جوڈیشل کونسل جسٹس اعجاز کا شرکت سے انکار جسٹس منصور اجلاس میں شریک
الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدر مملکت کو جج کی برطرفی کیلئے لکھتی، چیف جسٹس
جسٹس اعجاز الاحسن نے بطور ممبر سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس میں بیٹھنے سے معذرت کرلی۔
چیئرمین قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا تو جسٹس سردار طارق مسعود ،چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بطور رکن اجلاس میں شریک ہوئے تاہم ممبر جسٹس اعجاز الاحسن شریک نہیں ہوئے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر کا کوئی وکیل بھی اجلاس کے سامنے پیش نہ ہوا۔ چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو مظاہر علی نقوی کا استعفی پڑھنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے کونسل کی کارروائی میں مختصر وقفہ کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کے ایک ممبر جسٹس اعجاز الاحسن اجلاس میں شریک نہیں، ان کے بعد سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ ہیں، ہم جسٹس منصور سے انکی دستیابی کا پوچھ لیتے ہیں، اگر وہ دستیاب ہوئے تو کونسل کی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس اعجاز الاحسن کی سپریم جوڈیشل کونسل میں بطور ممبر شمولیت چیلنج
وقفے کے بعد چیئرمین جوڈیشل کونسل کی سربراہی میں اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو جسٹس منصور علی شاہ بطور ممبر کونسل اجلاس میں شریک ہوگئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کارروائی آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جج کا استعفیٰ آخری مرحلے پر دوسرے شوکاز نوٹس کے بعد آیا، جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ، یا تو جج کے خلاف شکایت جھوٹی تھی اور جج نے پریشر میں آکر استعفیٰ دیا، دوسری صورت میں جج کے خلاف الزامات درست تھے ، جج اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جج کی برطرفی کا سوال اب غیر متعلقہ ہو چکا ہے، ابھی تک کونسل نے صدر مملکت کو صرف رپورٹ بھیجی تھی، اگر الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدر مملکت کو جج کی برطرفی کیلئے لکھتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا کونسل کی کارروائی استعفیٰ کے بعد رک جاتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کونسل نے اب کوئی نا کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے، اگر کوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کر کے استعفی دےجائے تو کیا اس سے خطرہ ہمیں نہیں ہو گا؟ اپنی تباہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟۔
چیئرمین قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا تو جسٹس سردار طارق مسعود ،چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بطور رکن اجلاس میں شریک ہوئے تاہم ممبر جسٹس اعجاز الاحسن شریک نہیں ہوئے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر کا کوئی وکیل بھی اجلاس کے سامنے پیش نہ ہوا۔ چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو مظاہر علی نقوی کا استعفی پڑھنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے کونسل کی کارروائی میں مختصر وقفہ کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کے ایک ممبر جسٹس اعجاز الاحسن اجلاس میں شریک نہیں، ان کے بعد سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ ہیں، ہم جسٹس منصور سے انکی دستیابی کا پوچھ لیتے ہیں، اگر وہ دستیاب ہوئے تو کونسل کی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس اعجاز الاحسن کی سپریم جوڈیشل کونسل میں بطور ممبر شمولیت چیلنج
وقفے کے بعد چیئرمین جوڈیشل کونسل کی سربراہی میں اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو جسٹس منصور علی شاہ بطور ممبر کونسل اجلاس میں شریک ہوگئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کارروائی آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جج کا استعفیٰ آخری مرحلے پر دوسرے شوکاز نوٹس کے بعد آیا، جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ، یا تو جج کے خلاف شکایت جھوٹی تھی اور جج نے پریشر میں آکر استعفیٰ دیا، دوسری صورت میں جج کے خلاف الزامات درست تھے ، جج اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جج کی برطرفی کا سوال اب غیر متعلقہ ہو چکا ہے، ابھی تک کونسل نے صدر مملکت کو صرف رپورٹ بھیجی تھی، اگر الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدر مملکت کو جج کی برطرفی کیلئے لکھتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا کونسل کی کارروائی استعفیٰ کے بعد رک جاتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کونسل نے اب کوئی نا کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے، اگر کوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کر کے استعفی دےجائے تو کیا اس سے خطرہ ہمیں نہیں ہو گا؟ اپنی تباہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟۔