بداعتمادی کا سیاسی گرداب
حالات اگر مشکل ہیں تو بھی ان کا علاج ممکن ہے اور ہم حالات سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں
بنیادی مسئلہ قومی سطح پر لوگوں میں اعتماد کی بحالی کا ہے ۔ لوگوں میں اس اعتماد کی ضرورت ہے کہ ہم ایک درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
حالات اگر مشکل ہیں تو بھی ان کا علاج ممکن ہے اور ہم حالات سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ ہی سوچ اور فکر لوگوں کو یکجا کرتی ہے اور ان میںحالات کا مقابلہ کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے ۔
پاکستان میں لوگوں کا ریاستی اور حکومتی نظام پر اعتماد متزلزل ہورہا ہے ۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم ایک بڑے گرداب میں پھنس گئے ہیں، اس سے نکلنے کے لیے وہ ملکی نظام کے مقابلے میں کسی جادوئی عمل یا کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں ۔
سیاسی قیادت کی موقع پرستی اور نااہلی اور اسٹیبلیشمنٹ سے جڑی سیاست نے قومی سطح پر ایک بڑا گرداب بنادیا ہے ۔ نظام کی عملی درستگی کا شعور رکھنے اورایک جامع متبادل منصوبہ رکھنے والے اہل دانش اور ریاستی و حکومتی نظام چلانے والوں کے درمیان خلا پیدا ہوگیا ہے ۔ جو لوگ متبادل نظام اور ان حالات سے نکلنے کی کوئی حکمت عملی رکھتے ہیں، ان کی کوئی شنوائی یا رسائی فیصلہ ساز اداروں تک ممکن نہیں ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سب کچھ کاغذوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے اور جو بڑے فیصلے ہم نے کرنے ہیں وہ نہیں ہورہے اور طاقت ور طبقہ سمجھتا ہے کہ ان متبادل تجاویز یا نظام کو اختیار کرنے کا مقصد اپنے ذاتی مفادات کو عملا قربان کرنا ہوگا جس کے لیے کوئی بھی غیر معمولی یا سخت گیر اقدامات اٹھانے کے لیے تیار نہیں ۔
ایک بحث بیرون ملک میں مقیم لوگوں کی پاکستانی سیاست پر اٹھنے والی آوازوں پر اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی سیاسی سرگرمیوں پر جاری ہے،اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ یہ سرگرمیاںکسی بھی صورت میں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں اور ان سرگرمیوں کو ملک کے خلاف سمجھا جارہا ہے۔ جب کہ ایک طبقہ خصوصاً پی ٹی آئی سے جڑے لوگ ان سرگرمیوں کو متبادل آواز قرار دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے ایک نئی جہت کو جنم دیا ہے جہاں سب کو اپنی بات کرنے کی آزادی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں ہمیں بڑے پیمانے پر غیرذمے داری کی جھلکیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان آوازوں کو چاہے وہ ہمارے مخالف ہیں یا ریڈ لائن کرا س ہورہی ہے ان سے نمٹنے کا حل طاقت سے ممکن ہے ؟ یا ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ہم خود یعنی ابلاغیات سے وابستہ لوگ اور ریاست نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟ بے روزگاری ، مہنگی تعلیم ، سیاسی بے یقینی ، بے انصافی اور انتہاپسند نظریات کے سوا نوجوانوں کے پاس سننے اور دیکھنے کے لیے کیا ہے ۔ جب تک ہم نظام کو نوجوانوں کی کے فریم ورک سے نہیں دیکھیں گے، ان کے مسائل نہیں سمجھیں گے۔
ایک اہم مسئلہ اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ ہے۔ اس کا ملکی وسائل اور فیصلہ سازی پر قبضہ ہے۔ اس کی وجہ سے ملک آئین و قانون یا جمہوری اصولوں پر چلانے کے بجائے اشرافیہ کے مفاد کو سامنے رکھ کر چلایا جارہا ہے۔ یقینی طور پر اس کا ایک ردعمل سماج میں موجود ہے ا ور لوگوں کو لگتا ہے کہ ا ن کی ریاستی نظام میں حیثیت ایک یرغمالی کی ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں بہترمستقبل کے نقشے میں دھند کے سائے زیادہ گہرے نظر آتے ہیں۔جب آپ سیاسی اور جمہوری نظام میں تبدیلی کے عمل کو کمزور یا ختم کریں گے تو اس کا ایک نفسیاتی اثر لوگوں کی نظام سے لاتعلقی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔کنٹرولڈ نظام یا عوامی خواہشات کے برعکس نظام چلانے کی روش نے ہم کو محدود کردیا ہے۔لوگ آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور پرانے خیالات ، سوچ اور فکر کے مقابلے میں نئے خیال کے ساتھ آگے بڑھنا، ا ن کی فطری خواہش ہے۔
لیکن جب ان کے سامنے نظام رکاوٹ بن کر کھڑا ہوجائے گا تو ان میں ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ عام انتخابات کا معاملہ ہی دیکھ لیں، اس کو بھی ہم متنازعہ اور ناکام بنانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ ملک محاذآرائی اور سیاسی کشیدگی کا مسلسل شکار ہے۔ موجود ٹکراؤ نئے مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ہم ایک عجیب موڑ پر کھڑے ہیں جہاں خواہشات کو زمینی حقائق پر برتری حاصل ہے۔ ہم سیاسی، معاشرتی اور معاشی ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکام ہورہے ہیں ۔
ہمارا نظام انصاف ہو، بیوروکریسی ہو، سیاسی قیادت ہو، وکلا حضرات ہوں یا الیکشن کمیشن، ان سب کو دیکھیں تولگتا ہے کہ وہ تقسیم کا شکار ہوگئے ہیں ۔ کبھی کوئی ہیرو اور کبھی ولن کا کھیل تسلسل سے جاری ہے۔
سیاسی لوگ سیاست کا ہر تنازعہ عدالتوں میں لارہے ہیں۔ عدالتیں اگر ان کے حق میں فیصلہ کریں تو عدالتیں شفاف اور اگر یہ ہی عدالتیں فیصلے خلاف کریں تو عدالتوں کے خلاف محاذ آرائی یا الزام تراشیاں کی جاتی ہیں۔ میرے خیال میں سیاسی و گروہی مفادات کا پس منظر رکھنے والی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات سے کیسے نکلا جائے۔ نکلنے کا واحد راستہ اپنی اپنی محدود سوچ اور فکر سے باہر نکل کر ہی مسائل کو دیکھنے سے جڑا ہوا ہے ۔ سیاست دان ہوں یا غیر سیاسی قوتیں ان کو قومی یا ریاستی مسائل کو ایک بڑے فریم ورک میں دیکھ کر ہی نئی حکمت عملیاں اختیار کرنا ہوںگی ۔
حالات اگر مشکل ہیں تو بھی ان کا علاج ممکن ہے اور ہم حالات سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ ہی سوچ اور فکر لوگوں کو یکجا کرتی ہے اور ان میںحالات کا مقابلہ کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے ۔
پاکستان میں لوگوں کا ریاستی اور حکومتی نظام پر اعتماد متزلزل ہورہا ہے ۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم ایک بڑے گرداب میں پھنس گئے ہیں، اس سے نکلنے کے لیے وہ ملکی نظام کے مقابلے میں کسی جادوئی عمل یا کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں ۔
سیاسی قیادت کی موقع پرستی اور نااہلی اور اسٹیبلیشمنٹ سے جڑی سیاست نے قومی سطح پر ایک بڑا گرداب بنادیا ہے ۔ نظام کی عملی درستگی کا شعور رکھنے اورایک جامع متبادل منصوبہ رکھنے والے اہل دانش اور ریاستی و حکومتی نظام چلانے والوں کے درمیان خلا پیدا ہوگیا ہے ۔ جو لوگ متبادل نظام اور ان حالات سے نکلنے کی کوئی حکمت عملی رکھتے ہیں، ان کی کوئی شنوائی یا رسائی فیصلہ ساز اداروں تک ممکن نہیں ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سب کچھ کاغذوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے اور جو بڑے فیصلے ہم نے کرنے ہیں وہ نہیں ہورہے اور طاقت ور طبقہ سمجھتا ہے کہ ان متبادل تجاویز یا نظام کو اختیار کرنے کا مقصد اپنے ذاتی مفادات کو عملا قربان کرنا ہوگا جس کے لیے کوئی بھی غیر معمولی یا سخت گیر اقدامات اٹھانے کے لیے تیار نہیں ۔
ایک بحث بیرون ملک میں مقیم لوگوں کی پاکستانی سیاست پر اٹھنے والی آوازوں پر اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی سیاسی سرگرمیوں پر جاری ہے،اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ یہ سرگرمیاںکسی بھی صورت میں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں اور ان سرگرمیوں کو ملک کے خلاف سمجھا جارہا ہے۔ جب کہ ایک طبقہ خصوصاً پی ٹی آئی سے جڑے لوگ ان سرگرمیوں کو متبادل آواز قرار دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے ایک نئی جہت کو جنم دیا ہے جہاں سب کو اپنی بات کرنے کی آزادی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں ہمیں بڑے پیمانے پر غیرذمے داری کی جھلکیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان آوازوں کو چاہے وہ ہمارے مخالف ہیں یا ریڈ لائن کرا س ہورہی ہے ان سے نمٹنے کا حل طاقت سے ممکن ہے ؟ یا ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ہم خود یعنی ابلاغیات سے وابستہ لوگ اور ریاست نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟ بے روزگاری ، مہنگی تعلیم ، سیاسی بے یقینی ، بے انصافی اور انتہاپسند نظریات کے سوا نوجوانوں کے پاس سننے اور دیکھنے کے لیے کیا ہے ۔ جب تک ہم نظام کو نوجوانوں کی کے فریم ورک سے نہیں دیکھیں گے، ان کے مسائل نہیں سمجھیں گے۔
ایک اہم مسئلہ اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ ہے۔ اس کا ملکی وسائل اور فیصلہ سازی پر قبضہ ہے۔ اس کی وجہ سے ملک آئین و قانون یا جمہوری اصولوں پر چلانے کے بجائے اشرافیہ کے مفاد کو سامنے رکھ کر چلایا جارہا ہے۔ یقینی طور پر اس کا ایک ردعمل سماج میں موجود ہے ا ور لوگوں کو لگتا ہے کہ ا ن کی ریاستی نظام میں حیثیت ایک یرغمالی کی ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں بہترمستقبل کے نقشے میں دھند کے سائے زیادہ گہرے نظر آتے ہیں۔جب آپ سیاسی اور جمہوری نظام میں تبدیلی کے عمل کو کمزور یا ختم کریں گے تو اس کا ایک نفسیاتی اثر لوگوں کی نظام سے لاتعلقی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔کنٹرولڈ نظام یا عوامی خواہشات کے برعکس نظام چلانے کی روش نے ہم کو محدود کردیا ہے۔لوگ آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور پرانے خیالات ، سوچ اور فکر کے مقابلے میں نئے خیال کے ساتھ آگے بڑھنا، ا ن کی فطری خواہش ہے۔
لیکن جب ان کے سامنے نظام رکاوٹ بن کر کھڑا ہوجائے گا تو ان میں ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ عام انتخابات کا معاملہ ہی دیکھ لیں، اس کو بھی ہم متنازعہ اور ناکام بنانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ ملک محاذآرائی اور سیاسی کشیدگی کا مسلسل شکار ہے۔ موجود ٹکراؤ نئے مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ہم ایک عجیب موڑ پر کھڑے ہیں جہاں خواہشات کو زمینی حقائق پر برتری حاصل ہے۔ ہم سیاسی، معاشرتی اور معاشی ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکام ہورہے ہیں ۔
ہمارا نظام انصاف ہو، بیوروکریسی ہو، سیاسی قیادت ہو، وکلا حضرات ہوں یا الیکشن کمیشن، ان سب کو دیکھیں تولگتا ہے کہ وہ تقسیم کا شکار ہوگئے ہیں ۔ کبھی کوئی ہیرو اور کبھی ولن کا کھیل تسلسل سے جاری ہے۔
سیاسی لوگ سیاست کا ہر تنازعہ عدالتوں میں لارہے ہیں۔ عدالتیں اگر ان کے حق میں فیصلہ کریں تو عدالتیں شفاف اور اگر یہ ہی عدالتیں فیصلے خلاف کریں تو عدالتوں کے خلاف محاذ آرائی یا الزام تراشیاں کی جاتی ہیں۔ میرے خیال میں سیاسی و گروہی مفادات کا پس منظر رکھنے والی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات سے کیسے نکلا جائے۔ نکلنے کا واحد راستہ اپنی اپنی محدود سوچ اور فکر سے باہر نکل کر ہی مسائل کو دیکھنے سے جڑا ہوا ہے ۔ سیاست دان ہوں یا غیر سیاسی قوتیں ان کو قومی یا ریاستی مسائل کو ایک بڑے فریم ورک میں دیکھ کر ہی نئی حکمت عملیاں اختیار کرنا ہوںگی ۔