معاشی دھماکا
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں انتہائی نمایاں اضافہ ہونا چاہیے ۔۔۔
11 مئی 1998 میں ہندوستان کے ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں پاکستانی عوام کا دباؤ حکومت پاکستان پر ایٹمی دھماکے کے لیے بڑھتا چلا گیا۔ بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد سے ہی پاکستان کے وزیر اعظم ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کرچکے تھے۔ جس کی وجہ سے حکومت پر بیرونی ممالک کے سربراہوں کا دباؤ بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ پاکستان ایٹمی دھماکوں سے باز رہے۔لیکن اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف ان تمام دباؤ اور پھر مختلف پیش کشوں کو ٹھکراتے چلے جا رہے تھے۔
ملک میں بھی جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا جن میں حکومت پر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ بیرونی دباؤ کو ملحوظ خاطر میں نہ لائے اور پاکستانی عوام کے مفاد کو عزیز تر رکھا جائے اور دھماکوں سے گریز نہ کیا جائے۔ اس دوران اس بات کے بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر عالمی پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔ جس کے مضر اثرات پاکستان کی معیشت پر مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے عالمی تجارتی روابط پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن پاکستان کے عوام نے ہر قسم کے مسائل جھیلنے کے عزم کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا۔
وہ ہر مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ حتیٰ کہ ان دنوں جب سرکاری ملازمین کی تنظیم 1998 کے بجٹ کے لیے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ ایپکا کے عہدیداروں نے یہ کہہ کر اپنے مطالبات سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا کہ پاکستان فوری ایٹمی دھماکے کرے اور پاکستان کے سرکاری ملازمین اس سال یعنی 1998 کے بجٹ کے موقعے پر اپنی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ ترک کردیں گے کیونکہ دھماکے کے بعد پاکستان پر کئی اقسام کی معاشی پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔ 28 مئی والے روز جب ایپکا کی ریلی نکالی گئی اور ملازمین کی جانب سے نیز ایپکا تنظیم کے عہدیداروں کی جانب سے 3 بجے سہ پہر تقریر کی جا رہی تھی کہ حکومت فوری دھماکے کرے ایپکا تنظیم تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے سے فوری دستبردار ہوجائے گی۔
ابھی 3 بج کر 16 منٹ ہوئے تھے کہ چاغی کے پہاڑوں نے گواہی دے دی کہ 5 ایٹمی دھماکے کردیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پورے پاکستان اور بیرون ملک پاکستانیوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی۔ ملک میں جشن کا سماں پیدا ہوگیا۔ حکومت نے اور عوام نے بڑی خوش دلی کے ساتھ پاکستان پر عائد مختلف پابندیوں کو لیا۔ امریکا کی جانب سے معاشی پابندی عائد کردی گئی قابل ذکر امر یہ ہے کہ ان دنوں امریکا پاکستان کو گندم برآمد کر رہا تھا اور امریکا نے اپنے کسانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر گندم کی برآمد پر پابندی عائد نہ کی۔ بلکہ پاکستان کو گندم کی برآمد جاری رکھی تاکہ امریکا کے کسانوں کو کسی قسم کا نقصان نہ برداشت کرنا پڑے۔
بہرحال ان دھماکوں کے بعد حکومت نے عوام کو اطمینان دلایا کہ اب جلد ہی معاشی دھماکے بھی کیے جائینگے جس سے عوام کو ریلیف میسر آئیگا۔ عوام سکون کا سانس لیں گے۔ ادھر چاغی میں ہونیوالے دھماکوں کی جیسے ہی سڈنی آسٹریلیا کی رسدگاہ نے تصدیق کی اس کے ساتھ ہی پوری دنیا میں کہرام بپا ہوگیا۔ ایک واویلا شروع کردیا گیا۔ ادھر بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کے 17 دن تک دنیا میں بھارت کے بارے میں خاموشی طاری رہی۔
لیکن پاکستان کے بارے میں ایک ہنگامہ برپا کردیا گیا تھا۔ پاکستان نے پابندی کے یہ ایام بسر کیے اور اس بات کی توقع کی جانے لگی کہ جلد ہی معاشی دھماکے کرکے عوام کو ریلیف پہنچایا جائے گا۔ لیکن گزشتہ 15 برسوں کے بعد ملک میں ناقص معاشی منصوبہ بندی، بیرونی قرضوں میں جکڑ دیے جانے کے باعث تیز عالمی مالیاتی اداروں کے ناروا شرائط اور بیرونی قرضوں کا تیز تعمیری استعمال کرپشن اور دیگر مسائل کے باعث پاکستانی عوام غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر معاشی مسائل سے دوچار ہوگئی۔ اس دوران عوام کی قوت خرید تیزی کے ساتھ گرتی چلی گئی۔ جس کے باعث مہنگائی کے طوفان نے عوام کا جینا دوبھر کردیا۔
گزشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا میں مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ 8 تا 10 سال میں مہنگائی میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت پاکستان میں ڈالر کی قدر میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا جس کے باعث درآمدی بل بہت حد تک بڑھ گیا۔ 2004 کے بعد سے امپورٹ بل پر نظر ڈالیں تو اس میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود 2014 کا آغاز ہوتے ہی پاکستانی معیشت کے لیے بہت سی خوش افزا خبریں موصول ہونا شروع ہوگئیں۔ چین کے ساتھ 32 ارب ڈالر کے مختلف معاہدے کیے گئے اسی دوران ترکی کے وزیراعظم پاکستان تشریف لائے اور لاہور میں کئی معاہدے کیے گئے۔ مختلف جگہوں پر پاور منصوبوں کا افتتاح کیا گیا۔ کیونکہ معاشی دھماکے کے لیے ضروری تھا کہ اسے زبردست توانائی بھی حاصل ہو اور پاکستان توانائی کے مسائل سے دوچار ہوچکا تھا۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ ایک اطلاع کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران ملک میں مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری میں 133 فی صد اضافہ ہوکر 2 ارب 97 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ ماہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں یورو بانڈ متعارف کرائے تھے جس میں سے 2 ارب ڈالر کی آفر قبول کرلی گئی تھی۔
3 سال کے بعد پاکستان میں پہلی مرتبہ 2 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی ہے یوروبانڈ۔ ٹیلی کام لائسنسز اور تیل و گیس کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوئی ہے چند دنوں میں نندی پور پاور پراجیکٹ اپنی پیداوار کا آغاز کر رہا ہے اس کے علاوہ مختلف پاور منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق فی الحال زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں جسے جولائی تک 15 ارب ڈالر تک پہنچا دیا جائے گا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آیندہ سال بھی ڈالر 98 روپے تک ہی رہے۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق معیشت صحیح ٹریک پر گامزن ہوچکی ہے اگر ایسا ہی ہے تو اس بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا جانا چاہیے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں انتہائی نمایاں اضافہ ہونا چاہیے۔ مختلف چیزوں پر سبسڈی کم یا ختم کرنے کے باعث جس مہنگائی سے عوام دوچار ہوچکے ہیں انھیں واپس کیا جانا چاہیے۔ ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں جس سے عوام پر سے مہنگائی کا بوجھ کم سے کم ہوسکے۔ اور ایسا معاشی دھماکے کی صورت میں ہوگا کہ بیروزگاروں کی فوج ظفر موج کو روزگار حاصل ہوجائے۔ عوام کے لیے آٹا، گھی، چینی، دال، سبزیاں، پھل اور دیگر لوازمات زندگی سستی ہوجائیں۔
اگر گزشتہ 10 سال کا ہی جائزہ لیں تو پاکستان کی نسبت دنیا کے بیشتر ملکوں سے مہنگائی کا تناسب بہت ہی کم رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں 10 سال سے مختلف اشیا کی قیمتوں میں 3 سے لے کر 10 گنا تک اضافہ ہوچکا ہے۔ 2004 میں آٹا 13 روپے فی کلو دستیاب تھا آج 52 روپے فی کلو مل رہا ہے۔ یعنی 4 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ کھانے کا تیل 35 روپے سے بڑھ کر آج 170 روپے ہوچکا ہے یعنی 5 گنا اضافہ۔ دالیں 20 تا 30 روپے فی کلو دستیاب تھیں آج دال 100 روپے سے 200 روپے تک جا پہنچی ہے۔ اسی طرح مختلف اشیا کا موازنہ کیا جائے تو مہنگائی جس عروج اور تیزی کے ساتھ پاکستان میں بڑھی ہے اس کا تصور دیگر ملکوں میں نہیں کیا جاسکتا ہے۔
رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور رمضان المبارک گزرنے کے بعد اشیا کی قیمت اپنی جگہ واپس ہوجاتی ہیں۔ حکومت کم ازکم اس مبارک ماہ میں ہی معاشی دھماکہ کر دکھائے کہ یکم رمضان المبارک سے قبل جو قیمت تھی وہی رہے گی کسی بھی شے کی قیمت میں رتی برابر بھی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ یکم رمضان المبارک کو ہی آپ ملاحظہ فرمائیے گا کہ کس طرح پھلوں کے دام بڑھتے ہیں۔
دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ صرف پھل کو ہی لے لیں تو کیلا 30 روپے درجن سے بڑھ کر 100 روپے درجن، خربوزہ 40 روپے کلو سے بڑھ کر 100 سے بھی زائد ہوچکا ہوگا اسی طرح دیگر اشیا کا حال ہوگا۔ لہٰذا ایک ماہ کے لیے ایسا معاشی دھماکہ کیا جائے کہ کسی بھی صورت میں ماہ رمضان المبارک میں کسی ایک بھی شے کی قیمت میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہ ہونے پائے۔
لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پرائس کنٹرول کمیٹیوں، مجسٹریٹی نظام اور اشیا کی قیمتوں پر مکمل کنٹرول کے لیے ہر ممکن طریق کار اپنائے تاکہ ماہ رمضان المبارک میں روزہ دار مہنگائی کے باعث جس کرب میں مبتلا ہوتے ہیں اس کا ازالہ ممکن ہوسکے۔ اگر ماہ رمضان المبارک میں ہی حکومت کا اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے انھیں انتہائی مناسب رکھنے کا تجربہ کامیاب ہوجاتا ہے تو سمجھیے کہ حکومت کا معاشی دھماکہ کا تجربہ بھی آیندہ دنوں کے لیے کامیاب ہوجائے گا۔ جس کے نتیجے میں عوام کو مہنگائی میں شدید اضافے سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا جس سے عوام کو ریلیف حاصل ہوگا۔
ملک میں بھی جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا جن میں حکومت پر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ بیرونی دباؤ کو ملحوظ خاطر میں نہ لائے اور پاکستانی عوام کے مفاد کو عزیز تر رکھا جائے اور دھماکوں سے گریز نہ کیا جائے۔ اس دوران اس بات کے بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر عالمی پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔ جس کے مضر اثرات پاکستان کی معیشت پر مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے عالمی تجارتی روابط پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن پاکستان کے عوام نے ہر قسم کے مسائل جھیلنے کے عزم کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا۔
وہ ہر مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ حتیٰ کہ ان دنوں جب سرکاری ملازمین کی تنظیم 1998 کے بجٹ کے لیے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ ایپکا کے عہدیداروں نے یہ کہہ کر اپنے مطالبات سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا کہ پاکستان فوری ایٹمی دھماکے کرے اور پاکستان کے سرکاری ملازمین اس سال یعنی 1998 کے بجٹ کے موقعے پر اپنی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ ترک کردیں گے کیونکہ دھماکے کے بعد پاکستان پر کئی اقسام کی معاشی پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔ 28 مئی والے روز جب ایپکا کی ریلی نکالی گئی اور ملازمین کی جانب سے نیز ایپکا تنظیم کے عہدیداروں کی جانب سے 3 بجے سہ پہر تقریر کی جا رہی تھی کہ حکومت فوری دھماکے کرے ایپکا تنظیم تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے سے فوری دستبردار ہوجائے گی۔
ابھی 3 بج کر 16 منٹ ہوئے تھے کہ چاغی کے پہاڑوں نے گواہی دے دی کہ 5 ایٹمی دھماکے کردیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پورے پاکستان اور بیرون ملک پاکستانیوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی۔ ملک میں جشن کا سماں پیدا ہوگیا۔ حکومت نے اور عوام نے بڑی خوش دلی کے ساتھ پاکستان پر عائد مختلف پابندیوں کو لیا۔ امریکا کی جانب سے معاشی پابندی عائد کردی گئی قابل ذکر امر یہ ہے کہ ان دنوں امریکا پاکستان کو گندم برآمد کر رہا تھا اور امریکا نے اپنے کسانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر گندم کی برآمد پر پابندی عائد نہ کی۔ بلکہ پاکستان کو گندم کی برآمد جاری رکھی تاکہ امریکا کے کسانوں کو کسی قسم کا نقصان نہ برداشت کرنا پڑے۔
بہرحال ان دھماکوں کے بعد حکومت نے عوام کو اطمینان دلایا کہ اب جلد ہی معاشی دھماکے بھی کیے جائینگے جس سے عوام کو ریلیف میسر آئیگا۔ عوام سکون کا سانس لیں گے۔ ادھر چاغی میں ہونیوالے دھماکوں کی جیسے ہی سڈنی آسٹریلیا کی رسدگاہ نے تصدیق کی اس کے ساتھ ہی پوری دنیا میں کہرام بپا ہوگیا۔ ایک واویلا شروع کردیا گیا۔ ادھر بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کے 17 دن تک دنیا میں بھارت کے بارے میں خاموشی طاری رہی۔
لیکن پاکستان کے بارے میں ایک ہنگامہ برپا کردیا گیا تھا۔ پاکستان نے پابندی کے یہ ایام بسر کیے اور اس بات کی توقع کی جانے لگی کہ جلد ہی معاشی دھماکے کرکے عوام کو ریلیف پہنچایا جائے گا۔ لیکن گزشتہ 15 برسوں کے بعد ملک میں ناقص معاشی منصوبہ بندی، بیرونی قرضوں میں جکڑ دیے جانے کے باعث تیز عالمی مالیاتی اداروں کے ناروا شرائط اور بیرونی قرضوں کا تیز تعمیری استعمال کرپشن اور دیگر مسائل کے باعث پاکستانی عوام غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر معاشی مسائل سے دوچار ہوگئی۔ اس دوران عوام کی قوت خرید تیزی کے ساتھ گرتی چلی گئی۔ جس کے باعث مہنگائی کے طوفان نے عوام کا جینا دوبھر کردیا۔
گزشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا میں مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ 8 تا 10 سال میں مہنگائی میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت پاکستان میں ڈالر کی قدر میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا جس کے باعث درآمدی بل بہت حد تک بڑھ گیا۔ 2004 کے بعد سے امپورٹ بل پر نظر ڈالیں تو اس میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود 2014 کا آغاز ہوتے ہی پاکستانی معیشت کے لیے بہت سی خوش افزا خبریں موصول ہونا شروع ہوگئیں۔ چین کے ساتھ 32 ارب ڈالر کے مختلف معاہدے کیے گئے اسی دوران ترکی کے وزیراعظم پاکستان تشریف لائے اور لاہور میں کئی معاہدے کیے گئے۔ مختلف جگہوں پر پاور منصوبوں کا افتتاح کیا گیا۔ کیونکہ معاشی دھماکے کے لیے ضروری تھا کہ اسے زبردست توانائی بھی حاصل ہو اور پاکستان توانائی کے مسائل سے دوچار ہوچکا تھا۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ ایک اطلاع کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران ملک میں مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری میں 133 فی صد اضافہ ہوکر 2 ارب 97 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ ماہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں یورو بانڈ متعارف کرائے تھے جس میں سے 2 ارب ڈالر کی آفر قبول کرلی گئی تھی۔
3 سال کے بعد پاکستان میں پہلی مرتبہ 2 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی ہے یوروبانڈ۔ ٹیلی کام لائسنسز اور تیل و گیس کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوئی ہے چند دنوں میں نندی پور پاور پراجیکٹ اپنی پیداوار کا آغاز کر رہا ہے اس کے علاوہ مختلف پاور منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق فی الحال زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں جسے جولائی تک 15 ارب ڈالر تک پہنچا دیا جائے گا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آیندہ سال بھی ڈالر 98 روپے تک ہی رہے۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق معیشت صحیح ٹریک پر گامزن ہوچکی ہے اگر ایسا ہی ہے تو اس بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا جانا چاہیے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں انتہائی نمایاں اضافہ ہونا چاہیے۔ مختلف چیزوں پر سبسڈی کم یا ختم کرنے کے باعث جس مہنگائی سے عوام دوچار ہوچکے ہیں انھیں واپس کیا جانا چاہیے۔ ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں جس سے عوام پر سے مہنگائی کا بوجھ کم سے کم ہوسکے۔ اور ایسا معاشی دھماکے کی صورت میں ہوگا کہ بیروزگاروں کی فوج ظفر موج کو روزگار حاصل ہوجائے۔ عوام کے لیے آٹا، گھی، چینی، دال، سبزیاں، پھل اور دیگر لوازمات زندگی سستی ہوجائیں۔
اگر گزشتہ 10 سال کا ہی جائزہ لیں تو پاکستان کی نسبت دنیا کے بیشتر ملکوں سے مہنگائی کا تناسب بہت ہی کم رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں 10 سال سے مختلف اشیا کی قیمتوں میں 3 سے لے کر 10 گنا تک اضافہ ہوچکا ہے۔ 2004 میں آٹا 13 روپے فی کلو دستیاب تھا آج 52 روپے فی کلو مل رہا ہے۔ یعنی 4 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ کھانے کا تیل 35 روپے سے بڑھ کر آج 170 روپے ہوچکا ہے یعنی 5 گنا اضافہ۔ دالیں 20 تا 30 روپے فی کلو دستیاب تھیں آج دال 100 روپے سے 200 روپے تک جا پہنچی ہے۔ اسی طرح مختلف اشیا کا موازنہ کیا جائے تو مہنگائی جس عروج اور تیزی کے ساتھ پاکستان میں بڑھی ہے اس کا تصور دیگر ملکوں میں نہیں کیا جاسکتا ہے۔
رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور رمضان المبارک گزرنے کے بعد اشیا کی قیمت اپنی جگہ واپس ہوجاتی ہیں۔ حکومت کم ازکم اس مبارک ماہ میں ہی معاشی دھماکہ کر دکھائے کہ یکم رمضان المبارک سے قبل جو قیمت تھی وہی رہے گی کسی بھی شے کی قیمت میں رتی برابر بھی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ یکم رمضان المبارک کو ہی آپ ملاحظہ فرمائیے گا کہ کس طرح پھلوں کے دام بڑھتے ہیں۔
دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ صرف پھل کو ہی لے لیں تو کیلا 30 روپے درجن سے بڑھ کر 100 روپے درجن، خربوزہ 40 روپے کلو سے بڑھ کر 100 سے بھی زائد ہوچکا ہوگا اسی طرح دیگر اشیا کا حال ہوگا۔ لہٰذا ایک ماہ کے لیے ایسا معاشی دھماکہ کیا جائے کہ کسی بھی صورت میں ماہ رمضان المبارک میں کسی ایک بھی شے کی قیمت میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہ ہونے پائے۔
لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پرائس کنٹرول کمیٹیوں، مجسٹریٹی نظام اور اشیا کی قیمتوں پر مکمل کنٹرول کے لیے ہر ممکن طریق کار اپنائے تاکہ ماہ رمضان المبارک میں روزہ دار مہنگائی کے باعث جس کرب میں مبتلا ہوتے ہیں اس کا ازالہ ممکن ہوسکے۔ اگر ماہ رمضان المبارک میں ہی حکومت کا اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے انھیں انتہائی مناسب رکھنے کا تجربہ کامیاب ہوجاتا ہے تو سمجھیے کہ حکومت کا معاشی دھماکہ کا تجربہ بھی آیندہ دنوں کے لیے کامیاب ہوجائے گا۔ جس کے نتیجے میں عوام کو مہنگائی میں شدید اضافے سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا جس سے عوام کو ریلیف حاصل ہوگا۔