پاکستان کے ووٹرز سے جڑے مسائل
جب تک ایک بڑی تعدادمیں ووٹرز اپنے سیاسی اورسماجی شعور کے ساتھ باہرنہیں نکلے گا کوئی بڑی سیاسی تبدیلی ممکن نہیں ہوسکتی
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت سمیت حکمرانی کے نظام میں ووٹرز کی سیاسی حیثیت کی زندگیوں میں کوئی بنیادی نوعیت کی سیاسی، معاشی یا سماجی تبدیلیوں کا عمل ممکن نہیں ہوسکا۔
عمومی طور پر کسی بھی سیاسی اور جمہوری نظام میں ووٹرز کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ان ووٹرز کی بنیاد پر انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی جیت اور حکومت سازی کا عمل مکمل ہوتا ہے ۔ ووٹرز کو یہ یقین ہوتا ہے یا ان کو جمہوری بنیادوں پر بھی یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ووٹ کی بنیاد پر تبدیلی کا عمل ممکن ہوتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار ووٹرز کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اور ان کی قیادت عام آدمی کی زندگی میںمثبت تبدیلیوں کے عمل کو ممکن بنائے گی ۔ اسی یقین اور عہد کے ساتھ ووٹرز اور سیاسی نظام کا باہمی تعلق بھی مضبوط اور یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ جمہوری نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے ۔
لیکن پاکستان کی سیاست کافی نرالی ہے ۔ اس میں کئی سیاسی اور جمہوری یا انتخابی تضادات ہیں اور جو بولا جاتا ہے یا کہا جاتا ہے یا جو دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے حقایق اس کے برعکس ہوتے ہیں ۔ جذباتیت او رالزام تراشیوں پر مبنی سیاست ہو یا خوشنما نعروں پر کھڑی سیاسی انتخابی مہم ہو اس میں آپ کو سب کچھ دیکھنے کو ملے گا، لیکن عام آدمی کی حالت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوتی ۔ بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
ووٹرز اور سیاسی حکمران طبقہ کا باہمی تعلق ہمیں محض انتخابات او رانتخابی مہم تک ہی محدود نظر آتا ہے ۔ انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنتی ہے وہ عام آدمی یا اپنے ووٹرز کے مسائل سے لاتعلقی اختیار کرلیتی ہے۔
پاکستان میں ووٹرز کی تعلیم پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی او رنہ ہی ووٹ کا استعمال یہاں میرٹ یا دیانت داری کی بنیاد پر ہوتا ہے جہاں ووٹ ڈالنے والا امیدوار اور سیاسی جماعتوں کی ترجیحات اور بہتری کے عمل کو دیکھ کر اپنا ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں ووٹ ڈالنے کا جو رجحان ہے اس میں آج بھی فرقہ واریت ، برادری، ذات، لسانی ، علاقائی اور صوبائیت کے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمیں شخصیت پرستی ، تقلید ، کاروباری مفاد، ڈر اور خوف پیدا کرکے ان کو اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ نظریاتی یا خالص سیاسی بنیاد یا جمہوریت , آئین و قانون کی سربلندی کو یقینی بنانے کے لیے ووٹ ڈالنے کا رجحان کافی کمزور ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں یا انتخابی امیدواروں کے نام ووٹ کو بیچنے کا رجحان بھی ملتا ہے یا ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بعض علاقوں میں '' پہلے سڑک پھر ووٹ '' کا منظر بھی نظر آتا ہے ۔
سوال یہ ہے لوگوں کی حالت زار یا محروم طبقات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کی بنا پر لوگ کیونکر جمہوری اور سیاسی عمل پر اعتماد کریں ۔ جب ووٹرز کے سامنے سیاسی نظام اور حکومتوں یا حزب اختلاف کی کوئی جوابدہی کا نظام ہی موجود نہ ہو اور اس جوابدہی کو ووٹ کی بنیاد پر مضبوط نہ بنایا جائے تو پھر جمہوریت یا انتخابات سے کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی ووٹرز کی تعلیم ہمیشہ سے بنیادی مسئلہ رہا ہے کیونکہ یہاں ووٹ کی اہمیت اور حرمت پر بہت کم بات کی جاتی ہے بلکہ یہاں تو بہت سے لوگ سیاست اور جمہوریت سمیت انتخابات کے عمل کی اہمیت کو ہی ماننے کے لیے تیار نہیں۔
رسمی اور غیر رسمی تعلیمی نظام میں ووٹ کی اہمیت پر کوئی عملی تعلیم نہیں دی جاتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک طرف ووٹ ڈالنے والوں میں میرٹ کے بجائے دیگر معاملات کی اہمیت ہوتی ہے تو دوسری طرف ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے سے ہی انکاری ہوتی ہے ۔کیونکہ ایک بڑا طبقہ سمجھتا ہے کہ سیاست ہو یا ووٹ ڈالنے کا عمل اس سے ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح ایک بڑے طبقہ میں یہ بھی سوچ موجود ہے اور بڑی تیزی سے بڑھ بھی رہی ہے کہ حکومت یا انتخابی نتائج ووٹ ڈالنے سے نہیں بلکہ طاقت ور طبقات کی سیاسی خوشنودی کی بنیاد پر انتخابی نتائج کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ یہ عمل ووٹرز کو مزید سیاسی اور انتخابی عمل کی سیاست اور شفافیت سے دورلے جاتا ہے ۔
سیاسی خاندانوں کی عملی سیاست پر قبضہ یا ان کی سیاسی اجارہ داری کی موجودگی میں سیاسی کارکن یا سیاسی ووٹرز خود کو تنہا محسوس کررہے ہیں ۔ اس ملک میں ووٹ کی بالادستی کے لیے ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ووٹرز کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جو بھی سیاسی جماعتیں ، قیادتیں ان کا سیاسی استحصال کرتی ہیں ان کے بارے میں ان کو آگاہی حاصل کرنے کے لیے ان کو اپنے سیاسی شعور میں اضافہ کرنا ہوگا ۔ جذباتیت سے باہر نکل کر عقل و شعور کی بنیاد پر ان کو ووٹ ڈالنا چاہیے ۔
جس بھی جمہوری معاشروں میں ووٹرز کی حیثیت جوابدہی کی بنیاد پر ہوتی ہے یعنی ووٹرز اپنی سیاسی جماعتوں او رقیادت سمیت حکومتوں کا ووٹ کی بنیاد پر احتساب کرسکتا ہے وہیں جمہوری معاشرہ ترقی بھی کرتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں یہ خوف ہونا چاہیے کہ اگر ووٹرز کی ترجیحات کو فوقیت نہ دی گئی توووٹرز ان کو گھر بھیج سکتا ہے یا سیاسی تنہائی میں مبتلا کرسکتا ہے۔
اسی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بہتر راستہ کو اختیار کرتی ہیں اور وہ ووٹرز کی خواہشات کو بنیاد بنا کر اپنی سیاست کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن کیونکہ یہاں ہمارا مجموعی سیاسی نظام یرغمال ہے اور سیاسی نظام کی اس یرغمالی میں ووٹرز کی حیثیت محض ایک تماشائی کی رہ گئی ہے۔
جب تک ایک بڑی تعداد میں ووٹرز اپنے سیاسی اور سماجی شعور کے ساتھ باہر نہیں نکلے گا کوئی بڑی سیاسی تبدیلی ممکن نہیں ہوسکتی ۔ کم ازکم 60سے 70فیصد ووٹرز ٹرن آوٹ ہماری سیاست میں جو بھی کچھ پردے کے پیچھے کھیل ہوتا ہے اسے ناکام بناسکتا ہے ۔
عمومی طور پر کسی بھی سیاسی اور جمہوری نظام میں ووٹرز کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ان ووٹرز کی بنیاد پر انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی جیت اور حکومت سازی کا عمل مکمل ہوتا ہے ۔ ووٹرز کو یہ یقین ہوتا ہے یا ان کو جمہوری بنیادوں پر بھی یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ووٹ کی بنیاد پر تبدیلی کا عمل ممکن ہوتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار ووٹرز کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اور ان کی قیادت عام آدمی کی زندگی میںمثبت تبدیلیوں کے عمل کو ممکن بنائے گی ۔ اسی یقین اور عہد کے ساتھ ووٹرز اور سیاسی نظام کا باہمی تعلق بھی مضبوط اور یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ جمہوری نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے ۔
لیکن پاکستان کی سیاست کافی نرالی ہے ۔ اس میں کئی سیاسی اور جمہوری یا انتخابی تضادات ہیں اور جو بولا جاتا ہے یا کہا جاتا ہے یا جو دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے حقایق اس کے برعکس ہوتے ہیں ۔ جذباتیت او رالزام تراشیوں پر مبنی سیاست ہو یا خوشنما نعروں پر کھڑی سیاسی انتخابی مہم ہو اس میں آپ کو سب کچھ دیکھنے کو ملے گا، لیکن عام آدمی کی حالت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوتی ۔ بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
ووٹرز اور سیاسی حکمران طبقہ کا باہمی تعلق ہمیں محض انتخابات او رانتخابی مہم تک ہی محدود نظر آتا ہے ۔ انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنتی ہے وہ عام آدمی یا اپنے ووٹرز کے مسائل سے لاتعلقی اختیار کرلیتی ہے۔
پاکستان میں ووٹرز کی تعلیم پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی او رنہ ہی ووٹ کا استعمال یہاں میرٹ یا دیانت داری کی بنیاد پر ہوتا ہے جہاں ووٹ ڈالنے والا امیدوار اور سیاسی جماعتوں کی ترجیحات اور بہتری کے عمل کو دیکھ کر اپنا ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں ووٹ ڈالنے کا جو رجحان ہے اس میں آج بھی فرقہ واریت ، برادری، ذات، لسانی ، علاقائی اور صوبائیت کے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمیں شخصیت پرستی ، تقلید ، کاروباری مفاد، ڈر اور خوف پیدا کرکے ان کو اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ نظریاتی یا خالص سیاسی بنیاد یا جمہوریت , آئین و قانون کی سربلندی کو یقینی بنانے کے لیے ووٹ ڈالنے کا رجحان کافی کمزور ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں یا انتخابی امیدواروں کے نام ووٹ کو بیچنے کا رجحان بھی ملتا ہے یا ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بعض علاقوں میں '' پہلے سڑک پھر ووٹ '' کا منظر بھی نظر آتا ہے ۔
سوال یہ ہے لوگوں کی حالت زار یا محروم طبقات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کی بنا پر لوگ کیونکر جمہوری اور سیاسی عمل پر اعتماد کریں ۔ جب ووٹرز کے سامنے سیاسی نظام اور حکومتوں یا حزب اختلاف کی کوئی جوابدہی کا نظام ہی موجود نہ ہو اور اس جوابدہی کو ووٹ کی بنیاد پر مضبوط نہ بنایا جائے تو پھر جمہوریت یا انتخابات سے کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی ووٹرز کی تعلیم ہمیشہ سے بنیادی مسئلہ رہا ہے کیونکہ یہاں ووٹ کی اہمیت اور حرمت پر بہت کم بات کی جاتی ہے بلکہ یہاں تو بہت سے لوگ سیاست اور جمہوریت سمیت انتخابات کے عمل کی اہمیت کو ہی ماننے کے لیے تیار نہیں۔
رسمی اور غیر رسمی تعلیمی نظام میں ووٹ کی اہمیت پر کوئی عملی تعلیم نہیں دی جاتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک طرف ووٹ ڈالنے والوں میں میرٹ کے بجائے دیگر معاملات کی اہمیت ہوتی ہے تو دوسری طرف ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے سے ہی انکاری ہوتی ہے ۔کیونکہ ایک بڑا طبقہ سمجھتا ہے کہ سیاست ہو یا ووٹ ڈالنے کا عمل اس سے ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح ایک بڑے طبقہ میں یہ بھی سوچ موجود ہے اور بڑی تیزی سے بڑھ بھی رہی ہے کہ حکومت یا انتخابی نتائج ووٹ ڈالنے سے نہیں بلکہ طاقت ور طبقات کی سیاسی خوشنودی کی بنیاد پر انتخابی نتائج کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ یہ عمل ووٹرز کو مزید سیاسی اور انتخابی عمل کی سیاست اور شفافیت سے دورلے جاتا ہے ۔
سیاسی خاندانوں کی عملی سیاست پر قبضہ یا ان کی سیاسی اجارہ داری کی موجودگی میں سیاسی کارکن یا سیاسی ووٹرز خود کو تنہا محسوس کررہے ہیں ۔ اس ملک میں ووٹ کی بالادستی کے لیے ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ووٹرز کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جو بھی سیاسی جماعتیں ، قیادتیں ان کا سیاسی استحصال کرتی ہیں ان کے بارے میں ان کو آگاہی حاصل کرنے کے لیے ان کو اپنے سیاسی شعور میں اضافہ کرنا ہوگا ۔ جذباتیت سے باہر نکل کر عقل و شعور کی بنیاد پر ان کو ووٹ ڈالنا چاہیے ۔
جس بھی جمہوری معاشروں میں ووٹرز کی حیثیت جوابدہی کی بنیاد پر ہوتی ہے یعنی ووٹرز اپنی سیاسی جماعتوں او رقیادت سمیت حکومتوں کا ووٹ کی بنیاد پر احتساب کرسکتا ہے وہیں جمہوری معاشرہ ترقی بھی کرتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں یہ خوف ہونا چاہیے کہ اگر ووٹرز کی ترجیحات کو فوقیت نہ دی گئی توووٹرز ان کو گھر بھیج سکتا ہے یا سیاسی تنہائی میں مبتلا کرسکتا ہے۔
اسی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بہتر راستہ کو اختیار کرتی ہیں اور وہ ووٹرز کی خواہشات کو بنیاد بنا کر اپنی سیاست کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن کیونکہ یہاں ہمارا مجموعی سیاسی نظام یرغمال ہے اور سیاسی نظام کی اس یرغمالی میں ووٹرز کی حیثیت محض ایک تماشائی کی رہ گئی ہے۔
جب تک ایک بڑی تعداد میں ووٹرز اپنے سیاسی اور سماجی شعور کے ساتھ باہر نہیں نکلے گا کوئی بڑی سیاسی تبدیلی ممکن نہیں ہوسکتی ۔ کم ازکم 60سے 70فیصد ووٹرز ٹرن آوٹ ہماری سیاست میں جو بھی کچھ پردے کے پیچھے کھیل ہوتا ہے اسے ناکام بناسکتا ہے ۔