مکڑا پیک

بلندیوں کی طرف ایک مسافرت

فوٹو : فائل

بچپن میں ہم سب نے اسکول کے زمانے میں My Hobby کے موضوع پر مضمون خوب رٹا ہے۔ تقریباً ہم سبھی کے انگریزی کے استاد ڈنڈے کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ہمیں بتایا کرتے تھے کہ آپ کا پسندیدہ مشغلہ کیا ہونا چاہیے۔

اگر استاد سکے جمع کرنا یا پھر ڈاک ٹکٹ جمع کرنا لکھوا دیتا تو ساری جماعت پر لازم تھا کہ اس کا مشغلہ اب سے یہی ہو گا جو انگریزی کے استاد نے لکھوا دیا تھا۔ ہر جماعت میں مختلف استادوں نے اپنی اپنی مرضی کا مشغلہ لکھوا دیا مگر آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ یادوں کو جمع کرنا بھی ایک اچھا مشغلہ ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے اچھا مشغلہ اور کیا ہی ہوگا کہ انسان یادوں کو جمع کرتا رہے۔ اپنے اس وقت کے لیے جب کوئی دوسرا اس کے ساتھ نہیں ہوگا۔

جوانی ہمیشہ نہیں رہنے والی۔ یہاں تک کہ زندگی بھی تو عارضی ہی ہے۔ کسے پتا کون کب اور کیسے چلا جائے اور اس کی صرف یادیں ہی آپ کے پاس رہ جائیں۔ یہ مت سوچیں کہ دوست آپ کو کیسے دیکھتے ہیں، آپ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔

آپ فقط اپنی یادیں بنائیں اور ایک طرف ہوجائیں اور پھر لگ جائیں اپنی نئی یادوں کو بنانے میں کہ بڑھاپے میں جب شاید کوئی بھی آپ کے پاس نہ ہو تو کم از کم دو چیزیں ایسی ہیں جو ہمیشہ آپ کے پاس رہیں گی۔

ایک کتابیں اور دوسری آپ کی خوب صورت یادیں۔ یہ یادیں آپ کو جینے کے لیے توانائی فراہم کریں گی۔ عین ممکن ہے کہ ایک ایسا وقت بھی آئے جب آپ کے پاس جینے کی واحد وجہ آپ کی یادیں ہی ہوں۔ حالاں کہ میرا کوئی ارادہ نہیں تھا نئی یاد بنانے کا مگر جب قسمت اچھی ہو تو خوب صورت یادیں اپنے آپ بن جایا کرتی ہیں۔ وہ کسی کی محتاج نہیں ہوتیں۔

خذیفہ سعودی عرب سے اپنی سالانہ چھٹی پر پاکستان آیا تو اس نے سری پائے جانے کا پلان کرلیا۔ میں نے اس میں مزید اضافہ یہ کیا کہ اگر سری پائے ہی جانا ہے تو ذرا آگے مکڑا پہاڑ کو بھی سر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

خذیفہ یقینی طور پر دل ہی دل میں ہنسا ہوگا بلکہ دل ہی دل میں کیوں، اس نے سب گھر والوں کے سامنے قہقہہ لگایا ہو گا کہ ایک عدد سست پنجابی مکڑا پہاڑ کی چوٹی پر جانے کی بات کر رہا ہے۔ اس کا مجھ پر یوں ہنسنا سمجھ میں بھی آتا ہے۔ پچھلے برس بھی جب ہم وادی سرن میں موجود بلیجہ کے ٹریک کے لیے نکلے تھے تو میں بس راستے میں ہی ڈھیر ہوگیا تھا۔



دور سے ہی بلیجہ کی برفانی چوٹیاں دیکھ کر میں نے ہمت ہار دی تھی اور اپنے پرکھوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے دور سے ہی ہتھیار ڈال دیے تھے۔

ایسا نہیں تھا کہ میں نے بالکل بھی ہمت نہ کی تھی بلکہ کم ازکم پانچ گھنٹے میں بھی چلا تھا مگر ابھی بہت سے امتحان باقی تھی۔ بلیجہ کے برف پوش پہاڑوں کے درمیان بنی چراگاہوں تک پہنچنے کے لیے مزید تین سے چار گھنٹے درکار تھے۔

اس لیے میں نے سفید جھنڈا لہراتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ تم سب آگے جاؤ اور بلیجہ کی چراگاہوں کو دیکھو۔ وہ الگ بات ہے کہ میرے ساتھیوں نے مجھ سے اجازت طلب نہ کی تھی بلکہ وہ تو مجھ سے بہت آگے نکل چکے تھے اور میں نکما پیچھے ہی استراحت کرتا رہا تھا۔ یہ فقط پچھلے سال کی ہی تو بات تھی۔ کوئی بھلا اسے کیسے بھول سکتا تھا جب کہ میں تو اپنے وہ دکھ بھی نہیں بھولا جو میرے جنم سے پہلے میرے بزرگوں نے میرے ملک کو دیے تھے۔

خذیفہ نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ سیزن گزر چکا ہے۔ ٹھنڈ بہت ہوگی، عین ممکن ہے کہ برف کی وجہ سے راستہ بھی بند ہو چکا ہو۔ میں نے بھی کہہ دیا کہ جہاں تک ممکن ہوسکا جائیں گے مگر مکڑا پہاڑ پر اپنے قدم ضرور ڈالیں گے۔

معلومات لینے پر معلوم ہوا کہ سری پائے پوائنٹ سے گھوڑا ملتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ساتھ گھوڑے والا بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے پاپی پیٹ کے لیے آپ کو سری پائے سے مکڑا پہاڑ کے بیس کیمپ تک لے جائے گا۔

دوسروں لفظوں میں آپ یوں سمجھ لیں کہ وہ آپ کو سری سے اٹھا کر مکڑا پہاڑ کے قدموں کا پھینکے گا اور آگے پھر مکڑا پہاڑ جانے اور آپ جانیں۔ طے یہی پایا کہ میں جمعہ کی رات تک مانسہرہ پہنچ جاؤں گا اور پھر صبح سویرے ہم سری پائے کے لیے نکل جائیں گے۔

سری پائے کے لیے نکلتے نکلتے ہمیں آٹھ تو گھر ہی بج گئے۔ ویسے بھی آج ہمیں صرف سری پائے تک جانا تھا یعنی ہمارے پاس وقت ہی وقت تھا۔ لوکل ٹرانسپورٹ پر شمالی علاقے جات جانے والوں کے لیے مانسہرہ وہی اہمیت رکھتا ہے جو سندھ، بلوچستان اور لوئر پنجاب سے آنے والوں کے لیے پنڈی رکھتا ہے۔

ہر چھوٹے بڑے سیاحتی مقام کی گاڑی آپ کو مانسہرہ لاری اڈے سے ملے گی، اور گاڑیاں بھی اچھی حالت میں۔ اگر آپ کے شہر سے مانسہرہ کو براہ راست گاڑی جاتی ہے تو ہمیشہ پہلے صبح سویرے مانسہرہ پہنچیں، اچھا ناشتہ کریں اور پھر اپنے اصل مقام پر جانے کے لیے گاڑی پکڑ لیں۔ اگر آپ کو شوگران جانا ہے تو آپ کو ''کیوائی'' جانا پڑے گا۔ آپ ناران، یا مہانڈری کی گاڑی پکڑ لیں اور راستے میں کیوائی اسٹاپ پر اتر جائیں۔

کیوائی فقط ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور اس کا اسٹاپ بھی ایک ہی ہے۔ اس لیے فکر مند بالکل نہ ہوں کہ آپ کو کون سے اسٹاپ اترنا ہے۔ ایک ہی اسٹاپ ہے۔

آپ بس گاڑی والے کو کیوائی بتا دیں، وہ آپ کو اتار دے گا۔ گاڑی والے چوںکہ پورا کرایہ لیتے ہیں، اس لیے ناران والی گاڑی میں بیٹھ کر پورا کرایہ دینے سے بہتر ہے کہ آپ مہانڈری والی گاڑی میں بیٹھ جائیں اور کیوائی اتر جائیں۔ کیوائی سے جیپ آپ کو شوگران یا سری پائے تک لے جائے گی۔ سیزن ہو تو جیپ کا کرایہ زیادہ ہے۔

آف سیزن میں جیپ کیوائی سے شوگران تک جانے کا 2500 جب کہ کیوائی سے سری پائے تک جانے کا 4500 چارج کرتی ہے۔ سیزن میں یہی کرایہ دس ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر آپ صبح کیوائی پہنچ چکے ہیں تو سیدھا سری پائے جائیں۔ موج مستی کریں اور شام اسی جیپ پر واپس آ جائیں۔ اگر دوپہر گزر چکی ہے تو پھر مناسب ہے کہ آپ کیوائی سے شوگران جائیں۔

وہاں رات قیام کریں اور پھر صبح سویرے شوگران سے سری پائے جائیں۔ سہ پہر تک واپس ضرور کریں۔ اگر آگے جانے کا کوئی پلان ہو تو مغرب سے پہلے پہلے آپ کو واپس کیوائی میں ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو مزید سفر بھی لوکل ٹرانسپورٹ پر کرنا ہے تو مغرب سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے آپ کو کیوائی میں ضرور ہونا چاہیے۔

سیزن میں تو پھر بھی مغرب کے کچھ دیر بعد لوکل ٹرانسپورٹ مل جاتی ہے مگر آف سیزن میں آپ کو سورج ڈوب چکنے کے بعد لوکل ٹرانسپورٹ کا ملنا تقریباً نا ممکن ہے۔ ہمیں چوںکہ سری پائے جانا تھا تو بہتر یہی جانا کہ کیوائی سے ہی جیپ سری پائے کے لیے بک کی جائے نہ کہ شوگران سے۔ ڈرائیو سے ہم نے پہلے ہی بات کرلی تھی کہ راستے میں ہم کچھ دیر کو سستانے کے واسطے شوگران میں رکیں گے۔ کیوائی میں جیپ والوں کی لمبی قطار تھی۔

سیزن میں یہاں جیپ بمشکل ملتی ہے مگر آف سیزن ہونے کی وجہ سے سب خالی پڑے تھے۔ کیوائی کے ایک گندے سے واش روم میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہلکا ہونا پڑا کہ اس گندے سے واش روم سے گزارہ کرنے کے علاؤہ فی الحال کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔



کیوائی میں ہی ایک دکان سے کچھ ڈرائی فروٹس اور Red Bull کے دو کین خرید لیے۔Red Bull سمیت آج تک میں نے کبھی کوئی سافٹ ڈرنک نہیں پی۔ وجہ کوئی خاص نہیں بس ایویں ان سب کا شوق نہیں اور مہنگی بھی تو یہ کتنی ہوتی ہیں۔

خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ کنجوس تو میں بلا کا ہوں ہی مگر جب کسی چیز پر دل آ جائے تو بس پھر میں پوری آب و تاب کے ساتھ پگھل جاتا ہوں۔ خاص کر خوب صورت اور رنگ برنگی جوتوں کی دکانوں پر۔ خذیفہ کا خیال تھا کہ Red Bull پینے کے بعد میں کچھ کچھ طاقت پکڑ لوں گا اور ٹریک پر گھوڑا ہو جاؤں گا۔

اسے میری فکر تھی یا نہیں، یہ مجھے نہیں پتا مگر اسے اپنے ٹریک کی فکر ضرور تھی۔ اسے تقریباً تقریباً یقین تھا کہ میری وجہ سے جس طرح اس کا بلیجہ ٹریک رہ گیا تھا اور مکڑا کا ٹریک بھی میری وجہ سے کہیں نہ کہیں لگنے ہی والا تھا۔ اس لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ مکڑا ٹریک کام یابی سے ہوجائے حالاں کہ اسے زیادہ امید نہیں تھی مگر پھر بھی وہ کوشش کر رہا تھا کہ ٹریک ہو جائے۔

میرا پوچھیں تو میں نے خذیفہ کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ جہاں میں تھک گیا بس وہی بیٹھ جاؤں گا، پھر مکڑا جائے بھاڑ میں۔ میں تو بس مکڑا کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا، یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ مکڑا کو مکڑا کہتے کیوں ہیں، میں تو بس مکڑا کی ٹانگوں پر رینگنا چاہتا تھا۔

میں تو اس وقت ہیری پوٹر کا وہ سنہرے بالوں والا رون ویزلی تھا جسے مکڑوں سے شدید ڈر لگتا تھا، اس کے باوجود اس نے ایک بار اپنے ایک دوست اور ہوگوڑس کے چوکی دار ہیگرڈ کو بچانے کے لیے ایک بہت بڑے مکڑے کا سامنا کیا تھا۔ فکر صرف یہ تھی کہ رون ویزلی پر مصبیت آن پڑی تھی مگر میں نے یہ مصیبت خود مول لی تھی۔ مجھے ہی یہ مکڑا جانے کا کیڑا تنگ کر رہا تھا جب کہ خذیفہ تو صرف سری پائے تک ہی رہنا چاہتا تھا۔

تو شوگران کیا ہے؟ ایک کھلا ہرا سا میدان ہے جس کے ایک کونے پر سرکاری بڑا سا ہوٹل ہے جو اب بند ہوچکا ہے کیوںکہ شوگران اب زیادہ سیاح نہیں آتے۔ اسی بڑے سے سرکاری ہوٹل کے پاس بہت سے چھوٹے چھوٹے ہوٹلز ہیں کیوںکہ ان کا دھندہ بڑا اچھا چلتا ہے۔ وہ کیا ہے ناں کہ شوگران میں سیاح بہت آتے ہیں اسی لیے ان کا دھندہ بھی اچھا چل رہا ہے۔

یہ عجب سا دھندا کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ البتہ شوگران کا جنگل بڑا خوب صورت ہے۔ بڑے بڑے ایک ساتھ کھڑے درخت اور درختوں میں سے گزرتی ہوئی پراسرار ٹھنڈی ہوا۔ یہ درخت اتنے گھنے ہیں کہ اگر سخت دھوپ بھی نکلی ہو تو نیچے زمین تک دھوپ نہیں پہنچ پاتی۔ شوگران کبھی خوب صورت تھا بلکہ بہت خوب صورت تھا۔

ہمارے بچپن میں ہی ٹی وی کے بہت سے گانوں جن میں سب سے مشہور گانا سلیم جاوید کا ''بارش کی چند بوندیں میرے دل کو ڈبوئے جائیں'' اور ڈراموں کی شوٹنگ شوگران میں ہوئی تھی، مگر اب شوگران ویسا نہیں رہا۔ اب شوگران خراب ہو رہا ہے۔

زیادہ تر ہو بھی چکا ہے۔ ایک خواہ مخواہ کی چھوٹی سی زپ لائن لگی ہے جس کی زیادہ سے زیادہ لمبائی شاید 30 میٹر ہوگی۔ ٹکٹ چار سو روپے ہے۔ زپ لائن کا واحد مقصد صرف اور صرف ماحول میں مزید بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ شوگران سے خذیفہ نے مجھے موسیٰ کا مصلہ دکھانا شروع کیا۔ ذرا دو منٹ گزرتے تو وہ شروع ہوجاتا اور ہر بار اس کے موسیٰ کے مصلے کی سمت مختلف ہوتی تھی۔ شوگران کے ہرے بھرے میدان میں بیٹھ کر خذیفہ نے سامنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ سامنے والا پہاڑ موسیٰ کا مصلہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اتنے میں ایک مقامی اپنا کیمرا پکڑے آگیا کہ وہ فقط پچاس روپے میں ہماری ایک زبردست سی تصویر بنائے گا۔ خذیفہ نے مقامی سے موسیٰ کے مصلہ بارے تو پوچھا تو اس نے جس پہاڑ کو موسیٰ کا مصلہ قرار دیا وہ بالکل اس کے مخالف سمت میں تھا جو خذیفہ نے بتائی تھی۔ خذیفہ کھسیانا سا ہوگیا۔ وہ دو سال پہلے یہ پہاڑ سر کرچکا تھا۔ شوگران سے ہی موسیٰ کا مصلہ، مکڑا سمیت بہت سے پہاڑ واضح طور پر نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں مگر ظاہر سی بات ہے کبھی کبھی یہ پہاڑ دیکھنے والا ان کے چہرے کو بھول سا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ بہت پہلے ایک ہندو گڈریا اس پہاڑ پر رہتا تھا۔ یہی پہاڑ اس کا مسکن تھا۔ وہ سارا دن اپنا ریوڑ یہاں چراتا اور رات قریب ہی بنے اپنے عارضی گھر میں قیام کرتا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہ مسلمان ہوگیا اور اپنا نام موسیٰ رکھا۔ موسیٰ جس پہاڑ پر رہتا تھا، اس کی چوٹی بالکل سیدھی تھی۔ موسیٰ وہی اپنی نماز ادا کرتا۔ گویا کہ موسیٰ نے اسی پہاڑ کی چوٹی کو اپنا جائے نماز یعنی کہ مصلہ بنا لیا تھا۔ اسی لیے اسے موسیٰ کا مصلہ کہا جاتا ہے۔

موسیٰ جب فوت ہوا تو اسی پہاڑ پر دفن ہوا۔ آنے والے وقتوں پر ہم بھی کبھی موسیٰ کے مصلے کو اپنا مصلہ بنائیں گے۔

اس پہاڑ کو قریب سے اور بہت قریب سے ضرور دیکھیں گے جس پر موسیٰ رہا کرتا تھا، جس کوہ طور پر موسیٰؑ پر وحی نازل ہوتی تھی، جس کی تجلی نے موسیٰؑ کے قلب کو نور سے بھر دیا تھا، وہ کوہ طور تو دیکھنا شاید ہماری قسمت میں نہیں مگر وہ کوہ جس پر اپنے موسیٰ کی قسمت پھری، اس کے دل پر بھی نور اترا، کم ازکم ہم اس پہاڑ کو دیکھنے کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں جس پر اپنے پاکستانی موسیٰ کا دل بھی موم ہوا، اسے بھی کوئی تجلی دکھائی دی ہوگی ورنہ کوئی ایسے ہی اپنا ایمان تھوڑا بدلتا ہے۔

شوگران کے ہلکے پھلکے جنگلات سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم نے سری پائے کی جانب تختِ سفر باندھا۔ اگر آپ کے گردے میں پتھری ہے یا دماغ درست جگہ پر نہیں ہے تو پہلی فرصت میں جیپ سے سری پائے جائیں۔ جیپ کے علاوہ ویسے کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ہے ماسوائے ٹریک کرنے کے۔ شوگران تک تو سڑک ٹھیک ہے مگر جوں ہی آپ ایک دو قدم شوگران سے باہر نکالتے ہیں تو سڑک کے نام پر مذاق شروع ہوجاتا ہے۔

آپ جوں جوں ہچکولے کھاتے جاتے ہیں، توں توں دماغ ٹھکانے آنا شروع ہوجاتا ہے کہ اس طرف آئے ہی کیوں۔ گرد سے اَٹی ہوئی سڑک، معاف کیجیے گا سڑک کہہ کر میں نے اس سڑک نما شئے کی شاید توہین ہی کردی۔ مسلسل اونچائی ہے اور بھرپور کوشش کے باوجود بھی آپ ایک جگہ پر ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے۔ ایک جیپ میں صرف ہم دو ہی افراد تھے، اس لیے شاید جھٹکے بھی کچھ زیادہ محسوس ہو رہے تھے۔ شوگران اب بہت پیچھے نہیں بلکہ بہت نیچے رہ گیا تھا۔

پہلے ایک چھوٹا سا سری پوائنٹ آیا جہاں رکنا بالکل بھی ضروری نہیں۔ کچھ دیر بعد اصل سری پوائنٹ آئے گا بلکہ آپ اسے ایک پورا شہر کی سمجھیں۔ جیپوں کی لمبی سی قطار، ہلکی سی ٹھنڈ اور آغاز پر ایک کشتی والا جھولا۔ بس یہی سری پوائنٹ ہے۔ ہمارے جیپ والے کا کوئی چاچا ماما تھا جس نے یہاں ٹینٹ لگائے ہوئے تھے۔

جیپ والے نے ہمیں اسی شخص کے حوالے کیا اور خود واپس چلتا بنا۔ ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور چلنا شروع کردیا۔ نہ جانے ان بابا جی کا کیا نام تھا جن کے ٹینٹ سری پوائنٹ پر لگے تھے۔ سری بنیادی طور پر ٹینٹوں کا ہی شہر ہے۔ مختلف پرائیویٹ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ٹینٹوں کا شہر سجا رکھا ہے۔

ساتھ میں واش روم کی سہولت بھی ہے۔ چائے پکوڑوں سمیت سب ناشتہ پانی آپ کو یہاں سے ملے گا۔ ٹینٹ میں بستروں کا انتظام بھی ہوگا۔ اگرچہ سری پائے کھانے کی ایک لذیذ ڈش ہے، خاص کر پائے مگر مانسہرہ اور اس کے مضافات میں سری پائے کھانے سے زیادہ دیکھنے کی شے ہے، لطف اندوز ہونے کی شے ہے۔ سری پائے جہاں ہر وقت بادل آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں اور آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں۔

چند ایک بادل کے ٹکڑے شرارتاً کبھی سورج کے سامنے آ جاتے ہیں تو اس شرارت میں سری کی ٹھنڈی ہوائیں بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ بادلوں کی اس شرارت کو وہاں سیاحت کو آنے والے سیاح ٹھنڈ کی صورت میں جھیلتے ہیں۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد جب آوارہ بادل پھر ایک طرف ہوتے ہیں تو سورج کی شعاعیں سری اور پائے کی پہاڑیوں پر پڑتی ہیں جس سے جسم کو کچھ سکون ملتا ہے۔ سری پائے کو سری پائے ہی کیوں کہا جاتا ہے۔


اس کے پیچھے بہت سی کہانیاں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ بہت پہلے یہاں ایک ہندو لڑکی اور ہندو لڑکا رہتے تھے۔ لڑکی کا نام سری تھا جب کہ لڑکے کا نام پایہ تھا۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھا۔ دونوں کی محبت کے چرچے چاروں سُو تھے۔

دونوں کی رام لیلا امر ہوئی یہاں تک کہ وہ لڑکی جس پہاڑی پر رہتی تھی اسے سری کہا جانے لگا اور لڑکا جس پہاڑی پر رہتا تھا اسے پایہ کہا جانے لگا۔ ایک اور مزید کہانی یہ ہے کہ ایک لڑکی اپنے اہل وعیال اور چند بکریوں کے ہاں یہیں کہیں قریب ہی رہتی تھی۔ پہاڑوں پر لوگ اپنے جانوروں کو چَرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ شام ہوتے ہی لوگ اپنے جانور ہانک کر اپنے اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں۔

ایک دن اسی لڑکی کی بکریاں جب شام کو گھر واپس لوٹیں تو گنتی کرنے پر ایک بکری کم نکلی۔ لڑکی نے بکری بہت تلاش کی مگر نہ ملی۔ کچھ دنوں کے بعد بکری نے تو کیا ہی ملنا تھا، اس کی سری اور پائے الگ الگ پہاڑیوں سے ملے۔ جس پہاڑی پر بکری کی سری ملی، اسے سری کہا جانے لگا جب کہ جس پہاڑی پر سے اس کے پائے ملے اسے پایہ کہا جانے لگا۔ ممکن ہے آپ کے پاس سری پائے کی کوئی تیسری چوتھی کہانی بھی ہو۔ ڈھلتی شام کے ساتھ ہم دونوں سری پر بیٹھے تھے اور ہماری نظروں کے عین سامنے مکڑا پہاڑ کھڑا تھا۔

نہ تو ہیبت ناک تھا اور نہ ہی کوئی لمبا چوڑا پہاڑ تھا البتہ وسیع بہت تھا اور وسیع القلب بھی تھا۔ بڑے دل کا مالک تھا تبھی تو مجھ جیسی چھوٹی موٹی مکڑیوں کو اپنے اوپر رینگنے کی اجازت دیتا تھا۔ مکڑا پہاڑ سے پہلے پایہ میڈوز تھا۔ سرخی مائل پایہ میڈوز ایک منفرد سی چراگاہ تھی۔ یہ ایک نہیں تھی بلکہ تین تھیں۔

تین پہاڑیاں تھیں جیسے کسی نے گیلی ریت پر تین انگلیوں سے ڈھب کھربی لکیریں کھینچ دی ہوں۔ چوں کہ سری پائے کا سیزن ختم ہوچکا تھا اس لیے یہاں سیاحوں کا رش تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ ٹینٹوں کا جو عارضی شہر بنا ہوا تھا وہ بھی بہت حد تک ختم ہوچکا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی تھوڑی برف پڑ چکی تھی۔ ایک برف اور پڑتی تو یہ عارضی شہر اب تک ختم ہو چکا ہوتا۔ ابھی ٹھنڈ تو تھی مگر برف کا کوئی امکان نہیں تھا اس لیے یہ عارضی شہر ابھی قائم تھا۔ پہاڑوں پر شام ہمیشہ ہی جلدی اترتی ہے۔

ابھی سورج غروب ہوا ہی تھا کہ رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیلنے لگا۔ میں اور خذیفہ سری پہاڑی کے اونچے سے ٹیلے پر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگے۔ اپنے اپنے دکھڑے ایک دوسرے کو سنانے لگے۔ ویسے تو ہم دونوں ہی سارا سال ایک دوسرے کا دماغ چاٹتے رہتے ہیں مگر پھر بھی ساتھ بیٹھ کر چغلیاں کرنے کا مزہ ہی کچھ الگ ہے۔

پہاڑوں پر آپ کو آسمان مکمل طور پر صاف ملتا ہے۔ نہ کوئی آلودگی نہ کوئی شورشرابہ۔ جلد ہی سارا آسمان ستاروں سے بھر گیا اور مِلکی وے آہستہ آہستہ نظر آنے لگی۔ ہم پچھلے کچھ عرصے سے ایک مشہور انگریزی فلم Interstellar ڈسکس کرتے رہے تھے۔ ستاروں اور کہکشاؤں کو دیکھ کر ہم نے جو اس فلم کو پھر سے ڈسکس کرنا شروع کیا تو وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ بیچ بیچ میں کوئی ہماری طرف ٹارچ کرتا جیسے ہمیں تلاش کرنا چاہ رہا ہو۔

وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ شام اور پھر رات پڑنے پر جب ہم ٹینٹ میں نہیں پہنچے تو ٹینٹ والے بھائی صاحب ہمیں ڈھونڈنے کے مشن پر نکل کھڑے ہوئے تھے، کیوںکہ یہاں راتوں میں اکثر شیر انکل نکل آتے ہیں اور چھوٹے موٹے معصوم جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ ٹھنڈ بڑھنے لگی تو ہم نے واپس ٹینٹ میں آنے میں ہی عافیت جانی۔ رات اس قدر شدید ٹھنڈ تھی کہ میں نے میٹرس کے اوپر ایک کمبل بچھایا اور اپنے اوپر ایک کمبل لے لیا۔

اب صورت حال کچھ یوں تھی کہ میرے اوپر بھی کمبل تھا، میرے نیچے بھی کمبل تھا یعنی میں کمبلوں میں سینڈوچ بن چکا تھا۔ بات صرف یہی پر ختم نہیں ہوئی۔ میرے کمبل کے اوپر ایک عدد رضائی بھی تھی، اور میں جرابیں، سوئیٹر اور جیکٹ پہن کر اپنے بستر میں گھسا ہوا تھا اور پھر بھی کانپ رہا تھا۔ خدا خدا کرکے رات کٹی اور سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ ہی ہماری آنکھ کھل گئی۔

میرا بس چلتا تو انہی بستروں کے درمیان سینڈوچ بنارہتا مگر خذیفہ نے زبردستی میرے اوپر سے کمبل رضائی اتاری۔ مجبوراً مجھے باہر نکلنا ہی پڑا۔ باہر نکلا تو پراٹھوں کی بھینی بھینی سی مہک نتھنوں کو ایک عجب سا رومانس فراہم کر رہی تھی۔ ہمارے سامنے مکڑا پہاڑ کھڑا مسکرا رہا تھا۔ شاید وہ ہماری میزبانی کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اس پر شاید رات کے کسی پہر ہی وحی کردی گئی تھی کہ ایک عدد سست انسان تم پر رینگنے کی جسارت کرنے والا ہے اور میں بھی تو ایسے ہی منہ اٹھا کر مکڑا کی چوٹی کی جانب نہیں چل پڑا تھا۔

میں نے ایک رات پہلے مکڑا پہاڑ کے حضور ایک عارضی پیش کی تھی۔ اس سے اجازت طلب کی تھی کہ کیا مجھے اس پر رینگنے کی اجازت ہے۔

پہاڑوں پر چڑھنے سے پہلے ان سے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔ یہ پہاڑوں کا ظرف ہے کہ وہ زیادہ تر ہمیں اجازت دے دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے گھر کے آنگن میں کچھ دیر اٹھکیلیاں کرنے کی اجازت دیتے ہیں مگر کبھی کبھی وہ انکار بھی کردیتے ہیں۔

آپ پہاڑوں کی اجازت کے بنا اس کی چوٹی تک نہیں پہنچ سکتے۔ اگر پہاڑ کو آپ کے طور طریقے پسند نہ آئے تو وہ آپ کو اوپر جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ آپ پر ایسی پھونک ماریں گے کہ آپ کے قدم لڑکھڑا جائیں گے۔

آپ کا سانس پھولتا چلا جائے گا اور تھک ہار کر آپ خود ہی واپس چلے جائیں گے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ مکڑا پہاڑ نے ہمیں اپنی چوٹی تک جانے کی اجازت دے دی تھی۔ فیصلہ یہ ہوا تھا ہم سری سے گھوڑے لیں گے اور پائے میڈوز سے ہوتے ہوئے مکڑا بیس کیمپ تک جائیں گے۔ بیس کیمپ تک جانے کے لیے گھوڑے کی سہولت میسر تھی۔

جب سہولت تھی تو اس سے فائدہ نہ اٹھانا ہمیں بے وقوفی لگا، اس لیے رات کو ہی گھوڑے والے سے بات کرلی۔ طے یہ پایا کہ گھوڑے والے دو انکل صبح آٹھ بجے تک ہمارے پاس پہنچ جائیں گے مگر آٹھ بجے تک گھوڑے والوں کا دوردور تک نام و نشان تک نہیں تھا۔

انھیں بار بار فون کیا تو پتا چلا کہ جناب ابھی تک سو رہے تھے۔ دل ہی دل میں گھوڑے والے کی شان میں زبردست گستاخی کی۔ شدید انتظار کے بعدگھوڑے والا تقریباً نو بجے پایہ پہاڑی کے پیچھے سے گھوڑا دوڑاتا ہوا نمودار ہوا۔ ہم اپنا سامان کب کا پیک کرکے سری ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے تھے کہ ہماری گاڑی آئے تو ہم اپنی منزل کا پہلا پڑاؤ پار کریں۔ دو تین پراٹھے ہم نے پیک کروائے حالاںکہ اس کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی۔

واپسی پر وہی پراٹھے ہم نے گھوڑے والوں کو کھلا دیے۔ ضرورت اس لیے نہیں تھی کیوںکہ ہم نے مانسہرہ سے کافی سارا ڈرائی فروٹ لے لیا تھا جو کہ ٹریک کے لیے کافی تھی۔ ٹریک پر ویسے بھی آپ ہلکی پھلکی مگر طاقت والی چیزیں کھاتے ہیں نہ کہ تیل میں تیرتے ہوئے پراٹھے۔ آپ جب بھی کسی ٹریک پر جائیں تو کھجور، بادام اور کِشمِش ضرور ساتھ رکھیں، یہ آپ کے بہت کام آئے گا۔ ہمارے ساتھ اب دو گھوڑے تھے اور دو ہی ان کے مالک۔ پروگرام کچھ یوں تھا کہ دونوں گھوڑوں کے پاس ایک آدمی کو بیس کیمپ پر چھوڑ دیں گے اور دوسرے آدمی کو بطورِ گائیڈ استعمال کرتے ہوئے ہم پہاڑ کی چوٹی پر جائیں گے۔

تقریباً نو بجے ہم نے اپنا سفر سری سے شروع کیا۔ ہم خوش قسمت تھے کہ سورج ٹھیک ٹھاک چمک رہا تھا مگر بادلوں اور سورج کی آنکھ مچولی جاری تھی۔ جلد ہی ہم نیچے اتر گئے۔ سری پہاڑی بہت پیچھے رہ گئی اور پائے میڈوز شروع ہوگیا۔ ایک دن پہلے سنا تھا کہ مکڑا بیس کیمپ تک راستہ بالکل سیدھا سیدھا ہے مگر یہ اتنا سیدھا بھی نہیں تھا۔

مقامیوں کے لیے یہ معمول کی اترائی چڑھائی ہوگی مگر مجھ جیسے نوجوان کے لیے تو ایسے تھا جیسے پہاڑ ابھی سے شروع ہوچکا ہو۔ پائے میڈوز کی چڑھائی چڑھتے ہوئے گھوڑے کے نتھنوں سے اچھی خاصی ہوا خارج ہوتی، جس کا مطلب تھا کہ گھوڑے صاحب کا چڑھائی چڑھتے ہوئے بہت زور لگ رہا ہے۔

پگڈنڈی بالکل تنگ سی تھی اور گھوڑا بھی اپنی دھن میں بالکل ہی کنارے پر چل رہا تھا۔ پگڈنڈی کے نیچے گہری کھائی تھی۔ خذیفہ گھوڑے والے سے ہندکو زبان میں مسلسل باتیں کر رہا تھا جب کہ میں نظاروں میں مصروف تھا۔ کچھ ہی دیر کے بعد گھوڑے رک گئے اور گھوڑے والے نے انھیں کھانے کے لیے کچھ دے دیا۔ یقیناً گھوڑے تھک چکے تھے۔

اتنی چڑھائیاں چڑھے تھے۔ ہم تو بس ان کے اوپر سوار تھے۔ مکڑا پہاڑ ہمارے بالکل قریب تھا مگر ابھی کچھ فاصلہ تھا۔ ہمارے دائیں جانب خوب صورت پہاڑیاں اور میڈوز بنے ہوئے تھے۔ گھوڑے والے نے بتایا کہ یہ پایہ 2 ہے۔

سری پائے میں ہر سال بہت سے سیاح آتے ہیں جن میں سے چند ایک گھوڑے پر سوار ہوکر پائے میڈوز کی سیر کرتے ہیں یا بہت ہوا تو چند سیاح مکڑا پہاڑ کے بیس کیمپ تک چلے جاتے ہیں۔ جو سیاح مکڑا پہاڑ چڑھنے کی خواہش کرتے ہیں وہ فقط چند ایک ہی ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی جو مکڑا پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں وہ فقط ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ میرے گھوڑے کو بھی میری طرح گیس پرابلم تھا۔ بے چارہ تھوڑا سی چڑھائی چڑھتا اور پھر گیس پرابلم شروع ہوجاتا۔ اس گھوڑے پر سفر کرتے ہوئے مجھے میرے ایک دور کے انکل یاد آ گئے۔ وہ گیس پرابلم کا شکار تو نہیں ہیں مگر ان کے لیے یہ عام سی بات ہے۔

موصوف گرمیوں میں لاچا پہنتے تھے اور اگر چار پانچ آدمیوں کے درمیان کھڑے بھی ہوتے تو مکمل آرام و سکون کے ساتھ گیس خارج کرتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور اپنا لاچا جھاڑ دیتے۔ میرا گھوڑا بھی بالکل ایسا ہی تھا۔

وہ پایہ میڈوز کی چڑھائیاں چڑھتا جاتا اور گیس خارج کرتا جاتا جیسے یہ اس کے لیے کوئی معمولی بات ہو اور یقینی طور پر ہوگی بھی۔ یہ انسانوں والے چونچلے اب گھوڑوں میں تھوڑا ہوتے ہیں۔ میرے گھوڑے کا گیس پرابلم تو ختم نہ ہوا مگر پائے میڈوز ختم ہوگیا۔ بالکل باریک سی پگڈنڈی پر ایک دم سے چڑھائی آئی اور ہم مکڑا پہاڑ کے چرنوں میں پہنچ چکے گئے۔

مکڑا بیس کیمپ پر پہنچ کر ہم نے کھانے پینے کا سامان ایک چھوٹے بیگ میں منتقل کیا۔ پانی کی ایک ایک بوتل ہاتھ میں پکڑ لی۔ میں نے نیچے سے آسمان کی طرف دیکھا تو چوٹی زیادہ دور نہیں لگی۔ میں نے گھوڑے والے سے پوچھا کہ کیا بس یہ چوٹی ہے؟ ہمیں بس یہاں تک ہی جانا ہے۔ گھوڑے والے نے بھی اثبات میں جواب دیا کہ ہاں بس اسی چوٹی تک جانا ہے۔

میں بھی خوش ہوگیا کہ یہ زیادہ دور تو نہیں۔ مکڑا پہاڑ کو مکڑا کیوں کہتے ہیں، کہتے ہیں کہ مکڑا پہاڑ واقعی مکڑے کی طرح دکھائی دیتا ہے، اس لیے اسے مکڑا کہتے ہیں مگر مکڑا کی ابھی تک یہ شکل نہیں بن رہی تھی۔ ہم نے چلنا شروع کیا تو رفتہ رفتہ سانس پھولنا شروع ہوگئی۔ نیچے سے ہی لال رنگ کے پھول بہت پیارے لگ رہے تھے۔

ابھی تک کوئی بڑی چڑھائی تو نہیں آئی تھی مگر چڑھائی مسلسل تھی۔ نیچے سے جو ایک چوٹی بہت قریب نظر آرہی تھی، مجھے گمان ہونے لگا تھا کہ یہ مکڑا کی چوٹی تو کم ازکم نہیں ہوسکتی کیوںکہ مجھے مکڑا پر یقین پر ہو یا نہ ہو مگر اپنے اوپر ضرور تھا کہ اتنی آسانی سے میری بچت نہیں ہو سکتی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

اللہ اللہ کر کے ہم اس چوٹی پر پہنچے مگر وہ مکڑا کی چوٹی تو نہ تھی۔ میری حالت تقریباً خراب ہوچکی تھی۔ میں نے زبردستی سانس بریک لے لی۔ اب بنتی بھی تھی۔ پانی پیا، کچھ بادام کھائے اور تھوڑا سا سستا لیا۔ خذیفہ نے ایک انرجی ڈرنک دیتے ہوئے کہا کہ یہ پی لو اور پھر اس کے قصیدے پڑھنا شروع کردیے کہ جم جانے والے لڑکے پیتے ہیں، آپ کچھ کھانا پینا نہ بھی کرو اور بس اس کا ایک کین پی لو تو تم ٹریک پر بھی گھوڑے ہوجاؤگے۔

مجھے یہ سب باتیں بس کہانیاں لگ رہی تھیں مگر پھر بھی چپ چاپ پی لی۔ آخر کو پیسے خرچ کیے تھے بھائی۔ میں نے خذیفہ سے بھی شکایت کی کہ یہ گھوڑے والا تو کہہ رہا تھا کہ بس یہی چوٹی ہے۔ خذیفہ نے بھی ڈانٹ پلائی کہ بس چپ چاپ چلتے رہو۔

اسے خود نہیں پتا کہ چوٹی کہاں ہے۔ یہاں خذیفہ غلط تھا۔ ہمارے گائیڈ کو نہ صرف چوٹی کا نہیں پتا تھا بلکہ اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ راستہ کہاں سے ہے۔ ایک ہی پگڈنڈی تھی اور ہم اسی پر چلتے جا رہے تھے۔ نیچے سے جو دور لال پھول نظر آ رہے تھے وہ بھی اصل میں لال پھول نہ تھے بلکہ کچھ عجیب سے لال پتے تھے۔

جتنے خوب صورت وہ دور سے نظر آتے تھے، اتنے وہ تھے نہیں مگر پھر بھی اس لحاظ سے اچھے تھے کہ ایسی شے ہم نے زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ انہی لال پتوں پر درمیان میں ایک سیج سی بنی تھی جیسے کسی کرسی کے گرد پھول خود سے لگائے گئے ہوں۔ وہاں بیٹھ کر کچھ تصاویر بنوائیں اور آگے کو چل دیے۔

کچھ ہی دیر کے بعد ایک عجیب و غریب سی ریت والا علاقہ شروع ہوگیا۔ جیسے لال نوکیلی اینٹوں کو پیس دیا گیا ہو۔ یہاں چڑھائی نہیں تھی بلکہ شدید چڑھائی تھی۔ اتنی چڑھائی کی میرے لیے اکیلے چڑھ پانا بہت مشکل ہورہا تھا۔ گائیڈ صاحب نے اپنا مردانہ ہاتھ میری طرف بڑھایا اور مجھے کَس کے پکڑلیا۔ یوں وہ مجھے کھینچنے لگے۔ راستہ تنگ اور بہت تنگ ہوچکا تھا اور اسی تنگ راستے پر چڑھائی بھی تقریباً 80 درجے کی تو لازمی ہوگی۔ ایسے میں میرے لیے کسی سہارے کے ساتھ بھی چلنا ناممکن رہا۔

میں نے اپنے گائیڈ کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر اوپر چڑھنے لگا۔ چڑھائی در فٹے منہ ہوچکی تھی۔ ایک جگہ راستہ اس قدر تنگ تھا کہ ایک پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ قدم ذرا تیزی سے اٹھانا پڑتا تھا۔ ایسے میں ایک جگہ میرا پاؤں ٹھیک طرح سے جم نہ سکا۔ پاؤں کے نیچے چھوٹے چھوٹے پتھر تھے جو سِرک گئے۔

میں لڑکھڑا گیا اور لاشعوری طور پر فوراً بہ مشکل بیٹھ گیا۔ یہ تنگ راستہ جیسے تیسے گزرا سو گزرا مگر آگے دیکھ کر حالت عجیب سی ہوگئی۔ ہم پہلے ہی یہاں مشکلوں سے پہنچے تھے۔ جیسے تیسے بھی آ گئے، پہنچ تو گئے۔ کم از کم ایک تنگ سی پگڈنڈی تو تھی مگر آگے تو راستہ ہی نہیں تھا۔ مکمل طور پر گم شدہ۔ میں وہیں ہمت ہار کر بیٹھ گیا۔

میرا شک یقین میں بدل گیا کہ اس گائیڈ کو خود درست راستے کا نہیں پتا۔ واپس جانے کو بھی جی نہ چاہتا تھا۔ گائیڈ نے ایک عجیب سے راستے کی طرف اشارہ کیا جو ناک کی سیدھ پر اوپر جا رہا تھا۔ ہم ایک تنگ سی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے اوپر یہاں تک پہنچے تھے مگر آگے کوئی پگڈنڈی ہی نہ تھی۔ ہم جس راستے سے آئے تھے وہاں سے واپس اترنا بھی تقریباً ناممکن تھا۔ میں وہیں بیٹھ گیا بلکہ کھڑا ہی رہا کیوںکہ بیٹھنے کی جگہ ہی نہ تھی۔

خذیفہ کے مطابق ہمیں آگے چلنا چاہیے مگر میں نے انکار کردیا کہ گائیڈ پہلے راستہ دیکھ کر آئے، اگر راستہ ہوا تو پھر ہم چلیں گے ورنہ یہیں بیٹھے رہیں گے۔ ہم جس راستے پر سفر کرکے یہاں تک پہنچے تھے، اس کے بعد خذیفہ کو بھی میری بات مناسب لگی۔

گائیڈ آگے چلا گیا۔ اس نے اسی چٹان کی طرف چلنے کا اشارہ کیا کہ یہیں سے راستہ ہے، تم لوگ بھی وہی آ جاؤ۔ میں نے گائیڈ کو واپس بلایا، اس کا ہاتھ پکڑا اور پھر چڑھنا شروع کیا۔ یہ باقاعدہ بڑی بڑی چٹانیں تھیں جن پر چلنا بلکہ چڑھنا ناممکن نظر آ رہا تھا مگر ہمارے سامنے چوائس کوئی نہیں تھی۔ ایک باریک سی بھی پگڈنڈی نہیں تھی۔ خدا خدا کرکے وہ چٹانی راستہ گزرا اور پھر کچھ منظر کُھلا۔ اب راستہ وسیع اور چوڑا تھا مگر چڑھائی برقرار تھی۔ بیس کیمپ سے لے کر یہاں تک مسلسل ہم چڑھتے ہی آ رہے تھے۔

کہیں کوئی تھوڑا سا بھی سیدھا راستہ نہ تھا۔ کچھ وقت پہلے میری حالت اتنی بری ہوچکی تھی کہ ایک قدم بھی اٹھایا نہیں جارہا تھا۔ ایسے میں میں نے ایک سائنسی طریقہ اپنایا۔ سائنس میں خاص کر فزکس اور میتھ میں سیدھی لائن کی بہت اہمیت ہے۔ آپ کو ایک لائن کی سلوپ نکالنی ہے ایک curve بنی ہو، آپ اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتے جب تک وہ لائن سیدھی نہ بن جائے۔

اگر کوئی curve بنا ہو تو ہم اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ایک سیدھی لائن نہ بن جائے۔ میں نے بھی یہی طریقہ اپنایا۔ اپنے قدم اتنے چھوٹے کردیے کہ آپ کو لگے ہی نہ کہ قدم اونچائی کی طرف اٹھ رہا ہے۔

یہاں تک کہ میرے دائیں پاؤں کی ایڑھی بائیں پاؤں کی انگلیوں کو چھونے لگی۔ یہ طریقہ بہت کارآمد رہا۔ اس ظالم چٹان کو پار کیا تو منظر کچھ کھلا مگر چڑھائی مسلسل برقرار رہی۔ خذیفہ حسبِ عادت مجھ سے آگے تھا۔ میں نے خذیفہ کی جیب سے کوئی کالی چیز گرتے ہوئے دیکھی۔ اسے فوراً آواز دی کہ تمھاری جیب سے کچھ گرا ہے۔ فوراً یاد آیا کہ اس کے پاس کالے آئی پوڈ تھے۔ ہم نے مل کر بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملے۔

ہوا اتنی تیز تھی کہ گمان یہی کیا شاید وہ نیچے کہیں دور چلے گئے ہوں۔ اب چڑھائی مسلسل زیادہ ہو رہی تھی یا پھر میری حوصلہ جواب دے رہا تھا۔ ہمارے گائیڈ نے ہمیں ایک چوٹی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ مکڑا ٹاپ یہی چوٹی ہے، یہاں کافی ساری چوٹیاں تھیں۔ خذیفہ بھی اسی طرف جانا چاہ رہا تھا مگر میں نہیں مانا۔ میرے مطابق وہ چوٹی مکڑا ٹاپ نہیں ہوسکتی جس طرف گائیڈ اشارہ کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں مکڑے کی تصویر چل رہی تھی۔ یاد رہے کہ مکڑا کو اسی وجہ سے مکڑا کہا جاتا ہے کہ اوپر سے یہ بالکل مکڑا ہی لگتا ہے۔

آٹھ ٹانگوں کی طرح اس کی بھی آٹھ شاخیں نکلتی ہیں تبھی تو اسے مکڑا کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اسی کے برابر میں جو چوٹی ہے وہ مکڑا ٹاپ ہونی چاہیے۔ بلندی بے شک دونوں کی برابر تھی مگر ہمیں قریب بھی وہ پڑ رہی تھی۔

خذیفہ کی سمجھ میں میری بات آ گئی۔ ہم سب اسی کی طرف چل پڑے۔ سچی بات ہے کہ میرا دل ذرا بھی مزید چلنے کا نہیں تھا مگر ہمت کی اور کچھ ہی دیر کے بعد ہم مکڑا کے سر پر کھڑے تھے۔ ہمارے نیچے سے مکڑا کی آٹھ ٹانگیں نکل رہی تھی۔ ہماری دوسری طرف مظفر آباد تھا۔ ہم نے اپنا قومی پرچم لہرایا۔ کچھ کھانا پینا کیا اور واپسی کی راہ لی۔
Load Next Story