سلطان راہی واقعی سلطان تھا
سلطان راہی نے کولہو کے بیل کی طرح کام کیا کہ مزدوروں کے گھر آباد رہیں
ماضی میں ہماری فلم انڈسٹری میں دو فنکار ایسے گزرے ہیں جن کی یادیں فلم شائقین اور ان کے پرستاروں کو رُلا دیتی ہیں، ان میں دو نام قابل ذکر ہیں، سلطان راہی اور سدھیر۔ سلطان راہی تو فن کے شہید تھے، اس کی کسی سے عداوت نہیں تھی، وہ اپنے لیے نہیں بلکہ فلم انڈسٹری سے وابستہ آرٹسٹوں، ایکسٹراز، ٹیکنیشنز اورمیوزیشنز کے لیے شب و روز اسٹوڈیو میں کام کرتا تھا، سلطان راہی مرحوم انڈسٹری کے اکلوتے فنکار تھے جن کی وجہ سے ایورنیو اسٹوڈیو، باری اسٹوڈیو اور شباب اسٹوڈیو آباد تھے۔
سلطان راہی نے کولہو کے بیل کی طرح کام کیا کہ مزدوروں کے گھر آباد رہیں، کبھی کسی فلم ساز سے معاوضے کے حوالے سے بحث یا ناراضی کا اظہار نہیں کیا جس نے جو دیا خاموشی سے لے لیا،کبھی کسی 1970 سے لے کر 1996 تک انھوں نے پنجابی فلموں کے حوالے سے انڈسٹری پر راج کیا۔
سلطان راہی بھارت کے صوبے یوپی (سہارن پور) میں پیدا ہوئے، پیار سے انڈسٹری میں لوگ انھیں آغا جی کہہ کر پکارتے تھے، 9 جنوری1996 میں کچھ لٹیروں نے چند روپوں کی خاطر ان سے ان کی زندگی کے چراغ کو بجھا دیا۔
راقم کی ان سے تفصیلی ملاقاتیں لاہور اور کراچی میں کئی مرتبہ ہوئیں۔ فلم '' سڑک'' کے حوالے سے ان سے ایک ملاقات کراچی کے ایک بڑے مقامی ہوٹل میں ہوئی، کوئی ناخوشگوار واقعہ کراچی میں ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ''سڑک'' کی شوٹنگ نہ ہو سکی اور ہماری ان سے تقریباً ایک گھنٹے طویل ملاقات ہوئی، دوپہرکا کھانا ہم نے اور راہی صاحب نے ساتھ کھایا انھوں نے اپنے ایک خاص پرستار اقبال راہی کو برنس روڈ بھیجا اور وہاں سے پائے اور نہاری منگوائی، مرحوم ہر لحاظ سے بہترین انسان تھے۔
دوران انٹرویو خوش گفتاری اور خوبصورت اردو سننے کے بعد حیرت زدہ تھا کہ پنجابی فلم کے سپرہٹ ہیرو اور اردو اتنی لاجواب کہ ہم نے ان سے برجستہ پوچھ لیا کہ '' راہی صاحب آپ کی اردو اتنی لاجواب ہے کہ بیان سے باہر'' زور سے ہنستے ہوئے کہا کہ '' بیٹا کمال کرتے ہو، جب پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھا، میری مادری زبان اردو ہے اور میرا تعلق یو پی سے ہے، ہجرت کر کے والدین پنڈی آگئے تھے، میرا ایک غریب گھرانے سے تعلق تھا، پنڈی سے اچھے نمبروں میں میٹرک کیا، پنڈی کے صدر بازار میں ایک دکان میں سیلز مین کی حیثیت سے کام کرتا تھا، دکان کے مالک فرحت صاحب تھے جو بہت نیک آدمی تھے اور میرا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔
1968 تک زندگی بہت محنت طلب رہی پھر فلمی صنعت کا رخ کیا اور وہاں اخلاق احمد انصاری نے مجھے رہائش دی جو عمر رسیدہ تھے اور ہمارے والد صاحب کے جاننے والے تھے، ان کا تعلق دہلی سے تھا، انھوں نے مجھے رہنے کے لیے ایک بہت خوبصورت کمرہ دیا اور پھر لاہورکا ہی ہو کر رہ گیا فلم ''باغی'' میں مسرت نذیر اور سدھیر کے ساتھ کام کیا۔
سدھیر بہت پیارے انسان تھے جونیئر سے بہت محبت سے پیش آتے تھے سدھیر صاحب نے ہی اقبال کاشمیری سے تعارف کروایا اور میں فلم '' بابل'' میں کاسٹ ہوگیا۔ فلم سپرہٹ ہوئی جس نے میری زندگی بدل دی، میں سدھیر کی محبت کا مقروض ہوں، وحید مراد مرحوم نے میری ملاقات ہدایت کار اسلم ڈار سے کروائی، انھوں نے فلم '' بابل'' میں میری کارکردگی دیکھتے ہوئے فلم ''بشیرا'' میں مرکزی کردار دیا، اس فلم نے میری تقدیر بدل دی۔
میں اسلم ڈار کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا پھر مولا جٹ ہٹ ہوئی سدھیر بہت اچھے انسان تھے پیار میں ڈانٹ بھی دیا کرتے تھے۔ اقبال یوسف کی فلم ''ان داتا'' میں ان سے کئی مرتبہ ڈانٹ کھانے کا اتفاق ہوا، اداکار محمد علی اپنی مثال آپ تھے آسیہ نے میرے ساتھ بحیثیت ہیروئن کے کام کیا ان کی اردو بھی اپنی مثال آپ تھی۔ آسیہ نے مجھے سدھیر، علی بھیا کو رات کے کھانے پر مدعو کیا، ان کی اردو بھی بہت اچھی تھی اور خوب مشکل الفاظ استعمال کرتی تھیں۔
میں نے ایک دن آسیہ سے پوچھ لیا کہ '' اردو بہت ہی خوبصورت بولتی ہیں، واہ کیا بات ہے'' تو آسیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ''میری مادری زبان اردو ہے'' ان کے والدین نے لکھنو سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ ممتاز رنگ کے حوالے سے بہت گوری اداکارہ تھیں، انھوں نے جب فلم '' کالیا'' میں کام کیا تو لوگ ہنستے تھے کہ گوری لڑکی کالیا میں کام کر رہی ہے، ان کے والدین کا تعلق بھی انڈیا سے تھا اور ان کے والدین نے بھی پاکستان ہجرت کی تھی۔
سلطان راہی نمازی پرہیزگار انسان تھے، ان کے ماتھے پر محراب کا نشان تھا، اسٹوڈیو میں مسجد بنوائی، اکثر امامت کے فرائض انجام دیتے، قرأت بہت اچھی تھی، رمضان المبارک میں اسٹوڈیو میں بڑی افطاری کا اہتمام کرتے، گھر پر تراویح پڑھایا کرتے تھے، یہ بات اداکار یوسف خان نے راقم کو بتائی تھی، پیار سے انھیں انڈسٹری میں آغا جانی کہا جاتا تھا، مرحوم نے 500 کے قریب فلموں میں جو اداکاری کی۔
9 جنوری 1996 میں گوجرانوالہ کے قریب ان کی کار خراب ہوگئی تھی وہ مدد کے لیے قرب و جوار میں دیکھ رہے تھے کہ اچانک ڈاکو آگئے اور دکھ اس بات کا ہے کہ وہ سلطان راہی کو پہچان نہ سکے اور اپنے مفاد کے لیے ان کی جان لے لی، راقم سے مرحوم کی کئی ملاقاتیں ہوئیں، ان کی شفقت مجھے آج بھی یاد ہے، ویسے تو سیکڑوں فلموں میں کام کیا مگر ان کی قابل ذکر فلموں میں بابل ، وحشی جٹ ، جگا گجر، ان داتا، ظلم دا بدلہ، مولا جٹ ، شیر خان، بشیرا، چن وریام اور سخی بادشاہ سپرہٹ فلمیں تھیں۔
ان کے چہلم کے موقع پر راقم لاہور میں تھا، ہم نے اپنی آنکھوں سے ان کی یاد میں بے شمار لوگوں کو آنسو بہاتے دیکھا۔ اظہار قاضی، اداکار ندیم، اداکار شان ان کی والدہ نیلو مرحومہ، ٹی وی آرٹسٹ شکیل، راحت کاظمی، سید نور، انجمن اور بہار بیگم نے سلطان راہی کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کیا، روزنامہ ایکسپریس کے متعدد قارئین نے مجھے سلطان راہی پرلکھنے کا کہا'سوآج یہ قرض اتار دیا۔
سلطان راہی نے کولہو کے بیل کی طرح کام کیا کہ مزدوروں کے گھر آباد رہیں، کبھی کسی فلم ساز سے معاوضے کے حوالے سے بحث یا ناراضی کا اظہار نہیں کیا جس نے جو دیا خاموشی سے لے لیا،کبھی کسی 1970 سے لے کر 1996 تک انھوں نے پنجابی فلموں کے حوالے سے انڈسٹری پر راج کیا۔
سلطان راہی بھارت کے صوبے یوپی (سہارن پور) میں پیدا ہوئے، پیار سے انڈسٹری میں لوگ انھیں آغا جی کہہ کر پکارتے تھے، 9 جنوری1996 میں کچھ لٹیروں نے چند روپوں کی خاطر ان سے ان کی زندگی کے چراغ کو بجھا دیا۔
راقم کی ان سے تفصیلی ملاقاتیں لاہور اور کراچی میں کئی مرتبہ ہوئیں۔ فلم '' سڑک'' کے حوالے سے ان سے ایک ملاقات کراچی کے ایک بڑے مقامی ہوٹل میں ہوئی، کوئی ناخوشگوار واقعہ کراچی میں ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ''سڑک'' کی شوٹنگ نہ ہو سکی اور ہماری ان سے تقریباً ایک گھنٹے طویل ملاقات ہوئی، دوپہرکا کھانا ہم نے اور راہی صاحب نے ساتھ کھایا انھوں نے اپنے ایک خاص پرستار اقبال راہی کو برنس روڈ بھیجا اور وہاں سے پائے اور نہاری منگوائی، مرحوم ہر لحاظ سے بہترین انسان تھے۔
دوران انٹرویو خوش گفتاری اور خوبصورت اردو سننے کے بعد حیرت زدہ تھا کہ پنجابی فلم کے سپرہٹ ہیرو اور اردو اتنی لاجواب کہ ہم نے ان سے برجستہ پوچھ لیا کہ '' راہی صاحب آپ کی اردو اتنی لاجواب ہے کہ بیان سے باہر'' زور سے ہنستے ہوئے کہا کہ '' بیٹا کمال کرتے ہو، جب پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھا، میری مادری زبان اردو ہے اور میرا تعلق یو پی سے ہے، ہجرت کر کے والدین پنڈی آگئے تھے، میرا ایک غریب گھرانے سے تعلق تھا، پنڈی سے اچھے نمبروں میں میٹرک کیا، پنڈی کے صدر بازار میں ایک دکان میں سیلز مین کی حیثیت سے کام کرتا تھا، دکان کے مالک فرحت صاحب تھے جو بہت نیک آدمی تھے اور میرا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔
1968 تک زندگی بہت محنت طلب رہی پھر فلمی صنعت کا رخ کیا اور وہاں اخلاق احمد انصاری نے مجھے رہائش دی جو عمر رسیدہ تھے اور ہمارے والد صاحب کے جاننے والے تھے، ان کا تعلق دہلی سے تھا، انھوں نے مجھے رہنے کے لیے ایک بہت خوبصورت کمرہ دیا اور پھر لاہورکا ہی ہو کر رہ گیا فلم ''باغی'' میں مسرت نذیر اور سدھیر کے ساتھ کام کیا۔
سدھیر بہت پیارے انسان تھے جونیئر سے بہت محبت سے پیش آتے تھے سدھیر صاحب نے ہی اقبال کاشمیری سے تعارف کروایا اور میں فلم '' بابل'' میں کاسٹ ہوگیا۔ فلم سپرہٹ ہوئی جس نے میری زندگی بدل دی، میں سدھیر کی محبت کا مقروض ہوں، وحید مراد مرحوم نے میری ملاقات ہدایت کار اسلم ڈار سے کروائی، انھوں نے فلم '' بابل'' میں میری کارکردگی دیکھتے ہوئے فلم ''بشیرا'' میں مرکزی کردار دیا، اس فلم نے میری تقدیر بدل دی۔
میں اسلم ڈار کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا پھر مولا جٹ ہٹ ہوئی سدھیر بہت اچھے انسان تھے پیار میں ڈانٹ بھی دیا کرتے تھے۔ اقبال یوسف کی فلم ''ان داتا'' میں ان سے کئی مرتبہ ڈانٹ کھانے کا اتفاق ہوا، اداکار محمد علی اپنی مثال آپ تھے آسیہ نے میرے ساتھ بحیثیت ہیروئن کے کام کیا ان کی اردو بھی اپنی مثال آپ تھی۔ آسیہ نے مجھے سدھیر، علی بھیا کو رات کے کھانے پر مدعو کیا، ان کی اردو بھی بہت اچھی تھی اور خوب مشکل الفاظ استعمال کرتی تھیں۔
میں نے ایک دن آسیہ سے پوچھ لیا کہ '' اردو بہت ہی خوبصورت بولتی ہیں، واہ کیا بات ہے'' تو آسیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ''میری مادری زبان اردو ہے'' ان کے والدین نے لکھنو سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ ممتاز رنگ کے حوالے سے بہت گوری اداکارہ تھیں، انھوں نے جب فلم '' کالیا'' میں کام کیا تو لوگ ہنستے تھے کہ گوری لڑکی کالیا میں کام کر رہی ہے، ان کے والدین کا تعلق بھی انڈیا سے تھا اور ان کے والدین نے بھی پاکستان ہجرت کی تھی۔
سلطان راہی نمازی پرہیزگار انسان تھے، ان کے ماتھے پر محراب کا نشان تھا، اسٹوڈیو میں مسجد بنوائی، اکثر امامت کے فرائض انجام دیتے، قرأت بہت اچھی تھی، رمضان المبارک میں اسٹوڈیو میں بڑی افطاری کا اہتمام کرتے، گھر پر تراویح پڑھایا کرتے تھے، یہ بات اداکار یوسف خان نے راقم کو بتائی تھی، پیار سے انھیں انڈسٹری میں آغا جانی کہا جاتا تھا، مرحوم نے 500 کے قریب فلموں میں جو اداکاری کی۔
9 جنوری 1996 میں گوجرانوالہ کے قریب ان کی کار خراب ہوگئی تھی وہ مدد کے لیے قرب و جوار میں دیکھ رہے تھے کہ اچانک ڈاکو آگئے اور دکھ اس بات کا ہے کہ وہ سلطان راہی کو پہچان نہ سکے اور اپنے مفاد کے لیے ان کی جان لے لی، راقم سے مرحوم کی کئی ملاقاتیں ہوئیں، ان کی شفقت مجھے آج بھی یاد ہے، ویسے تو سیکڑوں فلموں میں کام کیا مگر ان کی قابل ذکر فلموں میں بابل ، وحشی جٹ ، جگا گجر، ان داتا، ظلم دا بدلہ، مولا جٹ ، شیر خان، بشیرا، چن وریام اور سخی بادشاہ سپرہٹ فلمیں تھیں۔
ان کے چہلم کے موقع پر راقم لاہور میں تھا، ہم نے اپنی آنکھوں سے ان کی یاد میں بے شمار لوگوں کو آنسو بہاتے دیکھا۔ اظہار قاضی، اداکار ندیم، اداکار شان ان کی والدہ نیلو مرحومہ، ٹی وی آرٹسٹ شکیل، راحت کاظمی، سید نور، انجمن اور بہار بیگم نے سلطان راہی کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کیا، روزنامہ ایکسپریس کے متعدد قارئین نے مجھے سلطان راہی پرلکھنے کا کہا'سوآج یہ قرض اتار دیا۔