حکمت و دانائی

نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ’’حکمت ودانائی مومن کاگم شدہ سرمایہ ہے،جہاں بھی اس کوپائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔‘‘

نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ’’حکمت ودانائی مومن کاگم شدہ سرمایہ ہے،جہاں بھی اس کوپائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔'' (البقرہ)

لفظ حکمت ، جسے عام فہم زبان میں دانائی اور فراست کہا جاتا ہے اور جس کے حامل کو حکیم کہتے ہیں۔ فیصلہ کرنے والے کو حَکَم کہتے ہیں۔

اس کے فیصلے میں بھی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ حکمت کے لغوی و اصطلاحی معنی دیکھے جائیں تو اس سے مراد صحیح بصیرت اور صحیح قوتِ فیصلہ ہے، ایسی قوتِ فیصلہ جس کے ذریعے کسی عمل یا قول کو اس کے تمام اوصاف کے ساتھ مکمل کیا جائے، یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بہترین چیز کو بہترین علم کے ذریعے سے جاننا حکمت کہلاتا ہے۔

حکمت علم ہے، ایسا علم کہ جب عقل بھی بھرپور انداز میں اس علم کے ساتھ استعمال کی جائے تو صحیح بات تک پہنچا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ لغات میں یہ معنی بھی دیے گئے ہیں: علم، فلسفہ، کلام، استدلال، بردباری، حوصلہ، عدل و انصاف اور علاج بھی حکمت ہی کی شاخیں ہیں۔ اکثر لوگ حکمت اور علم میں فرق نہیں کر پاتے، علم اور حکمت میں ایک بنیادی فرق ہے، علم جاننا ہے، اور حکمت علم سے آگے کا مرحلہ ہے۔ علم کا استعمال صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، لیکن حکمت علم کو صحیح استعمال کرنے کا نام ہے۔

جب اﷲ کسی کو حکمت سے نوازتا ہے تو اسے صحیح سمجھ اور فہم، معاملہ فہمی، مردم شناسی، واقعات کو سمجھنا، صورتِ حال کو سمجھنا، کثرتِ علم، مشاہدہ، نتیجہ اخذ کرنا، مشاہدات اور تجربات سے سیکھنا، قوتِ حافظہ، غور و فکر، تدبر، تحمل، برداشت اور بردباری، جذبات پر قابو، وسعتِ قلب و نظر اور اپنے علم کا اطلاق کرنا جیسی صلاحیتوں سے مالا مال کر دیتا ہے۔

اس کائنات کی خالق و مالک ہستی جو ہر تعریف اور کمال کی مرجع و منبع ہے، اس میں حکمت بھی بہ درجۂ کمال موجود ہے۔ اس کی یہ صفت ''حکیم'' قرآن حکیم میں بارہا آئی ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ بالا حکمت کی مکمل صفات یا اجزائ، صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات میں ہی کامل درجے میں موجود ہیں۔ علم اور حکمت میں ایک یہ فرق بھی ہے کہ علم حاصل کیا جاتا ہے، جب کہ حکمت اﷲ کی عطا ہے۔

لفظ ''حکمت'' جب حق تعالیٰ کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے معنی تمام اشیاء کی کامل معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں، اور جب غیراﷲ کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے تو موجودات کی صحیح معرفت اور اس کے مطابق عمل مراد ہوتا ہے۔ انسانوں کی حکمت میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ انسان یہ سمجھ جائے کہ اس کی یہ زندگی جو اسے ظاہری آنکھوں سے نظر آرہی ہے، اس کی اصل زندگی کا محض ایک جزو ہے۔

حکمت کی نعمت پانے والا شخص باریک بینی سے معاملے کی گہرائی پر نظر رکھتا ہے، معاملے کے پوشیدہ پہلوؤں تک پہنچ جاتا ہے، جو ایک عام شخص کے بس کی بات نہیں۔

انسان کے پاس علمِ غیب نہیں، لیکن حالات و واقعات و مشاہدات کی کڑیاں جوڑ کر اندازہ لگانے کی صلاحیت اﷲ تعالی اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے۔ جسے حکمت مل جاتی ہے، اس کی رائے قائم کرنے کی صلاحیت بہترین اور پختہ ہو جاتی ہے۔

حکمت کا لغوی مطلب عدل بھی ہے، یعنی ہر چیز کو اس کا صحیح مقام دے کر، ہر چیز کی صحیح قدر کا تعین کر کے، نتائج اور اسباب اور مقاصد کے ادراک کے ساتھ، جذبات پر قابو پانا آجاتا ہے۔ پھر انسان کا ردِّعمل محض جذباتی نہیں رہتا، وہ صحیح کو صحیح سمجھتا ہے اور غلط کو غلط سمجھتا اور کہتا ہے، یہ کوئی معمولی صفت نہیں ہے، کیوں کہ انسان سب سے زیادہ نقصان اپنے جذباتی فیصلوں سے اٹھاتا ہے۔

حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

''حکمت و دانائی کی بات مومن کا گم شدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔'' (سنن الترمذی)

رسول اﷲ ﷺ کو بہترین انداز میں حکمت عطا کی گئی، تمام انبیائے کرامؑ حکمت سے متصف تھے۔ انبیائے کرامؑ کی شخصیات کے ذکر کے ساتھ اﷲ نے خصوصاً حکمت کا ذکر کیا ہے، اﷲ تعالی فرماتے ہیں، مفہوم:

''اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا۔'' (سورہ الانبیائ)


صحابہ کرامؓ میں سے بھی بہت سے صحابہ کرامؓؓ علم و حکمت میں ممتاز تھے، ان کے فیصلے حکمت پر مبنی ہوتے تھے، ان کے حکمت سے پُر واقعات، ہمارے ذہن کی الجھنوں کو دور کرنے میں مددگار بنتے ہیں۔

حکمت و دانائی کی باتوں کو بھی حکمت کا ہی نام دیا جاتا ہے۔ جناب لقمان کی حکمت ضرب المثل ہے، جس کا قرآن میں بھی ذکر ہے، مفہوم:

''اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی (اور ان سے کہا تھا) کہ اﷲ کا شکر کرتے رہو۔'' (سورہ لقمان)

اﷲ کی بھیجی ہوئی کتاب قرآنِ کریم حکمت سے بھرپور ہے، جس کی یہ صفت بیان ہوئی ہے، مفہوم: ''حکمت بھرے قرآن کی قسم۔'' (سورہ یٰس)

''الر۔ یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جو حکمت سے بھری ہوئی ہے۔'' (سورہ یونس)

سورہِ قمر میں عبرت کے واقعات کے ذکر کو 'حکم بالغہ' کہا گیا ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ ان واقعات میں سبق پوشیدہ ہے اور یہ صحیح اور صاف بات حکمت ہے۔ اور بالغہ کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایسی بات جو دل تک پہنچنے والی ہو۔

حکمت کا حصول:

حکمت عطائے ربانی ہے اور اﷲ کی مشیت پر موقوف ہے۔ قرآنی آیات میں ہی حکمت کے نزول کا ذکر ہے۔ مفہوم: ''وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔'' لیکن انسان اپنے آپ کو حکمت کا حق دار بنا سکتا ہے۔ خاص کوشش کرکے اور اﷲ سے حکمت کی طلب و دعا کرکے اﷲ کی عطا کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

اﷲ کی معرفت اور خوف: غیر مومن کی حکمت جزوی ہونے اور مومن کی حکمت زیادہ ہونے کے کچھ اسباب ہیں۔ اس لیے کہ ایمان میں اضافہ اور اﷲ کی معرفت اور خوف، حکمت میں اضافے کا بھی سبب ہوتا ہے۔

آخرت کی یاد: سب سے بڑی حکمت ہونے کے حوالے سے، اصل منزل (آخرت) نگاہوں کے سامنے رہے تو انسان کی بصیرت اور قوتِ فیصلہ کے لیے بہت اہم ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اسے دنیا سے بے رغبتی اور کم سُخنی عطا ہوئی ہے، تو اس کی صحبت میں رہا کرو، کیوں کہ ایسے بندے پر حکمت کا القا ہوتا ہے۔'' (بیہقی و طبرانی)

خاموشی اور سکون کے لمحات کو، یک سوئی اور ارتکاز کے ساتھ، غور و فکر کے لیے استعمال کریں تو حکمت کھلتی ہے، حکمت کے جو اجزاء جہاں سے ملیں، علم ہو یا تجربات کی شکل میں، اسے لے لیا جائے۔ مشاہدے اور مطالعے کے لیے مسلسل محنت کی جائے۔ علم کو عمل میں ڈھالنے سے بھی علم کی معنویت کھلتی جاتی ہے اور حکمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ صبر و تحمل اور بردباری کو شعوری طور پر اپنانا بھی حکمت کا ذریعہ ہے۔

حکمت کے استعمال سے بھی حکمت بڑھتی ہے۔ حکمت کے استعمال کا طریقہ صحیحین کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے: ''دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے: ایک وہ جس کو اﷲ نے مال دیا اور وہ اسے راہِ حق میں خرچ کرتا ہے۔ اور دوسرا وہ جسے اﷲ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔'' (بخاری)

دین و دنیا کی نعمتوں میں حکمت بہت بڑی نعمت ہے، ہمیں اپنی دعاؤں میں حکمت بھی اﷲ سے خصوصی طور پر مانگنی چاہیے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب

آنکھ کا نُور دل کا نُور نہیں
Load Next Story