لوحِ مزار دیکھ کے…
ان دنوں ہمارے حکمرانوں پر مبینہ تاریخی کام کرنے کا شوق غالب ہے یا یوں کہیں کہ بھوت سوار ہے۔
ISLAMABAD:
ان دنوں ہمارے حکمرانوں پر مبینہ تاریخی کام کرنے کا شوق غالب ہے یا یوں کہیں کہ بھوت سوار ہے۔ وہ ایسے منصوبے تیار کرتے رہتے ہیں جو ان کے اعداد و شمار کے مطابق مکمل ہو کر اس ملک میں انقلاب لے آئیں گے۔ ان دنوں بجلی کی ظالمانہ قلت ہے۔ بجلی نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے۔ عام شہری کی زندگی چلتی بھی بجلی پر ہے اور تو اور گھر کا باورچی خانہ بھی بجلی کا محتاج ہے۔ کتنے ہی آلات ہیں جن کی حرکت بجلی کی محتاج ہے۔
صبح کے وقت اگر بجلی نہ ہو تو ناشتہ تیار نہیں ہوتا۔ یہی حالت دو وقت کے کھانے کی ہے۔ غرض بجلی کا ہونا نہ ہونا دونوں وقت کا بڑا مسئلہ ہے اور بعض اوقات تو لوڈشیڈنگ ایک بڑا سیاسی مسئلہ بھی بن جاتی ہے جب بازار کے بازار بند ہو جاتے ہیں اور لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو بنیادی ضرورت بجلی کی قلت کا شدید احساس ہے اور ہم نے اخباروں میں کئی ایسے منصوبوں کا ذکر پڑھا ہے جو ادھر مکمل ہوئے اور ادھر بجلی کا طوفان برپا ہو گیا۔ ایسے منصوبے غیر ملکوں کے تعاون سے بھی تیار ہو رہے ہیں اور خود ملک کے اندر بھی ایسے منصوبوں کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں۔
بجلی کی پیداوار کے جس منصوبے کا اشتہار بھی چھپتا ہے اس اشتہار میں تعاون کرنے والے لوگوں کی تصویریں بھی چھپتی ہیں جس سے یہ اشتہار بہت بارونق ہوتا ہے اور حکمرانوں کے لیے مفید بھی۔ پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات کے ایڈیٹر ایک دفعہ مشہور شاعر بھی بن گئے جو خیالات اور شکل و صورت سے بھی انقلابی تھے، یہ تھے ہمارے مہربان اور خصوصی کرمفرما جناب ظہیر کاشمیری۔ ترقیاتی منصوبوں کے جو سنگ بنیادی رکھے جاتے تھے اور حکمران ان منصوبوں کی خاص نگرانی کرتے تھے ایسے سنگ بنیاد کے لیے جناب ظہیر نے ایک لازوال اور بڑا ہی بھرپور انقلابی شعر کہا تھا:
لوحِ مزار دیکھ کے میں دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
سر اور سنگ کے انقلابی رشتے کو شاعر نے زندہ کر دیا اور ذرا نیچے اتریں تو ترقیاتی منصوبوں کے سنگ ہائے بنیاد پر ایک شاندار استعارہ بھی بن جاتا ہے بس یوں سمجھیں ان دنوں سنگ ہائے بنیاد تو بہت ہیں مگر منصوبہ غائب ہے یا کسی سنگ بنیاد کے نیچے دب کر رہ گیا ہے، بس کچھ باقی رہا ہے تو وہ فقط سنگ ہے یعنی ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا ہے۔ پتھر کی وہ تختی جسے کسی قبر کا سنگ اور کتبہ بھی کہا جاتا ہے جس پر صاحب قبر کا نام وغیرہ درج ہوتا ہے اور تاریخ پیدائش و وفات۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ان ترقیاتی منصوبوں کے سنگ بنیاد پر تاریخ پیدائش تو ہوتی ہے لیکن تاریخ وفات نہیں۔
ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پیدائش کا تو خوب پتہ ہوتا ہے مگر وفات عالم غیب کو ہی معلوم ہوتی ہے اور تاریخ وفات کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی۔ سوال تو کسی منصوبے کی پیدائش کا ہے جب مٹھائی بانٹی جاتی ہے اور گھر سجایا جاتا ہے بلکہ وہ مقام بھی جہاں سنگ بنیاد نصب ہوتا ہے بڑی دھوم دھام کے ساتھ لیڈری کی یہ بھی ایک جھلک ہوتی ہے اور آج کل کی لیڈر شپ ان ہی جھلکیوں سے بنتی ہے۔ ہمارے استاد شاعر نے اس واقعے کو دوسرا رنگ دے دیا ہے۔ اگر وہ اپنی معروف نشست بیڈن روڈ لاہور پر دکھائی دیتے تو ان سے درخواست کرتے مگر اب تو خود ان کے سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا ہے۔
کسی منصوبے کی یہ یادگار تختیاں کئی کہانیاں سنواتی ہیں۔ گوجرانوالہ میں ایک بڑے پل پر وزیر اعلیٰ حنیف رامے کے نام کی تختی نصب کی گئی لیکن ابھی پل کے آثار کا دور دور تک پتہ نہیں تھا چنانچہ یہ سنگ بنیاد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہی ایک خبر بن گیا تھا۔ اسی طرح آپ کو کئی مقامات پر ایسی یادگاری تختیاں نظر آئیں گی لیکن غور سے دیکھیں تو وہ چیز دکھائی نہیں دے گی جس پر یہ تختی نصب کی گئی لیکن یہ تو سب بعد کی باتیں ہیں، سیاست تو آج کی بات ہے اور جب آج کی سیاست میں رونق لگ جاتی ہے تو لیڈر کا خرچہ پورا ہو جاتا ہے۔ بظاہر اس علاقے کے ووٹ پکے ہو جائیں۔ سارا چکر ہی ان ہی ووٹوں کا ہے جس کے لیے کوئی صاف ستھرے کپڑوں والا لیڈر خوار ہوتا ہے اس کا انتقام وہ کامیابی کے بعد لیتا ہے اور کئی سنگ بنیاد ووٹروں کا منہ چراتے رہتے ہیں جن کے ساتھ ٹیک لگا کر ووٹر اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی کہ ان دنوں ہمارے حکمران متعدد ایسے منصوبے تیار کر رہے ہیں بلکہ تیار کر چکے ہیں کہ ان منصوبوں کے مقام پر یادگاری تختیاں نصب ہو رہی ہیں۔ لاہور میں قبرستان میانی صاحب ان کے لیے تیار کرنے والوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ میں نے یہاں کئی منصوبوں کے کتبے تیار ہوتے بھی دیکھے ہیں جو مرحومین کے ساتھ ساتھ تیار ہو رہے ہیں۔ اس دعا کے ساتھ کہ خدا ان منصوبوں کو بھی زندگی عطا کرے اور یہ عوام کے کام آئیں جس طرح کوئی مرحوم زندگی میں خلق خدا کے کام آتا رہا ہے۔
میں نے ایک سنگ ساز سے پوچھا کہ کتنے خرچ پر ایک کتبہ تیار ہوتا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ مرحومین کے وارثوں پر منحصر ہے اور جب پوچھا کہ ترقیاتی منصوبوں کے کتبے کتنے میں تیار ہوتے ہیں تو سنگ ساز نے بتایا کہ یہ اس پر منحصر ہے کہ انھیں کون لینے آتا ہے اگر کوئی افسر ہے تو پھر کم از کم میں اور اگر کوئی کارکن ہے اور اس کے ساتھ بھی کچھ لوگ ہیں تو پھر قیمت کچھ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ لیڈر کو بتانی ہوتی ہے۔
ان دنوں ہمارے حکمرانوں پر مبینہ تاریخی کام کرنے کا شوق غالب ہے یا یوں کہیں کہ بھوت سوار ہے۔ وہ ایسے منصوبے تیار کرتے رہتے ہیں جو ان کے اعداد و شمار کے مطابق مکمل ہو کر اس ملک میں انقلاب لے آئیں گے۔ ان دنوں بجلی کی ظالمانہ قلت ہے۔ بجلی نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے۔ عام شہری کی زندگی چلتی بھی بجلی پر ہے اور تو اور گھر کا باورچی خانہ بھی بجلی کا محتاج ہے۔ کتنے ہی آلات ہیں جن کی حرکت بجلی کی محتاج ہے۔
صبح کے وقت اگر بجلی نہ ہو تو ناشتہ تیار نہیں ہوتا۔ یہی حالت دو وقت کے کھانے کی ہے۔ غرض بجلی کا ہونا نہ ہونا دونوں وقت کا بڑا مسئلہ ہے اور بعض اوقات تو لوڈشیڈنگ ایک بڑا سیاسی مسئلہ بھی بن جاتی ہے جب بازار کے بازار بند ہو جاتے ہیں اور لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو بنیادی ضرورت بجلی کی قلت کا شدید احساس ہے اور ہم نے اخباروں میں کئی ایسے منصوبوں کا ذکر پڑھا ہے جو ادھر مکمل ہوئے اور ادھر بجلی کا طوفان برپا ہو گیا۔ ایسے منصوبے غیر ملکوں کے تعاون سے بھی تیار ہو رہے ہیں اور خود ملک کے اندر بھی ایسے منصوبوں کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں۔
بجلی کی پیداوار کے جس منصوبے کا اشتہار بھی چھپتا ہے اس اشتہار میں تعاون کرنے والے لوگوں کی تصویریں بھی چھپتی ہیں جس سے یہ اشتہار بہت بارونق ہوتا ہے اور حکمرانوں کے لیے مفید بھی۔ پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات کے ایڈیٹر ایک دفعہ مشہور شاعر بھی بن گئے جو خیالات اور شکل و صورت سے بھی انقلابی تھے، یہ تھے ہمارے مہربان اور خصوصی کرمفرما جناب ظہیر کاشمیری۔ ترقیاتی منصوبوں کے جو سنگ بنیادی رکھے جاتے تھے اور حکمران ان منصوبوں کی خاص نگرانی کرتے تھے ایسے سنگ بنیاد کے لیے جناب ظہیر نے ایک لازوال اور بڑا ہی بھرپور انقلابی شعر کہا تھا:
لوحِ مزار دیکھ کے میں دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
سر اور سنگ کے انقلابی رشتے کو شاعر نے زندہ کر دیا اور ذرا نیچے اتریں تو ترقیاتی منصوبوں کے سنگ ہائے بنیاد پر ایک شاندار استعارہ بھی بن جاتا ہے بس یوں سمجھیں ان دنوں سنگ ہائے بنیاد تو بہت ہیں مگر منصوبہ غائب ہے یا کسی سنگ بنیاد کے نیچے دب کر رہ گیا ہے، بس کچھ باقی رہا ہے تو وہ فقط سنگ ہے یعنی ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا ہے۔ پتھر کی وہ تختی جسے کسی قبر کا سنگ اور کتبہ بھی کہا جاتا ہے جس پر صاحب قبر کا نام وغیرہ درج ہوتا ہے اور تاریخ پیدائش و وفات۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ان ترقیاتی منصوبوں کے سنگ بنیاد پر تاریخ پیدائش تو ہوتی ہے لیکن تاریخ وفات نہیں۔
ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پیدائش کا تو خوب پتہ ہوتا ہے مگر وفات عالم غیب کو ہی معلوم ہوتی ہے اور تاریخ وفات کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی۔ سوال تو کسی منصوبے کی پیدائش کا ہے جب مٹھائی بانٹی جاتی ہے اور گھر سجایا جاتا ہے بلکہ وہ مقام بھی جہاں سنگ بنیاد نصب ہوتا ہے بڑی دھوم دھام کے ساتھ لیڈری کی یہ بھی ایک جھلک ہوتی ہے اور آج کل کی لیڈر شپ ان ہی جھلکیوں سے بنتی ہے۔ ہمارے استاد شاعر نے اس واقعے کو دوسرا رنگ دے دیا ہے۔ اگر وہ اپنی معروف نشست بیڈن روڈ لاہور پر دکھائی دیتے تو ان سے درخواست کرتے مگر اب تو خود ان کے سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا ہے۔
کسی منصوبے کی یہ یادگار تختیاں کئی کہانیاں سنواتی ہیں۔ گوجرانوالہ میں ایک بڑے پل پر وزیر اعلیٰ حنیف رامے کے نام کی تختی نصب کی گئی لیکن ابھی پل کے آثار کا دور دور تک پتہ نہیں تھا چنانچہ یہ سنگ بنیاد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہی ایک خبر بن گیا تھا۔ اسی طرح آپ کو کئی مقامات پر ایسی یادگاری تختیاں نظر آئیں گی لیکن غور سے دیکھیں تو وہ چیز دکھائی نہیں دے گی جس پر یہ تختی نصب کی گئی لیکن یہ تو سب بعد کی باتیں ہیں، سیاست تو آج کی بات ہے اور جب آج کی سیاست میں رونق لگ جاتی ہے تو لیڈر کا خرچہ پورا ہو جاتا ہے۔ بظاہر اس علاقے کے ووٹ پکے ہو جائیں۔ سارا چکر ہی ان ہی ووٹوں کا ہے جس کے لیے کوئی صاف ستھرے کپڑوں والا لیڈر خوار ہوتا ہے اس کا انتقام وہ کامیابی کے بعد لیتا ہے اور کئی سنگ بنیاد ووٹروں کا منہ چراتے رہتے ہیں جن کے ساتھ ٹیک لگا کر ووٹر اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی کہ ان دنوں ہمارے حکمران متعدد ایسے منصوبے تیار کر رہے ہیں بلکہ تیار کر چکے ہیں کہ ان منصوبوں کے مقام پر یادگاری تختیاں نصب ہو رہی ہیں۔ لاہور میں قبرستان میانی صاحب ان کے لیے تیار کرنے والوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ میں نے یہاں کئی منصوبوں کے کتبے تیار ہوتے بھی دیکھے ہیں جو مرحومین کے ساتھ ساتھ تیار ہو رہے ہیں۔ اس دعا کے ساتھ کہ خدا ان منصوبوں کو بھی زندگی عطا کرے اور یہ عوام کے کام آئیں جس طرح کوئی مرحوم زندگی میں خلق خدا کے کام آتا رہا ہے۔
میں نے ایک سنگ ساز سے پوچھا کہ کتنے خرچ پر ایک کتبہ تیار ہوتا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ مرحومین کے وارثوں پر منحصر ہے اور جب پوچھا کہ ترقیاتی منصوبوں کے کتبے کتنے میں تیار ہوتے ہیں تو سنگ ساز نے بتایا کہ یہ اس پر منحصر ہے کہ انھیں کون لینے آتا ہے اگر کوئی افسر ہے تو پھر کم از کم میں اور اگر کوئی کارکن ہے اور اس کے ساتھ بھی کچھ لوگ ہیں تو پھر قیمت کچھ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ لیڈر کو بتانی ہوتی ہے۔