دل کا موسم

اِس وقت ہمیں ایک ایسی سیاسی جماعت کا بھی خیال آ رہا ہے جو باقاعدگی سے مصیبت زندگان کی مسلسل مدد کررہی ہے

S_afarooqi@yahoo.com

موسمِ سرما شباب پر ہے، ہر طرف دھند چھائی ہوئی ہے۔ ایسے میں شعیب بن عزیز کا شعر یاد آرہا ہے۔

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

شمالی علاقہ جات میں پارہ نقطہ انجماد سے بھی نیچے چلا گیا ہے لیکن کاروبارِ حیات مسلسل جاری و ساری ہے۔

کہہ رہی ہے یہ زمیں کہہ رہا ہے آسماں

رُک نہیں سکتا کبھی زندگی کا کارواں

سردی کی شدت کا عالم یہ ہے کہ دماغ شَل ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ منہ سے نکلے ہوئے الفاظ بھی منجمد ہوجائیں گے۔

بچپن کا زمانہ یاد آرہا ہے جب جاڑے کے موسم میں دن رات کولہو چلا کرتے تھے اور ہم ٹھٹھراتے ہوئے موسم میں دوست احباب کے ساتھ الاؤ کے اردگرد قصے،کہانیاں سنتے سناتے تھے اور ایک جادو بھرا سماں ہوتا تھا۔

دوسری جانب مٹی کی کچی دیواروں کے درمیان جھاڑ جھنکاڑ کے شعلوں کے اوپر رکھے ہوئے بڑے بڑے کڑھاؤ پر گنّے کے رَس سے بھری بالٹیاں اوندھائی جا رہی ہوتیں اور ابلتا ہوا رَس چکنی مٹی کے بنے ہوئے بڑے سے تھال پر جسے'' چاک '' کہا جاتا تھا، بڑے بڑے کفگیروں سے پھیلایا جارہا ہوتا تھا جو رفتہ رفتہ جم کر گُڑ کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہوتا تھا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گُڑ دھیرے دھیرے سخت ہوجاتا تھا۔


نرم گُڑ کو کھاتے وقت جو ذائقہ محسوس کیا جاتا تھا اُس کا مقابلہ دنیا کی کوئی مٹھائی نہیں کرسکتی۔ کولہو کو کھینچتی ہوئی بیلوں کی جوڑی کے گلے میں ڈالی ہوئی گھنٹیوں کی کھنک سے پیدا ہونے والی موسیقی کا الگ ہی سماں ہوتا تھا۔ستر برس پہلے کا یہ منظر ایک حسین خواب سا لگتا ہے۔ گاؤں کے اِس خوبصورت منظر سے پلٹ کر اب آتے ہیں شہری منظر نامہ کی طرف جو خواب نہیں ایک حقیقت ہے۔

ملک کے تمام شہروں بشمول پشاور، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں اگرچہ سردی کی شدت نسبتاً کم ہے لیکن چونکہ کراچی کے لوگ سردیوں کے عادی نہیں ہیں، اس لیے یہاں شدت زیادہ محسوس کی جارہی ہے، چونکہ اِن شہروں میں مال و دولت کی ریل پیل ہے، اس لیے یہاں کے شہری طرح طرح کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کھانے پینے کی دکانوں اور اسٹالوں پر خوب رَش ہے اور دن تو دن راتوں کو بھی ایک ہجوم لگا رہتا ہے۔

اسلام آباد کی تو بات ہی کیا ہے جہاں آیندہ ہونے والے انتخابات کی سرگرمیاں پورے زوروں پر ہیں اور عوام کی ہمدردی کے دعویدار سیاستدانوں کو اپنی مصروفیات سے اتنی فرصت ہی نہیں ہے کہ غریب ووٹروں کی جانب توجہ فرمائیں۔ایک طرف مفلوک الحال عوام جاڑے کی شدت کی وجہ سے مَرے جا رہے ہیں اور دوسری جانب بڑے لوگ مری جارہے ہیں۔

عوام کی خدمت کی دعویدار سیاسی جماعتوں کو اِس کا سِرے سے کوئی احساس ہی نہیں ہے کہ غریب اکثریت پر کیا گزر رہی ہے۔

اِن میں تین تین بار مسندِ اقتدار پر بیٹھ کر حکمرانی کے مزے لوٹنے والی جماعتوں کے علاوہ دوسری بار اقتدار کی ہوس میں مبتلا جماعت بھی شامل ہے جو تبدیلی کے دعوے کے سوا کچھ نہیں کرسکی۔ بیچارہ عام ووٹر حیران و پریشان ہے کہ اگر ووٹ دے تو بھلا کس کو دے۔ اِس کے علاوہ اِس کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ طرح طرح کے سبز باغ دکھانے والی جماعت کا اقتدار میں آنے کے بعد رویہ کیا ہوگا؟

ماضی کا تلخ تجربہ تو صرف یہی بتلاتا ہے کہ لوگ اقرارِ وفا کر کے بھلا دیتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدوار ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے ہیں۔ ع اور غ میں صرف نقطہ کا فرق ہے ورنہ جیسی شکل ع کی ویسی ہی غ کی۔ پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ جہاں ایک طرف بے حس مالدار لوگ موجود ہیں وہیں دوسری طرف اہلِ دل بھی موجود ہیں جن کا ضمیر بیدار ہے اور جو خدا ترسی کی دولت سے مالا مال ہیں۔

ایسے ہی لوگوں کے دم سے فلاح و بہبود کے ادارے قائم ہیں۔ اِن لوگوں کو افلاس زدہ اور بے سروسامان اپنے بھائیوں کا پورا پورا خیال ہے۔ ہم ایسے بہت سے لوگوں سے واقف ہیں جو خون جمع دینے والے اِس شدید موسمِ سرما میں انسانی ہمدردی کے ناتا مستحق لوگوں میں بستر اور کمبل تقسیم کر رہے ہیں۔ اِس بے لوث ہمدردی کا صلہ ربِ کریم اُنہیں ضرور عطا کرے گا۔

اِس وقت ہمیں ایک ایسی سیاسی جماعت کا بھی خیال آ رہا ہے جو باقاعدگی سے مصیبت زندگان کی مسلسل مدد کررہی ہے۔ کاش دیگر جماعتوں کا بھی یہی حال ہوتا مگر اِس کا کیا کیجیے کہ اُنہیں تو صرف اپنے سیاسی مفادات کے علاوہ اورکچھ نظر نہیں آتا اور اُن کی آنکھوں پر تو گروہی مفادات کی پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ کالم کے اختتام پر خاکسار کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے۔

دل کا موسم اگر سُہانا ہو

سارے موسم حسین لگتے ہیں
Load Next Story