پاکستانی قیدیوں کی رہائی
سمندری یا زمینی حدود کی خلاف ورزی پر کسی شخص کو برسوں جیل میں رکھنا زیادتی ہے
پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت گزشتہ دنوں بھارت کے بہت سارے ماہی گیر جنھیں سمندری حدود کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا، انھیں رہا کیا تھا، گزشتہ روز بھارت نے بھی 37 پاکستانی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔
جن میں 32 ماہی گیر ہیں۔ بھارتی حکومت نے انھیں جمعۃ المبارک کے دن واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان واپس روانہ کر دیا۔ حکومت پاکستان نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر 26 مئی کو 151 بھارتی قیدیوں کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کیا تھا جس کے جواب میں اب بھارت نے بھی 37 پاکستانی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔ قیدیوں نے بتایا انھیں سمندری حدود کی مبینہ خلاف ورزی پر گرفتار کر کے دو سال تک جیل میں رکھا گیا۔ ان قیدیوں کو جیلوں میں بند کرنے کے بعد سزائیں سنائی گئیں۔ 5 قیدی ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کیے گئے جنھیں ان کے آبائی علاقوں کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے۔
دشمن ملک میں گرفتار ہونے والے بے گناہوں پر کیا گزرتی ہو گی اور ان کے گھر والوں کا کیا حال ہوتا ہو گا اس کا اندازہ بے حِس اسٹیبلشمنٹ کو ہو جائے تو شاید وہ اس ظلم سے باز آ جائیں۔ سمندری یا زمینی حدود کی خلاف ورزی پر کسی شخص کو برسوں جیل میں رکھنا زیادتی ہے، انھیں صرف سرزنش کر کے رہا کر دیا جانا چاہیے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کئی قیدی اپنی سزا کاٹ چکے ہیں لیکن جرمانوں کی عدم ادائیگی پر ابھی تک جیلوں میں بند ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے حکام کو جرم اور غلطی میں تمیز کرنا چاہیے۔
دونوں ملکوں کے سیکیورٹی حکام بیسوں کی تعداد میں جنھیں گرفتار کرتے ہیں، انھیں سیاست کی الف ب کا پتہ ہوتا ہے نہ وہ جاسوس ہوتے ہیں، جاسوسی کرنے والے تو نہ جانے کتنے ہوں گے جو دونوں ملکوں میں سرگرم ہیں۔ اس لیے دونوں ملکوں کے حکام کو چاہیے کہ وہ غلطی سے سرحد پار کرنے والوں اور سمندری حدود کراس کر جانے والے مچھیروں کو موقع پر ہی سرزنش کر کے چھوڑ دیا کریں، اس طریقے سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان نفرتیں کم ہوں گی۔
جن میں 32 ماہی گیر ہیں۔ بھارتی حکومت نے انھیں جمعۃ المبارک کے دن واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان واپس روانہ کر دیا۔ حکومت پاکستان نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر 26 مئی کو 151 بھارتی قیدیوں کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کیا تھا جس کے جواب میں اب بھارت نے بھی 37 پاکستانی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔ قیدیوں نے بتایا انھیں سمندری حدود کی مبینہ خلاف ورزی پر گرفتار کر کے دو سال تک جیل میں رکھا گیا۔ ان قیدیوں کو جیلوں میں بند کرنے کے بعد سزائیں سنائی گئیں۔ 5 قیدی ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کیے گئے جنھیں ان کے آبائی علاقوں کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے۔
دشمن ملک میں گرفتار ہونے والے بے گناہوں پر کیا گزرتی ہو گی اور ان کے گھر والوں کا کیا حال ہوتا ہو گا اس کا اندازہ بے حِس اسٹیبلشمنٹ کو ہو جائے تو شاید وہ اس ظلم سے باز آ جائیں۔ سمندری یا زمینی حدود کی خلاف ورزی پر کسی شخص کو برسوں جیل میں رکھنا زیادتی ہے، انھیں صرف سرزنش کر کے رہا کر دیا جانا چاہیے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کئی قیدی اپنی سزا کاٹ چکے ہیں لیکن جرمانوں کی عدم ادائیگی پر ابھی تک جیلوں میں بند ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے حکام کو جرم اور غلطی میں تمیز کرنا چاہیے۔
دونوں ملکوں کے سیکیورٹی حکام بیسوں کی تعداد میں جنھیں گرفتار کرتے ہیں، انھیں سیاست کی الف ب کا پتہ ہوتا ہے نہ وہ جاسوس ہوتے ہیں، جاسوسی کرنے والے تو نہ جانے کتنے ہوں گے جو دونوں ملکوں میں سرگرم ہیں۔ اس لیے دونوں ملکوں کے حکام کو چاہیے کہ وہ غلطی سے سرحد پار کرنے والوں اور سمندری حدود کراس کر جانے والے مچھیروں کو موقع پر ہی سرزنش کر کے چھوڑ دیا کریں، اس طریقے سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان نفرتیں کم ہوں گی۔