اظہارِیکجہتی بار بار …
میری بنیادی حیثیت ایک کارکن کی ہے جس پرمجھے فخر ہے۔یہ بات میری ذمے داری میں شامل ہے
میری بنیادی حیثیت ایک کارکن کی ہے جس پرمجھے فخر ہے۔یہ بات میری ذمے داری میں شامل ہے کہ میں اپنی تحریک سے وابستہ یا غیر وابستہ ایک ایک رکن کو وہ پیغام پہنچاؤں جس سے نہ صرف اپنے فرائض کی انجام دہی کی تربیت حاصل ہوئی بلکہ اپنے حقوق سے آگہی بھی حاصل ہوئی، جینے کا حق، تعلیم کا حصول اور ہنر سیکھنا بھی میری اوّلین ذمے داریوں میں شامل ہے۔مجھے ادراک ہے کہ بے جا ظلم و تشدد کے خلاف ڈٹ جانے میں ہی میری بقاء ہے ، یہ بات میری اور میری صِنف کے لیے قابلِ فخر ہے اور اس تربیت کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک بڑی نامور این جی او نے 2013-14کی رپورٹ میں واضح تحریر کیا ہے کہ اس سال عورتوں پر ہونے والے تشدد میں سب سے کم تناسب ان خواتین کا ہے جو روشن دماغ اور روشن خیال پلیٹ فارم سے وابستہ ہیں۔
میری دوسری ذمے داری بحیثیت پارلیمنٹیرین ہے کہ عوام کی سہولت کے لیے قانون سازی میں اپنا کردار ادا کروں یہ میری اُس ہی تربیت کا نتیجہ ہے کہ عوام کے لیے سیاست سے بالا تر اور امتیازات کے بغیر فلاح کے قوانین بنانے میں بھرپورحصہ لوں کیونکہ انسان آج بھی ظلم کی چکی میں پسا ہوا ہے۔
بڑے چور دندناتے پھررہے ہیں جب کہ چھوٹا چور کٹہرے میں ۔۔۔ بڑے چور جیلوں کی ''بی'' کلاس میں اور دوسری طرف بے گناہ یا چھوٹا جرم کرنے والا اپنا جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی تشدد کے عذاب سے مار مار کے ادھ موا کر دیا جاتا ہے حتیٰ کہ کبھی کبھی اتنا تشدد ہوتا ہے کہ ناکردہ گنا ہ پر بھی اقبالِ جرم کر لیتا ہے، اس کی پاداش میں سزائیں، جیلیں کاٹتا ہے اور ایسی کہانیوں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں اور المیہ یہ بھی رہا ہے کہ دوران تفتیش اسے غلط بات پر اقرار جرم نہ کرنے کی پاداش میں اتنا مارا جاتا ہے کہ وہ زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور آج کل یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانا، قانون سازی کرنا میں اپنی اہم ترین ذمے داری سمجھتی ہوں گوکہ معاشرے میں مجھ جیسی سوچ رکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن میں اس بات کو اچھا شگون سمجھتی ہوں ،تھوڑا سا نمک بھی روٹیوں کا ذائقہ تبدیل کر دیتا ہے ، بہرصورت یہ ذائقہ تبدیل ہو گا اور ضرور ہو گا۔ لوگ ضرور سمجھیں گے کہ نمک جوفی الوقت انھیں کڑوا لگ رہا ہے اصل میں کڑوا نہیں ہے۔
25مئی 2014ء کو ایم اے جناح روڈ پرہونے والے اپنے قائد سے اظہارِ یکجہتی کے جلسہ کے حوالے سے بڑے سوالات اٹھتے دیکھے کہ بھئی یہ بار بار اظہارِ یکجہتی کیوں۔؟ تاہم اس کا جواب یہ ہے کہ روشن خیال تحریکوں میں جب لوگ جوق درجوق شامل ہو رہے ہوں تو ایسے اجتماعات و جلسے جلوس ان نواردوں کی تربیت کا حصہ ہوتے ہیں جو بار بار اس نظریہ و قائد سے والہانہ محبت عقیدت کا اظہار کر تے ہیں اور ایسا قائد جو انسانیت کا درس دے رہا ہو۔
ان ریلیوں اور جلسوں میں طول و عرض تک پھیلا انسانی اجتماع ہوتا ہے جس میں ہر طرف قطار در قطار نظم و ضبط کے ساتھ بہنیں اور بیٹیاں بیٹھی ہوتی ہیں،یہاں بزرگ خواتین بھی ہوتی ہیں، طالبات اور بچیاں بھی،خواتین کا ذکر اس لیے کر رہی ہوں کہ یہ امن کی علامت ہیں...ہندو، سکھ اور عیسائی بھی ہوتی ہیں۔ آنے والی ریلیوں میں ماتھے پر بندیا سجائے اور گلے میں چمکتا دمکتا کراس ڈالے... جذبوں سے سرشار لاکھوں کی تعداد میں اپنے قائد کے چاہنے والوں کے درمیان اتنی ہی محفوظ ہیں جتنی اپنے محرموں اور گھر والوں کے درمیان۔۔۔ یہ سب اس قائد کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے۔ جوسب کے ساتھ مخلص ہے، ایماندار ہے اور ایسا حق پرست ہے جس نے نا انصافی اور ظلم کے آگے سر نہیں جھکایا۔
ظلم صرف تیر اور تلوار سے ہی نہیں کیا جا تا بلکہ ظلم کوڑے برسا کر بھی ہوتا ہے جو اس لیڈر نے سہا، ظلم اسیری ہے جو جھیلی، جلاوطنی کی صعوبتیں بھی برداشت کر رہے ہیں،اور کسی بھی معاملہ میں غیر ضروری تفتیش بھی ظلم ہے اور وہ بھی ایک ایسے انسان کے بارے میں جو انسانی بنیادی حقوق کا عَلم لے کر نکلا ہو اور پھر زندگی کے سب سے بڑے یعنی جینے کے حق کو قائم رکھنے کے لیے اپنی پوری تحریک کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف ڈٹ گیا ہو۔
بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو آج بھی مثبت سوچ اور حق کی آواز اٹھانے پرخود ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ ان کی آواز دبانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں لہٰذا ہم ایسی طاقتوں سے استدعا کرتے ہیں کہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جائے کیونکہ آنے والا وقت ایک بار پھر دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کر دے گا۔ ایک مثبت فکر کے حامل انسان کو غیر ضروری تفتیش میں ڈال کر اس کے ذہن کو منتشر نہ کیا جائے کہ جوبلا تفریق ہر شخص کے جینے کی بات کرتا ہو،دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ایک علامت بن چکا ہو، اور ان منفی طاقتوں کے خلاف برسرپیکار ہو جو انسانی زندگیوں کو روند ڈالنے پر تُلی ہوئی ہیں اور دنیا کا امن تہہ و بالا کر رہی ہیں۔
میری دوسری ذمے داری بحیثیت پارلیمنٹیرین ہے کہ عوام کی سہولت کے لیے قانون سازی میں اپنا کردار ادا کروں یہ میری اُس ہی تربیت کا نتیجہ ہے کہ عوام کے لیے سیاست سے بالا تر اور امتیازات کے بغیر فلاح کے قوانین بنانے میں بھرپورحصہ لوں کیونکہ انسان آج بھی ظلم کی چکی میں پسا ہوا ہے۔
بڑے چور دندناتے پھررہے ہیں جب کہ چھوٹا چور کٹہرے میں ۔۔۔ بڑے چور جیلوں کی ''بی'' کلاس میں اور دوسری طرف بے گناہ یا چھوٹا جرم کرنے والا اپنا جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی تشدد کے عذاب سے مار مار کے ادھ موا کر دیا جاتا ہے حتیٰ کہ کبھی کبھی اتنا تشدد ہوتا ہے کہ ناکردہ گنا ہ پر بھی اقبالِ جرم کر لیتا ہے، اس کی پاداش میں سزائیں، جیلیں کاٹتا ہے اور ایسی کہانیوں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں اور المیہ یہ بھی رہا ہے کہ دوران تفتیش اسے غلط بات پر اقرار جرم نہ کرنے کی پاداش میں اتنا مارا جاتا ہے کہ وہ زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور آج کل یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانا، قانون سازی کرنا میں اپنی اہم ترین ذمے داری سمجھتی ہوں گوکہ معاشرے میں مجھ جیسی سوچ رکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن میں اس بات کو اچھا شگون سمجھتی ہوں ،تھوڑا سا نمک بھی روٹیوں کا ذائقہ تبدیل کر دیتا ہے ، بہرصورت یہ ذائقہ تبدیل ہو گا اور ضرور ہو گا۔ لوگ ضرور سمجھیں گے کہ نمک جوفی الوقت انھیں کڑوا لگ رہا ہے اصل میں کڑوا نہیں ہے۔
25مئی 2014ء کو ایم اے جناح روڈ پرہونے والے اپنے قائد سے اظہارِ یکجہتی کے جلسہ کے حوالے سے بڑے سوالات اٹھتے دیکھے کہ بھئی یہ بار بار اظہارِ یکجہتی کیوں۔؟ تاہم اس کا جواب یہ ہے کہ روشن خیال تحریکوں میں جب لوگ جوق درجوق شامل ہو رہے ہوں تو ایسے اجتماعات و جلسے جلوس ان نواردوں کی تربیت کا حصہ ہوتے ہیں جو بار بار اس نظریہ و قائد سے والہانہ محبت عقیدت کا اظہار کر تے ہیں اور ایسا قائد جو انسانیت کا درس دے رہا ہو۔
ان ریلیوں اور جلسوں میں طول و عرض تک پھیلا انسانی اجتماع ہوتا ہے جس میں ہر طرف قطار در قطار نظم و ضبط کے ساتھ بہنیں اور بیٹیاں بیٹھی ہوتی ہیں،یہاں بزرگ خواتین بھی ہوتی ہیں، طالبات اور بچیاں بھی،خواتین کا ذکر اس لیے کر رہی ہوں کہ یہ امن کی علامت ہیں...ہندو، سکھ اور عیسائی بھی ہوتی ہیں۔ آنے والی ریلیوں میں ماتھے پر بندیا سجائے اور گلے میں چمکتا دمکتا کراس ڈالے... جذبوں سے سرشار لاکھوں کی تعداد میں اپنے قائد کے چاہنے والوں کے درمیان اتنی ہی محفوظ ہیں جتنی اپنے محرموں اور گھر والوں کے درمیان۔۔۔ یہ سب اس قائد کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے۔ جوسب کے ساتھ مخلص ہے، ایماندار ہے اور ایسا حق پرست ہے جس نے نا انصافی اور ظلم کے آگے سر نہیں جھکایا۔
ظلم صرف تیر اور تلوار سے ہی نہیں کیا جا تا بلکہ ظلم کوڑے برسا کر بھی ہوتا ہے جو اس لیڈر نے سہا، ظلم اسیری ہے جو جھیلی، جلاوطنی کی صعوبتیں بھی برداشت کر رہے ہیں،اور کسی بھی معاملہ میں غیر ضروری تفتیش بھی ظلم ہے اور وہ بھی ایک ایسے انسان کے بارے میں جو انسانی بنیادی حقوق کا عَلم لے کر نکلا ہو اور پھر زندگی کے سب سے بڑے یعنی جینے کے حق کو قائم رکھنے کے لیے اپنی پوری تحریک کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف ڈٹ گیا ہو۔
بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو آج بھی مثبت سوچ اور حق کی آواز اٹھانے پرخود ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ ان کی آواز دبانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں لہٰذا ہم ایسی طاقتوں سے استدعا کرتے ہیں کہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جائے کیونکہ آنے والا وقت ایک بار پھر دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کر دے گا۔ ایک مثبت فکر کے حامل انسان کو غیر ضروری تفتیش میں ڈال کر اس کے ذہن کو منتشر نہ کیا جائے کہ جوبلا تفریق ہر شخص کے جینے کی بات کرتا ہو،دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ایک علامت بن چکا ہو، اور ان منفی طاقتوں کے خلاف برسرپیکار ہو جو انسانی زندگیوں کو روند ڈالنے پر تُلی ہوئی ہیں اور دنیا کا امن تہہ و بالا کر رہی ہیں۔