ امپورٹ ساڑھے چار ارب ڈالر رہنے کے باعث تجارتی خسارہ بھی کم رہا
سال 2023 گزر چکا، 31 دسمبر کی رات 12بجے فائرنگ پر اگرچہ پابندی تھی لیکن جہاں بھی فائرنگ کی آواز گونجتی رہی اس کے ساتھ یہ آواز زیادہ گھن گرج اور زیادہ شدت کے ساتھ کانوں کی گو شمالی کرتی رہی کہ کیا کھویا کیا پایا۔
ایسا کچھ پاکستانی معیشت کے بارے میں شدت سے محسوس کیا گیا کہ 75 سال پون صدی گزر گئی ملک نے کیا کھویا کیا پایا، عوام کو کیا ملا۔ سال کے اختتام سے قبل عالمی بینک نے بتا دیا تھا کہ پاکستان کا معاشی ماحول ناکام رہا اور ہم جب اِدھر اُدھر کے ملکوں کو دیکھتے ہیں تو پہلے زخم خوردہ ویتنام کو دیکھتے ہیں اور وہ ہم سے کہیں آگے جا چکا ہے بنگلہ دیش، فلپائن، بھارت حتیٰ کہ چین جو 1950 میں کہاں تھا اور آج کہاں ہے۔
عالمی بینک نے کہا کہ ہمارا معاشی ماڈل ناکام رہا۔ بات تو درست ہے لیکن یہ معاشی ماڈل ہمارے تو نہیں تھے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے کہنے پر ان کے تقاضوں پر ان کی شرائط پر ان کی خواہش پر ان کے مطابق ہم نے بجٹ بھی بنائے، روپے کا حلیہ بھی بگاڑا۔ معاشی ترقی کو شاہراہ ترقی سے بھی اتارا۔ اپنے ہی عوام، صنعتکاروں، کارخانہ داروں،کسانوں پر بجلی بم گرائے،گیس کے نرخ بڑھائے۔
اب جو کھویا سو کھویا اور پھر سے نئے سال کا آغاز ہوا۔ جمعرات 4 جنوری روزنامہ ایکسپریس کی یہ خبر جسے پڑھ کر میں سوچنے لگا آیندہ بجٹ کون سا معاشی ماڈل لاگو ہوگا۔ خبر یہ تھی کہ آیندہ مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔ وزارت خزانہ، ایف بی آر نے تجاویز طلب کر لی ہیں۔ فریم ورک کی تیاری کا شیڈول مرتب ہو رہا ہے۔ مارچ میں حتمی شکل دے کر بجٹ منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کو پیش کردیا جائے گا۔ ہر سال کے جنوری سے پاکستان کے تقریباً تمام محکموں میں ڈیٹا طلب کر لیا جاتا ہے۔
ابتدائی طور پر پہلے 6 ماہ یعنی جولائی تا دسمبر تک کے اعداد و شمار حاصل کر لیے جاتے ہیں اور اس کے بعد جولائی تا مارچ تک کے اعداد و شمار حاصل کر لیے جاتے ہیں اور ایسا اپریل میں ممکن ہو جاتا ہے کیونکہ مئی کی کسی بھی تاریخ یا جون کے اوائل میں بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔
بجٹ پیش کرنے سے قبل ایک یا دو دن پہلے پاکستان اکنامک سروے رپورٹ شایع کردی جاتی ہے جس میں عموماً وفاقی حکومت اپنے اہداف کے حصول کا تذکرہ کرتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملک کی شرح ترقی کتنی رہی۔ جولائی تا مارچ تک پاکستان کی ایکسپورٹ اور امپورٹ کتنی رہی، اور بے شمار باتیں اعداد و شمار وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ بجٹ کی تیاری کے وقت آئی ایم ایف کے مطالبات ان کی شرائط پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے بعض مان لی جاتی ہیں۔ عالمی بینک کے تیور کا بھرپور لحاظ کیا جاتا ہے۔
بچت کرنے کی خاطر ان کی خواہشوں کا بھرپور اہتمام کرتے ہوئے پاکستان کے ترقیاتی اخراجات پر کلہاڑی ماری جاتی ہے اور وہ سہم کر سکڑ کر محض چند سو ارب روپے تک محدود رہ جاتی ہے۔
بہرحال عالمی بینک نے پاکستان کے معاشی ماڈل کے ناکارہ ہونے کی بات کی ہے تو اس پر مزید گفتگو کسی اور کالم میں کر لیں گے۔ 3 جنوری کو ہی پی بی ایس کی ماہانہ سمری رپورٹ شایع ہوئی اور پی بی ایس کی ٹریڈ سمری کے مطابق خوش آیند بات یہ تھی کہ جون 2022 کے بعد سے گرتے ہوئے پاکستانی برآمدات نے پہلی مرتبہ سراٹھایا ہے اور ماہ دسمبر کی کل برآمدات 2 ارب 81 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی ہے جوکہ دسمبر 2022 کے کل برآمدات 2 ارب 30 کروڑ10 لاکھ کے مقابلے میں 22.21 فی صد زیادہ ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں بھی کمی آئی ہے۔
گزشتہ ماہ امپورٹ ساڑھے چار ارب ڈالر رہنے کے باعث تجارتی خسارہ بھی کم رہا۔ پاکستان کپاس سے بنی مصنوعات کی برآمدات پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اگرچہ عالمی مالیاتی اداروں کے مسلط کردہ معاشی ماڈلز پر عمل درآمد کرنے کے باعث صنعت کار بجلی گیس کے بلوں کے سبب پریشان رہتے ہیں اور اگر کپاس بھی درآمد کرنا پڑ جائے تو لاگت مزید بڑھ جاتی ہے لیکن سال کے آغاز کی خوش کن خبر یہ بھی ہے کہ 31دسمبر تک کپاس کی ملکی پیداوار 81 لاکھ 71 ہزار گانٹھ رہی ہے جس میں سے ٹیکسٹائل ملوں نے 73 لاکھ 14 ہزار گانٹھیں خرید بھی لی ہیں۔
پاکستان اپنی کپاس کی پیداوار اور ہر قسم کی زرعی پیداوار اور ہر زراعت پر مبنی صنعتی پیداوار میں بے انتہا اضافہ کرچکا ہوتا۔
اگر اس کے کسانوں، ہاریوں کو پانی کی قلت کا سامنا نہ ہوتا۔ نصف صدی قبل عالمی بینک نے پاکستان کے لیے جو معاشی ماڈل بنایا تھا جس کے تحت 1974 میں تربیلا بند کی تکمیل کے بعد اس سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بھارت نے پورے ملک میں چھوٹے بڑے سیکڑوں ڈیم بنا لیے۔ چین نے ہزاروں بنا لیے اس لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ جب آئی ایم ایف کے معاشی ماڈل کے تحت بجلی اور نہ جانے کن کن چیزوں کے نرخ بڑھائیں گے تو ملکی برآمدات میں اضافہ کیسے ممکن ہے؟
ایسا کچھ پاکستانی معیشت کے بارے میں شدت سے محسوس کیا گیا کہ 75 سال پون صدی گزر گئی ملک نے کیا کھویا کیا پایا، عوام کو کیا ملا۔ سال کے اختتام سے قبل عالمی بینک نے بتا دیا تھا کہ پاکستان کا معاشی ماحول ناکام رہا اور ہم جب اِدھر اُدھر کے ملکوں کو دیکھتے ہیں تو پہلے زخم خوردہ ویتنام کو دیکھتے ہیں اور وہ ہم سے کہیں آگے جا چکا ہے بنگلہ دیش، فلپائن، بھارت حتیٰ کہ چین جو 1950 میں کہاں تھا اور آج کہاں ہے۔
عالمی بینک نے کہا کہ ہمارا معاشی ماڈل ناکام رہا۔ بات تو درست ہے لیکن یہ معاشی ماڈل ہمارے تو نہیں تھے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے کہنے پر ان کے تقاضوں پر ان کی شرائط پر ان کی خواہش پر ان کے مطابق ہم نے بجٹ بھی بنائے، روپے کا حلیہ بھی بگاڑا۔ معاشی ترقی کو شاہراہ ترقی سے بھی اتارا۔ اپنے ہی عوام، صنعتکاروں، کارخانہ داروں،کسانوں پر بجلی بم گرائے،گیس کے نرخ بڑھائے۔
اب جو کھویا سو کھویا اور پھر سے نئے سال کا آغاز ہوا۔ جمعرات 4 جنوری روزنامہ ایکسپریس کی یہ خبر جسے پڑھ کر میں سوچنے لگا آیندہ بجٹ کون سا معاشی ماڈل لاگو ہوگا۔ خبر یہ تھی کہ آیندہ مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔ وزارت خزانہ، ایف بی آر نے تجاویز طلب کر لی ہیں۔ فریم ورک کی تیاری کا شیڈول مرتب ہو رہا ہے۔ مارچ میں حتمی شکل دے کر بجٹ منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کو پیش کردیا جائے گا۔ ہر سال کے جنوری سے پاکستان کے تقریباً تمام محکموں میں ڈیٹا طلب کر لیا جاتا ہے۔
ابتدائی طور پر پہلے 6 ماہ یعنی جولائی تا دسمبر تک کے اعداد و شمار حاصل کر لیے جاتے ہیں اور اس کے بعد جولائی تا مارچ تک کے اعداد و شمار حاصل کر لیے جاتے ہیں اور ایسا اپریل میں ممکن ہو جاتا ہے کیونکہ مئی کی کسی بھی تاریخ یا جون کے اوائل میں بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔
بجٹ پیش کرنے سے قبل ایک یا دو دن پہلے پاکستان اکنامک سروے رپورٹ شایع کردی جاتی ہے جس میں عموماً وفاقی حکومت اپنے اہداف کے حصول کا تذکرہ کرتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملک کی شرح ترقی کتنی رہی۔ جولائی تا مارچ تک پاکستان کی ایکسپورٹ اور امپورٹ کتنی رہی، اور بے شمار باتیں اعداد و شمار وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ بجٹ کی تیاری کے وقت آئی ایم ایف کے مطالبات ان کی شرائط پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے بعض مان لی جاتی ہیں۔ عالمی بینک کے تیور کا بھرپور لحاظ کیا جاتا ہے۔
بچت کرنے کی خاطر ان کی خواہشوں کا بھرپور اہتمام کرتے ہوئے پاکستان کے ترقیاتی اخراجات پر کلہاڑی ماری جاتی ہے اور وہ سہم کر سکڑ کر محض چند سو ارب روپے تک محدود رہ جاتی ہے۔
بہرحال عالمی بینک نے پاکستان کے معاشی ماڈل کے ناکارہ ہونے کی بات کی ہے تو اس پر مزید گفتگو کسی اور کالم میں کر لیں گے۔ 3 جنوری کو ہی پی بی ایس کی ماہانہ سمری رپورٹ شایع ہوئی اور پی بی ایس کی ٹریڈ سمری کے مطابق خوش آیند بات یہ تھی کہ جون 2022 کے بعد سے گرتے ہوئے پاکستانی برآمدات نے پہلی مرتبہ سراٹھایا ہے اور ماہ دسمبر کی کل برآمدات 2 ارب 81 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی ہے جوکہ دسمبر 2022 کے کل برآمدات 2 ارب 30 کروڑ10 لاکھ کے مقابلے میں 22.21 فی صد زیادہ ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں بھی کمی آئی ہے۔
گزشتہ ماہ امپورٹ ساڑھے چار ارب ڈالر رہنے کے باعث تجارتی خسارہ بھی کم رہا۔ پاکستان کپاس سے بنی مصنوعات کی برآمدات پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اگرچہ عالمی مالیاتی اداروں کے مسلط کردہ معاشی ماڈلز پر عمل درآمد کرنے کے باعث صنعت کار بجلی گیس کے بلوں کے سبب پریشان رہتے ہیں اور اگر کپاس بھی درآمد کرنا پڑ جائے تو لاگت مزید بڑھ جاتی ہے لیکن سال کے آغاز کی خوش کن خبر یہ بھی ہے کہ 31دسمبر تک کپاس کی ملکی پیداوار 81 لاکھ 71 ہزار گانٹھ رہی ہے جس میں سے ٹیکسٹائل ملوں نے 73 لاکھ 14 ہزار گانٹھیں خرید بھی لی ہیں۔
پاکستان اپنی کپاس کی پیداوار اور ہر قسم کی زرعی پیداوار اور ہر زراعت پر مبنی صنعتی پیداوار میں بے انتہا اضافہ کرچکا ہوتا۔
اگر اس کے کسانوں، ہاریوں کو پانی کی قلت کا سامنا نہ ہوتا۔ نصف صدی قبل عالمی بینک نے پاکستان کے لیے جو معاشی ماڈل بنایا تھا جس کے تحت 1974 میں تربیلا بند کی تکمیل کے بعد اس سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بھارت نے پورے ملک میں چھوٹے بڑے سیکڑوں ڈیم بنا لیے۔ چین نے ہزاروں بنا لیے اس لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ جب آئی ایم ایف کے معاشی ماڈل کے تحت بجلی اور نہ جانے کن کن چیزوں کے نرخ بڑھائیں گے تو ملکی برآمدات میں اضافہ کیسے ممکن ہے؟