ماں اور مہاجر نامہ سے مقبولیت حاصل کرنے والے شاعر منور رانا انتقال کرگئے

منور رانا دل کا دورہ پڑنے کے سبب 71 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے

منور رانا دل کا دورہ پڑنے کے سبب 71 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے، فوٹو: فائل

عالمی شہرت یافتہ بھارتی شاعر منور رانا دل کا دورہ پڑنے کے باعث 71 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

اردو شاعری کی ایک توانا آواز آج ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ دنیا کی بے ثباتی پر ان کے کہے گئے ایک شعر نے کافی مقبولیت حاصل کی تھی جو آج ان کی وفات پر زبان زد عام ہے۔

جسم پر مٹی مَلیں گے، پاک ہوجائیں گے ہم
اے زمیں اک دن تری خوراک ہوجائیں گے ہم

منور رانا ایک ہفتے سے لکھنؤ کے سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس میں زیر علاج تھے۔ انھیں دل اور گردے کے امراض لاحق تھے۔ انھوں نے گلے کے کینسر کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کسی موقع پر اس بلند آہنگ شاعر کی آواز میں لرزش نہیں آئی۔

جدید اردو شاعری کے روح رواں اور مشاعروں کی جان سمجھے جانے والے منور رانا 26 نومبر 1952ء کو رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں یہ گھرانہ کلکتہ منتقل ہوگیا تھا۔

منور رانا کی زبان فصیح و بلیغ تھی لیکن شاعری میں انھوں نے سلیس اور سادہ زبان کو ترجیح دی۔ جس میں ہندی اور اودھی زبان کے الفاظ کی آمیزش سے امر ہوجانے والا کلام ایجاد کیا۔

منور رانا کو ماں کے رشتے پر کہی گئی شاعری کی وجہ سے عالمی شہرت ملی۔

اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کالا ہوگیا
ماں نے آنکھیں کھول دیں گھر میں اجالا ہوگیا

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی

ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

منور رانا کی ایک اور وجہ شہرت ان کی معروف نظم مہاجر نامہ ہے جو تقسیم ہند میں اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان جاکر بسنے والوں کا نوحہ تصور کیا جاتا ہے۔

مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں

نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں

عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں

کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی
کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں

پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے
نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں

یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد
ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں

ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے
ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں

گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب
الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں

ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی
کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں

کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں

شَکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی
کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں

ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے
کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں

بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی
وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں

یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی
کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں


ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر
کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں

مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بڑبڑاتی تھیں
سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں

وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی
ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں

یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے
مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں

ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی
میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں

وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے
کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں

اتار آئے مروت اور رواداری کا ہر چولا
جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں

اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں
ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں

محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا
مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں

محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر
تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں

ہنسی آتی ہے اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو
بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں

ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی
وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں

تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے
ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں

یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی
وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں

منور رانا ایک نڈر اور بے باک شاعر تھے۔ ان کے قلم نے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھنے والے ریاستی سلوک پر بھی صدائے احتجاج بلند کیا اور احتجاجاً ساہتیہ اکاڈمی کا قومی ایوارڈ بھی سرکار کو لوٹا دیا تھا جب کہ ایک بار یوپی اردو اکادمی کی صدارت بھی ٹھکرا چکے ہیں۔

اردو شاعری میں ان کے فن اور کمال کے اعتراف میں منور رانا کو کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

(1) ساہتیہ اکادمی ایوارڈ برائے اردو ادب (2014)
(جسے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کے طور پر 2015 میں واپس کردیا تھا۔)
(2) وشِشت رِتورجا سمّان ایوارڈ
(3) (پرمپرا کویتا پَرو، 2012ء)*
(4) امیر خسرو ایوارڈ (2006)
(5) میر تقی میر ایوارڈ (2005)
(6) شہود عالم آفاقی ایورڈ (2005)، کلکتہ
(7) غالب ایوارڈ (2005)، اُدئے پور
(8) ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ (2005)، دہلی
(9) سرسوتی سماج ایوارڈ (2004)
(10) مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ایوارڈ

(11) سلیم جعفری ایوارڈ (1997)
(12) دل خوش ایوارڈ (1995)
(13) رئیس امروہی ایوارڈ (1993)، رائے بریلی
(14) بھارتی پریشد ایوارڈ
(15) ہمایوں کبیر ایوعلم و ادب میں نمایاں کارکردگی دکھانے

علاوہ ازیں 2011 میں مغربی بنگال اردو اکادمی ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ منور رانا کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار دختران اور ایک فرزند شامل ہیں۔

اردو شعری مجموعے:

نیم کا پھول (۱۹۹۳)، کہو ظل الٰہی سے (۲۰۰۰)،منور رانا کی سو غزلیں (۲۰۰۰)، گھر اکیلا ہوگا(۲۰۰۰)، ماں (۲۰۰۵)، جنگلی پھول (۲۰۰۸)، نئے موسم کے پھول (۲۰۰۹)، مہاجر نامہ (۲۰۱۰)، کترن میرے خوابوں کی (۲۰۱۰)

ہندی شعری مجموعے:

غزل گاؤں ( ۱۹۸۱)، پیپل چھاؤں( ۱۹۸۴)، مور پاؤں(۱۹۸۷)، سب اس کے لیے(۱۹۸۹)، نیم کے پھول (۱۹۹۱)، بدن سرائے(۱۹۹۶)، گھر اکیلا ہوگا(۲۰۰۰)، ماں (۲۰۰۵)، پھر کبیر(۲۰۰۷)، شادابہ(۲۰۱۲)، سخن سرائے (۲۰۱۲)۔

نثری تصانیف:

بغیر نقشے کا مکان(۲۰۰۰)، سفید جنگلی کبوتر(۲۰۰۵)، چہرے یاد رہتے ہیں(۲۰۰۸)، ڈھلان سے اترتے ہوئے، پھنک تال
Load Next Story