سیاسی و معاشی استحکام کیلئے انتخابات ناگزیرماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا

دہشتگردی کے خطرے کی وجہ سے انتخابات ملتوی نہیں کیے جاسکتے، تاخیر ہوئی تو چیلنجز میں مزید اضافہ ہوگا

عالمی ساکھ بہتر بنانے کیلئے صاف و شفاف انتخابات یقینی بنانا ہونگے: ’’عام انتخابات اور ملک کو درپیش چیلنجز‘‘کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال ۔ فوٹو : محمود قریشی

8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواران فائنل کر چکی ہیں، انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے اور اعلیٰ عدلیہ بھی انتخابات یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

دہشت گردی، سکیورٹی خدشات اور موسم کی بنیاد پر انتخابات ملتوی کرانے کی باتیں جاری ہیں، اس حوالے سے سینٹ میں قرار داد بھی منظور ہو چکی ہے۔

ملک کو اس وقت سیاسی، معاشی اور سکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں۔ جنہیں مد نظر رکھتے ہوئے ''عام انتخابات اور ملک کو درپیش چیلنجز'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

محمد ندیم قریشی

(ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)

75 برسوں میں سیاستدانوں نے میثاق جمہوریت کی بات تو کی لیکن کسی نے میثاق معیشت کی بات نہیں کی۔ سیاستدانوں کے لڑائی جھگڑوں اور پولرائزیشن کی وجہ سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچا۔ ہمارے ہاں معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار نہیں رہا۔ ہر نئی حکومت نے ماضی کی حکومت کی پالیسیوں کو یکسر مسترد کر دیا،قومی منصوبوں کو سیاست کی نظر کیا جس کے باعث ہم سے دنیا کا اعتماد اٹھ گیا۔

اس کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ اس وقت ضروری ہے کہ لانگ ٹرم پالیسی بنا کر ملکی معیشت کو درست سمت دی جائے اور پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔ آرمی چیف کی خصوصی دلچسپی سے معاشی معاملات بہتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زراعت کے حوالے سے 'ایس آئی ایف سی' بنائی گئی ہے۔ امید ہے کہ بہتری آئے گی۔

پاکستان زرعی ملک ہے، ہماری 80 فیصد صنعت کا انحصار زراعت پر ہے لیکن ہم نے اس پر توجہ نہیں دی۔ہم ہر سال پانچ ارب ڈالر سے زائد کا پام ، سویابین اور مسٹرڈ آئل امپورٹ کرتے ہیں۔کیا یہ فصل پاکستان میں نہیں اگائی جاسکتی؟ اگر فیصلہ کریں تو ہم 5 ارب ڈالر سے زائد کی یہ فصل یہاں ہی اگا سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہترین زمین اور موسم عطا کیے ہیں لیکن ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ بدقسمتی سے زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم درآمد کر رہے ہیں۔ ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کپاس اور چینی کیلئے گنا چاہیے۔ یہ فصلیں یہاں بہتر انداز میں اگائی جاسکتی ہیں۔ زراعت تو صنعت سے زیادہ منافع دیتی ہے اور یہ ملتا بھی سال میں دو مرتبہ ہے کیونکہ ایک فصل 6ماہ میں ہوتی ہے۔ حکومت نے کپاس کی طرف توجہ دی اور یہ اعلان کیا کہ 50 لاکھ ایکڑ پر کپاس اگائی جائے گی۔

کاغذوں میں تو 48 لاکھ ایکڑ پر کپاس لگ گئی لیکن حقیقت میں نہیں لگی۔ اگر لگ چکی ہوتی تو کیا ہم ساڑھے آٹھ ملین بیل پر کھڑے ہوتے ؟ ہم نے تو کبھی زوننگ کا سوچا ہی نہیں۔ ساہیوال سے آگے، میاں چنوں، میلسی، بہاولپور، رحیم یار خان کے علاقے کپاس کے حوالے سے بہترین ہیں۔ یہ علاقے بھی اب کپاس کی جگہ گنا اگا رہے ہیں۔

حکومت کسانوں کو خیرات دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اسے سمجھنا چاہیے کہ کسان کو علم، آگاہی اور تربیت کی ضرورت ہے۔ 25 برس قبل محکمہ زراعت کے افسران کھیتوں کا دورہ کرتے تھے، وہاں کی زمین اور فصلوں کے حوالے سے کسانوں کی رہنمائی کرتے تھے۔

اب کوئی دفتر سے نہیں نکلتا۔ اگر ہماری زراعت کا یہی حال رہا تو چند برسوں بعد لوگ بھوکے مر جائیں گے۔اس وقت آئی ایم ایف سے قسط جاری ہونے پر خوشی منائی جا رہی ہے جو افسوسناک ہے، اگر ملک کو آئی ایم ایف اور دنیا کے قرضوں کے چنگل سے آزاد کرانا ہے تو زراعت کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ زراعت کو ٹھیک کیے بغیر ملکی معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی۔

پاکستان میں بہت پوٹینشل اور ٹیلنٹ موجود ہے، اگر ملک کو درست سمت دی جائے تو 5 برس میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے ہمیں لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی، زراعت پر توجہ دینا اور لوگوں کی تربیت کرنا ہوگی۔ 2014ء میں پاکستان کپاس کے حوالے سے 15 ملین بیل پر تھا اور ایک بیل 170 کلو گرام کی تھی۔ اس وقت ہم ساڑھے آٹھ ملین بیل پر ہیں اور وزن بھی 150 کلو گرام ہے۔ زراعت اور معیشت کی صورتحال دیکھ کر لگتا ہے ملک لاوارث ہے۔ یہاں کوئی گورننس نہیں ہے، جس کا جو دل چاہ رہا ہے کر رہا ہے۔

بینکوں کا پرافٹ بھی غیر معمولی ہے، تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ LC نہیں کھولی جاتی مگر کسی اور طریقے سے کھل جاتی ہے۔ سٹیٹ بینک نے معاملہ بینکوں کے حوالے کر دیا، سوال یہ ہے کہ انہیں ریگولیٹ کس نے کرنا ہے؟ اب سٹیٹ بینک کو خودمختار ادارہ بنا دیا گیا ہے، اس کی طاقت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ہم برآمدات بڑھانے کی بات کرتے ہیں مگر ہم 80بلین ڈالر کی درآمدات کر رہے ہیں۔ ہمیں خیرات کلب سے باہر نکلنا اور آئی ایم ایف سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہمیں سیاست سے فرصت ملے اور معیشت پر توجہ دیں۔

سیاستدانوں کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں، اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک و قوم کیلئے کام کریں۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں ۔ ملکی بقاء کیلئے معاشی استحکام ناگزیر ہے، سب کو من حیث القوم اپنا اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ

(سیاسی تجزیہ نگار)

1940ء میں جنوبی ایشیاء میں جب پاکستان کیلئے قرارداد پیش کی گئی تو اس وقت اخبارات میں لکھا گیا اور یہ باتیں بھی کی جا رہی تھی کہ الگ وطن ایک دیوانے کا خواب ہے، یہ ممکن نہیں ہوگا۔ اس وقت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس کے خلاف تھی۔ شملہ کانفرنس میں کانگریس کے وفد میں تین مسلمان تھے جن میںابوالکلام بھی شامل تھے ۔


مسلم لیگ کا وفد 5 رکنی تھا۔ اس کانفرنس میں یہ ایجنڈا تھا کہ برصغیر کا مسئلہ کیسے حل کرنا ہے۔ قائد اعظمؒنے کہا کہ تقسیم ہی حل ہے۔ یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ کس طرح تسلیم کرلیں کہ جناحؒ کے پیچھے سارے مسلمان کھڑے ہیں لہٰذا یہ طے ہوا کہ جمہوری انداز سے فیصلہ کر لیا جائے کہ انہیں سپورٹ حاصل ہے یا نہیں۔ حل یہ نکلا کہ انتخابات کروا لیے جائیں۔

اس کا پس منظر یہ تھا کہ 1937ء میں مسلم لیگ کو ہار ہوئی تھی، مسلم اکثریت والے علاقوں میں بڑی تعداد میں کانگریس نے نشستیں جیتی تھی۔ 1946ء میں مسلم لیگ نے الگ وطن کے نعرے پر انتخاب لڑا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ پر عوام نے بڑی تعداد میں اعتماد کیا۔

قومی اسمبلی کی 100 فیصد جبکہ صوبائی اسمبلیکی 90 فیصد مسلمان نشستیں جیتی۔ ان نتائج کے بعد کسی کے پاس مخالفت کا جواز نہیں رہا۔ اس وقت اقتدار انگریز اور ہندوؤں کے پاس تھا، وہ چاہتے تو انتخابات مینج کر سکتے تھے مگر صاف و شفاف انتخابات کروائے گئے جن کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔ آزادی کے بعد قائد اعظمؒ کی وفات ہوگئی۔ ملک میں دہائیوں تک نہ تو آئین بنا اور نہ ہی انتخابات ہوئے ۔

جمہوریت کے ذریعے وجود میں آنے والے ملک میں 23 برس بعد آئین بنا اور 1970ء میں پہلے عام انتخابات ہوئے۔ یہ صاف و شفاف انتخابات تھے جن کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے برتری حاصل کی۔ افسوس ہے کہ ہم نے عوام کا یہ فیصلہ نہیں مانا اور 180سے زائد نشستیں جیتنے والی عوامی لیگ کے بجائے 80 سے زائد نشستیں حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کو اقتدار دے دیا جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔ اگر اس وقت عوام کا فیصلہ مان لیا جاتا تو ملک تقسیم نہ ہوتا۔

بدقسمتی سے 1970ء سے آج تک، ملک میں کبھی بھی صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔ ملک میں جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا جو افسوسناک ہے۔ ہم نے خود عدم استحکام پیدا کیا، کسی بھی وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔ ہمارے برعکس بھارت اور بنگلہ دیش میں جمہوریت مضبوط رہی اور ان کی ترقی ہمارے سامنے ہے جبکہ ہم معاشی و سیاسی طور پر خود کو کمزور کیا۔ ملک میں اس وقت عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔

ایسے میں پہلے ہی سوالات اٹھ رہے ہیں ، ایک جماعت کو سائڈ لائن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ایسے ہی انتخابات ہوئے تو ملک کیلئے مزید مشکلات ہوں گی اور عدم استحکام میںا ضافہ ہوگا۔ پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر کرنی ہے تو ہمیں عوام کے ووٹ کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ترکی، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں تمام تر مسائل کے باوجود صاف ، شفاف اور بروقت انتخابات ہوتے ہیں، عوام کا فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک معاشی طور پر مستحکم ہیں اور دنیا میں ان کی ساکھ بھی بہتر ہے۔

ان کے برعکس ہماری سیاسی قیادت پر دنیا اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، یہاں قومی منصوبوں کو بھی سیاست کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ نئی آنے والی حکومت، ماضی کی حکومت کی پالیسیوں کو ختم کر دیتی ہے، منصوبے بند کر دیے جاتے ہیں جو ملک و قوم کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ اس وقت ملک میں بڑے اور دبنگ فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔

یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب عوام کی طاقت سے حکومت آئے اور اسے یقین ہو کہ اس کے پیچھے عوام کھڑے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو معلوم تھا کہ عوام کی طاقت سے آئے ہیں، اس لیے انہوں نے بولڈ فیصلے کیے۔ ہمارے ہاں صوبوں کی تقسیم نہیں ہوسکی۔ کالا باغ ڈیم نہیں بن سکا، اس کی وجہ کمزور قیادت اور ذاتی مفادات کو ترجیح دینا ہے۔

مراعات یافتہ طبقہ صرف اپنا سوچتا ہے۔ اس وقت قوم تقسیم، ادارے تقسیم، ہر طرف سیاست ہو رہی ہے، یہ کسی بھی طور ملک کیلئے بہتر نہیں ہے۔ حل یہ ہے کہ صاف، شفاف، منصفانہ انتخابات کروائے جائیں، اسی میں ہی ملک کی بقاء ہے۔ ہم تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے ماضی سے نہیں سیکھا، ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

(دفاعی تجزیہ نگار)

انتخابات کے دو مراحل ہوتے ہیں۔ ایک الیکشن سے پہلے اور ایک الیکشن کے روز۔ الیکشن سے پہلے 'پری الیکشن فیز' ہوتا ہے جس میں سیاسی جماعتیں، ادارے اور اسٹیبلشمنٹ اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ ادارے صاف اور شفاف الیکشن یقینی بنانے کیلئے کام کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول اور انتخابات کے انعقاد کیلئے انتظامات کیے جاتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ سیکورٹی و دیگر معاملات دیکھتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور تیار کرتی ہیں۔ امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں اور انتخابی مہم چلائی جاتی ہے ۔ پری الیکشن فیز میں سب کو برابر مواقع فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ انتخابی عمل میں حصہ لے سکیں۔ سیاسی جماعتیں میڈیا، سوشل میڈیا کے ذریعے اور براہ راست انتخابی مہم بھی چلاتی ہیں اور عوام تک اپنا پیغام پہنچاتی ہیں۔

الیکشن کا یہ فیز انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ متعین کرتا ہے کہ انتخابات کیسے ہونگے۔ اس وقت ملک میں پری الیکشن فیز کے دوران جو کچھ ہو رہا ہے اس نے بہت سارے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ لوگوں کا اداروں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ الیکشن کمیشن پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ لوگوں کا الیکشن پر اعتماد نہیں رہا، عدلیہ کہہ رہی ہے کہ الیکشن کروائیں، کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔الیکشن کمیشن کی کریڈبیلٹی ختم ہوچکی ہے، اس کے افسران پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ انصاف کے اداروں میں بھی مسائل سامنے آرہے ہیں۔

اگر کہیں مسائل ہوں تو لوگوں کو عدلیہ سے ریلیف کی امید ہوتی ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے دو جج استعفیٰ دے چکے ہیں جس سے منفی تاثر گیا ہے۔ ہمارے اداروں میں بھی سیاسی پولرائزیشن نظر آتی ہے، لوگوں کا اعتماد متزلز ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی حالیہ معاملات پر اعتراضات اٹھا رہی ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ بند کمروں میں انتخابی نتائج بنے تو دھرنا دیں گے۔ خورشید شاہ نے فری اینڈ فیئر انتخابات کی بات کی ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وہ انتخابی مہم نہیں کر پا رہے۔ تحریک انصاف کیلئے بھی مسائل ہیں، یہ جماعت سیاسی سرگرمیاں نہیں کر پا رہی، ایسے میں الیکشن شفاف کیسے ہونگے؟ ملک میں انتخابات ملتوی کرانے کیلئے قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں۔ ترکی میں شدید زلزلہ آیا لیکن وہاں انتخابات میں تاخیر نہیں ہوئی۔ ملک میں سکیورٹی مسائل کی بات کر کے انتخابات ملتوی کرانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

سکیورٹی کی بہتر صورتحال یقینی بنانے کیلئے سول ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیز، اسٹیبلشمنٹ، فوج، پولیس، سی ٹی ڈی، ایس آئی یو جیسے ادارے موجود ہیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کریں، پیشگی اطلاعات حاصل کریں۔ اگر کوئی بڑا تھریٹ موجود ہے تو ایجنسیز اور متعلقہ اداروں کو معاملات بہتر بنانا ہوں گے۔ اگر کوئی انفارمیشن نہیں ہے تو صرف دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کے باعث الیکشن ملتوی نہیں کیے جاسکتے۔ میرے نزدیک انتخابات ملتوی کرنا پاکستان کے حق میں نہیں ہوگا۔

ہمیں بھی سمجھنا چاہیے کہ اگر صاف و شفاف انتخابات نہ ہوئے تو الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دنیا ہم پر اعتماد کرے گی، ہماری عالمی ساکھ متاثر ہوگی جس سے معاشی طور پر نقصان ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اندرونی اور بیرونی، بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف سے قسط کی منظوری اس لیے ہوئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں موجودہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل تائید حاصل ہے۔

سی پیک منصوبے کے وقت بھی فوج کی گارنٹی لی گئی تھی، 6 ہزار اہلکاروں پر مشتمل سکیورٹی ڈویژن بنائی گئی تھی جو سی پیک منصوبوں کا تحفظ کر رہی ہے۔ہماری حکومتوں کی ساکھ اچھی نہیں ہوتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا بے یقینی کی فضا میں ہونے والے الیکشن کے ذریعے بننے والی حکومت پر عالمی ادارے اعتماد کریں گے؟ اس کی ساکھ کیا ہوگی؟ملکی مسائل کا حل صاف و شفاف انتخابات میں ہے۔ اس میں پری الیکشن اور پولنگ ڈے، دونوں ہی شفاف ہونے چاہئیں۔ عوام کا انتخابی عمل اور نتائج پر اعتماد ہونا چاہیے، تمام جماعتو ں کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے۔
Load Next Story