بھارتی معیشت
بھارت میں غیر ملکی سرمائے کی سالانہ اوسط چالیس ارب ڈالر تھی جو پچھلے سال 13ارب ڈالر پر آگئی تھی
ایک مغربی و معاشی تجزیہ نگار نے چین اور بھارت معاشی مسابقت کے حوالے سے بھارتی معیشت کا تجزیہ کیا ہے کہ بھارتی اسٹاک مارکیٹ اس وقت دنیا بھر میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس سال بھارتی جی ڈی پی 6فیصد رہنے کی امید ہے لیکن بھارتی کمپنیاں معیشت میں زیادہ سرمایہ کاری نہیں کر پا رہیں۔
اسٹاک مارکیٹ میں تو سرمایہ آرہا ہے مگر طویل مدتی سرمایہ کاری نہیں آرہی۔ ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ یہ وقت انتہائی موافق ہے لیکن اس کے لیے 6فیصد کی شرح نمو کافی نہیں ہوگی کیونکہ بھارتی کی آبادی دنیا میں نہ صرف سب سے زیادہ ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ حکومت 2047 تک چین کو ترقی میں پیچھے چھوڑنا چاہتی ہے مگر اس کے لیے مسلسل 8سے 9فیصد شرح نمو کی ضرورت ہوگی۔ بھارت کے لیے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ اعتماد کی بحالی کے لیے سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری کافی نہیں ہوتی بلکہ آپ کو ایسی ٹھوس اصلاحات کرنا ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر نجی شعبہ سرمایہ لگاتا ہے۔
یہ اعتماد کی کمی ہی ہے کہ اسٹاک مارکٹیں سرمایہ کاری کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں جب کہ غیر ملکی سرمایہ کار بھارتی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے واپس جا رہے ہیں۔ بھارت کے معاشی مرکز ممبئی کی اسٹاک مارکیٹ میں اس وقت چار ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے جو ایک سال پہلے تین ہزار ارب ڈالر تھی اور اب یہ ہانگ کانگ کی اسٹاک مارکیٹ کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔
بھارت میں غیر ملکی سرمائے کی سالانہ اوسط چالیس ارب ڈالر تھی جو پچھلے سال 13ارب ڈالر پر آگئی تھی۔ براؤن یونیورسٹی امریکا کے بھارتی نژاد اکنامسٹ جو نریندر مودی کی سرکار میں چیف اکنامسٹ بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے دور کے بارے میں دلچسپ اور پیچیدہ پہلو یہ ہے کہ اس میں شور شرابہ اور ہیرا پھیری زیادہ ہے لیکن یہ سب کچھ بہتر کارکردگی کے نام پر ہو رہا ہے۔
پھر بھی جو حکام غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے ذمے دار ہیں ان کا شکوہ ہے کہ بھارت میں بزنس کرنے میں جن تکالیف کا سامنا تھا، وہ آج بھی موجود ہیں۔ سب سے زیادہ شکایات بیوروکریسی کے حوالے سے پائی جاتی ہیں۔ کسی بھی منصوبے کی منظوری میں ہر سطح پر بہت سے سرکاری حکام ملوث ہو جاتے ہیں۔
عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنا تو کجا فیصلہ لینا بھی ایک سردرد سے کم نہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار ہو یا مقامی بزنس مین دونوں امیر صارفین کو ہی اپنا ہدف بناتے ہیں۔
ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں بیس کروڑ ایسے صارفین موجود ہیں جو مغربی ممالک کے صارفین والی مصنوعات خرید سکتے ہیں۔ پر تعیش گھر بنا سکتے ہیں اور مہنگی گاڑیاں خرید سکتے ہیں۔
باقی ساری آبادی کے لیے تو دو وقت کی روٹی اور پٹرول کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ براؤن یونیورسٹی امریکا کے اکنامسٹ کہتے ہیں کہ فی الحال تو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ سرمایہ کار بھارت کے حوالے سے زیادہ پر اعتماد محسوس کر رہے ہیں۔
ورلڈ بینک کے چیف اکنامسٹ اور سینئر نائب صدر اندرجیت گل نے کہا ہے کہ 2024 میں عالمی معیشت انتہائی کمزور حالات کا شکار رہے گی۔ اس سال عالمی گروتھ 3فیصد رہنے اور چین میں رئیل اسٹیٹ شعبے میں بحران کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
چین کے زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے 32ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ درحقیقت پاکستان کی اشرافیہ کی وسائل پر گرفت توڑنے کی ضرورت ہے، پاکستان کو واپس 5 سے 7 فیصد ایسی معاشی ترقی کی شرح پر لانے کی ضرورت ہے جہاں بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ نہ ہو ۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس ( پائیڈ) کی نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عام تاثر کے برعکس پاکستان میں سرکاری افسران کی تنخواہیں اگر مراعات سمیت شمار کی جائیں تو نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر سے بھی زیادہ ہیں بلکہ گریڈ 21 کے پاکستانی افسر پر کل خرچ ہونے والی رقم اقوام متحدہ کے افسران پر خرچ ہونے والی رقم سے بھی زیادہ ہے۔
اس وقت مقامی سرمایہ کاروں نے اپنی سرمایہ کاری روکی ہوئی ہے کیونکہ کوئی بھی سیکٹر کسی قسم کی پالیسیوں کا اعلان نہیں کر رہا، یہی وجہ ہے کہ یہ سرمایہ کار آنیوالے بجٹ کو بہت غور سے دیکھ رہے ہوں گے۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کار یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آنے والی حکومت کی پالیسیوں پر ڈونرز اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز کتنا اعتماد کریں گے اور اس طرح وہ اپنی سرمایہ کاری کے متعلق فیصلہ سازی کریں گے۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ اس بارے میں بے یقینی سے غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔
جس سے اس کی کمزور معیشت اور ترقی کی شرح پر مزید برا اثر پرے گا۔ 2023کی منفی جی ڈی پی گروتھ کے مقابلے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف بلو مبرگ اور اقوام متحدہ نے 2024 کے لیے پاکستان کی شرح نمو 2سے 3فیصد رہنے کی پیشگوئی کی ہے جب کہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس سال پاکستان بھارت بنگلہ دیش افغانستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر کم آمدنی والے ممالک کو فوڈ سیکیورٹی اور معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بھارت اور پاکستان میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں آزادی سے لے کر اب تک سویلین بالا دستی رہی ہے اور ہمارے ہاں سویلین بالا دستی تو درکنار حقیقی جمہوریت ہی نہیں رہی جو سویلین بالادستی کی اولین شرط ہے۔
اسٹاک مارکیٹ میں تو سرمایہ آرہا ہے مگر طویل مدتی سرمایہ کاری نہیں آرہی۔ ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ یہ وقت انتہائی موافق ہے لیکن اس کے لیے 6فیصد کی شرح نمو کافی نہیں ہوگی کیونکہ بھارتی کی آبادی دنیا میں نہ صرف سب سے زیادہ ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ حکومت 2047 تک چین کو ترقی میں پیچھے چھوڑنا چاہتی ہے مگر اس کے لیے مسلسل 8سے 9فیصد شرح نمو کی ضرورت ہوگی۔ بھارت کے لیے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ اعتماد کی بحالی کے لیے سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری کافی نہیں ہوتی بلکہ آپ کو ایسی ٹھوس اصلاحات کرنا ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر نجی شعبہ سرمایہ لگاتا ہے۔
یہ اعتماد کی کمی ہی ہے کہ اسٹاک مارکٹیں سرمایہ کاری کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں جب کہ غیر ملکی سرمایہ کار بھارتی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے واپس جا رہے ہیں۔ بھارت کے معاشی مرکز ممبئی کی اسٹاک مارکیٹ میں اس وقت چار ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے جو ایک سال پہلے تین ہزار ارب ڈالر تھی اور اب یہ ہانگ کانگ کی اسٹاک مارکیٹ کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔
بھارت میں غیر ملکی سرمائے کی سالانہ اوسط چالیس ارب ڈالر تھی جو پچھلے سال 13ارب ڈالر پر آگئی تھی۔ براؤن یونیورسٹی امریکا کے بھارتی نژاد اکنامسٹ جو نریندر مودی کی سرکار میں چیف اکنامسٹ بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے دور کے بارے میں دلچسپ اور پیچیدہ پہلو یہ ہے کہ اس میں شور شرابہ اور ہیرا پھیری زیادہ ہے لیکن یہ سب کچھ بہتر کارکردگی کے نام پر ہو رہا ہے۔
پھر بھی جو حکام غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے ذمے دار ہیں ان کا شکوہ ہے کہ بھارت میں بزنس کرنے میں جن تکالیف کا سامنا تھا، وہ آج بھی موجود ہیں۔ سب سے زیادہ شکایات بیوروکریسی کے حوالے سے پائی جاتی ہیں۔ کسی بھی منصوبے کی منظوری میں ہر سطح پر بہت سے سرکاری حکام ملوث ہو جاتے ہیں۔
عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنا تو کجا فیصلہ لینا بھی ایک سردرد سے کم نہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار ہو یا مقامی بزنس مین دونوں امیر صارفین کو ہی اپنا ہدف بناتے ہیں۔
ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں بیس کروڑ ایسے صارفین موجود ہیں جو مغربی ممالک کے صارفین والی مصنوعات خرید سکتے ہیں۔ پر تعیش گھر بنا سکتے ہیں اور مہنگی گاڑیاں خرید سکتے ہیں۔
باقی ساری آبادی کے لیے تو دو وقت کی روٹی اور پٹرول کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ براؤن یونیورسٹی امریکا کے اکنامسٹ کہتے ہیں کہ فی الحال تو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ سرمایہ کار بھارت کے حوالے سے زیادہ پر اعتماد محسوس کر رہے ہیں۔
ورلڈ بینک کے چیف اکنامسٹ اور سینئر نائب صدر اندرجیت گل نے کہا ہے کہ 2024 میں عالمی معیشت انتہائی کمزور حالات کا شکار رہے گی۔ اس سال عالمی گروتھ 3فیصد رہنے اور چین میں رئیل اسٹیٹ شعبے میں بحران کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
چین کے زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے 32ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ درحقیقت پاکستان کی اشرافیہ کی وسائل پر گرفت توڑنے کی ضرورت ہے، پاکستان کو واپس 5 سے 7 فیصد ایسی معاشی ترقی کی شرح پر لانے کی ضرورت ہے جہاں بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ نہ ہو ۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس ( پائیڈ) کی نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عام تاثر کے برعکس پاکستان میں سرکاری افسران کی تنخواہیں اگر مراعات سمیت شمار کی جائیں تو نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر سے بھی زیادہ ہیں بلکہ گریڈ 21 کے پاکستانی افسر پر کل خرچ ہونے والی رقم اقوام متحدہ کے افسران پر خرچ ہونے والی رقم سے بھی زیادہ ہے۔
اس وقت مقامی سرمایہ کاروں نے اپنی سرمایہ کاری روکی ہوئی ہے کیونکہ کوئی بھی سیکٹر کسی قسم کی پالیسیوں کا اعلان نہیں کر رہا، یہی وجہ ہے کہ یہ سرمایہ کار آنیوالے بجٹ کو بہت غور سے دیکھ رہے ہوں گے۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کار یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آنے والی حکومت کی پالیسیوں پر ڈونرز اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز کتنا اعتماد کریں گے اور اس طرح وہ اپنی سرمایہ کاری کے متعلق فیصلہ سازی کریں گے۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ اس بارے میں بے یقینی سے غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔
جس سے اس کی کمزور معیشت اور ترقی کی شرح پر مزید برا اثر پرے گا۔ 2023کی منفی جی ڈی پی گروتھ کے مقابلے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف بلو مبرگ اور اقوام متحدہ نے 2024 کے لیے پاکستان کی شرح نمو 2سے 3فیصد رہنے کی پیشگوئی کی ہے جب کہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس سال پاکستان بھارت بنگلہ دیش افغانستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر کم آمدنی والے ممالک کو فوڈ سیکیورٹی اور معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بھارت اور پاکستان میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں آزادی سے لے کر اب تک سویلین بالا دستی رہی ہے اور ہمارے ہاں سویلین بالا دستی تو درکنار حقیقی جمہوریت ہی نہیں رہی جو سویلین بالادستی کی اولین شرط ہے۔