لاہور میں لیپ ٹاپ اتوار بازار میں بِکنے لگے

اتوار بازار میں مناسب قیمت میں اچھے لیپ ٹاپ اور موبائل فون مل جاتے ہیں، شہری

فوٹو: ایکسپریس

لاہور میں جہاں پھلوں ،سبزیوں سمیت مختلف اشیا کے جمعہ اور اتوار بازار لگتے ہیں وہیں اب لیپ ٹاپ کے اتواربازاربھی لگنا شروع ہوگئے ہیں جہاں سے شہری سستے اورمعیاری لیپ ٹاپ خرید سکتے ہیں۔

لاہور کی ہال روڈ مارکیٹ کا شمار ملک کی ان چند بڑی مارکیٹوں میں ہوتا ہے جہاں نئے اورپرانے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور اورالیکٹرانکس کا دیگرسامان فروخت ہوتا ہے۔ یہاں روزانہ جہاں ہزاروں افراد سامان خریدنے آتے ہیں وہیں سینکڑوں لوگ پرانے موبائل فون اور لیپ ٹاپ فروخت کرنے بھی آتے ہیں۔

لاہور کی یہ سب سے اہم مارکیٹ اتوار کے دن بند ہوتی ہے لیکن بند دکانوں کے سامنے اورفٹ پاتھ پر لوگ لیپ ٹاپ اورموبائل فون بیبچتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہاں اتوار کے دن سستے موبائل فونز اورلیپ ٹاپس کابازارلگتا ہے۔

یہاں سے موبائل فون اورلیپ ٹاپ خریدنے کے لیے لاہورسمیت مختلف شہروں سے لوگ آتے ہیں، یہاں آنے والوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ یہاں سے خریدا جانت والا سامان خاص طور پرموبائل فون کہیں چوری کا تونہیں ہے؟ بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں فروخت کیا جانے والا بعض سامان چوری کا ہوتا ہے جو دوسرے شہروں اورصوبوں سے یہاں لاکر فروخت کردیا جاتا ہے۔

اتواربازارمیں لیپ ٹاپ فروخت کرنے والے دکاندار دوست محمد خان کا کہتے ہیں وہ یہ مال کوئٹہ سے لے کر آتے ہیں، یہ لاٹ کا مال ہوتا ہے ،جو لاہور میں ہی ان کے گوداموں میں پڑا ہے ،وہ صرف اتوار کے دن ہی لیپ ٹاپ بیچتے ہیں ،وہ خریدارکو ایک ماہ کی گارنٹی دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لیپ ٹاپ مختلف ممالک سے ایران بارڈر اور کراچی میں بندرگاہ کے راستے امپورٹ کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ چوری شدہ مال نہیں ہوتا۔

لیپ ٹاپ خریدنے کے لیے آنے والے ایک نوجوان محمد طحہ نے بتایا کہ وہ یہاں سے تین ،چار لیپ ٹاپ خرید چکے ہیں ، ان کا تجربہ بہت اچھا رہا ہے ،یہاں سے عام مارکیٹ کے مقابلے میں لیپ ٹاپ کافی سستا مل جاتا ہے اور ورائٹی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں سے جو لیپ ٹاپ 30 ہزار میں ملتا ہے وہ مارکیٹ میں 40 سے 50 ہزار روپے ملتا ہے۔

دوسری طرف بات کریں اگر موبائل فونز کی تو یہاں یہ خدشہ زیادہ ہوتا ہے کہ خریداجانے والا موبائل چوری شدہ تونہیں ہے۔ لاہور کی کنٹینر مارکیٹ اور ہال روڈ میں فٹ پاتھ پرموبائل بیچنے والوں کے پاس زیادہ تر چوری شدہ موبائل ہوتے ہیں جن کے ای ایم ای نمبر سافٹ ویئر کی مدد سے تبدیل کردیے جاتے ہیں۔

بعض اوقات کسی مہنگے موبائل فون کا آئی ای ایم آئی نمبر سافٹ ویئر کی مدد سے کسی خراب ، ناکارہ اور سستے موبائل فون کے آئی ای ایم آئی نمبر سے تبدیل کردیا جاتا ہے جسے آسانی سے ٹریس نہیں کیا جاسکتا۔ خریدار کم قیمت کے لالچ میں ایسے موبائل خرید لیتے ہیں اور بعد میں اگرپکڑے جائیں تو پھرقانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس حوالے سے ہال روڈ لاہور کے تاجروں کا کہنا ہے مارکیٹ میں چند ایک غیرملکی (افغان ) دکاندار تھے جو چوری کےموبائل خریدتے اور فروخت کرتے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے کارندے رکھے ہوئے تھے جن کا چوروں سے رابطہ رہتا تھا، لیکن جب سے غیرملکیوں کا انخلا شروع ہوا وہ لوگ کام چھوڑ گئے ہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل پولیس نے ایسے متعدد تاجرپکڑے تھے جو چور ی شدہ موبائل فونز خریدتے اورپھرٹمپرنگ کرکے بیچتے تھے۔


پاکستان ٹیلی کمیونیکشن کے مطابق موبائل ڈیوائس آئیڈنٹیفکیشن، رجسریشن، اوربلاکنگ سسٹم (ڈی آئی آر بی ایس) کے ذریعے 2022 میں 29.56 ملین آئی ایم ای آئی کی شناخت ڈپلیکیٹ کے طور پر کی گئی جنہیں بلاک کیا گیا۔عام الفاظ میں کہاجائے تویہ چوری شدہ ،کلون شدہ موبائل ڈیوائسز تھیں۔

ہال روڈ کے ایک تاجر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ای گیجیٹ ایپ کی وجہ سے اب کوئی بھی دکاندار چوری شدہ موبائل ڈیوائس خریدتا ہے اور نہ ہی فروخت کرتا ہے البتہ جو شہری فٹ پاتھ، یا کسی چلتے پھرتے شخص سے موبائل فون خرید لیتے ہیں اس کے ہال روڈ کے تاجر ذمہ دارنہیں ہیں۔

جاوید اقبال کہتے ہیں جب بھی کوئی شخص موبائل فون فروخت کرنے آتا ہے تو ای گیجیٹ میں اس کی تصویر، اصل شناختی کارڈ دیکھ کراس کا نمبر اور موبائل ڈیوائس کا آئی ای ایم آئی نمبر درج کیا جاتا ہے۔

اگر وہ موبائل ڈیوائس چوری شدہ ہوگی اور اس کی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں چوری کیے جانے کی پولیس رپورٹ ہوگی تو فوراً ایپ اس بارے آگاہ کردے گی۔ ایسی صورت میں میں ہم موبائل بیچنے آنے والے شخص کو باتوں میں الجھائے رکھتے ہیں اور پولیس کو اطلاع کردیتے ہیں ۔ چند ہی منٹوں میں پولیس آجاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ روزانہ دو،تین ایسے واقعات ضرور ہوتے ہیں۔

ایک اوردکاندار حاجی اشرف کہتے ہیں مارکیٹ میں کوئی پیشہ ور چور کبھی بھی چوری شدہ موبائل ڈیوائس بیچنے نہیں آئے گا بلکہ اب تو جو سمجھدارچور ہیں وہ موبائل چوری ہی نہیں کرتے، وہ نقدی اوردیگرقیمتی چیزیں لوٹ لیتے ہیں لیکن موبائل فون واپس کردیتے یا اگر فون چھین بھی لیں تو اسے ضائع کردیتے ہیں چونکہ وہ جانتے ہیں کہ موبائل فون کی وجہ سے وہ پکڑے جائیں گے۔

جو لوگ یہاں فون بیچنے آتے ہیں اور یہاں چیکنگ کے دوران معلوم ہوتا ہے کہ ڈیوائس چوری شدہ ہے ان لوگوں نے خود یا توکسی اپنے جاننے والے سے چوری شدہ موبائل لاعلمی میں خریداہوتا ہے ی اپھر انہوں نے کسی انجان شخص سے فٹ پاتھ اور اتواربازار سے خریداہوگا۔

ہال روڈ کے تاجروں کے مطابق ایسا ممکن ہے کہ ایک چور نے جس دن موبائل چوری کیا اسی دن روز فروخت کردیا جبکہ جس کا موبائل چوری ہوا تھا اس نے دوسرے دن پولیس کو آگاہ کیا تو ایسی صورت میں جب اس موبائل کا آئی ایم ای آئی نمبر ای گیجٹ میں اندراج کریں تو کوئی ایشو نہیں ہوگا، البتہ جب اس موبائل کو خریدنے والا اسے آگے بیچے گا تو پھر پکڑا جائے گا۔

دکاندار کے ساتھ جب کبھی ایسا واقعہ ہو تو پولیس ہم سے وہ موبائل برآمد کرکے ہمیں اتنی رقم ادا کردیتی ہے جتنے میں ہم نے خریدا تھا اور پھر وہ رقم چور سے وصول کی جاتی ہے۔ ای گیجیٹ میں موبائل فروخت کرنے والے کی تصویر اورآئی ڈی کارڈ دونوں کا ریکارڈ محفوظ ہوتا ہے۔

پنجاب پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ 2019 سے موبائل فون کی خرید و فروخت یا مرمت کے کام سے وابستہ تمام افراد کے لیے خود کو ای گیجٹ مانیٹرنگ سسٹم نامی ایپ میں رجسٹر کروانا لازمی ہےاور رجسٹرڈ دکاندار موبائل کی فروخت یا مرمت کے لیے آنے والے تمام افراد کی شناختی معلومات، آئی ایم ای آئی نمبر کے ساتھ اس ایپلی کیشن میں محفوظ کرنے کے پابند ہیں۔ اس ایپ سے موبائل فون چھیننے یاپھرچوری شدہ موبائل کسی دکاندار کو بیچنے کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
Load Next Story