اقبال عام
مکارحکمران برطانوی راج کی جدید شکل کی طرح ہمارے جان و مال اور وسائل پر قابض ہیں اورخود کوامیراور قوم کو ذلیل کررہے ہیں
ہر سفر وجہ معلومات بنتا ہے مگر صرف اس صورت میں جب آپ اپنی آنکھیں، کان، دل اور دماغ کھلا رکھیں۔ اس مرتبہ لندن کے تین دن کے دورے نے وہ کچھ سوچنے پر مجبور کیا جو اس سے پہلے طویل ترین مسافت کے بعد بھی نظر و ذہن سے دور ہی رہا۔ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ ہمارا کیا بنے گا؟ کچھ دنوں کے لیے امید ایسے امڈی جیسے ساون کی گھٹا۔ لفظ نامی تنظیم کے دو جوانوں احمد اور یاسر نے کمال ہمت کی اور علامہ اقبال کے شکوہ جواب شکوہ کے انگریزی ترجمے پر مبنی کتاب کی رونمائی پر سیکڑوں پاکستانی بچے، بچیوں، بزرگوں اور خاندانوں کو جمع کر دیا۔
انگریزی ترجمہ ملنگ طبیعت پروفیسر ایم ایس بقاء نے انتہائی گہرائی میں جا کر خون پسینہ ایک کرتے ہوئے کیا۔ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محنت کا پھل کتنا میٹھا اور پر اثر ہو سکتا ہے۔ میرے حصے میں حضرت علامہ کے فلسفہ خودی پر مباحثے کی میزبانی کی ذمے داری آئی۔ شریک گفتگو حقیقتاً اقبالیات کے ماہر تھے۔ ڈاکٹر کامران کیمبرج سے تشریف لائے تھے جب کہ محترمہ حلیمہ اٹلی سے۔ مشہور زمانہ فلاسفر این میری شمل (جن کو 23 زبانوں پر عبور حاصل تھا اور جنھوں نے 99 کُتب اور 200 سے زائد تحقیقاتی مضامین لکھے) کی بھانجی کیتھرین شمل جرمنی سے بالخصوص اس تقریب کے لیے آئی تھی۔
میں اس محفل میں سب سے کم علم تھا مگر پھر بھی اللہ نے عزت رکھی اور کسی خاص شرمندگی کے بغیر پُر حاصل گفتگو کر پائے۔ ویسے بھی فلسفہ خودی اور رموز بے خودی سمجھنے کے لیے ایک عمر چاہیے۔ ڈاکٹر کامران نے اس مباحثے کے بعد سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے غضب کا جملہ کہا۔ فرمانے لگے اچھا ہو ا آپ نے چالیس منٹ میں یہ پروگرام ختم کر لیا' اس سے زیادہ بات کرنے کی ہم میں اہلیت ہی نہیں ہے۔ یہ کسر نفسی بھی تھی اور علامہ اقبال کی بڑائی کا اعتراف بھی۔ بہر حال سب سے خوشگوار حیرت مجھے برطانیہ میں جواں سال طبقے کی اقبال کے کلام میں دلچسپی پر ہوئی۔
کئی ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ملے جنہوں نے دیانت داری سے اعتراف کیا کہ اگر ان کے والدین زبردستی یہاں پر نہ لے کر آتے تو شاید وہ اس وقت آکسفورڈ اسٹریٹ پر مٹر گشت کو ترجیح دیتے مگر اس میں کلام اقبال (جو قوالی کی صورت میں بھی پڑھا گیا) کے چند پہلوؤں پر تھوڑی سی روشنی ڈالنے کے بعد ان کی دلچسپی اس حد تک بڑھ گئی کہ وہ بار بار اصرار کرنے لگے کہ دورانیہ گفتگو بڑھا دیا جائے۔ اس حیرت انگیز تبدیلی فکر کی ایک وجہ تو اقبال کے کلام کی تاثیر ہے مگر سچی بات تو یہ ہے کہ اس کلام کے اسرار جاننے کے لیے ایک رات تو کچھ بھی نہیں ہے۔ الفاظ کا ترجمہ بھی کرنے بیٹھ جائیں تو سالوں اس میں لگ جائیں گے۔ اصل جادو خودی کے اس پیغام نے جگایا جس میں خود شناسی و خود آگاہی کو ابھارنے پر بڑا زور دیا گیا ہے۔
عرفان ذات خود باآوری کا نتیجہ ہے جو مسلسل محنت اور ریاضت کی یکسوئی کے بغیر نہیں مل سکتا۔ پاکستان کی طرح برطانیہ اور دوسرے ممالک میں موجود ہم وطنوں کی نئی نسل کسی ایسے خیال کے لیے تڑپ رہی ہے جو ان کو ایسا اعتماد عطا کر دے کہ وہ اپنے بارے میں پھیلائے ہوئے بدترین تہمتوں کے جال کو کاٹ پھینکیں اور ثابت کریں کہ وہ ایک بہترین ثقافت کے امین ہیں۔ خیال کی اڑان اور حوصلے کی افزائش کرنے میں علامہ اقبال کی شاعری کے دوسرے دور کا کوئی ثانی نہیں۔ خودی کے ذریعے تو وہ تمام کائنات کو فرد کے ارادے کے تابع کر دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہال میں موجود 400 افراد میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جو شاعر مشرق کے تخیل کے براق پر سوار ہو کر چند لمحوں کے لیے بلند ترین مقام کو چھونے کی جسارت کرنے کا نہ سوچ رہا ہو۔
ہمیں شاید آج سے پہلے علامہ اقبال کے قیمتی الفاظ کی ضرورت کبھی نہیں تھی ۔ دین و دنیا دونوں ہاتھ سے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ ضعیف الاعتقادی اور لاچاری نے عزم کو گُھن کی طرح چاٹ لیا ہے۔ مکار حکمران برطانوی راج کی جدید شکل کی طرح ہمارے جان و مال اور وسائل پر قابض ہیں اور پہلے کی طرح خود کو امیر اور اس قوم کو ذلیل کر رہے ہیں۔ جس کسی سے پوچھ لو ہر کوئی اس ملک سے ہجرت کرنے کا سوچ رہا ہے ۔ بے چینی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ہر بری خبر قیامت کے آثار کی طرح ذہن پر ہتھوڑے برساتی ہے، فریب سے آراستہ جھوٹی تسلیاں، احتجاج ، تنقید ، تجزیے سب بے معنی لگتے ہیں ۔ دل کی تسلی کے لیے ہر کوئی اپنی پسند کے لیڈر سے چمٹا ہوا ہے۔ مگر اندر سے سب کو معلوم ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
خود پرست، موقع پرست، زر پرست سب ایک ہی قبیلے کا حصہ ہیں۔ جس کا کام اپنی ذات کو قوم پر حاوی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس ماحول میں جذبہ کسی فرد کے نعروں اور وعدوں سے اجاگر نہیں ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں دلوں کو گرمانے والا جنون چاہیے۔ جو روح کو تڑپا دے اور بگڑی بنا دے ۔ اقبال سے بہتر ہمیں یہ موقع کوئی میسر نہیں کرتا۔ ان کے افکار کی مریدی سے ہی وہ بغاوت ہو گی جو اصل تبدیلی لائے گی ورنہ یہ ملک خداداد، یہ قوم قائد، یہ عقاب اور ان کا نشیمن ہمیشہ زاغوں کے قبضے میں رہے گا۔
( باغی مرید )
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دیہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہء سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
انگریزی ترجمہ ملنگ طبیعت پروفیسر ایم ایس بقاء نے انتہائی گہرائی میں جا کر خون پسینہ ایک کرتے ہوئے کیا۔ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محنت کا پھل کتنا میٹھا اور پر اثر ہو سکتا ہے۔ میرے حصے میں حضرت علامہ کے فلسفہ خودی پر مباحثے کی میزبانی کی ذمے داری آئی۔ شریک گفتگو حقیقتاً اقبالیات کے ماہر تھے۔ ڈاکٹر کامران کیمبرج سے تشریف لائے تھے جب کہ محترمہ حلیمہ اٹلی سے۔ مشہور زمانہ فلاسفر این میری شمل (جن کو 23 زبانوں پر عبور حاصل تھا اور جنھوں نے 99 کُتب اور 200 سے زائد تحقیقاتی مضامین لکھے) کی بھانجی کیتھرین شمل جرمنی سے بالخصوص اس تقریب کے لیے آئی تھی۔
میں اس محفل میں سب سے کم علم تھا مگر پھر بھی اللہ نے عزت رکھی اور کسی خاص شرمندگی کے بغیر پُر حاصل گفتگو کر پائے۔ ویسے بھی فلسفہ خودی اور رموز بے خودی سمجھنے کے لیے ایک عمر چاہیے۔ ڈاکٹر کامران نے اس مباحثے کے بعد سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے غضب کا جملہ کہا۔ فرمانے لگے اچھا ہو ا آپ نے چالیس منٹ میں یہ پروگرام ختم کر لیا' اس سے زیادہ بات کرنے کی ہم میں اہلیت ہی نہیں ہے۔ یہ کسر نفسی بھی تھی اور علامہ اقبال کی بڑائی کا اعتراف بھی۔ بہر حال سب سے خوشگوار حیرت مجھے برطانیہ میں جواں سال طبقے کی اقبال کے کلام میں دلچسپی پر ہوئی۔
کئی ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ملے جنہوں نے دیانت داری سے اعتراف کیا کہ اگر ان کے والدین زبردستی یہاں پر نہ لے کر آتے تو شاید وہ اس وقت آکسفورڈ اسٹریٹ پر مٹر گشت کو ترجیح دیتے مگر اس میں کلام اقبال (جو قوالی کی صورت میں بھی پڑھا گیا) کے چند پہلوؤں پر تھوڑی سی روشنی ڈالنے کے بعد ان کی دلچسپی اس حد تک بڑھ گئی کہ وہ بار بار اصرار کرنے لگے کہ دورانیہ گفتگو بڑھا دیا جائے۔ اس حیرت انگیز تبدیلی فکر کی ایک وجہ تو اقبال کے کلام کی تاثیر ہے مگر سچی بات تو یہ ہے کہ اس کلام کے اسرار جاننے کے لیے ایک رات تو کچھ بھی نہیں ہے۔ الفاظ کا ترجمہ بھی کرنے بیٹھ جائیں تو سالوں اس میں لگ جائیں گے۔ اصل جادو خودی کے اس پیغام نے جگایا جس میں خود شناسی و خود آگاہی کو ابھارنے پر بڑا زور دیا گیا ہے۔
عرفان ذات خود باآوری کا نتیجہ ہے جو مسلسل محنت اور ریاضت کی یکسوئی کے بغیر نہیں مل سکتا۔ پاکستان کی طرح برطانیہ اور دوسرے ممالک میں موجود ہم وطنوں کی نئی نسل کسی ایسے خیال کے لیے تڑپ رہی ہے جو ان کو ایسا اعتماد عطا کر دے کہ وہ اپنے بارے میں پھیلائے ہوئے بدترین تہمتوں کے جال کو کاٹ پھینکیں اور ثابت کریں کہ وہ ایک بہترین ثقافت کے امین ہیں۔ خیال کی اڑان اور حوصلے کی افزائش کرنے میں علامہ اقبال کی شاعری کے دوسرے دور کا کوئی ثانی نہیں۔ خودی کے ذریعے تو وہ تمام کائنات کو فرد کے ارادے کے تابع کر دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہال میں موجود 400 افراد میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جو شاعر مشرق کے تخیل کے براق پر سوار ہو کر چند لمحوں کے لیے بلند ترین مقام کو چھونے کی جسارت کرنے کا نہ سوچ رہا ہو۔
ہمیں شاید آج سے پہلے علامہ اقبال کے قیمتی الفاظ کی ضرورت کبھی نہیں تھی ۔ دین و دنیا دونوں ہاتھ سے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ ضعیف الاعتقادی اور لاچاری نے عزم کو گُھن کی طرح چاٹ لیا ہے۔ مکار حکمران برطانوی راج کی جدید شکل کی طرح ہمارے جان و مال اور وسائل پر قابض ہیں اور پہلے کی طرح خود کو امیر اور اس قوم کو ذلیل کر رہے ہیں۔ جس کسی سے پوچھ لو ہر کوئی اس ملک سے ہجرت کرنے کا سوچ رہا ہے ۔ بے چینی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ہر بری خبر قیامت کے آثار کی طرح ذہن پر ہتھوڑے برساتی ہے، فریب سے آراستہ جھوٹی تسلیاں، احتجاج ، تنقید ، تجزیے سب بے معنی لگتے ہیں ۔ دل کی تسلی کے لیے ہر کوئی اپنی پسند کے لیڈر سے چمٹا ہوا ہے۔ مگر اندر سے سب کو معلوم ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
خود پرست، موقع پرست، زر پرست سب ایک ہی قبیلے کا حصہ ہیں۔ جس کا کام اپنی ذات کو قوم پر حاوی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس ماحول میں جذبہ کسی فرد کے نعروں اور وعدوں سے اجاگر نہیں ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں دلوں کو گرمانے والا جنون چاہیے۔ جو روح کو تڑپا دے اور بگڑی بنا دے ۔ اقبال سے بہتر ہمیں یہ موقع کوئی میسر نہیں کرتا۔ ان کے افکار کی مریدی سے ہی وہ بغاوت ہو گی جو اصل تبدیلی لائے گی ورنہ یہ ملک خداداد، یہ قوم قائد، یہ عقاب اور ان کا نشیمن ہمیشہ زاغوں کے قبضے میں رہے گا۔
( باغی مرید )
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دیہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہء سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن