عدلیہ کے اچھے کاموں کو سراہنا بھی چاہیے
جسٹس محمد منیر سے لے کر جسٹس عمر بندیال تک متنازعہ فیصلوں کی ایک تاریخ ہے
بحیثیت ایک قوم ہمارے تمام لوگوں کو ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ ہماری عدلیہ نے اکثر اہم اورقومی اہمیت کے بڑے بڑے فیصلوں میں عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار کا خیال نہیں رکھا۔ اس نے اکثر پس پردہ قوتوں کے دباؤ یا خوشامد میں بہت سے فیصلے کیے جو عدلیہ کے دامن پرابھی تک بد نما داغ بنے ہوئے ہیں۔
نظریہ ضرورت کے تحت ایسے فیصلے کیے گئے جو گرچہ آئین وقانون کے کسی ضابطے میں نہیں آتے تھے لیکن انھیں وقت کی ضرورت قرار دے کر جبرا ًاورزبردستی قوم پر مسلط کردیاگیا۔ غیر جمہوری قوتوں کے حق میں ایسے فیصلے لکھے گئے جو کسی بھی طرح عدل وانصاف کے اعلیٰ معیار کے مطابق نہیں تھے ۔
مطلق العنان حکمرانوں کو نہ صرف غیرمعینہ مدت تک حکمرانی کرنے کی اجازت دے دی بلکہ انھیں آئین و دستور میں ترامیم کرنے کا اختیار بھی مرہمت فرمادیا۔ جسٹس محمد منیر سے لے کر جسٹس عمر بندیال تک متنازعہ فیصلوں کی ایک تاریخ ہے، جسے مٹایا نہیں جاسکتا ، مگر ہم ستمبر 2023 سے عدلیہ کا ایک نیا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے بادی النظر میں آج بھی کچھ لوگوں کو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں میں جانبداری کا تاثر محسوس ہو رہا ہو لیکن مجموعی طور پر سارے فیصلے آئین اور قانون کو مدنظر رکھ کر کیے جارہے ہیں۔
سب سے بڑھ کریہ کہ قومی اہمیت کے مقدمات کی تمام کارروائی براہ راست الیکٹرانک میڈیا پر نشر بھی کی جارہی ہے۔ سماعت کی براہ راست نشریات کا یہ سلسلہ بھی موجودہ چیف جسٹس کا کارنامہ ہے۔ اس سے پہلے جتنے بھی فیصلے کیے جاتے تھے اُن کی ساری کارروائی عوام کی نظروں سے اوجھل اور مخفی ہوتی تھی۔ کسی کو پتا بھی نہیں چلتا تھا کہ فریقوں کے وکلاء کے دلائل کیا تھے اور ججوں کا رویہ اور ریمارکس کیسے تھے۔
ہرفریق، ان کے وکلا اور رپورٹر حضرات اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق اندر کی باتیں باہر آکر بتایا کرتے تھے ، میڈیا سے بھی جو کچھ معلوم ہوتا تھا وہ بھی مصدقہ یا مستند نہیں ہوتاتھا۔ عدلیہ اپنے فیصلوں کے غلط تبصروں پر تردیدی یا توجیحی بیانات بھی نہیں دے سکتی تھی۔مگر اب سماعت کی ساری کارروائی براہ راست نشرہونے سے افواہوں اورمبالغہ آرائی کا دور تقریبا ختم ہوگیا ہے۔
عوام کو اسی دن پتا چل جاتا ہے کہ وکلاء نے اپنے مؤکلوں کے حق میں کیادلائل دیے اورججوں کا رویہ بھی کیسا رہا۔کون کتنا سچ بولتاہے اورکون کتنا لیت ولعل سے کام لے رہاہوتا ہے۔ کون عدالتوں کا وقت ضایع کرتا ہے اورکون اپنے مؤکل کے لیے جھوٹ اور فریب سے کام لیتاہے۔
براہ راست کارروائی دکھانے سے وہی لوگ خوف زدہ ہیں جو آج تک عدالتوں کو گمراہ بھی کرتے رہے اوراس کاوقت بھی ضایع کرتے رہے۔ یہ ایک نہایت اچھا اورصائب اقدام ہے جو اگر پہلے شروع کردیاجاتا تو عدلیہ شاید غلط فیصلوں سے بھی اجتناب کرتی اوراس ملک کی یہ حالت بھی نہ ہوتی۔
2017میں جوکچھ ہوا وہ ہماری عدالتی تاریخ کا خاصا متنازعہ دور تھا۔ ایک منتخب وزیراعظم کو ایک مبہم آرٹیکل کی من مانی تشریح کرکے تاحیات نااہل قرار دیکرنہ صرف اقتدار سے معزول کردیاگیا بلکہ بعد ازاں مقدمات چلاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ڈال دیاگیا۔یہ سب کچھ اتنی تیزی اور مستعدی کیاگیا کہ نیب کو استعمال کرکے صرف دوماہ میں فیصلے کرائے گئے اورسپریم کورٹ کے ایک جج کو اس پرنگراں بھی مقرر کر دیاگیا۔شکر ہے آج یہ سب کچھ نہیں ہورہا ہے۔
عدلیہ کاایک نیا چہرہ واضح ہوتا جارہاہے۔ ہم خیال بینچ کا کلچر اب ختم ہوچکا ہے۔ورنہ پہلے چیف جسٹس کا یہ صوابدیدی اختیار ہواکرتاتھا کہ وہ جسے چاہے بینچ کا حصہ بنالے اورجس چاہے اس سے محروم کردے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے 1997 میں ایسا ہی کیاتھا۔ عدالتی کارروائی براہ راست نشرنہ ہونے کی وجہ سے عوام کو اصل صورتحال کا اندازہ ہی نہ ہوسکا۔ اس وقت جو کچھ میڈیا پربیان کیا گیا عوام نے یقین کرلیا۔
موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اہم مقدمات میں چاہتے ہیں کہ فل بینچ ہی بنایاجائے تاکہ کسی کو اعتراض بھی نہ ہو اورسب کی رائے بھی شامل ہو۔انھوں نے سوموٹولینے کا اپنا اختیار بھی دیگر ججوں میں بانٹ دیا ہے۔اب صرف ایک شخص سوموٹو نہیں لے سکے گا۔اس کے علاوہ انھوں نے وکیلوں کی جانب سے کیسوں میں غیر ضروری تاریخیں لینے پر بھی پابندی لگادی ہے۔
فائز عیسیٰ نے ایک اوراچھی روایت یہ ڈالنے کو کوشش کی ہے کہ اب کسی کوسماعت ٹالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اس سے سماعت کے لیے نئی تاریخیں لینے کا رواج بھی ختم ہو گا۔اس کاایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ مقدمات جلد سے جلد نمٹائے جاسکیں گے اورزیرالتوا کیسوں کی بھرمار کا بھی خاتمہ ہوپائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے اس عہدے پر رہنے کا وقت بہت کم ہے لیکن انھوں نے مختصر عرصے میں عدلیہ کے وقار بحال کرنے کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ یقینا قابل ستائش ہے۔ وہ صرف تیرہ ماہ کے لیے چیف جسٹس بنائے گئے ہیں لیکن جس تیزی سے مقدمات سن رہے ہیں اوراُن پرفیصلے بھی صادر کررہے ہیں ، وہ آنے والوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔
سارا سارادن صبح سے رات گئے تک بلاتعطل سماعت جاری رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتالیکن وقت کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے انھوںنے یہ تکلیف بھی گوارہ کی۔ ہفتہ کے دن کورٹ کی چھٹی ہوا کرتی ہے لیکن اس دن بھی انھوں نے صبح سے رات تک سماعت جاری رکھی اورتمام فریقوں کے دلائل بغور سن کرفیصلہ صادر کردیا۔ سماعت کی براہ راست کارروائی کا فائدہ یہ ہوا کہ سننے والوں کو وکلاء کا مؤقف اوردلائل اچھی طرح معلوم ہوپایا اور کسی کی حق تلفی کا تاثر بھی نہیں ابھرا۔عدلیہ نے دونوں طرف کے وکلاء کو بھر پور موقعہ دیا ، چاہے وقت کتنا بھی خرچ ہوجائے ، کسی کو شکایت نہ رہے کہ ہمیں سنا نہیںگیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہماری عدلیہ جو فیصلے کررہی ہے یاعدلیہ کا وقار بحال کرنے کی کوششیں کررہی ہے، ہمیں اسے سراہنا چاہیے ۔ہم ہمیشہ عدلیہ کے جانبدارانہ رویوں اورفیصلوں پرتنقید تو کیاکرتے ہیں لیکن جب آج اچھے کام ہورہے ہیں تو ہمیں اس کی تائید و توصیف بھی کرنے چاہیے اورساتھ ہی ساتھ یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ یہ سلسلہ آگے بھی اسی طرح چلتارہے۔
نظریہ ضرورت کے تحت ایسے فیصلے کیے گئے جو گرچہ آئین وقانون کے کسی ضابطے میں نہیں آتے تھے لیکن انھیں وقت کی ضرورت قرار دے کر جبرا ًاورزبردستی قوم پر مسلط کردیاگیا۔ غیر جمہوری قوتوں کے حق میں ایسے فیصلے لکھے گئے جو کسی بھی طرح عدل وانصاف کے اعلیٰ معیار کے مطابق نہیں تھے ۔
مطلق العنان حکمرانوں کو نہ صرف غیرمعینہ مدت تک حکمرانی کرنے کی اجازت دے دی بلکہ انھیں آئین و دستور میں ترامیم کرنے کا اختیار بھی مرہمت فرمادیا۔ جسٹس محمد منیر سے لے کر جسٹس عمر بندیال تک متنازعہ فیصلوں کی ایک تاریخ ہے، جسے مٹایا نہیں جاسکتا ، مگر ہم ستمبر 2023 سے عدلیہ کا ایک نیا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے بادی النظر میں آج بھی کچھ لوگوں کو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں میں جانبداری کا تاثر محسوس ہو رہا ہو لیکن مجموعی طور پر سارے فیصلے آئین اور قانون کو مدنظر رکھ کر کیے جارہے ہیں۔
سب سے بڑھ کریہ کہ قومی اہمیت کے مقدمات کی تمام کارروائی براہ راست الیکٹرانک میڈیا پر نشر بھی کی جارہی ہے۔ سماعت کی براہ راست نشریات کا یہ سلسلہ بھی موجودہ چیف جسٹس کا کارنامہ ہے۔ اس سے پہلے جتنے بھی فیصلے کیے جاتے تھے اُن کی ساری کارروائی عوام کی نظروں سے اوجھل اور مخفی ہوتی تھی۔ کسی کو پتا بھی نہیں چلتا تھا کہ فریقوں کے وکلاء کے دلائل کیا تھے اور ججوں کا رویہ اور ریمارکس کیسے تھے۔
ہرفریق، ان کے وکلا اور رپورٹر حضرات اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق اندر کی باتیں باہر آکر بتایا کرتے تھے ، میڈیا سے بھی جو کچھ معلوم ہوتا تھا وہ بھی مصدقہ یا مستند نہیں ہوتاتھا۔ عدلیہ اپنے فیصلوں کے غلط تبصروں پر تردیدی یا توجیحی بیانات بھی نہیں دے سکتی تھی۔مگر اب سماعت کی ساری کارروائی براہ راست نشرہونے سے افواہوں اورمبالغہ آرائی کا دور تقریبا ختم ہوگیا ہے۔
عوام کو اسی دن پتا چل جاتا ہے کہ وکلاء نے اپنے مؤکلوں کے حق میں کیادلائل دیے اورججوں کا رویہ بھی کیسا رہا۔کون کتنا سچ بولتاہے اورکون کتنا لیت ولعل سے کام لے رہاہوتا ہے۔ کون عدالتوں کا وقت ضایع کرتا ہے اورکون اپنے مؤکل کے لیے جھوٹ اور فریب سے کام لیتاہے۔
براہ راست کارروائی دکھانے سے وہی لوگ خوف زدہ ہیں جو آج تک عدالتوں کو گمراہ بھی کرتے رہے اوراس کاوقت بھی ضایع کرتے رہے۔ یہ ایک نہایت اچھا اورصائب اقدام ہے جو اگر پہلے شروع کردیاجاتا تو عدلیہ شاید غلط فیصلوں سے بھی اجتناب کرتی اوراس ملک کی یہ حالت بھی نہ ہوتی۔
2017میں جوکچھ ہوا وہ ہماری عدالتی تاریخ کا خاصا متنازعہ دور تھا۔ ایک منتخب وزیراعظم کو ایک مبہم آرٹیکل کی من مانی تشریح کرکے تاحیات نااہل قرار دیکرنہ صرف اقتدار سے معزول کردیاگیا بلکہ بعد ازاں مقدمات چلاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ڈال دیاگیا۔یہ سب کچھ اتنی تیزی اور مستعدی کیاگیا کہ نیب کو استعمال کرکے صرف دوماہ میں فیصلے کرائے گئے اورسپریم کورٹ کے ایک جج کو اس پرنگراں بھی مقرر کر دیاگیا۔شکر ہے آج یہ سب کچھ نہیں ہورہا ہے۔
عدلیہ کاایک نیا چہرہ واضح ہوتا جارہاہے۔ ہم خیال بینچ کا کلچر اب ختم ہوچکا ہے۔ورنہ پہلے چیف جسٹس کا یہ صوابدیدی اختیار ہواکرتاتھا کہ وہ جسے چاہے بینچ کا حصہ بنالے اورجس چاہے اس سے محروم کردے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے 1997 میں ایسا ہی کیاتھا۔ عدالتی کارروائی براہ راست نشرنہ ہونے کی وجہ سے عوام کو اصل صورتحال کا اندازہ ہی نہ ہوسکا۔ اس وقت جو کچھ میڈیا پربیان کیا گیا عوام نے یقین کرلیا۔
موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اہم مقدمات میں چاہتے ہیں کہ فل بینچ ہی بنایاجائے تاکہ کسی کو اعتراض بھی نہ ہو اورسب کی رائے بھی شامل ہو۔انھوں نے سوموٹولینے کا اپنا اختیار بھی دیگر ججوں میں بانٹ دیا ہے۔اب صرف ایک شخص سوموٹو نہیں لے سکے گا۔اس کے علاوہ انھوں نے وکیلوں کی جانب سے کیسوں میں غیر ضروری تاریخیں لینے پر بھی پابندی لگادی ہے۔
فائز عیسیٰ نے ایک اوراچھی روایت یہ ڈالنے کو کوشش کی ہے کہ اب کسی کوسماعت ٹالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اس سے سماعت کے لیے نئی تاریخیں لینے کا رواج بھی ختم ہو گا۔اس کاایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ مقدمات جلد سے جلد نمٹائے جاسکیں گے اورزیرالتوا کیسوں کی بھرمار کا بھی خاتمہ ہوپائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے اس عہدے پر رہنے کا وقت بہت کم ہے لیکن انھوں نے مختصر عرصے میں عدلیہ کے وقار بحال کرنے کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ یقینا قابل ستائش ہے۔ وہ صرف تیرہ ماہ کے لیے چیف جسٹس بنائے گئے ہیں لیکن جس تیزی سے مقدمات سن رہے ہیں اوراُن پرفیصلے بھی صادر کررہے ہیں ، وہ آنے والوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔
سارا سارادن صبح سے رات گئے تک بلاتعطل سماعت جاری رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتالیکن وقت کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے انھوںنے یہ تکلیف بھی گوارہ کی۔ ہفتہ کے دن کورٹ کی چھٹی ہوا کرتی ہے لیکن اس دن بھی انھوں نے صبح سے رات تک سماعت جاری رکھی اورتمام فریقوں کے دلائل بغور سن کرفیصلہ صادر کردیا۔ سماعت کی براہ راست کارروائی کا فائدہ یہ ہوا کہ سننے والوں کو وکلاء کا مؤقف اوردلائل اچھی طرح معلوم ہوپایا اور کسی کی حق تلفی کا تاثر بھی نہیں ابھرا۔عدلیہ نے دونوں طرف کے وکلاء کو بھر پور موقعہ دیا ، چاہے وقت کتنا بھی خرچ ہوجائے ، کسی کو شکایت نہ رہے کہ ہمیں سنا نہیںگیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہماری عدلیہ جو فیصلے کررہی ہے یاعدلیہ کا وقار بحال کرنے کی کوششیں کررہی ہے، ہمیں اسے سراہنا چاہیے ۔ہم ہمیشہ عدلیہ کے جانبدارانہ رویوں اورفیصلوں پرتنقید تو کیاکرتے ہیں لیکن جب آج اچھے کام ہورہے ہیں تو ہمیں اس کی تائید و توصیف بھی کرنے چاہیے اورساتھ ہی ساتھ یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ یہ سلسلہ آگے بھی اسی طرح چلتارہے۔