آفتاب علم و عرفان
مولانا علم کا بحر ذخار تھے، جو ان سے ملتا، ان کی گفتگو کے سحر میں مبتلا ہو جاتا
جس طرح دلی کی جامع مسجد، لال قلعہ قطب کی لاٹھ، حضرت خواجہ بختیار کاکی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا اور حضرت امیر خسرو کے بغیر دلی کی عظمت گم گشتہ کا سراغ ملنا مشکل ہے، اسی طرح مولانا عبدالسلام نیازی کے تذکرے کے بغیر دلی کا ذکر ناممکن ہے، وہ مخزن علم و فن تھے۔
مولانا علم کا بحر ذخار تھے، جو ان سے ملتا، ان کی گفتگو کے سحر میں مبتلا ہو جاتا۔ مولانا اصل نسل سید تھے، لیکن حضرت نیاز شاہ بریلوی کی ارادت کے سبب ''نیازی'' کا جزو نام کا حصہ بن گیا تھا، وہ ایک عجیب و غریب شخصیت کے مالک تھے۔
ان کی شخصیت پر بہت سارے ادیبوں نے ان کے خاکے لکھے ہیں، جن میں شاہد احمد دہلوی، مسعود حسن شہاب، اخلاق احمد دہلوی، ڈاکٹر خلیق انجم، ملا واحدی، مقبول جہانگیر، جوش ملیح آبادی، نصر اللہ خاں اور رزی جے پوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مولانا یتیمی کی حالت میں میرٹھ سے دلی آئے تھے اور پھر وہیں کے ہو رہے، جن اصحاب کا اوپر ذکر ہوا ہے ان سب نے مولانا کو دیکھا اور ان کی صحبتوں سے لطف اٹھایا۔ وہ عقیدہ وحدت الوجود کے قائل تھے اورکہتے تھے کہ وہ ہر علم سے خدا کی وحدانیت کو ثابت کر سکتے ہیں۔
جوش ملیح آبادی کو مولانا اکثر ڈانٹتے پھٹکارتے تھے لیکن جوش جواب میں کہتے تھے '' مکرر ارشاد '' مولانا کا تکیہ کلام تھا '' خدا خوش رکھے'' وہ جب جلال میں آتے تو کوئی بولنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا، وہ ایک بہترین مقرر تھے، جس موضوع پر چاہتے بے تکان بولتے چلے جاتے تھے۔ کہیں بیٹھ جائیں تو وہی میر محفل معلوم ہوں، غضب کی معلومات تھیں، تصوف ان کا عزیز ترین موضوع تھا۔
دلی کے ترکمان دروازے کے اندر محلہ قبرستان کے سرے پر ایک چوبارے میں تنہا رہتے تھے۔ دلی کے مشہور ننوا تیلی کے خاندان کی ایک لڑکی کو بیٹی بنا رکھا تھا، تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ تک تمام ذمے داریاں مولانا نے بخوبی ادا کیں۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی، شادی کی تھی مگر بوجوہ بیوی کو طلاق دے دی تھی، تنہا رہتے تھے۔ اسی ننوا تیلی کی بیٹی ان کا کھانا پکا کر بھیجا کرتی تھی۔
بڑے بڑے لوگ ان کے شاگرد تھے، مولانا مودودی اور ان کے بھائی دونوں مولانا کے شاگرد تھے، دلی کے بڑے بڑے لوگ اپنے لڑکوں کو ان کے پاس پڑھنے کو بھیجتے لیکن مولانا کی جلالی طبیعت کی وجہ سے اکثر بھاگ جایا کرتے تھے اور جو ان کی سختیاں سہ جاتے تھے، وہ کندن بن کر نکلتے تھے، میں نے اپنے والد اور ماموؤں سے مولانا کا ذکر بچپن میں سنا تھا، وہ لوگ بہت سے محیرالعقول واقعات بتاتے تھے، کہتے تھے ان کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا، لیکن ضرورت مندوں کی مدد دل کھول کر کیا کرتے تھے۔
میرے والد کہتے تھے کہ انھیں دست غیب تھا، ان کی آمدنی کا ذریعہ بہت پراسرار تھا۔ بہ ظاہر ان کی آمدنی اس عطر کی فروخت سے ہوتی تھی جو وہ بنوا کر فروخت کرتے تھے، لیکن یہ آمدنی کچھ زیادہ نہ تھی۔ وہ عطر دے کر کہتے ''جاؤ اس عطر کو حضرت بختیار کاکی اور حضرت نظام الدین اولیا کے مزارکی چادر پر لگا کر دعا مانگو، جو مانگو گے پوری ہوگی'' لیکن لوگوں کو اس وقت حیرت ہوتی جب کوئی یتیم، بے سہارا، بیواؤں اور دیگر لوگوں کو کتابوں کی الماری سے نوٹوں کی گڈیاں نکال کر دیا کرتے تھے، وہ الماری میرے ماموؤں نے بھی دیکھی تھی، بظاہر اس الماری میں کتابیں نظر آتی تھیں، لیکن نوٹوں کی گڈیاں بھی وہیں سے ملتی تھیں، کسی کی مجال نہ تھی کہ ان سے اس '' دست غیب'' کا راز جان سکے، البتہ حیران بہت سے لوگ ہوتے تھے۔
ڈاکٹر خلیق انجم نے ایک واقعہ ہمیں سنایا تھا جب ہم انڈیا گئے تھے، وہ کہنے لگے کہ ایک بار ان کے چچا کے سامنے ایک شخص آیا جو لباس سے بہت غریب معلوم ہو رہا تھا، انھوں نے مولانا کو بتایا کہ ان کی بیٹی کی شادی ہو رہی ہے اور ان کے پاس شادی کے اخراجات کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہے۔
مولانا خاموشی سے اٹھے، ٹرنک کھولا اور اہل محفل سے نظریں بچا کر انھیں کچھ دیا، ڈاکٹر صاحب کے چچا نے بتایا کہ وہ ایک ایسی جگہ بیٹھے تھے جہاں سے صندوق نظر آ رہا تھا، انھوں نے دیکھا کہ دس دس کے نوٹ کی گڈیاں تھیں، اس وقت غالباً دس کا نوٹ سب سے بڑا تھا۔ آج کے حساب سے لگائیں تو پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں کی گڈیاں ہوں گی۔
مولانا کی شخصیت بہت پراسرار تھی نہ کسی کو ان کے خاندان کے بارے میں پتا تھا نہ کسی اور بات کا۔ ان کا علم ایک بحر ذخار تھا، ایک صاحب کا کہنا تھا کہ مولانا نے جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے لیکن کسی کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان سے کچھ پوچھ سکے۔ اہل محفل جب کبھی ان سے گفتگو کی درخواست کرتے وہ بے تکان کسی نہ کسی اہم مذہبی موضوع پر بولتے چلے جاتے، خدا نے ایسا لحن داؤدی عطا کیا تھا کہ جو پڑھے لکھے نہ بھی تھے وہ ان کے جوش خطابت سے مسحور ہو جاتے تھے۔
جس طرح کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ مولانا کہاں کے تھے اور کون تھے، اسی طرح یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مولانا نے علم کا دریا کہاں سے حاصل کیا اور ان کے استاد کون تھے۔ مولانا صبح ساڑھے سات بجے ناشتہ کرکے درس و تدریس کے لیے باہر آجاتے تھے، عموماً دو تین شاگرد ہی ہوا کرتے تھے۔
گیارہ بجے تک طالب علم چلے جاتے اور ملنے جلنے والے آ جاتے۔ دوپہر میں کچھ دیر آرام کرتے اور شام چار بجے پھر ملاقاتی آ جاتے اور عشا کی اذان ہوتے ہی سب چلے جاتے اور مولانا گھر کا دروازہ بند کر لیتے۔ رات کو ہمیشہ تنہا رہتے، اس عادت نے ان کی زندگی کو اور بھی زیادہ پراسرار بنا دیا تھا، بعض تو یہ بھی کہنے لگے کہ مولانا کوئی اور ہی مخلوق ہیں، جو صفات اور خصوصیات ان میں تھیں وہ کسی ایک انسان میں جمع ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ پھر سارا دن گھر پر گزارتے تھے یا ستروہیں پر حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ پر جاتے تھے تو پیسے کہاں سے آتے تھے؟
ایک بار خواجہ حسن نظامی کے کہنے پر تصوف کے موضوع پر مولانا نے ایک کتاب لکھی اور خواجہ صاحب کو دی کہ وہ اسے شایع کریں، خواجہ صاحب نے مولانا سے کہا کہ یہ کتاب وہ اپنے نام سے چھاپیں گے، یہ سن کر مولانا نے مسودہ ہاتھ میں لیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے خواجہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ ایک نادر کتاب وجود میں آنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔
مولانا کو تصوف اور اسلامی فلسفے پر قدرت حاصل تھی۔ وہ ہر مسئلے کو سامنے والے کی علمی و دینی استعداد کے مطابق سمجھایا کرتے تھے۔ مولانا غصے کے بہت تیز تھے جس سے اختلاف ہو جائے اس کے خاندان کی قبر تک کھو دیا کرتے تھے، لیکن عالم غضب کے تھے۔
ایک مرتبہ وائسرائے ہند کو مولانا کی ضرورت پڑ گئی، ضرورت یہ تھی کہ وائسرائے ہند کی لاج میں ایک دیوار پر ایک مخطوطہ مغلوں کے زمانے کا آویزاں تھا، جو بہت سے لوگوں سے پڑھوایا گیا لیکن کوئی ٹھیک سے نہ پڑھ سکا کیونکہ اس مخطوطے کے کچھ الفاظ مٹ گئے تھے۔
مولانا کو بلوایا گیا انھوں نے عبارت دیکھی اور جھٹ پڑھ دی اس کا مطلب بھی بتا دیا پنڈت جواہر لعل نہرو بھی مولانا کے عقیدت مند تھے۔ ہندوستان کے صدر کی بھی یہ مجال نہیں تھی کہ بلا اجازت اور بغیر وقت لیے وہ مولانا سے مل سکے۔
جب 1947 میں تقسیم کا غدر مچا تو سیتارام محلے میں تمام مسلمانوں کو قتل کرنے کے بعد سکھ مولانا کے گھر پہنچے، سیڑھیوں پر آہٹ اور شور سن کر مولانا نے دروازہ کھولا اور کڑک دار آواز میں بولے '' کون ہے؟'' اور پھر نجانے انھوں نے ان حملہ آوروں سے کیا کہا کہ سب نے اپنی کرپانیں مولانا کے قدموں میں ڈالیں اور جب تک غدر نہ تھما وہ مولانا کی حفاظت کرتے رہے۔
لوگوں نے بہتیرا کہا کہ مولانا وہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں لیکن انھوں نے کسی کی نہ سنی۔ بڑے ٹھسے اور آرام سے رہے ، اخلاق احمد دہلوی نے درست فرمایا ہے کہ مولانا عبدالسلام اردو زبان کے مولانا روم تھے۔
مولانا نے کبھی کسی صاحب حیثیت کے آگے دست سوال نہیں پھیلایا۔ آخرکار بلاوا آگیا اور 30 جون 1966 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اندرا گاندھی کو بھی مولانا سے بڑی عقیدت تھی، انھوں نے مولانا کو حضرت نظام الدین اولیا کے احاطے میں دفن کرنے کی اجازت دی، مولانا حضرت امیر خسرو کے مزار سے قریب محو خواب ہیں، وہ کون تھے اور کیا تھے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ان کی صفات کو ایک کالم میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ واقعی وہ ایک پراسرار ہستی تھے۔
مولانا علم کا بحر ذخار تھے، جو ان سے ملتا، ان کی گفتگو کے سحر میں مبتلا ہو جاتا۔ مولانا اصل نسل سید تھے، لیکن حضرت نیاز شاہ بریلوی کی ارادت کے سبب ''نیازی'' کا جزو نام کا حصہ بن گیا تھا، وہ ایک عجیب و غریب شخصیت کے مالک تھے۔
ان کی شخصیت پر بہت سارے ادیبوں نے ان کے خاکے لکھے ہیں، جن میں شاہد احمد دہلوی، مسعود حسن شہاب، اخلاق احمد دہلوی، ڈاکٹر خلیق انجم، ملا واحدی، مقبول جہانگیر، جوش ملیح آبادی، نصر اللہ خاں اور رزی جے پوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مولانا یتیمی کی حالت میں میرٹھ سے دلی آئے تھے اور پھر وہیں کے ہو رہے، جن اصحاب کا اوپر ذکر ہوا ہے ان سب نے مولانا کو دیکھا اور ان کی صحبتوں سے لطف اٹھایا۔ وہ عقیدہ وحدت الوجود کے قائل تھے اورکہتے تھے کہ وہ ہر علم سے خدا کی وحدانیت کو ثابت کر سکتے ہیں۔
جوش ملیح آبادی کو مولانا اکثر ڈانٹتے پھٹکارتے تھے لیکن جوش جواب میں کہتے تھے '' مکرر ارشاد '' مولانا کا تکیہ کلام تھا '' خدا خوش رکھے'' وہ جب جلال میں آتے تو کوئی بولنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا، وہ ایک بہترین مقرر تھے، جس موضوع پر چاہتے بے تکان بولتے چلے جاتے تھے۔ کہیں بیٹھ جائیں تو وہی میر محفل معلوم ہوں، غضب کی معلومات تھیں، تصوف ان کا عزیز ترین موضوع تھا۔
دلی کے ترکمان دروازے کے اندر محلہ قبرستان کے سرے پر ایک چوبارے میں تنہا رہتے تھے۔ دلی کے مشہور ننوا تیلی کے خاندان کی ایک لڑکی کو بیٹی بنا رکھا تھا، تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ تک تمام ذمے داریاں مولانا نے بخوبی ادا کیں۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی، شادی کی تھی مگر بوجوہ بیوی کو طلاق دے دی تھی، تنہا رہتے تھے۔ اسی ننوا تیلی کی بیٹی ان کا کھانا پکا کر بھیجا کرتی تھی۔
بڑے بڑے لوگ ان کے شاگرد تھے، مولانا مودودی اور ان کے بھائی دونوں مولانا کے شاگرد تھے، دلی کے بڑے بڑے لوگ اپنے لڑکوں کو ان کے پاس پڑھنے کو بھیجتے لیکن مولانا کی جلالی طبیعت کی وجہ سے اکثر بھاگ جایا کرتے تھے اور جو ان کی سختیاں سہ جاتے تھے، وہ کندن بن کر نکلتے تھے، میں نے اپنے والد اور ماموؤں سے مولانا کا ذکر بچپن میں سنا تھا، وہ لوگ بہت سے محیرالعقول واقعات بتاتے تھے، کہتے تھے ان کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا، لیکن ضرورت مندوں کی مدد دل کھول کر کیا کرتے تھے۔
میرے والد کہتے تھے کہ انھیں دست غیب تھا، ان کی آمدنی کا ذریعہ بہت پراسرار تھا۔ بہ ظاہر ان کی آمدنی اس عطر کی فروخت سے ہوتی تھی جو وہ بنوا کر فروخت کرتے تھے، لیکن یہ آمدنی کچھ زیادہ نہ تھی۔ وہ عطر دے کر کہتے ''جاؤ اس عطر کو حضرت بختیار کاکی اور حضرت نظام الدین اولیا کے مزارکی چادر پر لگا کر دعا مانگو، جو مانگو گے پوری ہوگی'' لیکن لوگوں کو اس وقت حیرت ہوتی جب کوئی یتیم، بے سہارا، بیواؤں اور دیگر لوگوں کو کتابوں کی الماری سے نوٹوں کی گڈیاں نکال کر دیا کرتے تھے، وہ الماری میرے ماموؤں نے بھی دیکھی تھی، بظاہر اس الماری میں کتابیں نظر آتی تھیں، لیکن نوٹوں کی گڈیاں بھی وہیں سے ملتی تھیں، کسی کی مجال نہ تھی کہ ان سے اس '' دست غیب'' کا راز جان سکے، البتہ حیران بہت سے لوگ ہوتے تھے۔
ڈاکٹر خلیق انجم نے ایک واقعہ ہمیں سنایا تھا جب ہم انڈیا گئے تھے، وہ کہنے لگے کہ ایک بار ان کے چچا کے سامنے ایک شخص آیا جو لباس سے بہت غریب معلوم ہو رہا تھا، انھوں نے مولانا کو بتایا کہ ان کی بیٹی کی شادی ہو رہی ہے اور ان کے پاس شادی کے اخراجات کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہے۔
مولانا خاموشی سے اٹھے، ٹرنک کھولا اور اہل محفل سے نظریں بچا کر انھیں کچھ دیا، ڈاکٹر صاحب کے چچا نے بتایا کہ وہ ایک ایسی جگہ بیٹھے تھے جہاں سے صندوق نظر آ رہا تھا، انھوں نے دیکھا کہ دس دس کے نوٹ کی گڈیاں تھیں، اس وقت غالباً دس کا نوٹ سب سے بڑا تھا۔ آج کے حساب سے لگائیں تو پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں کی گڈیاں ہوں گی۔
مولانا کی شخصیت بہت پراسرار تھی نہ کسی کو ان کے خاندان کے بارے میں پتا تھا نہ کسی اور بات کا۔ ان کا علم ایک بحر ذخار تھا، ایک صاحب کا کہنا تھا کہ مولانا نے جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے لیکن کسی کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان سے کچھ پوچھ سکے۔ اہل محفل جب کبھی ان سے گفتگو کی درخواست کرتے وہ بے تکان کسی نہ کسی اہم مذہبی موضوع پر بولتے چلے جاتے، خدا نے ایسا لحن داؤدی عطا کیا تھا کہ جو پڑھے لکھے نہ بھی تھے وہ ان کے جوش خطابت سے مسحور ہو جاتے تھے۔
جس طرح کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ مولانا کہاں کے تھے اور کون تھے، اسی طرح یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مولانا نے علم کا دریا کہاں سے حاصل کیا اور ان کے استاد کون تھے۔ مولانا صبح ساڑھے سات بجے ناشتہ کرکے درس و تدریس کے لیے باہر آجاتے تھے، عموماً دو تین شاگرد ہی ہوا کرتے تھے۔
گیارہ بجے تک طالب علم چلے جاتے اور ملنے جلنے والے آ جاتے۔ دوپہر میں کچھ دیر آرام کرتے اور شام چار بجے پھر ملاقاتی آ جاتے اور عشا کی اذان ہوتے ہی سب چلے جاتے اور مولانا گھر کا دروازہ بند کر لیتے۔ رات کو ہمیشہ تنہا رہتے، اس عادت نے ان کی زندگی کو اور بھی زیادہ پراسرار بنا دیا تھا، بعض تو یہ بھی کہنے لگے کہ مولانا کوئی اور ہی مخلوق ہیں، جو صفات اور خصوصیات ان میں تھیں وہ کسی ایک انسان میں جمع ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ پھر سارا دن گھر پر گزارتے تھے یا ستروہیں پر حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ پر جاتے تھے تو پیسے کہاں سے آتے تھے؟
ایک بار خواجہ حسن نظامی کے کہنے پر تصوف کے موضوع پر مولانا نے ایک کتاب لکھی اور خواجہ صاحب کو دی کہ وہ اسے شایع کریں، خواجہ صاحب نے مولانا سے کہا کہ یہ کتاب وہ اپنے نام سے چھاپیں گے، یہ سن کر مولانا نے مسودہ ہاتھ میں لیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے خواجہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ ایک نادر کتاب وجود میں آنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔
مولانا کو تصوف اور اسلامی فلسفے پر قدرت حاصل تھی۔ وہ ہر مسئلے کو سامنے والے کی علمی و دینی استعداد کے مطابق سمجھایا کرتے تھے۔ مولانا غصے کے بہت تیز تھے جس سے اختلاف ہو جائے اس کے خاندان کی قبر تک کھو دیا کرتے تھے، لیکن عالم غضب کے تھے۔
ایک مرتبہ وائسرائے ہند کو مولانا کی ضرورت پڑ گئی، ضرورت یہ تھی کہ وائسرائے ہند کی لاج میں ایک دیوار پر ایک مخطوطہ مغلوں کے زمانے کا آویزاں تھا، جو بہت سے لوگوں سے پڑھوایا گیا لیکن کوئی ٹھیک سے نہ پڑھ سکا کیونکہ اس مخطوطے کے کچھ الفاظ مٹ گئے تھے۔
مولانا کو بلوایا گیا انھوں نے عبارت دیکھی اور جھٹ پڑھ دی اس کا مطلب بھی بتا دیا پنڈت جواہر لعل نہرو بھی مولانا کے عقیدت مند تھے۔ ہندوستان کے صدر کی بھی یہ مجال نہیں تھی کہ بلا اجازت اور بغیر وقت لیے وہ مولانا سے مل سکے۔
جب 1947 میں تقسیم کا غدر مچا تو سیتارام محلے میں تمام مسلمانوں کو قتل کرنے کے بعد سکھ مولانا کے گھر پہنچے، سیڑھیوں پر آہٹ اور شور سن کر مولانا نے دروازہ کھولا اور کڑک دار آواز میں بولے '' کون ہے؟'' اور پھر نجانے انھوں نے ان حملہ آوروں سے کیا کہا کہ سب نے اپنی کرپانیں مولانا کے قدموں میں ڈالیں اور جب تک غدر نہ تھما وہ مولانا کی حفاظت کرتے رہے۔
لوگوں نے بہتیرا کہا کہ مولانا وہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں لیکن انھوں نے کسی کی نہ سنی۔ بڑے ٹھسے اور آرام سے رہے ، اخلاق احمد دہلوی نے درست فرمایا ہے کہ مولانا عبدالسلام اردو زبان کے مولانا روم تھے۔
مولانا نے کبھی کسی صاحب حیثیت کے آگے دست سوال نہیں پھیلایا۔ آخرکار بلاوا آگیا اور 30 جون 1966 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اندرا گاندھی کو بھی مولانا سے بڑی عقیدت تھی، انھوں نے مولانا کو حضرت نظام الدین اولیا کے احاطے میں دفن کرنے کی اجازت دی، مولانا حضرت امیر خسرو کے مزار سے قریب محو خواب ہیں، وہ کون تھے اور کیا تھے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ان کی صفات کو ایک کالم میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ واقعی وہ ایک پراسرار ہستی تھے۔