کھیل کود قومی کھیل کو ناجانے کس کی نظر لگ گئی
قومی ٹیم کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی، کیونکہ اب گولڈ میڈل کا حصول تو دور عالمی کپ میں شرکت بھی ایک خواب بن گیا ہے
ہاکی کا تیرہویں عالمی میلے کا میدان ہالینڈ کے شہر ہیگ میں سج چکا ہے اور اس میں دنیا بھر کی 12 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ہاکی ورلڈ کپ کا آغاز کرانے والی پاکستانی ٹیم خود کبھی اِس عالمی میلے کا حصہ نہیں بن پائے گی جو اب بھی سب سے زیادہ 4 مرتبہ کی عالمی چیمپیئن ہے۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان ہاکی کے نام کا طوطی پوری دنیا میں بولتا تھا اور پاکستانی کھلاڑیوں کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا اور جانا جاتا تھا، پاکستان کی ہاکی ٹیم دنیا کے جس خطے میں بھی کھیلنے کے لئے جاتی تو شائقین کی بڑی تعداد صرف پاکستانی پلیئرز کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے میدان میں پہنچ جایا کرتے تھے۔
آج جس طرح سے ہمارے ملک میں کرکٹ کا جنون ہے 80 اور 90 کی دہائی میں ہاکی کا جنون بھی اسی طرح پایا جاتا تھا ۔ ٹیم جب بھی میدان میں اترتی تھی تو سڑکیں اور گلیاں ویران ہو جایا کرتی تھیں اور پوری قوم اپنے ہیروز کی جیت کے لئے دعائیں کرتی تھی اس کے جواب میں ہمارے سپر اسٹارز میدان میں جیت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا کر قوم کو فتخ کا تحفہ دیا کرتے تھے۔ لیکن پھر جب ہم نے اپنے قومی کھیل پر توجہ دینا چھوڑی اور اپنے قومی ہیروز کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا تو پھر ہمارے میدان بھی آہستہ آہستہ کھلاڑیوں کے حوالے سے بانجھ ہونے لگے اور آج یہ عالم ہے کہ قومی کھیل کا درجہ رکھنے والا کھیل اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے لیکن اس کے باوجود اس کھیل سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے
اگر ہم پاکستان کی ہاکی تاریخ کا جائزہ لیں تو 1947 میں آزادی کے بعد پاکستان نے پہلی بار 1948 کے اولمپک گیمز میں شرکت کی اور علی اقتدار شاہ کی کپتانی میں سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر کے دنیا کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی، 1952 کے اولمپکس میں قومی ہاکی ٹیم چوتھے نمبر پر رہی لیکن 1956 کے اولمپکس میں دوسری پوزیشن حاصل کی ۔
1960 کے روم اولمپکس میں پہلی بار پاکستانی ٹیم نے عبدالحمید حمیدی کی سربراہی میں گولڈ میڈل جیتا ، 1964 کے ٹوکیو اولمپکس میں قومی ٹیم نے ایک بار پھر فائنل تک رسائی حاصل کی اور پھر 1968 کےمیکسیکواولمپکس میں خواجہ طارق عزیز کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے ایک بار پھرگولڈمیڈل اپنے نام کر لیا ۔ میکسیکو اولمپکس کے بعد پاکستان کو گولڈ میڈل جیتنے کے لئے 16 برس انتظار کرنا پڑا اور پھر 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستان نےایک بارپھرگولڈمیڈل جیتا اور یہ پاکستان کا اولمپکس میں آخری گولڈ میڈل تھا۔
پاکستان کے کہنے پر ورلڈ کپ کا آغاز 1971 میں ہوا جس کی میزبانی بھی پاکستان کو ہی کرنی تھی لیکن اس وقت بدلتے سیاسی حالات کے پیش نظر پہلے ورلڈ کپ کی میزبانی اسپین کو دے دی گئی ۔ قومی ٹیم نے خالدمحمود کی قیادت میں بارسلونا میں میزبان اسپین کوشکست دے کرپہلا ورلڈ کپ جیتا اور 1978 کے بیونس آئرس کے عالمی مقابلے میں گرین شرٹس نے اصلاح الدین کی سربراہی میں فائنل میں ہالینڈ کو شکست سے دوچار کیا۔ 1982 کے ہاکی ورلڈ کپ میں بھی قومی ٹیم نے نہ صرف بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں اختر رسول کی کپتانی میں کامیابی کےجھنڈے گاڑے بلکہ ایشیائی کھیل کا ٹائٹل بھی اپنے نام کیا ۔ آخری بارگھاس پر کھیلے جانے والے 1982 کے عالمی کپ کے فائنل میں بھی پاکستان نے ہالینڈ کو شکست دے کر ہاکی کی بادشاہت کا تاج اپنے نام کیا ۔
قومی ٹیم نے آخری بار اولمپکس ٹائٹل 30 سال پہلے اور ورلڈ کپ 20 سال قبل جیتا تھا اور ہاکی ورلڈ کپ کی 43 سالہ تاریخ میں پہلی بار عالمی کپ کا میلہ پاکستان کے بغیر سج رہا ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہماری آپس کی لڑائیوں اور مفادات کی سیاست نے قومی کھیل کا جنازہ ہی نکال کر رکھ دیا ہے، آج بھی پاکستان ہاکی سے محبت کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور ملک میں ہاکی کا ٹیلنٹ بھی بھرا پڑا ہے لیکن کمی ہے تو صرف اس کھیل پر توجہ دینے ، موثر منصوبہ بندی کرنے ، کھلاڑیوں میں پھر سے جذبہ پیدا کرنے اور قومی کھیل کے ذریعے ملک کا نام روشن کرنے کھلاڑیوں کو اسی طرح کی عزت و وقار اور مراعات اور ملازمتیں دینے کی جس طرح ہم انگریزوں کے قومی کھیل کرکٹ کے کھلاڑیوں کو بانٹ رہے ہیں۔
آخر میں میری حکومت سے مودبانہ درخواست ہے کہ اگر آپ نے اس کھیل کو لاوارث ہی سمجھ لیا ہے تو براہ کرم کسی دوسرے کھیل کو قومی کھیل کا درجہ دے دیں تا کہ کوئی ہمیں یہ طعنہ تو نہ دے سکے کہ تمھارا قومی کھیل کون سا ہے اور کہاں کھیلا جاتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان ہاکی کے نام کا طوطی پوری دنیا میں بولتا تھا اور پاکستانی کھلاڑیوں کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا اور جانا جاتا تھا، پاکستان کی ہاکی ٹیم دنیا کے جس خطے میں بھی کھیلنے کے لئے جاتی تو شائقین کی بڑی تعداد صرف پاکستانی پلیئرز کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے میدان میں پہنچ جایا کرتے تھے۔
آج جس طرح سے ہمارے ملک میں کرکٹ کا جنون ہے 80 اور 90 کی دہائی میں ہاکی کا جنون بھی اسی طرح پایا جاتا تھا ۔ ٹیم جب بھی میدان میں اترتی تھی تو سڑکیں اور گلیاں ویران ہو جایا کرتی تھیں اور پوری قوم اپنے ہیروز کی جیت کے لئے دعائیں کرتی تھی اس کے جواب میں ہمارے سپر اسٹارز میدان میں جیت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا کر قوم کو فتخ کا تحفہ دیا کرتے تھے۔ لیکن پھر جب ہم نے اپنے قومی کھیل پر توجہ دینا چھوڑی اور اپنے قومی ہیروز کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا تو پھر ہمارے میدان بھی آہستہ آہستہ کھلاڑیوں کے حوالے سے بانجھ ہونے لگے اور آج یہ عالم ہے کہ قومی کھیل کا درجہ رکھنے والا کھیل اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے لیکن اس کے باوجود اس کھیل سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے
اگر ہم پاکستان کی ہاکی تاریخ کا جائزہ لیں تو 1947 میں آزادی کے بعد پاکستان نے پہلی بار 1948 کے اولمپک گیمز میں شرکت کی اور علی اقتدار شاہ کی کپتانی میں سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر کے دنیا کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی، 1952 کے اولمپکس میں قومی ہاکی ٹیم چوتھے نمبر پر رہی لیکن 1956 کے اولمپکس میں دوسری پوزیشن حاصل کی ۔
1960 کے روم اولمپکس میں پہلی بار پاکستانی ٹیم نے عبدالحمید حمیدی کی سربراہی میں گولڈ میڈل جیتا ، 1964 کے ٹوکیو اولمپکس میں قومی ٹیم نے ایک بار پھر فائنل تک رسائی حاصل کی اور پھر 1968 کےمیکسیکواولمپکس میں خواجہ طارق عزیز کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے ایک بار پھرگولڈمیڈل اپنے نام کر لیا ۔ میکسیکو اولمپکس کے بعد پاکستان کو گولڈ میڈل جیتنے کے لئے 16 برس انتظار کرنا پڑا اور پھر 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستان نےایک بارپھرگولڈمیڈل جیتا اور یہ پاکستان کا اولمپکس میں آخری گولڈ میڈل تھا۔
پاکستان کے کہنے پر ورلڈ کپ کا آغاز 1971 میں ہوا جس کی میزبانی بھی پاکستان کو ہی کرنی تھی لیکن اس وقت بدلتے سیاسی حالات کے پیش نظر پہلے ورلڈ کپ کی میزبانی اسپین کو دے دی گئی ۔ قومی ٹیم نے خالدمحمود کی قیادت میں بارسلونا میں میزبان اسپین کوشکست دے کرپہلا ورلڈ کپ جیتا اور 1978 کے بیونس آئرس کے عالمی مقابلے میں گرین شرٹس نے اصلاح الدین کی سربراہی میں فائنل میں ہالینڈ کو شکست سے دوچار کیا۔ 1982 کے ہاکی ورلڈ کپ میں بھی قومی ٹیم نے نہ صرف بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں اختر رسول کی کپتانی میں کامیابی کےجھنڈے گاڑے بلکہ ایشیائی کھیل کا ٹائٹل بھی اپنے نام کیا ۔ آخری بارگھاس پر کھیلے جانے والے 1982 کے عالمی کپ کے فائنل میں بھی پاکستان نے ہالینڈ کو شکست دے کر ہاکی کی بادشاہت کا تاج اپنے نام کیا ۔
قومی ٹیم نے آخری بار اولمپکس ٹائٹل 30 سال پہلے اور ورلڈ کپ 20 سال قبل جیتا تھا اور ہاکی ورلڈ کپ کی 43 سالہ تاریخ میں پہلی بار عالمی کپ کا میلہ پاکستان کے بغیر سج رہا ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہماری آپس کی لڑائیوں اور مفادات کی سیاست نے قومی کھیل کا جنازہ ہی نکال کر رکھ دیا ہے، آج بھی پاکستان ہاکی سے محبت کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور ملک میں ہاکی کا ٹیلنٹ بھی بھرا پڑا ہے لیکن کمی ہے تو صرف اس کھیل پر توجہ دینے ، موثر منصوبہ بندی کرنے ، کھلاڑیوں میں پھر سے جذبہ پیدا کرنے اور قومی کھیل کے ذریعے ملک کا نام روشن کرنے کھلاڑیوں کو اسی طرح کی عزت و وقار اور مراعات اور ملازمتیں دینے کی جس طرح ہم انگریزوں کے قومی کھیل کرکٹ کے کھلاڑیوں کو بانٹ رہے ہیں۔
آخر میں میری حکومت سے مودبانہ درخواست ہے کہ اگر آپ نے اس کھیل کو لاوارث ہی سمجھ لیا ہے تو براہ کرم کسی دوسرے کھیل کو قومی کھیل کا درجہ دے دیں تا کہ کوئی ہمیں یہ طعنہ تو نہ دے سکے کہ تمھارا قومی کھیل کون سا ہے اور کہاں کھیلا جاتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔