سبق آموز خبریں
روسی صدر سے زیادہ بھلا کون اس بات سے واقف ہوسکتا ہے کہ بھوک آداب کے سانچوں میں اس لیے نہیں ڈھل سکتی
پہلی خبر یہ ہے کہ روس کے صدر پیوٹن نے شہزادہ چارلس کے طرف سے ان کا ہٹلر کے ساتھ تقابل کرنے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ چارلس نے ایسا کرکے اپنے مرتبے سے کم تر حرکت کی ہے۔ ایک انٹرویو میں ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ انھوں نے خود شہزادہ چارلس کا یہ تبصرہ نہیں سنا جو شہزادے نے ایک یہودی عورت کے حوالے سے کہا ہے۔
تاہم انھوں نے کہا کہ میڈیا ان کا پیغام شہزادے اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون تک پہنچا دے کہ شہزادے نے اچھا نہیں کیا۔ روسی صدر نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شہزادہ چارلس خود بھی اس بات کو تسلیم کرینگے کیونکہ ان کی پرورش ایک اچھے ماحول میں ہوئی ہے۔ روسی صدر نے کہا کہ وہ انھیں اور برطانوی شاہی خاندان کے دوسرے ارکان کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اس لیے کہہ رہے ہیں کہ شہزادے نے جو کچھ کہا ہے وہ شاہی لہجے اور انداز سے مطابقت نہیں رکھتے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ روس کے صدر اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں شاہی خاندان کے مزاج اور مرتبے کی اہمیت سے اس قدر آگاہی رکھتے ہیں اور شہزادے کو اُسی مرتبے اور مقام کا لحاظ نہ کرنے پر ایک طرح سے مورد ِالزام ٹھہراتے ہیں جب کہ ان کے اپنے ملک میں زار روس یعنی شاہی خاندان کو 1917 کے بالشویک انقلاب کے برپا ہونے پر نہ صرف تخت وتاج سے فارغ کردیا گیا تھا بلکہ باجماعت ابدی نیند بھی سُلا دیا گیا تھا۔ ایسا کیوں کیا گیا تھا۔
ایسا اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ روس میں طبقاتی انقلاب آ گیا تھا اور اُس کی بنیاد جمہور کے اُس شعور پر رکھی گئی تھی کہ سارے مسائل، غربت اور پسماندگی کی جڑ بالائی طبقات کا ظلم اور بربریت تھی جو اِسی بادشاہت کے لبادے میں اپنی ظالمانہ، وحشیانہ، بہیمانہ اور سفاکانہ کارروائیوں کا جواز فراہم کرتے رہے تھے۔ ان باتوں کا شعور انھیں کارل مارکس کے جدلیاتی فلسفے نے فراہم کیا تھا۔ انقلابِ روس نے پہلے طبقاتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔
روسی صدر سے زیادہ بھلا کون اس بات سے واقف ہوسکتا ہے کہ بھوک آداب کے سانچوں میں اس لیے نہیں ڈھل سکتی کیونکہ مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے حسِ لطافت صرف اور صرف آرام وآسائش کے ماحول میں ہی پروان چڑھ سکتی ہے اور ایسے مقام پر بھی اگر حسِ لطافت دامن چھوڑ دے تو یہ گلہ حق بجانب ہو گا کہ شخصیت مذکورہ اپنی بلندیوں سے گرِ گئی ہے اور اس بات کی یاد دہانی اُس کے مرتبے اور عزت و وقار کے لیے بین الاقوامی سطح پر بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ امید واثق ہے کہ شاہی خاندان میں رُوسی صدر کے اس ردعمل نے ایسی کھلبلی مچا دی ہوگی کہ جس کا علم شاید کچھ عرصہ بعد منظر عام پر آئے۔
چونکہ روسی صدر کا یہ بیان سیاسی ہرگز نہیں اس لیے اس کے اثرات بھی گھمبیراور انتہائی دُور رس ہوں گے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ روسی صدر اپنے مدمقابل کے حقیقی مرتبے اور مقام سے آگاہ ہیں اور جب وہ اپنے مرتبے اور مقام سے ذرا نیچے کھسکا رُوس کے صدر جیسی شخصیت کو بھی اچھا نہیں لگا۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے روسی صدر بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کا مدمقابل اُن کے اصلی مدِمقابل ہونے کے اعزاز سے محروم رہے ۔ اس خبر سے جو چیز عیاں ہوئی ہے وہ یہ کہ آدمی جو بھی کچھ اور جب بھی کچھ بن جائے اپنے مرتبے اور مقام کیمطابق کردار ادا کرے۔
دوسری خبر کیمطابق غریب ترین یوراگوئے کے صدر نے 100 شامی بچوں کی کفالت کا ذمہ لے لیا ۔ تفصیلات کے مطابق جنوبی امریکا کے غریب اور پسماندہ ملک یوراگوئے کے سفید پوش اور غریب صدر نے شام میں خانہ جنگی سے متاثرہ 100 یتیم بچوں کی کفالت اور ذمہ لیتے ہوئے ان کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیے ہیں ۔ ایک طرف شہزادے کی رعُونت اور دوسری طرف غریب کا جگرا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی نظام رائج ہو اور جہاں بھی رائج ہو۔ ایک بات سب میں مشترک ہوتی ہے ہر ملک معاشرے اور قوم میں غریب بھی ہوتے ہیں اور امیر بھی ۔ غریب اور امیر جمہوری ممالک کے اندر بھی ہوتے ہیں ڈکٹیٹر شپ کے تحت بھی ، اسلامی نظام کے اندر بھی ، کمیونسٹ اور فسطائی نظاموں ، بادشاہوں حتیٰ کے اُن ممالک میں بھی غریب ہوتے ہیں جو غربت کے خاتمے کے نعروں کی بنیاد پر طرزحکومت اپناتے ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امیر ہمیشہ تعداد میں بہت کم اور غریب ہمیشہ اکثریت میں ہوتے ہیں کسی بھی نظام حکومت میں غربت کم تو ہوسکتی ہے غریب ختم نہیں ہوسکتے ۔
کم ازکم تاریخ انسانی یہی بتاتی ہے۔ خود اپنی تاریخ کو اگر کھنگالا جائے تو واضح ہو جائے گا غربت ہر دور میں رہی، بادشاہوں کے دور میں بھی رہی اور آج بھی مختلف اسلامی ملکوں میں بھر پور انداز سے سب مسلمانوں کا مُنہ چڑا رہی ہے۔ دنیا میں اس وقت بھی غربت کی لکیر یعنی آج کے بین الاقوامی معیار کیمطابق دو ڈالر یومیہ کمانے سے کم لوگوں کی تعداد دنیا کی آبادی کے تقریباً نصف کے برابر ہے۔ دنیا کے سارے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے یعنی دس بیس ملکوں کو چھوڑ کر باقی دنیا کے سارے ممالک یا ترقی پذیر کہلائے جاتے ہیں یا پھر پسماندہ ۔ اکثریت کی تعداد پسماندہ ممالک میں شمار ہوتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غریب ترین ملکوں کے امراء دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور اس میں بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جو خوشحال ہے وہ کسی کا حق کھائے بغیر خوشحال نہیں ہوسکتا۔ اس گہری بات کو سمجھنے کے باوجود اس کے تدارک کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا کیونکہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ جو کچھ اُس کے پاس ہے وہ اس کے پاس نہ رہے جس ذات باری تعالیٰ نے سب کچھ عطا کر رکھا ہے اُس کے مطالبے پر اپنے مال کا ڈھائی فیصد دیتے ہوئے جان نکلتی ہے جب کہ بظاہر یہ ایمان بھی رکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی دیا ہوا ہے اُسی کا دیا ہے اپنی زندگی میں اپنی اولاد تک کو اکثر لوگ کچھ نہیں دیتے کیونکہ مرنے سے پہلے مرنا نہیں چاہتے ۔ دنیا کے مخیر حضرات کی اکثریت اپنی زندگی کے خاتمے کے بعد اپنی دولت کو فلاحی اداروں کو تفویض کرنے کی وصیت کرتے ہیں اپنی زندگی میں ایسے لوگوں کی اکثریت بھی ایسا کرنے کی جرات نہیں کرتی کہ موت سے پہلے اپنی دولت فلاحی کاموں کے لیے وقف کردے۔
اس صورت حال میں ایک یوراگوئے کے غریب اور سفید پوش صدر نے شام کے شورش زدہ اور حالات کے مارے ہوئے 100بچوں کی کفالت کا ذمہ لیا ہے تو یہ شہزادہ چارلس کے مقابلے میں اپنے مرتبے سے گرنے کی بجائے اُسے اٹھانے کے مترادف ہے اور دیگر حکمرانوں کے لیے قابل تقلید۔ ابھی یہ صرف اعلان ہی ہے اور آگے معلوم نہیں کیا ہوگا۔ بالکل اس طرح شہزادہ چارلس نے بھی اپنی رائے کا اعلان ہی کیا اور کچھ بھی نہیں ۔ دونوں صورتوں میں ایک گرِا اور ایک چڑھا۔
اب آئیے تیسری خبرکا تعلق ہمارے وزیراعظم کا نریندرا مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے دورہ بھارت سے ہے۔ اس دورے کی دعوت بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی نے سفارتی ذرائع سے ہمارے وزیراعظم کو بھجوائی تھی۔ ہمارے وزیراعظم نے دورے پر جانے کا فیصلہ کرنے سے پہلے تمام متعلقہ لوگوں اور اداروں کو اعتماد میں لیا اور مشاورت کی ۔ خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو ۔ آمین۔
تاہم انھوں نے کہا کہ میڈیا ان کا پیغام شہزادے اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون تک پہنچا دے کہ شہزادے نے اچھا نہیں کیا۔ روسی صدر نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شہزادہ چارلس خود بھی اس بات کو تسلیم کرینگے کیونکہ ان کی پرورش ایک اچھے ماحول میں ہوئی ہے۔ روسی صدر نے کہا کہ وہ انھیں اور برطانوی شاہی خاندان کے دوسرے ارکان کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اس لیے کہہ رہے ہیں کہ شہزادے نے جو کچھ کہا ہے وہ شاہی لہجے اور انداز سے مطابقت نہیں رکھتے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ روس کے صدر اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں شاہی خاندان کے مزاج اور مرتبے کی اہمیت سے اس قدر آگاہی رکھتے ہیں اور شہزادے کو اُسی مرتبے اور مقام کا لحاظ نہ کرنے پر ایک طرح سے مورد ِالزام ٹھہراتے ہیں جب کہ ان کے اپنے ملک میں زار روس یعنی شاہی خاندان کو 1917 کے بالشویک انقلاب کے برپا ہونے پر نہ صرف تخت وتاج سے فارغ کردیا گیا تھا بلکہ باجماعت ابدی نیند بھی سُلا دیا گیا تھا۔ ایسا کیوں کیا گیا تھا۔
ایسا اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ روس میں طبقاتی انقلاب آ گیا تھا اور اُس کی بنیاد جمہور کے اُس شعور پر رکھی گئی تھی کہ سارے مسائل، غربت اور پسماندگی کی جڑ بالائی طبقات کا ظلم اور بربریت تھی جو اِسی بادشاہت کے لبادے میں اپنی ظالمانہ، وحشیانہ، بہیمانہ اور سفاکانہ کارروائیوں کا جواز فراہم کرتے رہے تھے۔ ان باتوں کا شعور انھیں کارل مارکس کے جدلیاتی فلسفے نے فراہم کیا تھا۔ انقلابِ روس نے پہلے طبقاتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔
روسی صدر سے زیادہ بھلا کون اس بات سے واقف ہوسکتا ہے کہ بھوک آداب کے سانچوں میں اس لیے نہیں ڈھل سکتی کیونکہ مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے حسِ لطافت صرف اور صرف آرام وآسائش کے ماحول میں ہی پروان چڑھ سکتی ہے اور ایسے مقام پر بھی اگر حسِ لطافت دامن چھوڑ دے تو یہ گلہ حق بجانب ہو گا کہ شخصیت مذکورہ اپنی بلندیوں سے گرِ گئی ہے اور اس بات کی یاد دہانی اُس کے مرتبے اور عزت و وقار کے لیے بین الاقوامی سطح پر بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ امید واثق ہے کہ شاہی خاندان میں رُوسی صدر کے اس ردعمل نے ایسی کھلبلی مچا دی ہوگی کہ جس کا علم شاید کچھ عرصہ بعد منظر عام پر آئے۔
چونکہ روسی صدر کا یہ بیان سیاسی ہرگز نہیں اس لیے اس کے اثرات بھی گھمبیراور انتہائی دُور رس ہوں گے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ روسی صدر اپنے مدمقابل کے حقیقی مرتبے اور مقام سے آگاہ ہیں اور جب وہ اپنے مرتبے اور مقام سے ذرا نیچے کھسکا رُوس کے صدر جیسی شخصیت کو بھی اچھا نہیں لگا۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے روسی صدر بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کا مدمقابل اُن کے اصلی مدِمقابل ہونے کے اعزاز سے محروم رہے ۔ اس خبر سے جو چیز عیاں ہوئی ہے وہ یہ کہ آدمی جو بھی کچھ اور جب بھی کچھ بن جائے اپنے مرتبے اور مقام کیمطابق کردار ادا کرے۔
دوسری خبر کیمطابق غریب ترین یوراگوئے کے صدر نے 100 شامی بچوں کی کفالت کا ذمہ لے لیا ۔ تفصیلات کے مطابق جنوبی امریکا کے غریب اور پسماندہ ملک یوراگوئے کے سفید پوش اور غریب صدر نے شام میں خانہ جنگی سے متاثرہ 100 یتیم بچوں کی کفالت اور ذمہ لیتے ہوئے ان کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیے ہیں ۔ ایک طرف شہزادے کی رعُونت اور دوسری طرف غریب کا جگرا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی نظام رائج ہو اور جہاں بھی رائج ہو۔ ایک بات سب میں مشترک ہوتی ہے ہر ملک معاشرے اور قوم میں غریب بھی ہوتے ہیں اور امیر بھی ۔ غریب اور امیر جمہوری ممالک کے اندر بھی ہوتے ہیں ڈکٹیٹر شپ کے تحت بھی ، اسلامی نظام کے اندر بھی ، کمیونسٹ اور فسطائی نظاموں ، بادشاہوں حتیٰ کے اُن ممالک میں بھی غریب ہوتے ہیں جو غربت کے خاتمے کے نعروں کی بنیاد پر طرزحکومت اپناتے ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امیر ہمیشہ تعداد میں بہت کم اور غریب ہمیشہ اکثریت میں ہوتے ہیں کسی بھی نظام حکومت میں غربت کم تو ہوسکتی ہے غریب ختم نہیں ہوسکتے ۔
کم ازکم تاریخ انسانی یہی بتاتی ہے۔ خود اپنی تاریخ کو اگر کھنگالا جائے تو واضح ہو جائے گا غربت ہر دور میں رہی، بادشاہوں کے دور میں بھی رہی اور آج بھی مختلف اسلامی ملکوں میں بھر پور انداز سے سب مسلمانوں کا مُنہ چڑا رہی ہے۔ دنیا میں اس وقت بھی غربت کی لکیر یعنی آج کے بین الاقوامی معیار کیمطابق دو ڈالر یومیہ کمانے سے کم لوگوں کی تعداد دنیا کی آبادی کے تقریباً نصف کے برابر ہے۔ دنیا کے سارے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے یعنی دس بیس ملکوں کو چھوڑ کر باقی دنیا کے سارے ممالک یا ترقی پذیر کہلائے جاتے ہیں یا پھر پسماندہ ۔ اکثریت کی تعداد پسماندہ ممالک میں شمار ہوتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غریب ترین ملکوں کے امراء دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور اس میں بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جو خوشحال ہے وہ کسی کا حق کھائے بغیر خوشحال نہیں ہوسکتا۔ اس گہری بات کو سمجھنے کے باوجود اس کے تدارک کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا کیونکہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ جو کچھ اُس کے پاس ہے وہ اس کے پاس نہ رہے جس ذات باری تعالیٰ نے سب کچھ عطا کر رکھا ہے اُس کے مطالبے پر اپنے مال کا ڈھائی فیصد دیتے ہوئے جان نکلتی ہے جب کہ بظاہر یہ ایمان بھی رکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی دیا ہوا ہے اُسی کا دیا ہے اپنی زندگی میں اپنی اولاد تک کو اکثر لوگ کچھ نہیں دیتے کیونکہ مرنے سے پہلے مرنا نہیں چاہتے ۔ دنیا کے مخیر حضرات کی اکثریت اپنی زندگی کے خاتمے کے بعد اپنی دولت کو فلاحی اداروں کو تفویض کرنے کی وصیت کرتے ہیں اپنی زندگی میں ایسے لوگوں کی اکثریت بھی ایسا کرنے کی جرات نہیں کرتی کہ موت سے پہلے اپنی دولت فلاحی کاموں کے لیے وقف کردے۔
اس صورت حال میں ایک یوراگوئے کے غریب اور سفید پوش صدر نے شام کے شورش زدہ اور حالات کے مارے ہوئے 100بچوں کی کفالت کا ذمہ لیا ہے تو یہ شہزادہ چارلس کے مقابلے میں اپنے مرتبے سے گرنے کی بجائے اُسے اٹھانے کے مترادف ہے اور دیگر حکمرانوں کے لیے قابل تقلید۔ ابھی یہ صرف اعلان ہی ہے اور آگے معلوم نہیں کیا ہوگا۔ بالکل اس طرح شہزادہ چارلس نے بھی اپنی رائے کا اعلان ہی کیا اور کچھ بھی نہیں ۔ دونوں صورتوں میں ایک گرِا اور ایک چڑھا۔
اب آئیے تیسری خبرکا تعلق ہمارے وزیراعظم کا نریندرا مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے دورہ بھارت سے ہے۔ اس دورے کی دعوت بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی نے سفارتی ذرائع سے ہمارے وزیراعظم کو بھجوائی تھی۔ ہمارے وزیراعظم نے دورے پر جانے کا فیصلہ کرنے سے پہلے تمام متعلقہ لوگوں اور اداروں کو اعتماد میں لیا اور مشاورت کی ۔ خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو ۔ آمین۔