بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ

بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش تو بن گیا مگر بھارت نے مغربی بنگال کو بنگلہ دیش میں شامل نہ ہونے دیا

usmandamohi@yahoo.com

بنگلہ دیش میں سیاسی حالات خاصے خراب ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ حسینہ واجد کی حکومتی پالیسی اور طوالت ہے، وہ گزشتہ پندرہ سال سے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم چلی آرہی ہیں حزب اختلاف کی تمام سیاسی پارٹیاں مل کر بھی لاکھ احتجاج کے باوجود انھیں ان کے منصب سے نہیں ہٹا سکی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ حسینہ واجد کو حزب اختلاف کی جانب سے ابھی تک کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔ کبھی فوج بنگلہ دیشی حکومتوں کو گرا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا کرتی تھی۔ بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل ضیا الرحمان اور جنرل حسین محمد ارشاد پچھلی حکومتوں کا تختہ پلٹ کر خود حکومت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔

بنگلہ دیش کی حزب اختلاف پارٹیاں حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف متحرک ہو چکی ہیں، بنگلہ دیشی عوام میں حزب اختلاف کو بھی پذیرائی مل رہی ہے ۔ بنگلہ دیش میں سات جنوری کو ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔

تمام سیاسی پارٹیوں نے حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا ہے، یہ صورت حال حسینہ واجد کے لیے کافی پریشان کن ہے اور وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں، بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن اور انتظامیہ حسینہ واجد کا دم بھر رہے ہیں اس طرح حزب اختلاف کے نزدیک اس الیکشن سے کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔

حسینہ واجد کو پھر سے اقتدار میں رکھا جانا ہے ۔ حزب اختلاف یہ تماشا دیکھ کر الیکشن سے دست بردار ہو چکی ہے یعنی کہ اس نے الیکشن لڑنے سے خود کو روک لیا ہے، اب اس طرح بنگلہ دیشی جمہوریت مکمل ڈکٹیٹر شپ میں تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ اب حسینہ واجد ہی الیکشن میں تنہا امیدوار ہیں اور وہ اس طرح بلا مقابلہ الیکشن جیت جائیں گی لیکن یہ کوئی الیکشن نہیں کہلائے گا، بلکہ سلیکشن ہی ہوگا ۔

ادھر بنگلہ دیشی حزب اختلاف کی پارٹیاں اب صرف حسینہ واجد یا عوامی لیگ پر برہم نہیں ہیں بلکہ وہ بھارتیپالیسیکے خلاف ہیں ۔ عوام بھی حزب اختلاف کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ بنگلہ دیشی عوام نے اپنی محرومیوں کو دورکرنے کے لیے 1971 میں مجیب الرحمن کا ساتھ دیا تھا مگر اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو اب بھی ان کے دلوں میں پاکستان کی محبت زندہ ہے وہ اس لیے کہ 1970 میں ہونے والے پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں انھوں نے اپنی محرومیوں کو دور کرنے اور پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے اپنا مینڈیٹ دیا تھا، پاکستان کو توڑنے کے لیے ہرگز مینڈیٹ نہیں دیا تھا مگر ان کے حق رائے دہی کا مجیب الرحمن نے غلط استعمال کیا اور پاکستان کی وحدت کو قائم رکھنے کے بجائے دولخت کر دیا تھا۔


حقیقت یہ ہے کہ اگر مشرقی اور مغربی بازو میں ہزاروں میل کے فاصلے حائل نہ ہوتے ، اگر فاصلے بھی حائل رہتے بھی مگر بھارت جیسا دشمن ملک بیچ میں نہ ہوتا تو مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے دنیا کا کوئی ملک علیحدہ نہیں کر سکتا تھا۔ ملک کے دولخت ہونے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی الزام دیا جاسکتا ہے مگر سیاسی قیادت کو بھی علیحدگی کی ذمے داری سے الگ نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں بھارت کے نامور بزرگ صحافی کلدیپ نیّر نے ڈھاکا جا کر شیخ مجیب الرحمن سے ایک انٹرویو کیا تھا، اس میں انھوں نے ان سے بھٹو کے بارے میں بھی سوال کیا تھا کہ کیا بھٹو بھی مشرقی اور مغربی پاکستان کو علیحدہ کرنا چاہتے تھے تو مجیب الرحمن نے انھیں بتایا تھا کہ جن دنوں وہ پاکستان کی حراست میں تھے ان سے بھٹو خود ملنے کے لیے آئے تھے۔

انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ پاکستان کی سالمیت کو برقرار رکھیں اور کوئی ایسا فارمولا بنا لیں کہ آپ کو مشرقی پاکستان میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری مل جائے اور اس طرح وہاں کے عوام کا احساس محرومی کم ہو سکے۔ اس پر مجیب نے کہا تھا کہ وہ اس وقت اس سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کرسکتے وہ وہاں جا کر حالات دیکھیں گے اور اس کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کر سکیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھٹو کو مختلف حربوں کے ذریعے بدنام اور عوام میں غیر مقبول بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور بالآخر انھیں ان کی ہی پارٹی کے ایک لیڈر کے باپ کے قتل کی پاداش میں پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔ اب ان کی موت کو جوڈیشل قتل قرار دے کر اس کا مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے مگر دیکھیے کیا فیصلہ آتا ہے۔

اگر پاکستان کو توڑنے میں کسی کا ہاتھ تھا وہ شیخ مجیب الرحمن اور اس کے انتہا پسند ٹولے کا تھا۔ تاج الدین اور کمال الدین جیسے انتہا پسندوں نے مجیب کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ مجیب الرحمن کی پاکستان سے غداری اگرتلہ واقعے جسے اگرتلہ سازش کا نام دیا گیا تھا سے ہی ثابت ہوگئی تھی مگر ایوب خان نے کوئی خاص ایکشن نہیں لیا تھا۔

آزاد بنگلہ دیش بنانے کے منصوبے پر دراصل 1962 سے ہی کام شروع ہو چکا تھا اور ایک طرف بھارتی حکومت سے اس سلسلے میں مدد لینے کی درخواست کی گئی تھی تو دوسری جانب مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ باسو کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا۔

دونوں نے مل کر گریٹر بنگال بنانے کا اظہار کیا تھا اس طرح دونوں بنگال کو ملا کر ایک آزاد خودمختار بنگلہ دیش بنانے کے لیے تعاون کرنے کے وعدے کیے گئے تھے البتہ مغربی بنگال کو مشرقی بنگال سے ملانے کے منصوبے کو مخفی رکھا گیا تھا تاکہ بھارت سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لیے ضروری مدد لی جائے پھر مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد دوسرے مرحلے میں مغربی بنگال کو اس میں شامل کردیا جائے۔ ہوا یہ کہ بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش تو بن گیا مگر بھارت نے مغربی بنگال کو بنگلہ دیش میں شامل نہ ہونے دیا۔
Load Next Story