الیکشن مہم میں ہلچل کیوں نہیں

اس ہفتے تمام غیر یقینی صورتحال کاخاتمہ ہوجائے گااورپھرساری پارٹیاں یکسو ہوکر میدان عمل میں دکھائی دیں گی

mnoorani08@hotmail.com

الیکشن میں تقریباً ایک ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابی مہم بہت ہی سست رفتاری کے ساتھ چل رہی ہے، کسی بھی پارٹی نے ابھی تک بڑے پیمانوں پرجلسے شروع نہیں کیے ہیں۔

صرف پاکستان پیپلزپارٹی کے بلاول زرداری بھٹو نے کچھ شہروں میں جاجاکر انتخابی مہم شروع کررکھی ہے لیکن اس مہم میں بھی وہ گرم جوشی اورجذبہ دیکھا نہیں گیا جو ہمارے جیسے ملکوں میں انتخابی مہم کا خاصہ ہواکرتا ہے۔جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنے کیے کی سزا بھگت رہی ہے۔

دفاعی اداروں کے خلاف اس کی جارحانہ حکمت عملی نے اسے آج اس مقام پرپہنچادیا ہے کہ اس کی قیادت کے بارے میں کسی کو بھی پتا نہیں ہے کہ وہ ذاتی طور پرالیکشن لڑبھی سکے گی یا نہیں۔اس کی باقی ماندہ قیادت میں سے بہت سے لوگوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے اوربہت سے دوسری سیاسی پارٹیوں کا حصہ بن چکے ہیں،وہ کھل کراپنے خیالات کا اظہار بھی نہیں کرپارہے ہیں۔

اُن کے رویوں سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ وہ وقت کے بدل جانے کا انتظار کررہے ہیں اورانھیں اُمید ہے کہ جس طرح میاں نوازشریف کے لیے آج حالات سازگار ہوچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کل اُنکے لیڈر کے لیے بھی ایسا ہی کچھ ہوجائے۔

انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ میاں صاحب کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کے میسر ہونے میں تقریباً چھ سال کا وقت لگ گیا جب کہ خان صاحب کو ابھی صرف چند ماہ ہی گزرے ہیں۔2017 ء میں میاں صاحب کو نہ صرف اقتدار سے معزول کیاگیااورساتھ ہی ساتھ انھیںتاحیات نااہل بھی قرار دلوایاگیاتاکہ اُن کے واپس برسراقتدار آنے کے تمام امکانات ختم کردیے جائیں۔

انھیں اوراُن کی بیٹی کو الیکشن سے صرف 2 ہفتے قبل جیل میں بھی ڈال دیاگیااورصرف ایک شخص کواقتدار دلوانے کے تمام راستے ہموار کر دیے گئے لیکن پھربھی جب وہ الیکشن کے دن مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرپایاتورات بارہ بجے اچانک نتائج کا سلسلہ روک دیاگا اوروجہRTS کی خرابی بتائی گئی۔

صبح معلوم ہوا کہ PTI نہ صرف وفاق میں بلکہ اس ملک کے چارمیں سے تین صوبوں میں بھی جیت گئی۔ ایسا ہی کچھ اس وقت مسلم لیگ نون کے ساتھ ہوا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو خوش کرنے کے لیے سندھ صوبے کی حکومت دے دی گئی اوروہ اسی کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر خاموش ہوگئی ۔ کراچی شہر میں MQM کی شکستہ حالت دیکھ کر 22 میں سے 14نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی گئیں اوراسی چودہ سیٹوں کی برتری نے خان صاحب کو وزیراعظم بنادیا۔

ہاں تو بات ہورہی تھی کہ اس وقت ہمارے یہاں انتخابی مہم کیوں سست روی کاشکار ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کو درپردہ یقین دہانی کروادی گئی ہے کہ وہی اس ملک کے چوتھی بار حکمران جماعت بننے جارہی ہے لہٰذا انھیں پھر اتنی محنت کرنے کی بھلاکیاضرورت ہے۔


دوسرے انھیں اپنے اُمیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دینے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ ایک وقت تھا کہ PTI کے لوگ کہا کرتے تھے کہ نون لیگ کو اگلے الیکشن میں اُمیدوار بھی نہیں ملیں گے لیکن اب یہ حال ہے کہ ایک ایک سیٹ کے لیے کئی کئی اُمیدوار میدان میں آس لگائے بیٹھے ہیں اوراگر کسی کوٹکٹ نہ دیاگیا تو اس کی ناراضی کا خطرہ یقینی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کوایسی کوئی مشکل درپیش نہیں ہے ۔اسی لیے اس نے اپنا کام مکمل کردیا ہے اوروہ چھوٹے موٹے جلسے بھی کررہی ہے۔ انتخابی مہم میں ابھی تک جوہلچل نظر آرہی ہے وہ صرف بلاول بھٹوکی وجہ سے دکھائی دے رہی ہے۔ وہ چاروں صوبوں میں جاکرجلسے کرچکے ہیں ۔

پیپلز پارٹی کے پاس کارکردگی کے حوالے سے بولنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ،لہٰذا اس کی تمام تر کوشش دونوں مخالف پارٹیوں کے خلاف طنز بھرے بیانوں پر ہے۔ ووٹروں سے کیے گئے وعدوں میں ملک کی ترقی اور خوشحال کاکوئی پروگرام بھی نہیں بلکہ صرف مفت کارڈوں کی فراہمی کو ہی اپنا منشوربناکرپیش کیا جا رہا ہے۔

بلاول بھٹو بے نظیرانکم سپورٹ کارڈ کی طرز پر صحت کارڈ، عورت کارڈ،نوجوان کارڈ اور مزدورکارڈ دینے کاوعدہ کرتے ہیں۔خان صاحب نے 2018ء کے الیکشن میں پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیاتھا، اوراب بلاول صاحب تیس لاکھ گھربنانے کاوعدہ کررہے ہیں۔ اُن کے پاس ملک کے مالی اورمعاشی مسائل کے حل کی کوئی تجویز یامنصوبہ نہیں ہے۔گمبٹ شہرمیں ایک اسپتال اورکراچی میں پہلے سے قائم NICVD ہی کووہ اپنی زبردست کامیابی قراردیتے دکھائی دیتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کی بھی دلچسپی اس الیکشن میں بہت ہی کم ہے، وہ توپہلے ہی دہشت گردی اورسخت موسم کو الیکشن کے التواء کے لیے وجہ قراردے چکے ہیں۔ اسی طرح ANP بھی اپنی انتخابی مہم چلانے میں کچھ مخمصے اورہچکچاہٹ کاشکارہے۔ ایسالگتاہے کہ ساری پارٹیاں پہلے سے حساب لگاچکی ہیں کہ انھیں اس الیکشن میں کتنی کامیابی نصیب ہوگی ۔ویسے بھی پارٹیوں میں اصل مقابلہ صرف پنجاب کی حد تک ہی ہے ۔

باقی صوبوں میں توعلاقائی اورمذہبی فیکٹر نمایاں دکھائی دیتاہے۔ مسلم لیگ ق اورعوامی مسلم لیگ کے پاس تو اکیلے برسراقتدارآنے کے لیے اتنے اُمیدوار ہی نہیں ہیں۔ جو پارٹی بھی وفاق اورصوبوں میں حکومت بنائے گی وہ اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈال کر اپنی حیثیت سے زیادہ فوائد سمیٹ لے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کومعلوم ہے کہ حالات اس کے لیے اتنے سازگار نہیں ہیں کہ وہ بغیر بلے کے نشان کے الیکشن جیت پائے۔اس کی آخری کوشش یہی ہے کہ بلے کانشان اسے مل جائے ۔ وہ مل گیاتوپھر کوئی امید بن سکتی ہے کہ وہ اپنی مخالف قوتوں کو ٹف ٹائم دے سکے۔

یہ سب کچھ اب عدالتی فیصلوں پرمنحصر ہے۔ اس ہفتے تمام غیر یقینی صورتحال کاخاتمہ ہوجائے گااورپھرساری پارٹیاں یکسو ہوکر میدان عمل میں دکھائی دیں گی۔ویسے بھی موجوہ ملکی حالات میں ہم کوئی لمبی اورطویل انتخابی مہم کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں، ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ سارا انتخابی عمل امن وسکون سے مکمل ہوجائے اورآزادانہ اورشفاف طریقہ سے نئی حکومت کاقیام ممکن ہوپائے۔
Load Next Story